بسم ‌اللہ‌ الرّحمن ‌الرّحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران گرامی، محترم عہدیداران! یہ نشست پورے سال کی ہماری با برکت نشستوں میں سے ایک ہے۔ مختلف شعبوں کے محترم عہدیداران تشریف فرما ہیں اور بہت اچھی رپورٹیں سن رہے ہیں، چنانچہ آج بھی صدر محترم نے بہت اچھی رپورٹ پیش کی۔ یہ دستور رہا ہے کہ اس نشست میں صدر محترم کی جانب سے حکومت کی سرگرمیوں کی بریفنگ دی جاتی ہے۔ ذہنوں کو اور فکروں کو اطلاعات سے اور تازہ تغیرات و حقائق سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ نشست بڑی با برکت ہے۔

میں اپنے معروضات کے آغاز میں جو چیز بیان کرنا چاہتا ہوں وہ رمضان کے مبارک مہینے سے متعلق ہے۔ اس سنہری موقع کا نصف سے زیادہ حصہ گزر چکا ہے اور نصف سے کم باقی بچا ہے۔ برادران عزیز، خواہران گرامی اور محترم عہدیداران، خاص طور پر ہم لوگوں کو چاہئے کہ اس موقع کو غنیمت جانیں۔ یہ توبہ کا موقع ہے، اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جانے کا موقع ہے، دلوں میں نورانیت اور تازگی پیدا کرنے کا موقع ہے۔ تضرع کا موقع ہے، ہمیں اللہ کی بارگاہ میں تضرع کرنا چاہئے۔ آپ خواہ کسی بھی شعبے میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہوں، یقینا آپ کے سامنے کچھ مشکلات ہوں گی، وسائل کی کمی ہوگی، افراد و وسائل کی ضرورت ہوگی، یہ سب کچھ اللہ سے مانگئے۔ آپ کی محنت و لگن کے ساتھ ساتھ، دعا و تضرع بھی بہت ضروری ہے۔ ہمیں اس تضرع کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

کئی دعاؤں منجملہ دعائے ابو حمزہ ثمالی میں آیا ہے؛ وَ لا یُنجی مِنکَ اِلَّا التَّضَرُّعُ اِلَیک‌،(۲) راہ نجات بارگاہ خداوندی میں ہمارا تضرع اور گریہ و زاری ہے۔ یہ گریہ و زاری کس طرح نجات کا ذریعہ بنتا ہے؟ اس لئے کہ (عقیدے اور ارادے کے) کمزور افراد بھی تو دوسرے انسانوں کے سامنے تضرع اور گریہ و زاری کرتے ہیں۔ تضرع کی ان دونوں قسموں میں کیا فرق ہے؟ تضرع عند اللہ اور بندگان خدا کے سامنے تضرع میں کیا فرق ہے؟ اس نکتے پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ بندگان خدا کے سامنے تضرع اور گریہ و زاری اس لئے ہوتا ہے کہ آپ جس انسان کے سامنے تضرع کر رہے ہیں اس کا دل نرم کر لے جائیں! جبکہ اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری اس لئے ہے کہ خود ہمارا دل نرم ہو! خود ہمارے دل کو 'سختی' سے نجات ملے! اگر دل سختی کی حالت سے خارج ہوکر نرم ہو گیا تو اس میں نورانیت پیدا ہوگی اور دل کی یہ نورانیت انسان کے لئے بند راستوں کو کھولتی ہے، اس کے اندر امید کا جذبہ بیدار کرتی ہے، اس کے اندر جستجو کا جذبہ پیدا کرتی ہے، انسان کو صحیح راستے کی جانب لے جاتی ہے۔ جب تقوا ہوگا تو اللہ تعالی انسان کو اپنی ہدایت سے نوازے گا۔ تقوی دل کی نرمی، دل کی لطافت اور دل کی نورانیت سے پیدا ہوتا ہے۔ اصلی ماجرا یہ ہے۔

سورہ مبارکہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے؛ فَوَیلٌ لِلقٰسِیَةِ قُلوبُهُم مِن ذِکرِ اللهِ اُولٰئِکَ فی‌ ضَلٰلٍ مُبین‌ (۳)، سخت دل، پتھر صفت دل کی یہ خصوصیت ہوتی ہے۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے کھلی ہوئی گمراہی کا ذکر ہے۔ سورہ مائدہ کی آیہ کریمہ بنی اسرائیل کے بارے میں کہتی ہے؛ فَبِما نَقضِهِم میثاقَهُم لَعَنّـٰهُم وَ جَعَلنا قُلُوبَهُم قاسِیَة (۴) ان پر اللہ کی لعنت ہونے کی نشانی ان کے دلوں کا سخت ہو جانا ہے جو خود ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے؛ فَبِما نَقضِهِم میثاقَهُم؛ انھوں نے اللہ تعالی سے کیا ہوا عہد فراموش کر دیا، توڑ دیا۔ ہمارے مومن معاشرے میں ان چیزوں پر توجہ دی جانی چاہئے، خاص طور پر ہم عہدیداران کے لئے جو کسی شعبے میں اپنے دوش پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ سورہ مبارکہ بقرہ میں بھی بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے؛  ثُمَّ قَسَت قُلوبُکُم مِن بَعدِ ذٰلِکَ فَهِیَ کَالحِجارَةِ اَو اَشَدَّ قَسوَةً وَ اِنَّ مِنَ الحِجارَةِ لَما یَتَفَجَّرُ مِنهُ الاَنهار (۵) تمہارے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے۔ پیغمبر اکرم مدینے کے یہودیوں سے مناظرے اور بحث میں اللہ تعالی کا یہ کلام سناتے ہیں اور انھیں ان کا ماضی یاد دلاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لئے درس، آگاہی، عبرت اور موعظہ ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے۔ اصول کافی میں ایک روایت ہے؛ وَ القاسِی القَلبِ مِنّی بَعید (۶)، اللہ تعالی سے دوری۔ انسان کے لئے بدترین مصیبت یہ ہے کہ وہ اللہ سے دور ہو جائے اور دل کا سخت ہو جانا وہ حالت ہے جو انسان کو اللہ سے دور کر دیتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے؛ ما ضُرِبَ‌ عَبدٌ بِعُقوبَةٍ اَعظَمَ مِن قَسوَةِ القَلب‌.(۷)

ان ایام سے کسب فیض کرنا چاہئے۔ ماہ مبارک رمضان بڑا اچھا موقع ہے، اس مہینے میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے ذریعے، خواہ وہ دعائیں ہوں جو سحر کے وقت پڑھی جاتی ہیں یا وہ دعائیں ہوں جو دنوں اور راتوں کے لئے منقول ہیں، (دل کو نرم بنایا جا سکتا ہے۔) یہ ایسی دعائیں ہیں کہ جن کے مضامین ہمارے دلوں کو لطیف بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح خود روزہ رکھنا اور فریضے پر توجہ دینا ہماری ضرورت ہے۔ ہمارا اسلامی معاشرہ، انقلابی معاشرہ اگر ذکر خداوندی سے، یاد پروردگار سے، بارگاہ خداوندی میں خضوع و خشوع اور درگاہ پروردگار میں تضرع اور گریہ و زاری سے غافل ہو گيا تو یقینا اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اس پر ضرب پڑ جائے گی، اس کا ناکام ہونا طے ہے۔ ہم اعلی اہداف اور مطلوبہ مطالبات تک اسی صورت میں پہنچیں گے جب صادقانہ اور مومنانہ سعی و کوشش میں لگے رہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اللہ تعالی پر توجہ رہے، دل کی نورانیت میں اضافہ ہو اور دلوں کا رابطہ اللہ سے قائم ہو۔ تو یہ ہمارے معروضات تھے ماہ رمضان میں دستیاب موقع سے بھرپور کسب فیض کے تعلق سے جو میری نظر میں ان تمام چیزوں سے زیادہ اہمیت ہیں جو اب میں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ ہماری بات کا نچوڑ یہی ہے، ہمیں چاہئے کہ بہت محتاط رہیں۔ البتہ میرا یہ خطاب سب سے پہلے خود اپنی ذات سے ہے۔ اس حقیر پر آپ سے زیادہ ذمہ داری ہے، آپ سے زیادہ وزنی بوجھ اس حقیر کے کاندھوں پر ہے۔ لہذا خود مجھے ان باتوں کی اور زیادہ احتیاج ہے۔ میرے لئے اور آپ کے لئے ضروری ہے کہ توجہ دیں اور اس مہینے سے اور اس موقع سے مستفیض ہوں، شبہائے قدر بھی قریب ہیں۔

یہ نشست ملک کے بعض بڑے اور بنیادی مسائل کو زیر بحث لانے کا اچھا موقع ہے تاکہ بعض مسائل کے بارے میں اگر کوئی اختلاف رائے ہے تو یہاں اس پر گفتگو ہو جائے، بحث ہو جائے۔ بعض مسائل سے اگر ممکنہ طور پر ہم غافل ہیں تو یہاں ان کی جانب توجہ دلا دی جائے۔ اس اعتبار سے یہ نشست بہت مفید ہے؛ اس لئے کہ یہاں عہدیداران تشریف فرما ہیں، اہل نظر افراد تشریف فرما ہیں۔

