بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

برادران و خراہران گرامی خوش آمدید! اس حسینیہ میں منعقد ہونے والے بڑے ممتاز اور نمایاں پروگراموں میں سے ایک اس دن کا پروگرام ہے جب آپ عزیز اہل آذربائیجان اور اہل تبریز یہاں تشریف لاتے ہیں، ہر سال 29 بہمن (مطابق 18 فروری) کی  تاریخ۔ آذربائیجان کا مقام بہت بلند ہے، وہاں کے عوام کا مرتبہ بلند ہے، وہاں کے واقعات بڑے اہم ہیں، تبریز اور آذربائیجان کے عزیز عوام کی روش اور طریقہ ہمیشہ خلاقانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور نئی راہیں تلاش کرنے اور مبہوت کن واقعات رقم کرنے کا رہا ہے۔ اللہ کی رحمت ہو آپ پر لطف خدا کا دائمی سایہ ہو آپ پر۔

یہ ایام اس سال حضرت صدیقہ کبری فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام شہادت سے متصل ہیں، اس بابت بھی چند جملے عرض کرتا چلوں۔ البتہ جو پروگرام پیش کیا گیا وہ بہت اچھا موثر اور مفید تھا (2)۔ میں بس ایک نکتہ عرض کروں گا اور وہ یہ کہ حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کی فضیلت پر تمام مسلمان اتفاق رائے رکھتے ہیں، اس میں شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اہل سنت اور شیعہ علما کی کتابوں میں یہ حدیث منقول ہے؛ فَاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسَاءِ اَهلِ‌ الجَنَّة (۳) یہ فضیلت «سَیِّدَةِ نِساءِ العالَمین» (۴) ہونے کی فضیلت سے برتر ہے۔ یعنی بہشتی عورتوں کی سردار۔ بہشت میں کون سے لوگ جاتے ہیں؟ سب سے برتر خواتین، سب سے بلند مرتبہ خواتین، سب سے مومن خواتین، سب سے مجاہد خواتین، شہید خواتین، وہ عورتیں جن کا ذکر قرآن میں اللہ تعالی نے بڑی عظمت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ ساری خواتین جنت میں جمع ہوں گی اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا «سَیِّدَةُ نِسَاءِ اَهلِ‌ الجَنَّة» ہیں۔ یہ بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے۔ شجاعت کا سبق، ایثار کا سبق، دنیا میں زاہدانہ زندگی کا سبق، معرفت کی تعلیم اور معرفت کو دوسروں تک منتقل کرنے اور لوگوں میں عام کرنے کا سبق، بشریت کے دانشور استاد کے درجے پر فائز ہونا، یہ تمام بشریت کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ملنے والے سبق ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ آپ سب، آذربائجان کے تمام عوام، تمام ملت ایران اور سارے مسلمان شہزادی کونین کی برکتوں سے بہرہ مند ہوں۔

اٹھارہ فروری کے واقعے کی عظمت در حقیقت ہمارے ان الفاظ اور اس توصیف سے بیان نہیں ہوتی۔ اٹھارہ فروری کا واقعہ بہت عظیم واقعہ ہے۔ بے شک جدوجہد کی تحریک کا آغاز 1978 میں قم سے ہوا اور تبریز کے بعد بھی کئی جگہوں پر واقعات ہوئے لیکن میں پوری ذمہ داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر سنہ 1978 میں اٹھارہ فروری کا واقعہ نہ ہوا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ 8 جنوری کو قم میں جو واقعہ ہوا وہ فراموش کر دیا جاتا اور وہ سلسلہ وار واقعات بھی رونما نہ ہوتے جو رونما ہوئے۔ یعنی ملک کا مستقبل ہی کچھ اور ہوتا۔ اہل تبریز نے اٹھارہ فروری کے واقعات کے ذریعے، اپنے قیام کے ذریعے، اپنے صحیح ادراک کے ذریعے اور بر وقت اور بجا اقدام کے ذریعے اس عظیم سیلاب کو وجود عطا کیا جو گیارہ فروری 1979 کو اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی پر منتج ہوا۔ اس واقعے کی عظمت کا اس طرح اندازہ کیجئے۔

