بسم‌ الله الرّحمن‌ الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین، و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد، و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین، سیّما بقیّة الله فی الارضین.

یہ بے حد شیریں، دلنشیں، پرمغز اور مفید نشست ہے۔ میری مراد صرف اس نشست سے نہیں بلکہ نشستوں کے اس سلسلے سے ہے جس کے لئے آپ نے کمر ہمت کسی اور یادوں کی رات سے معنون ان نشستوں کو دائمی بنا دیا۔ بحمد اللہ آج اس حقیر کو بھی یہ توفیق ملی کہ اس میں شرکت کروں، سنوں اور استفادہ کروں۔ بہت اچھا پروگرام رہا، ہم نے بہت استفادہ کیا، ہمیں فائدہ پہنچا، البتہ اس حقیر کی جو یادیں ہیں وہ ایسی کوئی خاص نہیں ہیں، اس لئے کہ جیسا کہ جناب عالی نے (1) نے بتایا کہ جب خرم شہر آزاد ہوا تو انھوں نے یہ خبر کرمان شاہ میں سنی (2)، ہم نے تو یہ خبر تہران میں سنی۔ البتہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بتاتا چلوں، ویسے مجھے اس وقت یاد نہیں ہے کہ یہ خبر میں نے ریڈیو سے سنی تھی یا نہیں، بہرحال شہید صیاد نے مجھے دفتر صدارت میں فون کرکے بتایا اور کچھ تفصیلات کا بھی ذکر کیا، مثلا یہ بھی بتایا کہ اس وقت جب میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں تو عالم یہ ہے کہ عراقی فوجی صف بستہ کھڑے ہیں قید ہونے کے لئے۔ بہت زبردست جملہ تھا، میں گاڑی میں بیٹھا اور دوپہر کے بعد امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت سڑکوں پر عوام کا مجمع تھا، سب خوشی کا اظہار کر رہے تھے، میں نے امام خمینی کے پاس جاکر یہی جملہ دہرایا۔ میں نے کہا کہ جناب صیاد صاحب نے بتایا ہے کہ عراقی فوجی صف بستہ کھڑے ہیں قید ہونے کے لئے! ایک طویل صف تھی دس پندرہ ہزار فوجیوں کی! تو ہماری یادیں کچھ خاص نہیں ہیں، ان بھائیوں اور بہنوں کی یادیں بہت اہم ہیں جو برسوں اس جنگ میں شامل تھے اور حوادث و واقعات کا قریب سے مشاہدہ کر رہے تھے۔

میرے خیال میں اس جنگ اور اس مقدس دفاع سے جہاں ہمیں نقصان اٹھانا پڑا وہیں اس سے ہمیں بہت بڑے فائدے بھی ملے ہیں۔ یہ فوائد ان نقصانات سے کہیں زیادہ بڑے اور اہم تھے۔ ہمارے نقصانات میں مادی و جانی نقصانات تھے، ہم نے بہت سے نوجوانوں کو کھو دیا، خاندانوں سے ان کے عزیز چھن گئے، نوجوانوں کا داغ ہم سب کو اٹھانا پڑا، مادی نقصانات اٹھانے پڑے، تعمیراتی کاموں کے اعتبار سے وطن عزیز ایک خاص دورانئے میں پسماندگی سے دوچار ہو گیا، یہ سب جنگ کے نقصانات تھے۔ ساری جنگوں میں اس طرح کے نقصانات ہوتے ہیں، لیکن جنگ کے فوائد طویل المیعاد ہوتے ہیں، پائیدار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی کوتاہ مدتی اور میانہ مدتی فوائد بھی ہوتے ہیں۔

آٹھ سالہ جنگ اور مقدس دفاع کا ایک بڑا فائدہ ہماری نوجوان نسل کے اندر اور معاشرے کے اندر انقلاب اور اقدام کے جذبے کی تقویت و حفاظت تھی۔ اگر وہ جہاد اور قربانی کا جذبہ پیدا نہ ہوا ہوتا تو انقلابی جذبہ  پر، جو ہنوز گہرائیوں تک نہیں اترا تھا، دست درازی ہوتی۔ بے شک امام خمینی بھی موجود تھے اور آپ کی شخصیت ایسی تھی کہ بہت سی چیزوں کی ضامن تھی، لیکن در پیش خطرات بھی بہت سنگین تھے، انقلابی جذبہ یقینا خطرات سے دوچار ہو جاتا۔ مقدس دفاع کے میدان میں پہنچ کر انقلابی جذبہ پائیدار ہو گیا۔