خوشی کا مقام ہے کہ اس سال ہمارے یہاں انتخابات ہوئے، یہ بہت بڑا کام تھا، انتخابات کی عظمت نے انقلاب کی طاقت کو نمایاں کیا، اسلامی نظام کی قوت کو برملا کیا، ہمیں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ عالمی پروپیگنڈے میں اسی طرح ہمارے انتخابات کے تعلق سے عالمی میڈیا میں اور نشریات میں جو باتیں کی جاتی ہیں، ظاہر ہے آپ واقف ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ مسلسل ہمارے انتخابات کے تعلق سے باتیں ہو رہی ہیں، اس نکتے کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوتا کہ یہ اسلامی نظام کی قوت کا آئینہ ہے، دلوں کی گہرائی تک اسلامی نظام کے رسوخ و نفوذ کی علامت ہے۔ عام طور پر اس نکتے کا ذکر نہیں کرتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے جو سامنے موجود ہے۔ جمعے کے دن جو عوام پولنگ مراکز پر پہنچے، انھوں نے خواہ کسی کو بھی ووٹ دیا ہو، سب نے ایک کام مشترکہ طور پر انجام دیا ہے اور یہ مشترکہ عمل نہایت اہم ہے۔ اس مشترکہ عمل کو دیکھنا چاہئے اور دنیا کو دکھانا چاہئے۔ یہ مشترکہ عمل ہے اسلامی نظام پر اعتماد کا اعلان، اسلامی نظام پر اعتماد کا اظہار۔ بے شک کچھ لوگوں نے کسی امیدوار کو ووٹ دیا، بعض نے کسی اور کے حق میں ووٹ ڈالا، بعض نے کسی اور کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، لیکن ان سب نے ایک کام مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔ وہ مشترکہ عمل یہی تھا کہ سب نے ان بیلٹ باکسوں پر جو اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے رکھے گئے تھے اعتماد کیا، اسلامی جمہوری نظام کے آئین کے ذریعے معین کردہ اس عمل پر اعتماد کیا اور ملک کے اعلی اجرائی عہدیدار کے انتخاب کے لئے میدان میں قدم رکھا، یہ بہت اہم ہے۔

اس مشترکہ عمل کو ہمیں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اس مشترکہ عمل کے تعلق سے ہم ایسی باتیں اور ایسے تبصرے نہ کریں کہ خود یہ مشترکہ عمل ضائع ہوکر رہ جائے۔ یہ مشترکہ عمل بہت اہم تھا۔ ہم آکر ملت ایران کو تقسیم کرنے لگیں اور یہ کہیں کہ بعض ووٹروں نے صرف فلاں نظرئے کو ووٹ دیا ہے! ایسا نہیں ہے، عوام نے آکر کچھ اشخاص کا انتخاب کیا ہے۔ ہم افراد کو کیوں تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے۔ ملت ایران کے اتنے بڑے اور مشترکہ عمل کے تعلق سے ہمیں چہ میگوئیوں سے بچنا چاہئے۔ پوری ملت ایران اس قوم کے دشموں اور اس قوم کی ترقی کے دشمنوں کی مخالف ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ کچھ خائن عناصر بھی ہوں جو تمام ممالک میں ہوتے ہیں، تمام اقوام کے اندر ہوتے ہیں اور ہر دور میں ایسے خائن افراد رہے ہیں، تاہم ایرانی عوام بحثیت ایک قوم کے اس کے خلاف ہیں جو اس قوم پر پابندیاں مسلط کرتا ہے، جنگ مسلط کرتا ہے، بدامنی مسلط کرتا ہے۔ قوم کا یہ مزاج ہے۔

آجکل تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہونے والے انتخابات کے بعد امریکیوں نے بڑی بے شرمی سے پابندیوں میں اضافہ بھی کیا ہے اور مخالفت، دشمنی، مقابلہ آرائی وغیرہ کا ڈھول بھی زیادہ پیٹ رہے ہیں۔ یہی تو ہو رہا ہے۔ اس دشمنی کے پیش نظر، ان حالات کے پیش نظر، ضرورتوں کے مد نظر، ہمارے سامنے موجود اعلی اہداف کے پیش نظر، اب ایک جدید فضا تیار ہونی چاہئے؛ تعاون کی فضا، محنت و لگن کی فضا، مشترکہ ہدف کے حصول یعنی ملک کی پیشرفت اور اسلامی جمہوری نظام کے ارتقاء کے لئے سعی و کوشش کی فضا۔ اس میں سب شامل ہیں، سب شریک ہیں۔ اگر ہم سب محنت کریں گے تو قدموں میں ثبات پیدا ہوگا، ہم استقامت کا مظاہرہ کر سکیں گے اور دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم سب متحد رہیں۔ یہ ہماری دائمی سفارش رہی ہے اور میں آج ایک بار پھر یہی سفارش کروں گا، سب کو چاہئے کہ ملک کے حکام کی مدد کریں، ان سے تعاون کریں کہ وہ کام کر سکیں۔ حکام کو بھی چاہئے کہ حقیقی معنی میں عوام کا خیال رکھیں۔ مختلف شعبوں کے حکام کو چاہئے کہ آپس میں تعاون کریں۔ اس حقیر کی روش یہ ہے کہ ہمیشہ حکومت کی حمایت کرتا رہا ہوں، آج بھی یہی روش ہے اور آئندہ بھی جب تک زندگی ہے ان شاء اللہ اسی روش پر عمل کرتا رہوں گا۔

ملکی مسائل پر ایک کلی نظر؛ آپ تو عہدیداران ہیں، صف اول کے عہدیداران سے لیکر مختلف شعبوں کے مختلف عہدیداران تک تشریف فرما ہیں، اگر آپ ملک کو خوش اسلوبی سے چلانا چاہتے ہیں، اگر مواقع اور خطرات کو حقیقی معنی میں مینیج کرنا چاہتے ہیں، اس لئے کہ مواقع بھی ہیں اور خطرات بھی ہیں، ان مواقع اور مشکلات کو اچھے انداز سے مینیج کرنے کی ضرورت ہے، اگر آپ قومی ثروت کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ ملک کے اندر موجود صلاحیتوں کو جن میں بہت سی صلاحیتیں اب تک ناشناختہ ہیں، رو بہ عمل لانا چاہتے ہیں اور ان سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ صحیح راستے اور غلط راستے کے فرق کو سمجھیں، کیونکہ کوئی بھی انسان ہو، ملک کے حکام ہوں، حکومتیں ہوں یا شعبے، وہ اپنے سامنے ہمیشہ کچھ راستے موجود پاتے ہیں، ان میں سے بعض راستے غلط ہوتے ہیں جو ہمیں منزل مقصود تک نہیں پہنچاتے، اگر ہم بڑے کام انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اپنے فیصلوں کے معیاروں اور بنیادوں کا تعین کر لیں اور درستگی کے ساتھ ان کا انتخاب کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے تجربات سے استفادہ کریں۔ آج یہ میری گزارش ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنے کے لئے بنیادوں اور معیاروں کا صحیح انتخاب کرنا چاہئے۔ عام طور پر اس مرحلے میں لغزشیں ہو جاتی ہیں۔ مختلف ادوار میں اور مختلف زمانوں میں ایسا ہوتا رہا ہے، یہ صرف آج کی بات نہیں ہے، میں ابھی تشریح کروں گا۔

فیصلے کا معیار اور بنیاد کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیاد قومی مفادات ہیں۔ یعنی حکومتوں کے لئے فیصلے کی بنیاد یہ ہے کہ قومی مفادات کی تکمیل ہو۔ خواہ وہ کوتاہ مدتی مفادات ہوں یا دراز مدتی مفادات۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم قومی مفادات کی تعریف کیا کرتے ہیں؟ ہم قومی مفادات کی شناخت کیسے کرتے ہیں؟ ہم کس چیز کو قومی مفادات مانیں اور کسے نہ مانیں؟ وہ کلیدی نکتہ جو میرے مد نظر ہے اور جسے میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قومی مفادات تبھی قومی مفادات ہوں گے جب ملت ایران کے ملی تشخص سے، ملت ایران کے انقلابی تشخص سے متصادم نہ ہوں۔ قومی شناخت سے ان کا کوئی ٹکراؤ نہ ہو، ورنہ اگر ہم نے کچھ چیزوں کو قومی مفادات کے طور پر پیش نظر رکھا لیکن اس کی وجہ سے ہم قومی شناخت کو پامال کر رہے ہیں تو یقینا ہم نے غلطی کی ہے، یہ قومی مفادات نہیں ہیں۔ یہ چیز آئینی انقلاب سے لیکر اسلامی انقلاب سے قبل تک کے دور تک بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تقدیر پر تاریک سایہ بن کر رہی۔ قومی شناخت کو پامال کیا گيا۔ البتہ پہلوی دور کے پہلے، قاجاریہ دور کے اواخر سے ہی یہ حالت ہو گئی۔ قومی تشخص ہمیشہ ان چیزوں پر قربان کیا جاتا رہا جسے عہدیداران اپنی فکر اور اپنی سمجھ کے اعتبار سے ملت ایران کے قومی مفادات مان لیتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا جاتا تھا اور اس پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ یہ در حقیقت نسبت کو الٹ دینا ہے۔ قومی مفادات کو قومی تشخص کے مطابق ڈھالنا چاہئے، نہ یہ کہ اس کے الٹ قومی تشخص کو قومی مفادات کے مطابق تبدیل کیا جائے جو صرف خیالی قومی مفادات ہیں۔ ایک شخص آکر کہتا ہے کہ "ہمیں سر سے پاؤں تک انگریزوں کی طرح ہو جانا چاہئے تاکہ ہم  ترقی کریں، پیشرفت حاصل کریں۔" یہی قومی تشخص کو پامال کرنا ہے۔ یعنی ایسی قوم جس کا طویل ماضی ہے، مضبوط اور قیمتی ثقافت ہے، عقائد و نظریات کا سرمایہ ہے، جس کے پاس گوناگوں روحانی اثاثے ہیں، اس سے کہا جاتا ہے کہ آپ ان تمام چیزوں کو ترک کر دیجئے، دور پھینک دیجئے، سر سے پاؤں تک اہل مغرب جیسے بن جائیے، تب آپ ترقی کر پائیں گے! یعنی ایسے مفادات کا تعین اور تصویر کشی کرتے ہیں جن کے حصول کے لئے قومی تشخص سے خود کو الگ کر لینا ضروری ہو! یہی تو قوم کو اس کی شناخت سے محروم کر دینا ہے، اس سے اس کا وجود چھین لینا ہے۔ پہلوی دور حکومت میں یہ چیز اپنی آخری حد کو پہنچ گئی تھی۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ اس کا آغاز قاجاریہ دور کے آخری برسوں سے ہو گیا تھا۔ اسلامی انقلاب آیا تو اس نے اس طرز فکر کو بدل دیا، دگرگوں کر دیا۔

