بسم الله الرّحمن الرّحیم
آپ کا خیر مقدم ہے۔ دینی درسگاہوں سے تعلق رکھنے والے ہم جیسے افراد کے یہاں ایک نقص انفرادی طور پر کام کرنا ہے۔ یہاں تک کہ ان مواقع پر بھی جہاں ہم میں سے کچھ لوگ ایک ساتھ جمع بھی ہیں، جیسے کسی ایک درس میں ایک ساتھ شریک ہو رہے ہیں، مگر ہر طالب علم انفرادی طور پر اپنا علمی کام کرتا ہے۔ ہمارا اجتماعی کام بس یہ ہوتا ہے کہ دو یا تین لوگ درس کے بارے میں بیٹھ کر مباحثہ کر لیتے ہیں، علمی سرگرمیوں میں اور مشترکہ علمی ثمرات حاصل کرنے کے عمل میں دینی درسگاہوں سے وابستہ افراد کے اندر مشترکہ تعاون اور ہم خیالی رائج نہیں ہے۔ جبکہ آپ دنیا میں دیکھئے، خاص طور پر مغربی ممالک پر نظر ڈالئے تو صورت حال ایسی نہیں ہے۔ وہاں مشترکہ علمی سرگرمیاں کثرت سے انجام دی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو کوئی ایسا پروجیکٹ تیار کیا جاتا ہے جو درجنوں چھوٹے اجزا پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر جز کسی ایک ٹیم کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ پھر کچھ لوگ ان ٹیموں کی علمی کاوشوں کے نتائج کو یکجا کرتے ہیں اور سب کو ملا کر اپنا مطلوبہ پروجیکٹ پورا کر لیتے ہیں۔ یعنی اس کی منصوبہ بندی ہی اسی نہج پر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس انداز سے کام کیا جائے گا تو اس کے نتائج اور ثمرات بہت بہتر اور زیادہ ہوں گے۔ خوشی کا مقام ہے کہ ہمارا دینی علوم کا مرکز اس سمت میں بڑھ رہا ہے۔ آپ کا جو یہ کام ہے وہ اسی تعاون اور اجتماعی کاوش کا مصداق ہے۔ اس انداز سے کام کیا جائے کہ اس پر حقیقت میں تعاون کے لفظ کا اطلاق ہو۔ یعنی سب ایک دوسرے سے تعاون کریں، اذہان ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک اچھا نتیجہ سامنے آئے۔ یہ تو رہا ایک نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آپ کے اس سیمینار میں دو اہم حصے ہیں۔ ایک قرآن اور دوسرے بشریات (humanities) قرآن کا مسئلہ، قرآن کی مرجعیت اور اس سے رجوع کرنا، گوناگوں فکری، عملی، سماجی، سیاسی، حکومتی مسائل وغیرہ کے سلسلے مین قرآن سے جواب حاصل کرنا بہت اہم ہے۔ واقعی اس میدان میں ہم نے بہت کم کام کیا ہے، واقعی کوتاہی ہوئی ہے، جو لوگ اہل فکر و تدبر ہیں ان کی طرف سے قرآن کے بارے میں فکر و تدبر میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم نے آیات الہیہ سے، گوناگوں میدانوں میں آیات الہیہ کی تعلیمات سے خود کو بہت محروم رکھا۔ اس اہم موضوع کے سلسلے میں قرآن کو مرجع قرار دینا اپنے آپ میں بہت اہم اور کلیدی چیز ہے۔ بشریات، اس پر توجہ، اس پر خاص اعتنا جس کے بارے میں کئی سال سے باتیں ہو رہی ہیں، ایک اہم مسئلہ ہے۔ آپ کا کام ہے ان دونوں بنیادی چیزوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور یہ میری نظر میں بہت اہم ہے، بہت اچھی بات ہے کہ اس میدان میں جہاں تک ممکن ہو کام کیا جائے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ آج ملک کے اندر ایسی جگہیں اور مراکز موجود ہیں جو بشریات کے میدان میں کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے اندر بھی اور اس کے باہر بھی بہت سے شعبے ہیں جو بشریات کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد بھی یہی ہے، البتہ انھوں نے اپنی اس علمی کاوش کا نام تو قرآن و بشریات نہیں رکھا ہے لیکن وہ بشریات سے متعلق موضوعات و مسائل کو اسلامی تعلیمات کی جانب لے جانے کا کام کر رہے ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ یعنی ان مراکز کے ساتھ علمی تعاون ہونا چاہئے۔ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی فکری کاوشوں کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں۔ یعنی اس وقت کچھ لوگ ایسے ہیں جو کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں، البتہ مجھے یہ نہیں معلوم اور جناب عالی کی رپورٹ میں بھی اس کا ذکر نہیں تھا کہ ان گوناگوں مراکز سے آپ کا رابطہ اور تعاون ہے یا نہیں، اگر ہے تو بہت بہتر اور اگر نہیں ہے ضرور انھیں تلاش کیجئے، ان مراکز کو اور ان افراد کو تلاش کیجئے اور ان سے تعاون کیجئے، ان کے تجربات سے استفادہ کیجئے، انھوں نے کافی کام کیا ہے۔ یہ دوسرا نکتہ تھا۔
ایک اور اساسی نکتہ یہ ہے کہ بشریات کا آغاز دنیا میں دو تین صدیوں سے ہوا ہے اور کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں فکری کام انجام دیا ہے، علمی کام ا نجام دیا ہے، کچھ نئے نظریات قائم کئے ہیں، ان میں بعض علوم کی پیدائش تو شاید 100 سال پرانی بھی نہیں ہے بلکہ کچھ عشروں سے ان پر کام ہو رہا ہے۔ یعنی بشریات میں کچھ موضوعات ایسے ہیں جو ہمارے لئے بیرون ملک سے آنے والے علوم کا درجہ رکھتے ہیں، فلسفہ اور ادبیات وغیرہ جن کا تعلق خود ہم سے ہے، ان سے الگ ہٹ کر کچھ چیزیں ہیں جو وجود میں آئی ہیں، نئے عناوین پیدا ہوئے ہیں، ان پر کام کیا گيا ہے، غور و فکر کیا گیا ہے، تنقیدی جائزہ لیا گيا ہے، اس میں رد و بدل کیا گيا ہے۔ یہ سارے کام انجام دئے گئے ہیں۔ اب آپ اس میدان میں وارد ہوکر ان علوم و موضوعات کو غیر دینی اور دین مخالف مسائل سے جدا کرنا اور انھیں دینی و قرآنی سرچشمے سے متصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ دوسرے افراد نے اس میدان میں جو علمی کام کیا ہے اس پر مکمل عبور اس مہم کے لئے ضروری ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ دوسروں نے ان میدانوں میں کیا کام کیا ہے۔ انھوں نے جو تحقیقی کام انجام دیا ہے، جو پیشرفت حاصل کی ہے اس سے آگاہی ضروری ہے۔ یہ کام انجام پانا چاہئے۔
آپ نے ذکر کیا کہ 900 یا 800 مقالے یا مقالوں کے خلاصے سیمینار کے لئے موصول ہوئے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ تعداد قابل توجہ ہے، تاہم تعداد سے زیادہ اہمیت کوالٹی کی ہے، یعنی آپ آذر مہینے (نومبر دسمبر) میں جو سیمینار منعقد کرنے جا رہے ہیں (2)، اس میں بیس یا تیس پرمغز اور نیا راستہ پیش کرنے والے مقالے منتخب کئے جائیں جو ان میدانوں میں فکری و علمی کام کرنے والوں کے لئے مددگار واقع ہوں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ آج عالم اسلام میں بھی ان میدانوں میں کچھ مفکرین کام کر رہے ہیں۔ دنیائے عرب میں کچھ لوگ ہیں جو علمی کام کر رہے ہیں، بر صغیر میں، ہندوستان میں ایسے افاضل موجود ہیں جو ان میدانوں میں کام کر رہے ہیں، ان سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے آپ کا یہ سیمینار بین الاقوامی ہے۔ دنیائے اسلام کے مفکرین سے تعاون اور یگانگت کا جو کام آپ کر سکتے ہیں وہ ہماری بہت سی یونیورسٹیاں اور مراکز نہیں کر سکتے۔ یعنی یہ خصوصیت 'جامعۃ المصطفی' کے اندر ہے کہ وہ کسی بھی موضوع کو بین الاقوامی سطح پر زیر بحث لا سکتی ہے اور اس سے استفادہ کر سکتی ہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ اسے واقعی بروئے کار لانا چاہئے۔ عالم اسلام میں ایسے افراد موجود ہیں۔ کبھی کبھی شمالی افریقا سے یا اسی مغربی ایشیا کے علاقے سے، عرب ممالک میں لکھی جانے والی کچھ کتابیں لاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ بڑے اچھے افکار ان میں پیش کئے گئے ہیں۔ یعنی واقعی فکری کام ہوا ہے، محنت کی گئی ہے، مطالعہ کیا گيا ہے اور اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم ان میں سے بہت سی چیزوں سے بے خبر ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ ہمارے یہاں انجام پانے والے علمی کاموں سے بے خبر ہیں۔ یعنی انقلاب کے بعد اس تیس چالیس سال کے عرصے میں بہت اچھا کام ہوا ہے، البتہ ہم اتنے پر مطمئن نہیں ہیں، ہمیں اب بھی کمیوں کا احساس ہے، جناب عالی نے بھی ذکر کیا اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے یہاں کچھ کوتاہی ہوئی ہے۔ مگر اس کوتاہی کی حالت میں بھی بہت اچھے کام انجام پائے ہیں۔ ہمارے پاس بہت اچھی کتابیں ہیں، بڑا قیمتی کام انجام پایا ہے۔ انسان قم کے دینی علوم کے مرکز اور دوسری دینی درسگاہوں کو دیکھتا ہے تو ایسے مقالے، ایسی کتابیں اور ایسے دروس نظر آتے ہیں کہ جن میں سے بعض واقعی بہت اہم ہیں۔ انھیں اس کی خبر نہیں ہے۔ عالم اسلام میں عام طور پر لوگوں کو ہم نے جو کام یہاں انجام دئے ہیں ان کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ بین الاقوامی تعاون میری نظر میں اس سیمینار کا بہت اہم پہلو ہے۔ دو تین چیزوں کی تجویز جناب عالی (3) نے دی کہ میں ان کے بارے میں کچھ عرض کروں، سر دست میرے ذہن میں کوئی نکتہ نہیں جو اس بارے میں عرض کروں تاہم آذر مہینے (نومبر دسمبر) تک ابھی خاصا وقت ہے، بحمد اللہ اچھی خاصی مہلت ہے، اگر کوئی چیز ذہن میں آئی تو میں بعد میں عرض کروں گا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ کو کامیاب فرمائے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج قم کے نوجوان افاضل اور جدید نہج پر سوچنے والے مفکرین کے ذریعے جو کام انجام دیا جا رہا ہے وہ بہت قیمتی ہے، بہت زیادہ ہے۔ میں جب دیکھتا ہوں، جائزہ لیتا ہوں جذبات کا، بیان کی جانے والی باتوں یا انجام دئے جانے والے کاموں کا تو واقعی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ قم میں اس قسم کی باتیں معدودے چند افراد کے ہی ذہنوں میں آتی تھیں، یعنی ایسا تو نہیں تھا کہ ان موضوعات کے بارے میں لوگ خالی الذہن رہے ہوں، لیکن یہ سب بالکل خواب کی مانند تھا۔ واقعی انسان یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ یہ چیزیں قم میں اور دوسری جگہوں پر دینی علوم کے مراکز میں رو بہ عمل آئیں۔ مگر خوش قسمتی سے آج ان پر عمل ہو رہا ہے، آج وسیع پیمانے پر لوگ اس کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بے شک اس میں کچھ کمیاں بھی ہیں، خامیاں بھی ہیں۔ خود ہم لوگ، دینی علوم سے وابستہ شخصیات بھی بعض چیزوں پر بجا تنقید کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں جو کچھ ہوا ہے وہ بہت اہم ہے۔ بہرحال اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے، آپ کی مدد فرمائے کہ آپ اس کام کو بنحو احسن، بہترین شکل میں، بامعنی ترین انداز میں اور پیشکش کے لئے زیادہ بہتر صورت میں انجام دیں اور ہم سب اس سے استفادہ کریں۔
و السّلام علیکم و رحمة الله
۱) یہ ملاقات اجتماعی ملاقاتوں کی صورت میں انجام پائی، آغاز میں قم کے دینی علوم کے مرکز کے مدیر حجت الاسلام و المسلمین علی رضا اعرافی اور سیمینار کے کنوینر حجت الاسلام محمد علی رضائی اصفہانی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) سیمینار کے کنوینر کے اعلان کے مطابق اس کا انعقاد 30 نومبر 2017 کو ہونا ہے۔
۳) سیمینار کے کنوینر