ایک اور فائدہ یہ ملا کہ ملی، دینی اور انقلابی تشخص کی حفاظت کے اس نظرئے کا ہم نے خود عملی تجربہ کیا جس کے بارے میں ہم نے بارہا کہا ہے، سنا ہے اور دوسروں سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالی راہ حق پر چلنے والوں کے راستے کی رکاوٹیں دور کرتا ہے اور انھیں فتحیاب کرتا ہے۔ یہ بہت اہم چیز تھی۔ ایک ایسا سماج جو اعلی اہداف کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے، فطری طور پر اسے بہت سی رکاوٹوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر آج کی مادہ پرست دنیا میں۔ اگر وہ اعلی اہداف، روحانی اہداف، توسیع پسندی کے مخالف اہداف اور جاہ طلبی کے منافی اہداف ہوں تب تو اور بھی واضح ہے کہ رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔ اب اگر کسی قوم کے اندر یہ سوچ اور نظریہ پیدا ہو جائے کہ وہ رکاوٹوں کو عبور کر سکتی ہے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ بے شک روایتوں میں اور قرآن کریم کی آیتوں میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ پر توکل ہونا چاہئے «وَ مَن یَتَوَکَّل عَلَى اللّهِ فَهُوَ حَسبُه»(3)، اسی قسم کی تعلیمات کا ذکر ہے، ہم پڑھتے ہیں اور ہمارا ان پر عقیدہ بھی ہے، لیکن انسان «وَ مَن یَتَوَکَّل عَلَى اللّهِ فَهُوَ حَسبُه» کا خود عملی طور پر مشاہدہ کرے تو یہ ایک الگ ہی چیز ہوگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عظمتوں کی بلندی پر فائز ہونے کے بعد بھی اللہ تعالی سے گزارش کرتے ہیں کہ میں مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی سوال کرتا ہے؛: اَ وَلَم تُؤمِن؛ کیا تمھارا اس پر عقیدہ نہیں ہے؟ جواب دیتے ہیں؛  قالَ بَلىٰ؛‌ کیوں نہیں، عقیدہ تو ہے؛ ‌وَ لٰکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبی (4) دل کا مطمئن ہونا اور دل و جان کی گہرائیوں سے کسی حقیقت کو تسلیم کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ چیز ہمیں آٹھ سالہ جنگ نے، مقدس دفاع نے دکھائی۔ اس وقت ہم پورے اطمینان سے دعوی کر سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ان تمام مشکلات کا بہادری سے سامنا کر سکتی ہے جو اس کے سامنے کھڑی کی جا رہی ہیں، ان سب پر غلبہ پا سکتی ہے، اس لئے کہ ہم اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ وَ لا تَهِنُوا وَ لا تَحزَنُوا وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین؛(5) اگر دل میں اور عمل میں ایمان ہے تو معاشرے، کسی گروہ یا کسی مستحکم انسان کے سامنے مشکلات کا پہاڑ بھی ہو تو ہموار زمین میں تبدیل ہو جائے گا۔ جنگ کا ایک اہم فائدہ ہمارے لئے یہ بھی تھا۔ یہ سارے حقائق ہیں۔