اسلامی انقلاب کا ایک عظیم کارنامہ یہی ہے ہے کہ اس نے ملت کے لئے ایک شناخت کا  تعین کیا ہے اور اس پر قائم رہا۔ قومی مفادات کو اسی شناخت کے تناظر میں وضع کیا، معین کیا، حمایت کی اور اس کے حصول کی کوشش کی۔ اول الذکر صورت میں حقیقت یہ ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے مفادات تک نہیں پہنچ سکتے۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ ہمارے وطن عزیز کے پاس اتنا سرمایہ ہونے کے باوجود، اتنے وسائل ہونے کے باوجود، چونکہ تشخص کا فقدان تھا، لہذا آئينی انقلاب کے زمانے سے اسلامی انقلاب تک جتنی پیشرفت کے مواقع تھے اور دنیا میں جو فضا تھی اس طرح کی پیشرفت حاصل نہیں ہوئی۔ پیشرفتہ، فعال اور متحرک دنیا میں تو علمی اعتبار سے، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے، زندگی کے مختلف شعبوں کے اعتبار سے پیشرفت کا کچھ اور ہی انداز رہا، جبکہ ہمارے ملک میں جمود اور  تعطل کی حکمرانی رہی۔ اسلامی انقلاب آنے کے بعد سے لیکر اب تک جب طرز نگاہ بدل گیا تو حالات میں بھی تبدیلی آئی۔ انقلاب کے بعد ہم صاف محسوس کر سکتے ہیں کہ ترقی کر رہے ہیں، ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ بے شک پسماندگی ابھی کافی زیادہ ہے، لیکن پیشرفت بھی نمایاں ہے۔ میں نے سال نو کے آغاز کے موقع پر اپنی تقریر میں غالبا مختلف میدانوں میں؛ انفراسٹرکچر کے میدان میں، افرادی قوت کے میدان میں، اسی طرح دیگر گوناگوں میدانوں میں ملک کی اہم کامیابیوں کی ایک اجمالی فہرست کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ بعض افراد اس کا اقرار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، اعتراف نہیں کرنا چاہتے، یہاں تک کہ بعض عہدیداران بھی اسلامی انقلاب کی حصولیابیوں سے غافل نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز کے لئے اتنی ساری مشکلات کھڑی کر دی گئیں، مسائل پیدا کئے گئے، جنگ مسلط کر دی گئی، گوناگوں پابندیاں عائد کر دی گئیں، دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی کھلی اور صریحی دشمنی کا سامنا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ملک اتنی کامیابیاں حاصل کر لے گیا۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ اس نے اپنی شناخت پر توجہ دی، ملت ایران نے اپنے تشخص کا ادراک کر لیا، اپنے وجود کا ادراک کیا اور پوری قوت و توانائی کے ساتھ پیش قدمی کی۔ تشخص کا ادراک انسان کے اندر اسی طرح کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، انسان کو یہ خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔

ملت ایران کے تشخص کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسا تشخص ہے؟ ہمارے قوی تشخص کی کیا تعریف ہے؟ ہماری قوم ایک مسلمان قوم ہے جس کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں، جو ایک انقلابی قوم ہے، یہ ہے ہمارا تشخص۔ ہماری اسلام پسندی، ہماری تاریخی گہرائی اور ہمارا انقلابی ہونا، یہ ملت ایران کی ماہیت کو تشکیل دینے والے تین بنیادی عناصر ہیں۔ ان تینوں عناصر کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

ہماری اسلام پسندی کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اقدار و اصول ہماری ماہیت کی تشکیل میں شامل اہم عنصر ہیں۔ تاریخ میں ہماری جڑوں کی گہرائی کا مطلب یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہماری افرادی قوت فلسفہ، علم و ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں میں اعلی افکار و نظریات کی خالق رہی ہے اور اس نے مختلف ادوار میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق بڑے نمایاں کارنامے انجام دئے ہیں اور پوری نوع بشریت کو مہمیز کیا ہے۔ اس پر آپ توجہ رکھئے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جدید ٹیکنالوجی، نئی ایجادات کا تعلق مغرب سے ہے، یورپ سے ہے، شروع ہی سے یہ میدان اہل مغرب کا رہا ہے! جی نہیں، یہ سوچنا غلط ہے۔ کچھ ادوار ایسے گزرے ہیں جن میں ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں پیش پیش تھے، زمانے کی ضرورت کی ٹیکنالوجی کے میدان میں۔ البتہ سائنس و ٹیکنالوجی کا مزاج یہ ہے کہ یہ جتنا آگے بڑھتی ہے اس کی رفتار اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ ہم نے بارہا اس کی مثال دی ہے، لہذا اس وقت میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ جیسے جیسے پیشرفت حاصل ہوتی جاتی ہے، پیشرفت کی رفتار تیز ہوتی جاتی ہے۔ علمی اعتبار سے پیشرفتہ ملکوں کا پسماندہ ملکوں سے فاصلہ اسی لئے ہمیشہ بہت زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے۔ علمی پیشرفت علمی رفتار کو بھی بڑھا دیتی ہے۔ ہم ماضی میں اس وقت کے تقاضوں کے مطابق ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے تھے۔ صرف ہم اور ایران نہیں بلکہ بہت سے مشرقی ممالک کی یہی حالت تھی، ان میں ہم ایرانی بھی شامل تھے۔ تو اسلام پسندی اور تاریخ میں دور تک پھیلی جڑیں! اس کے علاوہ انقلابی ہونا۔ انقلاب ہماری ماہیت کا بہت اہم حصہ ہے۔ انقلاب یعنی وہ عمیق تبدیلی جو اسلام پر استوار  تھی اور جس کے نتیجے میں ملک بالکل بدل گیا، ایک اہم بدلاؤ یہی تھا کہ اس نے قوم کو حاشئے سے اٹھا کر مرکز میں رکھ دیا۔ ملک کے اندر عوام کا کوئی رول ہی نہیں تھا، ملت ایران صدیوں سے حکومتوں کی مرضی کی پابند تھی، حکومت کی تشکیل میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ ہاں جب بادشاہ کو کوئی جنگ کرنی ہوتی تھی تو عوام میں سے کچھ لوگوں کی بھرتی کر لیا کرتا تھا، انھیں ہتھیار دیکر جنگ کے محاذ پر بھیج دیتا تھا۔ عوام کا رول بس اتنا ہی ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی پالیسی کو طے کرنے میں، کسی عہدیدار کی تقرری میں، صف اول کے عہدیداران کی تو خیر بات ہی الگ ہے، عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ عوام بس دیکھتے رہتے تھے، ایک سلسلہ حکومت ختم ہوتا تھا تو دوسرا آ جاتا تھا، یہ دوسرا سلسلہ اپنے طور پر حکومت کرتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی اور سلسلہ آکر اس کی جگہ لیتا تھا۔ گزشتہ سلسلہ حکومت بھی عوام کو دبا کر رکھتا تھا اور بعد میں آنے والا سلسلہ حکومت بھی اسی روش پر چلتا تھا، عوام کی کہیں کوئي شراکت نہیں ہوتی تھی۔ تاریخ قدیم کے بعد کے دور کی کئی صدیوں پر محیط تاریخ میں ایران میں پہلی دفعہ اسلامی انقلاب آنے کے بعد عوام کو کوئی رول ملا اور قوم حاشئے سے نکل کر متن امور میں آئی، عوام اب خود فیصلے کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ملک کے سب سے اعلی عہدیدار؛ رہبر انقلاب، صدر جمہوریہ، دیگر گوناگوں عہدیداران تک سب عوام کے انتخاب کے بعد ہی عہدہ حاصل کرتے ہیں اور عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ یہ انقلاب کے ذریعے پیدا ہونے والی سب سے اہم تبدیلی تھی۔ تو اس طرح انقلاب کے بعد قومی مفادات بالکل بدل گئے۔ یعنی قومی مفادات طے کرنے کا معیار کچھ اور ہو گیا۔ انقلاب آنے کے بعد ڈکٹیٹرشپ عوامی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ انحصار کی جگہ سیاسی خود مختاری نے لے لی، پسماندگی کی جگہ قابل قدر پیشرفت نے لے لی۔ انفراسٹرکچر، افرادی قوت، اہم صنعتی میدانوں جیسے نینو صنعت، حیاتیاتی صنعت، اسی طرح دیگر صنعتیں جن میں ہم دنیا کے دو سو سے زیادہ ملکوں میں صف اول کے ممالک کا حصہ ہیں، سائنس کے میدان میں، اعلی تعلیم وغیرہ جیسے میدانوں میں۔ یہ ایسی تبدیلیاں ہیں جو ہماری انقلابی ماہیت نے پیدا کی ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ماہیت سے جو چیز بھی متصادم ہو وہ قومی مفادات کا جز نہیں ہے، خواہ ہمیں کبھی یہ گمان پیدا ہو کہ فلاں چیز میں ہماری قوم کے لئے فائدہ ہے، منفعت ہے۔ جو چیز بھی ہمارے اسلام سے، ہمارے انقلاب سے، ہمارے ماضی اور قدیمی تاریخ سے متصادم ہے اسے قومی مفادات میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