میں اس سال 11 فروری کے جلوسوں کی طرف بھی اشارہ کرتا چلوں۔  واقعی 11 فروری کا پروگرام تبریز میں بھی، دوسرے شہروں میں بھی، تہران میں بھی اور پورے ملک میں بھی بالکل منفرد پروگرام تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو 39 سال گزر جانے اور چالیسویں سال کے آغاز کے موقع پر یہ عظیم عوامی سیلاب کسی معجزے کی مانند تھا۔ دنیا میں کہیں بھی اس کی نظیر نہیں ہے۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد تقریبا چار عشروں کے بعد انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے لئے حکومتی ادارے نہیں بلکہ خود عوام میدان میں آئیں، سڑکیں چھلک پڑیں، وہ خود نعرے لگائیں، اپنی موجودگی کا اعلان اور اپنے انقلاب کا دفاع کریں، یہ چیز تو ہم جتنے بھی انقلابات سے واقف ہیں جو ان گزشتہ دو تین صدیوں میں رونما ہوئے کسی بھی انقلاب میں نہیں نظر آئی۔ اس سے پہلے کے انقلابات میں تو بدرجہ اولی یہ چیزیں نہیں تھیں۔ آج بھی ساری دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ یہ ایران کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ آپ سے مختص ہے۔ اس سال دشمنی کے گوناگوں مسائل، بیرون ملک سے، ملک کے اندر سے، امریکہ سے اور ہمارے بعض ناخلف اور عہد شکن ہمسایہ ممالک کی طرف سے انجام پانے والے معاندانہ اقدامات کی وجہ سے عوام کا جوش و خروش اور بھی بڑھ گيا اور سب میدان میں اترے اور اس سال ایک منفرد جشن انقلاب کا منظر منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہے۔

یہ عبارت جو آپ نے یہاں پر پڑھی؛ «انقلابین پاک عَلَمی قیرخ ایل اولوب مَأمَنی ‌میز» (۵) یہ عین حقیقت ہے۔ چالیس سال سے عوام الناس کی پناہ گاہ یہی انقلاب کا بلند پرچم رہا ہے۔ آپ کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ ملت ایران کے دلی جذبے کی ترجمانی ہے، آپ نے بالکل درست فرمایا۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جب عوام ملک میں در پیش بعض مسائل پر معترض ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کسی چیز پر اعتراض نہیں ہے، ہم عوام کے اعتراضات سے پوری طرح واقف ہیں۔ عوام کے گلے شکوے کی ہمیں خبر ہے۔ ہم سے بھی وہ اپنے گلے شکوے بیان کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی بیان کرتے ہیں، ہمیں اس کی بھی خبر ملتی ہے۔ لیکن جب انقلاب اور اسلامی نظام کی بات آ جاتی ہے تو پھر عوام اس انداز سے میدان میں اترتے ہیں، اس انداز سے عمل کرتے ہیں۔ ایک انقلابی آگاہی، ایک سیاسی بلوغ نظر ملت ایران میں بحمد اللہ موجود ہے جس کی مدد سے وہ 'امت و امامت' کے انقلابی نظام اور بیورو کریسی کے سسٹم کے درمیان فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ عوام کو بعض چیزوں پر اعتراض بھی ہوتا ہے لیکن وہ اس نظام کی اصلی ماہیت کا جو انقلاب کے ذریعے وجود میں آیا ہے اپنے پورے وجود سے دفاع کرتے ہیں۔ ہم جو یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے عوام کو اعتراض ہو تو اس سے مراد صرف حکومت پر اعتراض، عدلیہ پر اعتراض یا پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں ہے، ممکن ہے اس حقیر کے بارے میں بھی ان کے اعتراضات ہوں۔ اس اعتراض میں اور اسلامی نظام کے لئے، انقلابی نظام کے لئے 'امت اور امامت' کے نظام کے لئے، اس نظام کے لئے استقامت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی تضاد نہیں ہے جو اس ملت کے انقلاب سے، اس ملت کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہے اور جس کے لئے اس قوم نے ان چالیس برسوں میں لاکھوں شہیدوں کی قربانیاں پیش کی ہیں۔

تاریخی واقعے کی مناسبت سے آپ عزیزوں سے کہ جو طویل سفر طے کرکے یہاں آئے ہیں اپنی اس ملاقات میں چند باتیں دامن وقت کی گنجائش کے اعتبار سے بیان کرنا چاہوں گا۔ آپ ان عزیزوں میں سے ہیں جن سے اس حقیر کو دل کی گہرائیوں سے بے اختیار محبت و الفت ہے۔ یعنی جو خلوص آپ کے اندر ہے، جو حمیت آپ کے اندر ہے، یہ واضح انقلابی جذبہ جو آپ کے اندر موجزن ہے اور صاف طور پر محسوس ہوتا ہے، صرف زبان کی حد تک نہیں بلکہ انسان عمل میں اسے دیکھتا ہے وہ کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے۔ یہ حقیر بھی انقلاب کے بعد پہلی دفعہ جب تبریز پہنچا یا آذربائیجان گیا اور واپس لوٹ کر آیا، میرے کئی سفر ہوئے تھے، تو میں نے واقعی یہ محسوس کیا۔ اسی وقت میں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ بات کہی تھی، میں صدارت کے زمانے میں تبریز گیا تھا واپس آنے کے بعد میں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے کہا کہ تبریز ایک الگ ہی چیز ہے۔ تبریز کے عوام کے اندار انسان ایک الگ ہی جوش و جذبے سے سرشار طوفانی انقلابی حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں پوری ایرانی قوم کے اندر انقلابی جوش و خروش تھا لیکن تبریز کی بات ہی کچھ اور تھی۔ آج یہاں ہمارے سامنے عزیز تبریزی اور آذربائیجانی عوام، آذربائیجان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے عوام موجود ہیں تو چند باتیں عرض کر دوں البتہ میرا خطاب پوری ملت ایران سے ہے، یہ خطاب سب سے ہے۔