البتہ جنگ کے فوائد اس سے کہیں زیادہ ہیں۔  تاہم یہ تجزیاتی باتیں اور تبصرے ہیں اس لئے میں ان باتوں میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ یہ بابرکت واقعہ، یہ عظیم ماجرا ہم جیسے معمولی اور سطحی فکر کے افراد کے لئے واقعی ناقابل یقین واقعہ تھا جو اس ملک میں رونما ہوا۔ یعنی آغاز جنگ میں ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ واقعی ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ہم خالی ہاتھ تھے، ہمارے ہتھیار بھی کم تھے، ناقص بھی تھے، دسترس سے باہر بھی تھے، ہمارے گوداموں میں بعض اقسام کے جو ہتھیار تھے بھی وہ بھی جنگ شروع ہونے کے مدتوں بعد تک استعمال نہیں ہو سکے۔ میں یہاں آرمی اسٹاف میں، مشاورتی دفتر میں تھا اور فوجی افسران کی آمد و رفت سے باخبر رہتا تھا، فوج میں مومن اور فرض شناس جوان بھی موجود تھے، وہ آتے تھے اور ہمیں رپورٹ دیتے تھے۔ میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے نمائندے کی حیثیت سے ان امور کو دیکھتا تھا۔ مجھے رپورٹ ملی کہ ہمارے پاس گوداموں میں '203' نام کی توپیں موجود ہیں جو ہماری سب سے بھاری توپیں ہیں اور اب تک یہ توپیں میدان میں نہیں لائی گئی ہیں، ان کا ذکر ہی نہیں آیا۔ ایسی وسیع جنگ میں جس میں دشمن گوناگوں وسائل سے حملے کر رہا ہو، ہمارے پاس ایک اہم ہتھیار تھا جو ہم استعمال کر سکتے تھے لیکن ہم نے وہ بھی استعمال نہیں کیا! میں نے یہ بات اپنے اجلاس میں اٹھائی، بنی صدر وغیرہ کے ساتھ ہمارا جو اجلاس ہوتا تھا اس میں اس موضوع کو اٹھایا۔ بنی صدر کو تو اس کی اطلاع ہی نہیں تھی، بعض دیگر افراد جو تھے وہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ اس طرح کی باتیں زیر بحث آئیں۔ اتنے میں ایک کمانڈر نے جو بعد میں شہید ہو گئے، اللہ ان پر رحمتیں نازل کرے، بتایا کہ ہاں، ہمارے پاس یہ توپیں ہیں اور بہت اہم ہیں۔ ہم نے سوال کیا کہ انھیں استعمال کیوں نہیں کرتے؟ یعنی کچھ وسائل جو موجود تھے انھیں بھی استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اہواز میں ایک نوجوان فوجی نے آکر مجھے بتایا کہ 'ڈیویژن 92' کی چھاونی میں جدید 'آرمرڈ پرسنل کیریئر بی ایم پی ٹو' موجود ہیں جو بعد میں استعمال میں لائی گئیں۔ ہم بار بار کہتے تھے کہ فلاں فلاں وسائل کی ضرورت ہے تو جواب ملتا تھا کہ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ ایک روز صبح کے وقت اسی نوجوان کے ساتھ، اسی فوجی کے ساتھ، چونکہ مین گیٹ سے ممکن نہیں تھا اس لئے ایک اور راستے سے اور ایک الگ جگہ سے اس چھاونی کے اندر ہم داخل ہو گئے اور چھاونی کے وسط میں جا پہنچے۔ میں نے خود دیکھا کہ نو یا دس 'بی ایم پی' پوری طرح پیک رکھی ہوئی ہیں۔ یعنی لکڑی کے وہ تختے بھی نہیں ہٹائے گئے تھے جو پیکنگ میں استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ وہاں کھلے آسمان کے نیچے رکھے رکھے ان گاڑیوں کو تھوڑا بہت نقصان بھی پہنچا تھا۔ آغاز جنگ میں یہ حالات تھے۔ جنگی وسائل نہیں تھے، منظم فورسز نہیں تھیں، اگر تھیں تو بہت کم تھیں۔ ہمارے پاس اس قسم کے جو محدود وسائل تھے بھی وہ استعمال نہیں کئے جا رہے تھے۔ اس لئے کہ اعلی عہدوں پر ایسا شخص یا ایسے افراد تھے جنھیں ہمدردی نہیں تھی۔ ان حالات میں ہم آگے بڑھے۔ میں نے یہ جو باتیں عرض کیں یہ سنہ 1359 (ہجری شمسی مطابق 1980) کی دوسری ششماہی سے متعلق باتیں ہیں، یعنی آغاز جنگ کے ابتدائی چھے مہینوں سے مربوط ہیں۔