البتہ اس سے کوئی غلط نتیجہ اخذ نہ کرے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دنیا کی علمی پیشرفت سے، یا انسان کی گوناگوں ترقیوں سے خود کو محروم کر لیں! ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ آج کل یہ دستور ہو گیا ہے کہ عہدیداران کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کی بہت وسیع پیمانے پر برطانوی ریڈیو نشریات سے لیکر نہ معلوم کون کون سی انٹرنیٹ ویب سائٹوں تک، سب منمانی تفسیر کرتے ہیں، تشریح کرتے ہیں۔ تو کوئی میری اس بات کی بھی منمانی تفسیر نہ کرے کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ چونکہ ہمارے یہاں انقلاب آیا ہے، چونکہ ہم مسلمان ہیں، چونکہ ہماری قدیم تاریخ ہے تو ہمیں جدید انسانی ترقی کا راستہ بند کر لینا چاہئے۔ جی نہیں! انسانی ترقی تو سب سے مربوط ہے، اس پر کسی خاص شخص کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ تمام انسانوں کو جدید پیشرفت سے استفادہ کرنے کا حق ہے۔ جو شخص زیادہ عقلمند، زیادہ زیرک، زیادہ آگاہ ہوگا وہ زیادہ فائدہ اٹھائے گا۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ زیادہ عقلمند اور زیادہ آگاہ رہیں تاکہ اور زیادہ استفادہ کریں۔ ہماری اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے قومی مفادات خارجہ پالیسی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالے نہ جائیں، یعنی اپنے قومی مفادات کا تعین ہم خود کریں، اسے مسلط نہ کیا جائے۔

ظاہر ہے استکباری طاقتیں سکون سے نہیں بیٹھیں گی، اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے ان کے پاس مختلف طریقے ہیں۔ بیٹھ کر قاعدے وضع کرتی ہیں۔ کچھ چیزوں کو عالمی قواعد کی حیثیت سے متعارف کراتی ہیں۔ مثلا اس دور میں امریکہ ایک چیز کو بین الاقوامی قاعدے کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ جیسے امریکی مفادات دنیا کے تمام خطوں میں ملحوظ رکھے جانے چاہئے! یہ ہو گیا ایک بین الاقوامی قاعدہ! اگر دنیا کے کسی دور دراز کے علاقے میں جو امریکہ سے ہزاروں کلومیٹر اور ہزاروں فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے، کسی ملک کے قومی مفادات امریکی مفادات سے متصادم ہو جائیں، اگر مفادات ٹکرا رہے ہوں اور وہ ملک اپنے مفادات حاصل کرنا چاہے تو اس کو کہتے کہ؛ عالمی قاعدے کے برخلاف عمل کیا ہے! پہلے کسی چیز کو قاعدے اور معیار کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر، ملکوں، حکومتوں اور قوموں پر، اگر انھوں نے اس قاعدے سے متصادم کوئی اقدام کیا تو فورا ان پر، قواعد کی مخالفت کا الزام لگا دیتے ہیں! یہ غلط ہے، یہ سراسر غلط ہے۔ یہی کام وہ آجکل کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں ہمارے خلاف امریکیوں کے بیانوں میں علاقے میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ ایک عنوان ہے؛ 'علاقے کو بدامنی سے دوچار کرنا'! پہلی بات تو یہ ہے کہ اس علاقے سے آپ (امریکیوں) کا کیا لینا دینا ہے؟! دوسری بات یہ ہے کہ اس علاقے کو غیر مستحکم بنانے والے خود آپ ہیں! امریکہ اور اس کے آلہ کاروں نے اس علاقے کو بدامنی میں دھکیلا ہے۔ شمالی افریقا کے علاقے کو ایک الگ طریقے سے اور مغربی ایشیا کےعلاقے کو الگ انداز سے۔ شام کو کسی انداز سے، عراق کو کسی اور انداز سے۔ یہ جو ایک گروہ کی تشکیل کرتے ہیں، اسے پیسہ دیتے ہیں، اسے ہتھیار دیتے ہیں، اس کے لئے عسکری منصوبے تیار کرتے ہیں، پشت پناہی کرتے ہیں، اپنے اسپتالوں میں اس گروہ کے زخمیوں کا علاج کرتے ہیں! علاقے کو بدامنی سے دوچار کرنے والی حرکتیں یہی سب ہیں۔ داعش کو کس نے وجود بخشا، داعش کو کس نے تقویت پہنچائی؟! آج بھی جب وہ داعش کے خلاف الاینس تشکیل دینے کے دعوے کر رہے ہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے! یہ دروغگوئی ہے! وہ صرف اس بات کے مخالف ہیں کہ داعش ان کے کنٹرول میں نہ رہے۔ اگر داعش قابو میں رہے اور ان کے اختیار میں رہے تو یہ انھیں پسند ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس گروہ کو نابود کر دے، ختم کر دے تو بڑی تندہی سے اس کا راستہ روکنے لگتے ہیں۔ آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ امریکی فوجی طیارے آتے ہیں اور شام کے فوجی اہلکاروں پر بمباری کر دیتے ہیں جو داعش یا اسی جیسی کسی اور تنظیم سے جنگ کر رہے ہیں۔ بالکل یہی چیز عراق میں بھی ہوئی۔ یہی واقعہ عراق میں بھی ہوا۔ عراق کا تیل داعش بیچ رہی تھی، یہاں ایک حکومتی عہدیدار، معروف بین الاقوامی شخصیت جو ہمارے یہاں مہمان تھی، انھوں نے مجھ سے کہا کہ داعشی عناصر عراق سے تیل چرا کر ایک ملک میں لے جاتے تھے اور وہاں اسے فروخت کرتے تھے، داعش کے ٹینکروں کی تصاویر امریکیوں کی آنکھ کے سامنے تھیں، لیکن امریکیوں نے کبھی ایک بم بھی ان کے اوپر نہیں گرایا، کبھی ان کا راستہ نہیں روکا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے یہ کام ہو رہا تھا! وہ دعوے بھی کرتے تھے کہ داعش کے خلاف ہیں۔ اگر وہ کسی کے خلاف ہوتے تو اس انداز سے ہونے والی اس کی پشت پناہی کی مخالفت کرتے، مگر وہ تو الٹے مدد بھی کرتے تھے۔ تو اس علاقے میں بدامنی انھوں نے پیدا کی ہے۔ ایران نے کوئی بدامنی نہیں پیدا کی ہے۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ امریکی صدر (8) کا حالیہ بیان بھی اسی زمرے میں آتا ہے، وہ دہشت گردانہ حملے کے بہانے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں۔ جبکہ اس علاقے میں دہشت گردی کی جڑ امریکی سرگرمیاں ہیں۔

انسانی حقوق کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ امریکی ایک بار پھر انسانی حقوق کا موضوع اٹھا رہے ہیں، جو واقعی مضحکہ خیز اور عجیب و غریب ہے۔ جو لوگ جاکر سعودی عرب کے قرون وسطی کے قبائلی نظام کے سرداروں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، یہ بہت بڑی رسوائی کی بات ہے! میری نظر میں یہ داغ ان کے دامن سے کبھی صاف نہیں ہوگا، ان کی پیشانی پر یہ بدنما داغ ہمیشہ موجود رہے گا۔ وہاں جاکر بیٹھیں اور انسانی حقوق کے بارے میں بات کریں! وہ بھی اسلامی جمہوریہ ایران جیسے ملک کے خلاف! جس ملک میں جمہوریت اور انتخابات کی بو تک نہیں ہے وہاں جاکر بیٹھتے ہیں اور ایران جیسے ملک کے خلاف جو جمہوریت کا مرکز اور ڈیموکریسی کا مظہر ہے، بیان بازی کرتے ہیں، طنز کرتے ہیں، تہمت لگاتے ہیں۔ یہ ایسی حرکتیں ہیں جو باقی رہیں گی۔ اس وقت گوناگوں سیاسی ہنگاموں میں ممکن ہے اس پر توجہ نہ جائے لیکن تاریخ میں یہ حرکت بلا شبہ محفوظ رہے گی۔

تو فیصلہ کرنے اور موقف طے کرنے کے تعلق سے ہماری بنیادی بات یہی ہے کہ قومی مفادات فیصلوں کی درستگی کا معیار ہیں اور قومی منفعت وہ چیز ہے جو ملت ایران کے تشخص سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھتی ہو، اس سے علاحدہ بھی نہ ہو۔ یعنی اس کا سرچشمہ قومی تشخص ہی ہو تب وہ کہلائے گی ملت ایران کی قومی منفعت۔ اس چیز کو ملک کے عہدیداران، حکومت، عدلیہ، مقننہ، وہ تمام عہدیداران جو بنیادی ملکی فیصلے کرتے ہیں، ہمیشہ مد نظر رکھیں۔ جو چیز بھی اسلام سے متصادم یا بالکل بیگانہ ہو، جو چیز انقلاب سے متصادم یا بالکل بیگانہ ہو، جو چیز ملت ایران کی تاریخی جڑوں سے متصادم یا بالکل بیگانہ ہو، اس طرح کی کوئی بھی چیز قومی مفادات کا جز نہیں ہے اور اسے فیصلے کی بنیاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔

جہاں تک تجربات کا سوال ہے تو ہم نے کہا کہ تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہئے۔ میں نے یہاں چند مثالیں ذکر کیں۔ ایک تو ہے کامیابیوں میں قومی اتحاد و یکجہتی کی تاثیر کا معاملہ۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ صدر محترم کی تقریر میں بھی اس کا ذکر تھا، میں بھی اس کی حمایت کرتا ہوں کہ قومی یکجہتی کی حفاظت کی جانی چاہئے، قومی اتحاد کی حافطت کی جانی چاہئے۔ اشتراکات کو ہمیشہ مد نظر رکھا جانا چاہئے۔ یہ چیز اس بات میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتی کہ اگر کسی معاملے میں، کسی پالیسی یا کسی منصوبے کے تعلق سے کوئی مخالفت ہے تو اسے برملا بیان کیا جائے۔ ان دونوں چیزوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ لیکن صورت حال یہ نہ ہو کہ ملک کے اساسی اور بنیادی مسائل کے بارے میں کشمکش ہو، چہ میگوئیاں ہوں۔

ہم نے اس چالیس سالہ دور میں اس اتحاد و یکجہتی کا سبق سیکھا ہے۔ جنگ کے دوران بھی کچھ لوگ تھے جو مخالف تھے۔ انھیں ایام میں جب ہم جنگ میں الجھے ہوئے تھے، کچھ  لوگ یہیں تہران کی سڑکوں پر اور چوراہوں پر، آپ میں سے بہتوں کو یاد بھی ہونا چاہئے کہ، کھڑے ہوکر جنگ کے خلاف پمفلٹ تقسیم کرتے تھے۔ مخالفت ہونا فطری ہے لیکن عوام کی اکثریت، عمومی طور پر پوری قوم کا موقف ایک تھا، عوام نے استقامت دکھائی، یہی چیز ہمارا مطمح نظر ہے اور یہی قومی اتحاد و یکجہتی سے عبارت ہے۔ ملک کو دو قطبی نہیں بنانا چاہئے، عوام کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہئے۔ جو حالت بد قسمتی سے سنہ 1980 میں اس وقت کے صدر مملکت کی جانب سے پیدا کی گئي اور عوام موافق و مخالف دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، بہت خطرناک چیز تھی۔

قومی اتحاد و یکجہتی کے تعلق سے ایک بات اور عرض کر دینا ضروری ہے کہ یہ اتحاد و یکجہتی اس وقت نمایاں ہوگی جب دشمن سے ہم اپنا فرق واضح رکھیں گے۔ قومی اتحاد پر سوالیہ نشان لگا دینے والی اور شکوک و شبہات اور اختلاف پیدا کرنے والی اور اگر اختلاف ہے تو اسے منظر عام پر لانے والی ایک چیز یہی ہے کہ دشمن سے اپنی دوری کو قائم نہیں رکھا جاتا، اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ دشمن صرف ملک سے باہر نہیں ہے، کبھی کبھی دشمن ملک کے اندر بھی دراندازی کر لیتا ہے۔ سنہ 2009 میں آپ نے دیکھا کہ تہران کی بعض سڑکوں پر ایسے گروہ نظر آئے، البتہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی، بہت کم تھے، جو صریحی طور پر اسلامی نظام کے خلاف بول رہے تھے۔ سب سے بڑی مشکل جو پیش آئی اس کی وجہ یہی تھی کہ کچھ لوگوں نے اس قسم کے گروہوں سے اپنی دوری قائم نہیں رکھی، فاصلہ قائم رکھنا چاہئے تھا۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ چنانچہ بعد میں بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ سرے سے آپ کے نظام حکومت کے مخالف ہو گئے ہیں، آپ کے انقلاب کے مخالف ہو گئے ہیں، آپ کے عقیدے اور دین کے مخالف ہیں اور اسے نقصان پہنچانے کے در پے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ فورا ایسے افراد سے دوری بنا لیں اور ان سے اپنی لا تعلقی کا اعلان کریں۔ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ خاص طور پر ہم عہدیداران کو اس معاملے میں بہت ہوشیار اور کوشاں رہنا چاہئے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو قومی اتحاد و یکجہتی کا مقصد بھی ہورا ہو جائے گا۔

دوسرا نکتہ جو ہمارے تجربات کا جز ہے وہ ہے داخلی توانائیوں کو ترجیح دینا۔ یہ وہی چیز ہے جس کا ہم نے اس سال اعلان کیا ہے؛ 'قومی پیداوار اور روزگار'۔ داخلی توانائیوں کا ایک حصہ یہی قومی پیداوار ہے، یہاں قومی پیداوار سے مراد زرعی و صنعتی پیداوار ہے۔ ویسے سافٹ ویئر کی ایجادات، نئی ریسرچ اور ایجادات بھی داخلی پیداوار کا جز ہیں اور بہت اہم ہیں لیکن چونکہ اقتصادی مسائل تھے تو ہماری مراد صنعتی و زرعی پیداوار سے تھی۔ قومی پیداوار، داخلی پیداوار اور داخلی توانائیوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ میرے خیال میں ہماری نوجوان افرادی قوت کے اندر موجود صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ ابھی چند روز قبل کچھ نوجوان طلبہ اسی حسینیہ میں جمع تھے (9)، ان میں سے کچھ نے یہاں تقریریں بھی کیں۔ میں نے کچھ حکام سے اس موقع پر کہا بھی کہ ملکی مسائل کے بارے میں ان کا ادراک اور فہم و شعور بڑا معیاری اور پیشرفتہ ہے، ان سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ تو یہ ہماری پیشرفتہ افرادی قوت کی صورت حال ہے۔ یہ وہ افرادی قوت ہے جو ملکی ترقی میں اور تیز رفتار پیشرفت میں مددگار واقع ہو سکتی ہے۔ ہم نے علمی و سائنسی میدانوں میں ان داحلی توانائیوں کو استعمال کیا، اسی ایٹمی انرجی کے شعبے میں چند سال قبل ایک دن اسی حسینیہ میں آکر ہمیں نمائش کی صورت میں ایک بریفنگ دی گئی (10)۔ الگ الگ اسٹال لگائے گئے تھے جن کا میں نے معائنہ کیا۔ ان تمام اسٹالوں پر عموما کم عمر نوجوان تھے جن کا تعارف محترم عہدیداران کرا رہے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے ایٹمی انرجی کے مختلف شعبوں میں کوئی کلیدی کام کیا تھا اور اس صنعت کو آگے لے جانے والا کوئی بڑا علمی قدم اٹھایا تھا۔ یہ چیز بہت اہم ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس ایسی توانائی موجود ہے۔ یہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔

ایک اور موضوع جو ہمارے بڑے بنیادی تجربات کا حصہ ہے اور جسے آپ حضرات ملک کے انتظامی امور میں خواہ آپ کسی بھی شعبے میں متعین ہوں، ضرور مد نظر رکھیں، دشمن پر اور دشمن کے وعدوں پر اعتماد نہ کرنا ہے۔ یہ بہت سنجیدہ بات ہے۔ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ ہے۔ ہم نے بعض مواقع پر دشمن پر اعتماد کیا اور اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ہم چاہتے تو اعتماد نہ کرتے، حالانکہ ہم یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ دشمن پر اعتماد کریں گے مگر ہم نے اعتماد کیا۔ دشمن اور اس کے وعدوں پر ہم نے اعتماد کیا اور اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس تصور میں رہیں کہ بہت بعید ہے کہ دشمن نے جو کہا ہے اس پر عمل نہ کرے! جب بھی اغیار سے واسطہ ہو تو پوری توجہ سے تمام تفصیلات پر نظر رکھنا چاہئے، خیال رکھنا چاہئے، بہت زیادہ حساس رہنا چاہئے اور احتیاط برتنا چاہئے۔ ان پر اعماد نہیں کرنا چاہئے، نہ تو عمل میں اعتماد کریں اور نہ طرز بیان میں۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہاں صف اول کے عہدیداران یعنی تینوں شعبوں (عدلیہ، مجریہ، مقننہ) کے سربراہوں وغیرہ جیسے عہدیداران کے علاوہ بھی جو دیگر عہدیداران تشریف فرما ہیں ان میں بعض افراد ایسے ہیں جو اچھے مقرر ہیں، جن کے پاس منبر ہے، میں پلیٹ فارم کی جگہ منبر کا لفظ استعمال کرتا ہوں، ان کے پاس منبر ہے، وہ مقرر ہیں اور ان کی باتیں سنی جاتی ہیں، ان افراد کے بیان کا لہجہ بھی ایسا نہ ہو کہ دشمن پر اعتماد کا تاثر ملے، کیونکہ ملک کے اندر ذہنوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے اور ملک کے باہر مخالفین اور دشمنوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ مثال کے طور پر ہم کسی معاملے میں اس خیال سے کہ امریکیوں وغیرہ کے ہاتھ میں کوئی بہانہ نہ دیں، پیچھے ہٹ گئے، لیکن امریکیوں کو پھر بھی بہانہ مل گیا اور ہم نے اپنا نقصان بھی کر لیا۔ تو اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ گوناگوں مسائل میں یہی ہونا چاہئے۔