جنگ کو چھے ماہ گزر جانے کے بعد سے یعنی سنہ 1359 ہجری شمسی کی دوسری ششماہی گزر جانے کے بعد سے سنہ 1361 ہجری شمسی (1982) کے نصف اول تک کتنی مدت ہے؟ اس مدت میں ہماری قوم اور مسلح فورسز کی محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ سنہ 1361 (مطابق 1982) کے ابتدائی دو تین مہینوں میں ہی ہم نے دو بڑے اور انتہائی کلیدی آپریشن انجام دئے؛ یعنی آغاز سال میں، فروردین (مارچ-اپریل) کے مہینے میں فتح المبین آپریشن اور اردیبھشت (اپریل- مئی) کے مہینے میں اور خرداد (مئی-جون) کی شروعات تک بیت المقدس آپریشن اور خرم شہر کی آزادی۔ یعنی پیشرفت کا عمل اس طرح سے آگے بڑھا، اس سرعت کے ساتھ آگے بڑھا۔ یعنی اسی مہینے کے اندر جب دشمن دس کلومیٹر کے فاصلے سے، دب خردان علاقے سے جو میرے خیال میں اہواز سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اہواز شہر پر مارٹر گولے فائر کر رہے تھے، ہم اس پوزیشن میں پہنچ گئے کہ ہم نے کئی ہزار دشمن فوجی فتح المبین آپریشن میں اور کئی ہزار فوجی بیت المقدس آپریشن میں قیدی بنا لئے، خرم شہر کو بھی آزاد کرا لیا، بہت سے علاقوں کو قبضے میں لے لیا، اپنی پوزیشن مستحکم کر لی، اسی طرح کے دوسرے بہت سے اقدامات انجام دئے گئے۔ جنگ کے آخر تک یہی سلسلہ جاری رہا؛ یعنی ہمیں اپنی قوت و توانائی کے نئے گوشوں سے واقفیت ہوئی، ہمیں اپنے تشخص کا علم ہوا، ہمیں معرفت حاصل ہوئی، ہم آگے بڑھے، ہم نے خود کو پہچانا۔ یہ ساری چیزیں ہوئیں۔

آٹھ سال تک ساری دنیا ہمارے خلاف صف آرا رہی، ہم سے جنگ کرتی رہی، یہ ایک حقیقت ہے۔ ساری دنیا یعنی امریکا ہمارے خلاف تھا، نیٹو عملی طور پر ہمارے خلاف تھی، اس زمانے کی سوویت یونین بھی عملی طور پر ہمارے خلاف تھی، علاقے کی رجعت پسند حکومتیں، یعنی یہی سعودی عرب، کویت وغیرہ، سب ہمارے خلاف عملی طور پر متحد تھے! یعنی ہمارے خلاف جنگ میں وہ سب شامل تھے۔ ہماری حالت 'نو روئیدہ' پودے کی مانند تھی، تجربات کا فقدان تھا، مگر ہم ان حالات پر غالب آئے۔ یہ ہمارا تجربہ ہے۔ کیا یہ  «لِیَطمَئِنَّ قَلبی‌»  اطمینان قلب کے لئے کافی نہیں ہے؟ یہ مردہ پرندوں کے زندہ ہو جانے کی مثال ہے جس کی گزارش حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے کی تھی۔ اللہ تعالی نے کہا کہ یہ کام انجام دو تاکہ تمہارے دل کو اطمینان ہو جائے۔ ہمارے اندر قلبی اطمینان کی کیفیت موجود رہنا چاہئے، اگر کسی کے اندر یہ کیفیت نہیں ہے تو یہ ایک نقص ہے۔ حسن ظن کے ساتھ کہا جائے تو یہ کہنا چاہئے کہ اس کیفیت کا نہ ہونا معیوب ہے، اگر حسن ظن کے ساتھ نہ دیکھا جائے تو اسے کچھ اور ہی نام دیا جا سکتا ہے۔

ہم تمام سختیوں اور تمام چیلنجوں پر مومنانہ روش کے ساتھ غلبہ پا سکتے ہیں۔ یہ یادوں کو زندہ رکھنے کا نتیجہ و ثمرہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس عمل کی اہمیت کو سمجھئے۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کی یادوں کو ہرگز فراموش نہ ہونے دیجئے۔ یہی ساری تفصیلات، یہی چیزیں جو احباب نے بیان کیں، یہ سب بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ جو متعلقہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں، یہ بھی بہت اہم ہیں، ان کی بڑی ارزش ہے۔ یہ صرف فنکارانہ تخلیق نہیں ہے۔ البتہ فنکارانہ کام بھی بہت اچھے انداز میں انجام پا رہا ہے؛ نگارش و ادبیات کے میدان میں بھی اور فلمسازی کے میدان میں بھی، اس طرح کے بہت اچھے کام انجام دئے جا رہے ہیں، البتہ بعض شعبوں میں ہم کافی آگے پہنچ چکے ہیں اور بعض میں ہنوز پیچھے ہیں اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ فن کے اعتبار سے اور ادبی پہلوؤں سے بھی یہ بڑے اہم کام ہیں، لیکن حقیقتا ان کاموں کا مرتبہ بہت بلند تر ہے۔ یہ فلم جو ایک صاحب بنا رہے ہیں، وہ کتاب جو ایک صاحب ضبط تحریر میں لا رہے ہیں، در حقیقت ان ستونوں میں سیمنٹ کا مسالہ ڈالنے کے مترادف ہیں جنھیں ہم مستحکم کرنا چاہتے ہیں، جنھیں ہم پائیدار بنانا چاہتے ہیں۔ یہ انقلاب کی بنیادوں کو تقویت پہنچانے والا عمل ہے، ملکی ترقی کے ستونوں کو مضبوط کرنے والا عمل ہے، قومی تشخص کو تقویت پہنچانے والا عمل ہے، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