میں نے بارہا کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں جن عہدیداران نے جاکر محنت کی، ان پر ہمیں پورا اعتماد تھا اور آج بھی ہے، اس وقت بھی ہمیں اعتماد ہے۔ ہم انھیں مومن، دردمند اور اپنے افراد سمجھتے ہیں، لیکن اس ایٹمی ڈیل کے معاملے میں بھی مختلف مسائل میں، فریق مقابل کی بات پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے، مد مقابل مذاکرات کار پر بھروسہ کر لینے کی وجہ سے ہم نے کچھ چیزوں سے چشم پوشی کر لی، کچھ چیزوں پر بھرپور توجہ نہیں دی، نتیجتا کچھ جگہوں پر خلا رہ  گیا اور دشمن آج اسی خلا سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ بڑے اہم مسائل ہیں۔ ہمارے محترم وزیر خارجہ ڈاکٹر ظریف نے یورپی عہدیدار (یورپی یونین کے شعبہ خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی) کو بڑا واضح خط لکھا ہے۔ البتہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے، اس خط میں انھوں نے ایٹمی معاہدے کی روح اور اس کے متن دونوں کی خلاف ورزی کئے جانے کا موضوع اٹھایا ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ ایٹمی ڈیل کی روح متاثر ہوئی ہے۔ مگر محترم وزیر خارجہ نے لکھا ہے کہ ایٹمی ڈیل کی صرف روح کے خلاف عمل کی بات نہیں ہے، کچھ جگہوں پر خود ایٹمی معاہدے کی متن کی خلاف ورزی ہوئی ہے، یعنی ڈیل کی روح کے خلاف بھی عمل کیا گيا ہے اور خود متن کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے امریکیوں کے ہاتھوں! وزیر محترم نے ان خلاف ورزیوں کی ایک فہرست تیار کرکے بھیجی ہے۔ یعنی ڈاکٹر ظریف تو ایسے آدمی نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہہ دیا جائے کہ ایٹمی ڈیل کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ نہیں، وزیر خارجہ چونکہ ایک دیندار انسان ہیں، باضمیر انسان ہیں، احساس ذمہ داری رکھنے والے انسان ہیں، اس لئے خود وہ بھی اعتراض کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں  ہماری طرف سے قدرے چشم پوشی سے کام لیا گيا، اگر یہ چشم پوشی نہ کی گئی ہوتی، دشمن پر اعتماد نہ کیا گيا ہوتا تو آج دشمن کے ہاتھ بندھے ہوتے اور وہ یہ حرکتیں نہ کر پاتا۔ اس وقت میں ایٹمی معاہدے کے بارے میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن جس کمیٹی کو ایٹمی ڈیل پر عملدرآمد کی نگرانی کے لئے تشکیل دیا گيا اور جس میں صدر محترم، پارلیمنٹ اسپیکر، وزیر خارجہ اور دوسرے چند افراد شامل ہیں، اسے چاہئے کہ اس قضیئے پر بھرپور توجہ دے، توجہ دے اور دیکھے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم نے کچھ چیزوں کا ذکر کیا تھا، میں نے ایٹمی معاہدے کو قبول کرنے کی کچھ واضح شرطیں ذکر کر دی تھیں، تحریری طور پر بھی پیش کر دیا  تھا، یعنی صرف زبانی طور پر بیان نہیں کیا تھا بلکہ مکتوب شکل میں بھی بھیجا تھا۔ ان شرائط کو مد نظر رکھا جانا چاہئے تھا، ان پر باریکی کے ساتھ عمل کیا جانا چاہئے تھا۔ جب ہمارا فریق مقابل نہایت بے شرمی سے آکر کھڑا ہوتا ہے اور کچھ بھی ہرزہ سرائی کرتا ہے تو اگر ہم اب پیچھے ہٹیں گے تو اسے ہماری کمزوری تصور کیا جائے گا۔ یہ تصور پیدا ہوگا کہ ہم مجبور ہیں، لاچار ہیں۔ ہمارے اندر لاچاری کا احساس دشمن کے حوصلے بڑھائے گا کہ ہمارے خلاف اپنے ناحق دباؤ میں اور اضافہ کرے۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

ایک اور موضوع جو ہمارے تجربات کا حصہ ہے اور آپ کو بھی ملک کے انتظام و انصرام میں، مفادات و نقصانات اور مواقع و خطرات کو مینیج کرنے میں جسے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے، ملک کی فوجی اور سیکورٹی طاقت ہے۔ یہ بہت اہم ہے، یہ وہ موضوع ہے جس پر لازمی طور پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ہمارے بعض عہدیداران براہ راست فوجی یا سیکورٹی افسران ہیں جن کے دوش پر ضروری فرائض ہیں اور جنھیں اس سلسلے میں اہم پلوؤں کو ملحوظ رکھنا ہے، واقعی وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ ملک کے عہدیداران کا بڑا حصہ ان افراد پر مشمل ہے جو براہ راست سیکورٹی اور عسکری شعبے سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم بالواسطہ طور پر وہ اثرانداز ہو سکتے ہیں، انھیں چاہئے کہ اس نکتے پر ضرور توجہ دیں۔ یعنی ملک کی قدرت و توانائی کے عوامل و عناصر کی حفاظت کریں، ملکی توانائی کے ستونوں کی، مسلح فورسز کی، پاسداران انقلاب فورس کی، رضاکار فورس کی، مومن و دیندار اداروں کی حفاظت کریں۔ میں یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ دشمن کے سامنے جو سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جانے والے ہیں، جو مختلف شعبوں میں دشمن کا مقابلہ کرنے والے ہیں، سخت حالات کو تحمل کرنے والے ہیں وہ یہی مومن و انقلابی افراد ہیں جنھیں 'حزب اللہی' کہا جاتا ہے۔ وہ ثابت قدمی سے ڈٹ جانے والے ہیں۔ ان کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ مختلف شعبوں کے عہدیداران، خواہ وہ یونیورسٹی میں ہوں، خواہ صنعتی شعبوں میں ہوں، علمی میدانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا سروسیز کے شعبے میں مصروف عمل ہوں، سب ان افراد کا خیال رکھیں۔ پاسداران انقلاب فورس دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے تو یہ بالکل بدیہی بات ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی قدس فورس امریکہ کو اچھی لگے گی؟ کیا آپ کو یہ توقع ہے کہ امریکہ ہمارے اس کمانڈر کو پسند کرے گا جو اس میدان میں بھرپور سرگرم عمل ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ اسے بالکل پسند نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے کہ مختلف شعبوں میں شرطیں لگائے گا۔ اس لئے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہماری قوت و توانائی کے ستون باقی نہ رہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم سے کہا جائے کہ ہم عالمی مقابلوں میں آپ کی کشتی کی ٹیم کو شامل کریں گے لیکن اس شرط پر کہ وہ دو تین مضبوط کشتی گیر آپ کی نیشنل ٹیم میں شامل نہ رہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شکست کھانے کے لئے تشریف لائیے! آپ کو ہم عالمی مقابلوں میں شامل کریں گے، آپ آئیے اور شکست کھائیے، اس کا یہی مطلب ہے۔ اگر کہتے ہیں کہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ پاسداران انقلاب فورس میں یہ تبدیلی آئے، رضاکار فورس مداخلت نہ کرے یا فلاں مسئلے میں، مثلا علاقائی مسائل میں اس کی کوئی مداخلت نہ ہو، کوئي شرکت نہ ہو تو اس کا یہی مطلب ہے۔ یعنی آپ کی قوت و توانائی کے جو ستون ہیں آپ ان کا سہارا نہ لیجئے، انھیں میدان میں نہ لائیے۔ ہمیں اس کے بالکل برعکس عمل کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی سیکورٹی اور دفاعی توانائی پر ضرور توجہ دینا چاہئے اور اس میں روز بروز اضافہ کرنا چاہئے۔

ایک اور مسئلہ جو بہت اہم ہے ملکی معیشت کا مسئلہ ہے۔ اس بارے میں ہم نے بہت گفتگو اور بحث کی۔ صدر محترم نے بھی اپنی تقریر میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور جو کام انجام دیا جانا چاہئے اس کی نشاندہی کی۔ البتہ جناب عالی نے کچھ چیزوں کا ذکر کیا اور کہا کہ "یہ کام ہونا چاہئے، یہ کام بھی ہونا چاہئے" اس "ہونا چاہئے" کا خطاب کس سے ہے؟ خود جناب عالی سے۔ یعنی اس "ہونا چاہئے" کا خطاب خود ڈاکٹر روحانی اور بارہویں حکومت میں ان کے رفقائے کار کے علاوہ کسی سے نہیں ہے۔ یعنی ان میں سے اکثر کام، کیونکہ کچھ کام ایسے ہیں جن کا تعلق پارلیمنٹ، عدلیہ یا کسی اور سے ہے، لیکن اکثر کاموں کی ذمہ داری خود حکومتی عہدیداران کے دوش پر ہے۔ اس "انجام پانا چاہئے" کو خود یہی حضرات انجام دیں۔ یہ حقیقت ہے۔ معیشت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔

معیشت کے معاملے میں ایک اہم مسئلہ داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کا ہے جو خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جناب عالی نے جو بات سرمایہ کاری کے تعلق سے کہی درست ہے، ہم بھی اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔ البتہ میں نے داخلی اور بیرونی سرمایہ کے تعلق سے پانچ چھے سال قبل یہیں اوپر والے منزلے پر منعقدہ اجلاس میں ایک بات کہی تھی۔ یہاں تشریف فرما افراد کی اکثریت اس اجلاس میں موجود تھی۔ اس اجلاس میں ماہرین قتصادیات بھی تھے۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ ہمیں 'اتنے سرمائے' کی ضرورت ہے پیٹرولیئم کے شعبے اور دیگر شعبوں کے لئے۔ یہ ضرورتیں ہیں جنھیں پورا کیا جانا چاہئے۔ لیکن یہاں ایک بڑا ظریف نکتہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اقتصادیات سے وابستہ حکومتی عہدیداران خواہ وہ اس حکومت کے عہدیداران ہوں یا سابقہ حکومت کے عہدیداران جو ہم سے کبھی کبھی ملاقات کرتے تھے، عام طور پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے بڑے سخت شرائط کا ذکر کرتے تھے! ایک روزگار کے لئے مثال کے طور پر سو ملین تومان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جی ہاں، بعض کام ایسے ہیں جن کے لئے سو ملین کی ضرورت ہے، لیکن وہیں بہت سے روزگار ایسے ہیں جن کے لئے اتنے سرمائے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ہم اپنے دیہی علاقوں میں، چھوٹے شہروں میں، ملک کے مختلف حصوں میں بہت کم سرمائے کی مدد سے روزگار کے مواقع  پیدا کر سکتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں ٹی وی چینلوں پر کہ کوئی شخص آتا ہے، میں نے خود یوں ہی سرسری طور پر ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں، بیس لوگوں کے لئے روزگار پیدا کر دیتا ہے اپنی ذاتی صلاحیت سے۔ کسی صنعت میں یا کسی بھی شعبے میں یہ کام انجام دیتا ہے اور سب کچھ ملا کر بھی خرچ سو ملین تک نہیں پہنچتا۔ اس شخص نے رفتہ رفتہ اپنا کام آگے بڑھایا اور بیس لوگوں کو روزگار دینے میں کامیاب ہو گيا، وہ بھی پیداواری شعبے سے وابستہ روزگار۔