میں یہ بھی عرض کروں گا کہ یہ یادیں در حقیقت قومی اثاثہ ہیں، یہ یادیں، قومی ثروت ہیں۔ یہ فقط یادیں بیان کرنے والے راوی تک محدود نہیں ہیں، ان کا تعلق سب سے ہے۔ اسے بیان کیا جانا چاہئے، اس کی نگارش ہونی چاہئے۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا جائے، ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے اور بظاہر اس سے اجتناب کیا بھی جا رہا ہے۔ جو واقعہ ہوا ہے وہی اپنے آپ میں اتنا پرکشش اور اس قدر معجز نما ہے کہ اس میں کسی مبالغہ آرائی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جو واقعہ جس طرح رونما  ہوا ہے اسے اسی طرح بیان کر دینے کی ضرورت ہے، اسی شکل میں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے، اسے بنحو احسن بیان کرنے کے لئے فنکارانہ روشوں کو استعمال کیا جائے۔

یہ بھی حسنہ ہے، یہ صدقہ جاریہ ہے۔ جو افراد یہ کام انجام دے رہے ہیں، جو برادران گرامی یہاں تشریف رکھتے ہیں، خواہ وہ ادبیات اور نگارش کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں یا فلمسازی کے میدان میں کام کر رہے ہوں، یاد رکھیں کہ آپ کا یہ عمل ایک کار خیر ہے، ایک عظیم روحانی عمل ہے، آپ اس قوم کو، اس آبادی کو اور اس ملک کو اس کا رزق پہنچا رہے ہیں، آپ اس رزق الہی اور رزق روحانی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس کی قدر کیجئے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ 'راہیان نور' پروگرام بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ 'راہیان نور' پروگرام (لوگوں کو کاروانوں کی شکل میں جنگ کے ان محاذوں پر لے جانے کا پروگرام جہاں مجاہدین نے عظیم قربانیاں پیش کی تھیں) بھی صدقہ جاریہ اور کار خیر ہے۔ یادوں کو ضبط تحریر میں لانا بھی ایسا ہی عمل ہے، ان یادوں کو بیان کرنا بھی کار خیر ہے اور یہ نشست بھی حسنہ ہے۔

اس معجزنما واقعے کو ماند نہ پڑنے دیجئے۔ میرے عزیزو! ایسے عزائم موجود ہیں کہ اس حقیقت کو، ہماری زندگی میں اور ہمارے ذہن و دل میں دھندلا کر دیا جائے۔ کچھ لوگوں کے یہی عزائم ہیں، یہ وہی طاقتیں ہیں جو اسلامی ملکوں کے خلاف منصوبہ سازی کرتی ہیں اور انھیں پیغام دیتی ہیں اور یہ ممالک قبول بھی کر لیتے ہیں کہ جہاد کے موضوع کو، شہادت کے موضوع کو اسکول اور یونیورسٹیوں کے نصاب سے اسی طرح دیگر کتب سے حذف کر دیں۔ بعض ممالک کے لئے ایسے نوٹیفکیشن جاری کئے جا چکے ہیں۔ ان سے کہا گيا ہے کہ جہاد کا موضوع اور شہادت وغیرہ جیسے موضوعات حذف کر دئے جائیں، ان ممالک نے یہ مطالبہ مان کر ان موضوعات کو حذف بھی کر دیا ہے۔ یہی عزائم اور یہی ارادہ ملک کے اندر بھی پنپتا اور پھیلتا ہے اور گوشہ و کنار میں سیاسی و ثقافتی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اس سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے۔ جنگ کو، مقدس دفاع کو، شہادت کو، جہاد کو، ہمیں زندہ رکھنا ہے، ان یادوں کی ہمیں قدردانی کرنا ہے، یہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔

البتہ اس میدان میں ابھی ہمیں بہت کچھ بیان کرنا ہے، ہم سے مراد آپ حضرات اور وہ لوگ ہیں جو جنگ میں شامل تھے، یہی افراد آج کی نوجوان نسل کو مقدس دفاع کی ان رفعتوں کو وجود عطا کرنے والی نسل سے حقیقی معنی میں متصل کر سکتے ہیں، جس نے ہماری تاریخ میں ان بلندیوں کو سر کیا۔ کافی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور خط لکھتے ہیں، اصرار کرتے ہیں، التجائیں کرتے ہیں، روتے ہیں کہ انھیں حرم (اہلبیت اطہار) کے دفاع کی اور محافظین کا حصہ بن جانے کی اجازت مل جائے۔ یعنی جو حالات ہم 1980 کے عشرے میں دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے نوجوان اور بچے، وہ افراد بھی جو کسی وجہ سے نہیں جا سکتے تھے، وہ بھی آکر التجائیں کرتے تھے کہ انھیں جانے دیا جائے! آج بھی وہی حالات ہیں؛ اَلحِقنی بِالصّٰلِحین؛(6)، یہ صالحین سے الحاق اور اتصال ہے۔ یہ ان محنتوں اور زحمتوں کا نتیجہ ہے جو آپ اٹھا رہے ہیں۔ خداوند عالم آپ کی ان کوششوں میں برکت عطا فرمائے اور آپ کے اس عمل کی تاثیر میں روز بروز اضافہ کرے۔

میں شعبہ فن و ہنر کا، اپنے برادر عزیز جناب سرہنگی اور دیگر متعلقہ افراد کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کی خدمات واقعی بڑی قیمتی ہیں۔ اس عمل کو اسی طرح جاری رکھیں۔ 'یادوں کی رات' کا یہ سلسلہ بھی اور یادوں کو ضبط تحریر میں لانے کا سلسلہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شخصیات ہر جگہ ہیں۔ ہم ان افراد میں سے بہت کم لوگوں کو پہچانتے تھے۔ ان سے متعلق کچھ واقعات ہم نے سنے تھے۔ بعد میں رفتہ رفتہ یہ افراد آذبائیجان گئے، ہمدان گئے، خراسان گئے، اصفہان گئے، دیگر جگہوں پر گئے اور انھوں نے مجاہدین کو تلاش کیا اور ان کی سرگزشت اور یادگار واقعات کو تحریری شکل دی اور زندہ کر دیا۔ نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ واقعی یہ کیسی عظیم دنیا ہے، باتوں، جذبوں اور درس کا کیسا عظیم سمندر ہے۔ یہ بہت اہم کام ہے، اسے اسی طرح جاری رکھا جانا چاہئے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اگر ہم آئندہ پچاس سال تک بھی اس آٹھ سالہ مقدس دفاع کے بارے میں بات کرتے رہیں، کام کرتے رہیں، نئی نئی تخلیقات انجام دیتے رہیں تب بھی زیادہ روی نہیں ہوگی۔ میرے خیال میں پچاس سال بعد بھی ہم اختتام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ البتہ اس کے لئے بہترین اسلوب بروئے کار لایا جائے اور فنکارانہ روشوں سے استفادہ کیا جائے۔

میں بہت شکر گزار ہوں۔ آج کی یہ نشست بہت اچھی رہی۔ صاحبان کی گفتگو سے میں نے کسب فیض کیا، بعض عزیز دوستوں کی زیارت ہو گئي جن کی زیارت سے ہم ایک مدت سے محروم تھے۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة الله و برکاته

 

(۱). جناب ما شاء اللّه شاہ مرادی

(۲). رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے

(3). سوره‌ طلاق، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ «... جو بھی اللہ پر توکل کرے اللہ اس کے لئے کافی ہے...»

(4). سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۶۰ کا ایک حصہ؛ «... کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ کہا؛  کیوں نہیں! لیکن اس لئے کہ میرا دل مطمئن ہو جائے...»

(5). سوره‌ آل‌عمران، آیت ۱۳۹؛ « اور اگر مومن ہو تو تساہلی نہ کرو اور غمگین نہ ہو، برتری تمہیں ہی حاصل ہوگی»

(6). سوره‌ یوسف، آیت نمبر۱۰۱ کا ایک حصہ «... اور مجھے صالحین سے ملحق کر دے»