اگر ہم نے دیہی علاقوں کے مسئلے کو، میں نے دیہی علاقوں کے مسئلے کو یہاں نوٹ کر رکھا ہے، حقیقی معنی میں توجہ دی اور گاؤں کی مشکلات کو حل کر لیا تو واقعی مشکلات بہت کم ہو جائیں گی، دیہی علاقوں کی مشکلات کا بڑا حصہ دیہی صنعتیں ایجاد کرکے حل کیا جا سکتا ہے۔ دیہی علاقوں کو ایسی صنعتوں کی ضرورت ہے جو دیہی طرز زندگی سے مطابقت رکھتی ہوں۔ ہم نے اس میدان میں کوتاہی کی۔ دیہی صنعتوں پر توجہ دی جانی چاہئے اور دیہاتوں کے لئے جو وسائل لازمی ہیں، فراہم کئے جانے چاہئے۔ ابھی ذکر ہوا انٹرنیٹ سروس کا۔ بے شک انٹرنیٹ بھی ایک ضرورت ہے، لیکن انٹرنیٹ سے زیادہ ضروری سڑکیں ہیں، آمد و رفت کے وسائل ہیں، وہاں کی مصنوعات اور پیداوار کی بآسانی منتقلی کے وسائل ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی چیز کسی بڑے شہر میں مثال کے طور پر ہزار تومان فی کلو کے ریٹ سے فروخت ہو رہی ہے، لیکن گاؤں میں جو شخص اس کی پیداوار کر رہا ہے اسے اس کا دسواں حصہ بھی نہ ملے، کوئی فائدہ نہ کما سکے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم نے راستوں کی تعمیر کر دی، اکر ہم نے آمد و رفت کے وسائل فراہم کر دئے، اگر ہم نے دیہی علاقوں میں خرید و فروخت کو آسان بنا دیا، یقینی بنا دیا تو بلا شبہ پیداوار کرنے والے گاؤں باقی و آباد رہیں گے اور مشکلات بھی کم ہو جائیں گی۔ شہروں کے مضافات میں آکر لوگوں کا بس جانا دیہاتوں کی خراب حالت کا نتیجہ ہے، لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ آج ملک میں ایک بڑی مشکل مضافاتی علاقوں کی آبادی، وہاں کا کرپشن اور سماجی مسائل ہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ درآمدات کا ہے۔ البتہ بعض چیزوں کی درآمدات کو کسٹم ڈیوٹی بڑھا کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں کسٹم ڈیوٹی سے مشکل حل نہیں ہوتی۔ کچھ شعبوں میں درآمدات پر روک لگنی چاہئے۔ البتہ کچھ شعبوں میں ممکن ہے کہ آپ درآمدات کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کا انحصار ملک کے اندر ضرورتوں اور وسائل پر ہے۔ جس شعبے میں داخلی سطح پر ہم مصنوعات تیا کر رہے ہیں اور درآمدات سے ہماری پیداواری یونٹوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، وہاں پوری سختی کے ساتھ درآمدات پر روک لگائی جانی چاہئے۔ بعض اوقات شکایتیں سننے میں آتی ہیں۔ ہمیں لوگ لکھتے ہیں، کبھی رپورٹوں وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ داخلی صنعت کاروں کو شکایت ہے کہ ہم اتنی محنت سے ایک چیز بنا رہے ہیں، مگر دوسری طرف وہی چیز باہر سے بے روک ٹوک امپورٹ ہو رہی ہے۔ ان مصنوعات کا صارف کوئی حکومتی یا نیم حکومتی ادارہ ہے جو اس خیال سے کہ ملک کے اندر تیار ہونے والا مال امپورٹڈ مال جیسا نہیں ہے، اس کو خریدنے سے گریز کرتا ہے۔ یہ چیز کافی سستی ہے، آپ اسے استعمال کیجئے، اس سے پیداواری یونٹوں کی مدد ہوگی۔ اگلی دفعہ یہی یونٹیں اور بہتر مصنوعات تیار کریں گی۔ یہ بالکل واضح اور بدیہی چیز ہے۔ ورنہ اگر ہم ہمیشہ ہائی کوالٹی کی چیزیں خریدتے رہیں گے تو ملک کے اندر پیداواری یونٹیں کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گی۔

اسمگلنگ کا مسئلہ؛ ایک بڑا ہی بنیادی مسئلہ سامان کی اسمگلنگ کا ہے، اس کے خلاف پوری سنجیدگی سے کارروائی کی جانی چاہئے۔

میں نے یہاں نوٹ کیا ہے؛ بیشتر وزارتیں قومی معیشت کی تقویت میں موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ واقعی یہ حقیقت ہے۔ بہت سی وزارتوں کا بظاہر تو اقتصادی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہے، مثال کے طور پر وزارت علوم کوئی اقتصادی وزارت نہیں ہے، لیکن قومی معیشت کو تقویت پہنچانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر پوسٹ گریجوئیشن اور ڈاکٹریٹ کے لئے لکھے جانے والے تھیسس اور تحقیقات کا رخ اس طرح سے موڑیں کہ ان سے ملی معیشت کو فائدہ پہنچے، داخلی مسائل حل ہوں، داخلی مشکلات کا تصفیہ ہو۔ ہمارے یہ نوجوان آمادہ ہیں، یہ بھی بہت اہم کام ہے۔ یہی صنعت اور یونیورسٹی کو بہم متصل کرنے کا قضیہ جس پر ہم کئی سال سے تاکید کر کر رہے ہیں اور بار بار دہرا رہے ہیں، اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔ اسی طرح دیگر وزارت خانے بھی ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 44 کا نفاذ موجودہ حکومت کے دور میں اور سابقہ حکومت کے دور میں جس طرح ہونا چاہئے نہیں ہوا۔ نہ تو اس حکومت کے دور میں صحیح طریقے سے عملدرآمد ہوا اور نہ گزشتہ حکومت کے زمانے میں۔ اقتصادی ذمہ داریاں نجی سیکٹر کو سونپنے سے متعلق آرٹیکل 44 جس کے لئے شرایط کا تعین بھی ہو چکا ہے، پالیسیوں کا اعلان بھی عمل میں آ چکا ہے اور قانون بھی وضع کیا جا چکا ہے تو اب جو پسماندگی رہ گئی ہے اس کی بھی بھرپائی ہو جانی چاہئے۔ اس سے ملکی معیشت کو یقینا مدد ملے گی۔

البتہ سرمایہ کاری کی سیکورٹی کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ سرمایہ کاری کی سیکورٹی کے ایک حصے کا تعلق مجریہ سے ہے اور ایک حصے کا تعلق دیگر اداروں جیسے عدلیہ وغیرہ سے ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

البتہ اقتصادی مسائل کے تعلق سے ہم بات تو بہت کرتے ہیں۔ ان چند برسو میں، اس حقیر نے بھی، سرکاری عہدیداران نے بھی، پارلیمنٹ اور دوسروں نے بھی بہت باتیں کیں۔ مگر ضروری ہے کہ میدان عمل میں اترا جائے۔ واضح لائحہ عمل موجود ہونا چاہئے۔ شفاف لائحہ عمل ضروری ہے، حکومت کے اندر اولین اقدامات جو انجام دئے جائیں ان میں ایک یہی ہو کہ واضح اور جامع لائحہ عمل طے کیا جائے اور مختلف شعبے اپنے اپنے حصے کا کام انجام دیں۔

ملک کا نظم و نسق چلانے میں ایک اور چیز جو بہت موثر ہے وہ سائیبر اسپیس کا معاملہ ہے۔ سائیبر اسپیس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سائیبر اسپیس کے معاملے میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس سلسلے میں کوتاہیاں ہوئی ہیں، جو کام انجام پانا چاہئے تھا انجام نہیں پا سکا ہے۔ اس طرح تو نہیں چل سکتا۔ ہم یہ جملہ کہہ کر کہ 'سائیبر اسپیس کو روکا نہیں جا سکتا' اس میدان میں کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، یہ صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ آج سائیبر اسپیس صرف ہمارا درد سر تو نہیں ہے۔ ساری دنیا سائیبر اسپیس کے مسائل سے روبرو ہے۔ جن ملکوں نے نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک بنایا ہے اور سائیبر اسپیس کو کنٹرول کیا ہے، اسے اپنے مفادات کے مطابق اپنے مطلوبہ اقدار کے مطابق مینیج کیا ہے ان کی  تعداد کم نہیں ہے۔ بہترین ممالک اور طاقتور ترین ممالک نے بھی ان میدانوں میں کچھ ریڈ لائنیں طے کر رکھی ہیں، ہر چیز کے لئے راستہ کھلا نہیں چھوڑا ہے۔ امریکہ کی جانب سے سائیبر اسپیس میں جو چیزیں پھیلائی جاتی ہیں اور اس پورے عمل کے پیچھے جو ادارے کام کرتے ہیں ان کی سرگرمیوں کو یہ ممالک کنٹرول کرتے ہیں۔ ہمیں بھی کنٹرول کرنا چاہئے۔ کنٹرول کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم عوام کو سائیبر اسپیس سے محروم کر دیں۔ بالکل نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ آج ہمارے انٹرنیٹ صارفین پر غلط صحیح ہر طرح کے نظریات کا ہجوم حملہ آور رہتا ہے۔ غلط اطلاعات، نا درست معلومات، مضر اطلاعات، بعض چیزیں تو حقیقت میں اطلاعات نہیں ہوتیں بلکہ صرف اطلاعات جیسی نظر آتی ہیں، یہ سب کچھ برف کے تودے کی طرح ہمارے سروں پر گرتا ہے، ہم ایسا ہونے کا موقع کیوں دیں؟ جو چیزیں ہمارے اقدار کے منافی ہیں، ہماری قومی شناخت کے اجزا و عناصر کے برخلاف ہیں، وہ ان افراد کے ذریعے جو ہمارے بدخواہ ہیں، ملک کے اندر کیوں پھیلائی جائیں؟ ہمیں ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ سائیبر اسپیس کے فوائد اور منفعت سے تو سب بہرہ مند ہوں، انٹرنیٹ کی اسپیڈ بڑھائی جائے، یہ کام انجام دئے جائیں، جو چیزیں ملک کے نقصان میں نہیں ہیں، آپ کے نوجوان کے لئے مضر نہیں ہیں، آپ کی رائے عامہ کے نقصان میں نہیں ہیں، وہ بہت اہم ہے۔ یہ کام انجام پانا چاہئے۔ تو قومی اطلاعاتی نیٹ ورک  بہت ضروری ہے۔

آخری موضوع جس کے بارے میں میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں، امریکہ کا مسئلہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہماری بہت سی مشکلات ایسی ہیں جو سرے سے ناقابل تصفیہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی مشکل خود ہم ہیں، خود ہماری ذات ہے، یعنی خود اسلامی جمہوریہ ہے، معاملہ یہ ہے۔ نہ ایٹمی توانائی کوئی بڑا مسئلہ ہے اور نہ انسانی حقوق کوئی ایسی مشکل چیز ہے، بلکہ امریکہ کو مشکل خود اسلامی جمہوریہ سے ہے۔ امریکیوں کو یہ برداشت ہی نہیں ہے کہ کوئی حکومت تشکیل پائے، کوئی نظام وجود میں آئے، وہ بھی ایران جیسی حد درجہ اہم سرزمین پر، ایران جیسی دولتمند سرزمین پر ایسی حکومت تشکیل پائے جو امریکہ جیسی طاقت کے فرمان کو خاطر میں نہ لائے، بلکہ مختلف مسائل کے تعلق سے اثبات یا نفی کا موقف اپنی مرضی سے اختیار کرے۔ امریکی اس کے خلاف ہیں، اس کے مخالف ہیں۔ وہ اس ٹکراؤ کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟ لہذا امریکہ کے ساتھ ہماری مشکلات حل ہونے والی نہیں ہیں، انھیں ہمارے نظام سے ہی مشکل ہے۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اسلامی نظام سے قطع نظر، امریکیوں کو ہماری خود مختاری بھی ہضم نہیں ہونے والی ہے۔ یعنی مثال کے طور پر یہاں کوئی غیر اسلامی نظام ہوتا اور خود مختار رہنا چاہتا تو امریکیوں کو یہ بھی برداشت نہ ہوتا۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک کا تجربہ آپ کے سامنے ہے۔ اس تحریک میں ڈاکٹر مصدق امریکیوں کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے، بلکہ ان سے عقیدت بھی رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ برطانیہ سے بے شک ان کے تعلقات خراب تھے۔ ڈاکٹر مصدق خود مختاری کی طرف مائل تھے۔ مگر ڈاکٹر مصدق کے خلاف جس نے بغاوت کروائی وہ برطانوی نہیں بلکہ امریکی تھے، البتہ اس کی پشت پر برطانیہ کی خفیہ ایجنسی اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی دونوں تھیں۔ تو یہ ہے امریکہ کی حقیقت۔ یعنی وہ ایسی حکومت کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہوا جو دینی حکومت بھی نہیں تھی، انقلابی حکومت بھی نہیں تھی، تیل کو قومیانے کی تحریک چلانے والی حکومت انقلابی حکومت نہیں تھی، صرف برطانیہ کے تسلط سے ملک کو نکالنا چاہتی تھی اور اس کا یہ خیال تھا کہ امریکی اس مہم میں اس کی مدد کر دیں گے۔ امریکہ دوسرے ممالک کی خود مختاری کا بھی دشمن ہے۔ یہ ملک (ایران) بہت پرکشش سرزمین ہے، اسے آپ بخوبی سمجھ لیجئے۔ البتہ آپ سب واقف ہیں، تاہم اپنے علم میں مزید اضافہ کیجئے۔ ہمارا ملک ایک پرکشش ملک ہے، ہمارا محل وقوع بہت اہم ہے، حیاتیاتی اعتبار سے ہمارا یہ علاقہ بہت اہم ہے، آب و ہوا کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے، ہمارے زیر زمین وسائل بہت اہم ہیں۔ میں نے ایک موقع پر اسی اجلاس میں کہا تھا کہ ہمارے ملک کی آبادی دنیا کی آبادی کا ایک فیصدی ہے۔ تاہم دنیا کے اصلی دھاتوں کے بنیادی وسائل و ذخائر ہمارے ملک میں ہیں۔ تیل اور گیس کے ذخائر سے الگ ہٹ کر بھی ہمارے یہاں بہت عظیم ثروت نہفتہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس غیر معمولی افرادی قوت ہے۔ تو یہ ملک بڑا پرکشش ملک ہے۔ جو طاقتیں دیگر علاقوں میں جارحیت کی عادی ہیں، اتنے تر نوالے سے آسانی سے صرف نظر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم یہ لقمہ نگلنے کا موقع انھیں نہ دیں، یقینا اسلامی انقلاب انھیں ہرگز اس کا موقع نہیں دے گا۔ دوسری ساری باتیں صرف بہانے ہیں۔ انسانی حقوق کا قضیہ ایک بہانہ ہے، علاقے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام بھی جو ہمارے خلاف امریکیوں کے حالیہ نعروں میں نمایاں ہے، صرف بہانہ جوئی ہے، دہشت گردی بھی بہانہ ہے، اسی طرح باقی باتیں جو وہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ خود ہی دہشت گرد اور دہشت گردوں کی پرورش کرنے والے ہیں، وہ صیہونی حکومت کے حامی ہیں جو روز اول سے دہشت گردی کی بنیاد اور دہشت گردی کا سرچشمہ ہے، دہشت گردی کی مدد سے ہی وہ وجود میں آ سکی ہے، قتل عام اور ظلم کی مدد سے وجود میں آئی ہے، اور یہ اسی حکومت کے حامی ہیں۔ لہذا ساری باتیں صرف بہانہ جوئی ہے۔ وہ اسلامی نظام سے مفاہمت کرنے والے نہیں ہیں۔ امریکہ سے کوئي مفاہمت نہیں ہو سکتی، لہذا اس بارے میں مبہم اور ایسی بات نہیں کرنا چاہئے جس کا الگ الگ مفہوم نکالا جا سکتا ہو اور کچھ لوگوں کو غلط مطلب نکالنے کا موقع مل جائے۔ واضح اور دو ٹوک انداز میں بات کرنا چاہئے۔

خود امریکی بھی سمجھ لیں کہ اسلامی جمہوریہ اپنے بنیادی موقف اور اصولوں سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ ظلم کی مخالفت کرنا ہم کبھی بند نہیں کریں گے، فلسطین کی حمایت کرنا کبھی نہیں چھوڑیں گے، اپنے حقوق کی لڑائی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں، خوش قسمتی سے ہمارا انقلاب زندہ ہے، انقلاب پر جوانی ہے۔ یہ لوگ اس انتظار میں تھے کہ انقلاب بوڑھا ہو جائے۔ ہم تو بوڑھے ہوں گے لیکن انقلاب پر ضعیفی نہیں آئے گی۔ انقلاب بحمد اللہ نشاط و جوانی، توانائی و فعالیت اور ارتقا کے اوج پر ہے۔ اگر آپ ان انقلابی نوجوانوں کو دیکھیں تو تصدیق کریں گے کہ انقلاب کے اندر زائش کا عمل جاری ہے، انقلابی نوجوان پیدا کر رہا ہے، انقلاب میں مسلسل نئے اضافے ہو رہے ہیں۔ اس سے بحمد اللہ ملت کو اچھے مستقبل کی نوید ملتی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ ہماری قوم کی حالت روز بروز اور بہتر ہو اور وطن عزیز تمام خطرات کو بنحو احسن دفع کر سکے۔

پالنے والے! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمیں اسلامی انقلاب کا قدرداں بنا۔ پروردگار! محمد و آل محمد کے صدقے میں اس نظام کی تقویت کے لئے بہنے والے شہیدوں کے خون کا ہمیں قدرداں بنا۔ پروردگار! ہمیں ہمارے فرائض سے آگاہ اور اس  پر عمل پیرا کر۔ پروردگار! ماہ رمضان کے ان باقی ماندہ ایام میں، خاص طور پر شبہائے قدر میں ہم پر لطف و رحمت کی نظر فرما۔ پروردگار! محمد و آل محمد کے صدقے میں ملت ایران کو تمام میدانوں میں فتحیاب فرما۔ پروردگار! ہمیں روحانی وادیوں میں اور مادی میدانوں میں کامیابی و کامرانی عطا فرما۔ پروردگار! امام خمینی کی روح مطہر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، شہدا کی ارواح طیبہ کو ہم سے خوشنود فرما، امام زمانہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة‌ الله و برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے تقریر کی۔

۲) من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1 صفحہ 490 دعائے ابو حمزہ ثمالی

۳)  سوره‌ زمر، آیت نمبر ۲۲کا ایک حصہ؛ «...تو وائے ہو ان پر جو سخت دلی کی وجہ سے ذکر خدا نہیں کرتے، یہی لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔

۴) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۱۳ کا ایک حصہ؛ «تو عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔...»

۵) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۷۴ کا ایک حصہ؛ «پھر تمہارے دل پتھر کی طرح سخت ہو گئے یا اس سے بھی زیادہ سخت، کیونکہ کچھ پتھروں میں شگاف پڑ جاتا ہے اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے۔...»

۶) کافی، جلد ۲، صفحہ ۳۲۹

۷) تحف ‌العقول، صفحہ ۲۹۶؛ «کوئی بھی بندہ سخت دلی سے زیادہ دشوار سزا میں مبتلا نہیں ہوا۔»

8) ڈونلڈ ٹرمپ

9) ملک بھر کے کچھ یونیورسٹی طلبہ اور طلبہ یونینوں کے نمائندوں سے مورخہ 7 جون 2017 کا خطاب

10)  ایٹمی ٹیکنالوجی کی نمائش کا معائنہ مورخہ 15 جون 2006