ایک بات تو مجھے انقلاب اور انقلاب کی اصلی کارکردگی کے بارے میں کہنی ہے، ایک نکتہ انقلاب کو لاحق ممکنہ خطرات کے بارے میں بیان کرنا ہے، ایک نکتہ اگر وقت بچا تو ان ترجیحات کے بارے میں بیان کرنا ہے جو اس دور کے لئے انقلاب نے معین کی ہیں اور جن کی نشاندہی کی ہے اور جن کا ہمیں خیال رکھنا ہے۔ ایک بات مجھے انقلاب کے مستقبل کے بارے میں بھی کہنا ہے۔ یہ اہم باتیں ہیں، یہ ضروری باتیں ہیں۔ ان باتوں کو آپ کے درمیان بیان کرنا جو حقیقی معنی میں انقلابی اور انقلاب کے طرفدار ہیں، میری نظر میں بہت مناسب اور بجا ہوگا۔ یعنی واقعی اس وقت بہترین چیز یہی ہے کہ آپ جیسے افراد کے بیچ اس قسم کے نکات کو بیان کیا جائے۔

انقلاب اور انقلاب کی کارکردگی کے بارے میں کچھ باتیں؛ انقلاب بہت عظیم واقعہ تھا اور میرا خیال تو یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو چالیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہم اس انقلاب کے تمام پہلوؤں اور اس انقلاب کی عظمت کو کما حقہ سمجھ نہیں سکے ہیں۔ بعد میں لوگ جب بیٹھ کر انقلاب کے اس پورے عمل کو دور سے دیکھیں گے تو اور بہتر انداز میں سمجھ میں آئے گا کہ یہ انقلاب کیا تھا، اس نے کیا کیا اور کیا ہوا؟! انقلاب کی کاکردگی بہت وسیع ہے۔ انقلاب نے ایران کی جو خدمت کی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی ایک طولانی فہرست ہے۔ اب دشمن یہ چاہتے ہیں کہ انکار کریں لیکن یہ بڑے واضح حقائق ہیں۔ تاہم انقلاب نے سب سے اہم اصولی کام جو کیا وہ طاغوتی نظام کو عوامی نظام میں تبدیل کرنا تھا۔ یہ انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جو اسلامی تعلیمات سے الہام لیتے ہوئے انجام دیا گيا، ادھر ادھر کے نظریہ پرداز مکاتب فکر سے متاثر ہوکر نہیں جن کی باتوں میں سو عیب اور تضادات پائے جاتے ہیں۔ اسلام کی روشنی میں اور قرآن کی روشنی میں۔ اَّلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَالَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوت (۶)، نظام الہی طاغوتی نطام کے مد مقابل ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب نے نظام الہی کو دینی جمہوری نظام کے روپ میں ڈھالا۔ اسلامی جمہوریہ کا یہی مطلب ہے۔ اس نے طاغوتی نظام کو عوامی نظام میں تبدیل کر دیا، یہ سب سے اہم کام تھا۔

جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ مرکز عوام ہیں، اصلی مرکزیت عوام کو ہے، صرف حکمراں کے تعین میں نہیں، اس لئے کہ جیسے ہی ہم کہتے ہیں جمہوریت سب کا ذہن پولنگ بوتھ کی جانب منتقل ہو جاتا ہے، ویسے یہ صحیح بھی ہے، صدر جمہوریہ کا انتخاب، ماہرین اسمبلی کا الیکشن جو در حقیقت رہبر انقلاب کا انتخاب کرتی ہے، مختلف اداروں کی تشکیل، سب کچھ عوام کے ہاتھوں انجام پاتا ہے، یہ بہت فیصلہ کن ہے، یہ بالکل صحیح ہے لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ جو چیز زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت سے یہ سمجھا جائے کہ عوام تمام امور زندگی میں صاحب رائے، صاحب تدبیر اور صاحب اختیار ہیں۔ اس صورت حال کے بالکل برخلاف جو انقلاب سے پہلے اس ملک میں صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ صدیوں سے یہ ملک سلاطین اور طاغوتوں کی منمانی برداشت کر رہا تھا۔ عوام کا کوئی رول نہیں تھا۔ طاغوت اور ان کے حلقہ بگوش افراد ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ یعنی مکمل مطلق العنانیت تھی۔ عوام بس اس لئے تھے کہ یہ طاغوتی عناصر ان پر حکومت کریں۔ ظاہر ہے جو حکومت کرنا چاہتا ہے اسے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جن پر حکومت کرے، تو وہ افراد یہی عوام تھے۔ عوام کو اپنے پاس رکھتے تھے اس لئے کہ ان پر راج کریں۔ قاجاریہ دور کے وسط سے ایک اور بیماری بھی لاحق ہو گئی۔ وہ بیماری تھی غیر ملکی تسلط، بیرونی اثر و نفوذ اور غیر ملکی استعمار۔ اس سے  پہلے یہ چیز نہیں تھی۔ مثال کے طور پر صفوی دور حکومت میں، نادر شاہ اور دوسروں کے زمانے میں مطلق العنانیت تو تھی لیکن بیرونی تسلط نہیں تھا۔ لیکن قاجاریہ دور کے اواسط سے، ناصر الدین شاہ کے دور حکومت کے اواخر سے لیکر بعد تک بیرونی تسلط بھی رہا۔ یعنی ٹھیک 1800 عیسوی سے ایران میں برطانیہ کا اثر و نفوذ شروع  ہوا۔ حکومت ہندوستان کا نمائندہ جو برطانوی حکومت کا نمائندہ تھا ملک میں آیا، میں نے بعض تقاریر میں اشارتا ذکر کیا ہے اور بعض چیزوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ ملک میں موجود ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ ہی بیرونی استعمار بھی شروع ہو گيا۔ طاغوتی حکمرانی کے ساتھ ہی بیرونی غلبہ بھی شروع ہو گیا۔ نوبت یہ آ گئی کہ قاجاریہ سلسلہ حکومت کو جو انگریزوں کے دباؤ میں کام کرتا تھا انگریزوں کے ہی ہاتھوں ختم کر دیا گيا اور نیا سلسلہ حکومت شروع ہو گیا۔ رضاخان کو انگریزوں نے اقتدار میں پہنچایا۔ پھر کچھ وجوہات سے اسے ہٹا کر اس کے بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا۔ اسی بيچ میں امریکی آ گئے اور سب کچھ انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہزاروں امریکی مشیر آ پہنچے۔ جمہوریت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جمہوریت مطلق العنانیت کا سد باب کرتی ہے اور بیرونی غلبے کو بھی روکتی ہے، یہ ہوتی ہے جمہوریت۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا یہ جمہوریت صرف ملک کے سیاسی امور چلانے کے لئے نہیں ہوتی، شہروں اور دیہی علاقوں کو خدمات دینے کے لئے ہوتی ہے، ملک کے اندر بڑے کاموں کی انجام دہی کا جذبہ بیدار کرنے کے لئے ہوتی ہے، آپ نے اس کا نمونہ اور حقیقی مصداق پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل کی شکل میں دیکھا، تعمیراتی جہاد کی شکل میں دیکھا، رضاکار فورس کی تشکیل کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ یکبارگی ملک کے اندر تعمیراتی جہاد کے نام سے ایک حقیقت نمودار ہوتی ہے اور چند سال کے اندر کتنے عظیم کام انجام پاتے ہیں! اسی طرح پاسداران انقلاب فورس یا رضاکار فورس بھی ہے۔ یہ عوام کی شراکت کا نتیجہ ہے۔ تو جمہوریت کا مطلب ہے عوامی استعداد اور توانائیوں کی پرورش، ملک کے انسانی وسائل کا فروغ۔ آپ نوجوانوں نے تو وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے۔ پرانے لوگ جانتے ہیں۔ فلپائن اور ہندوستان سے ہمارے یہاں ڈاکٹر آیا کرتے تھے۔ دیہی علاقوں اور دور دراز کے خطوں میں نہیں بلکہ بسا اوقات آس پاس کے شہروں میں بھی ہمیں مثال کے طور پر فلپائن کے ڈاکٹر نظر آتے تھے۔ جو ملک انسانی وسائل کے اعتبار سے اس حد تک ناتواں تھا وہ اس طرح طلوع ہو کہ مثلا اسی صحت عامہ کے شعبے میں علاقے میں علاج و معالجے کا پرکشش محور بن جائے! آج گرد و پیش کے علاقوں سے لوگ بڑی بیماریوں کے علاج کے لئے ہمارے یہاں آتے ہیں اور ہمارے اسپتالوں میں ہمارے ڈاکٹروں سے علاج کرواتے ہیں۔ انسانی استعداد متحرک ہوتی ہے تو انسان اچانک دیکھتا ہے کہ دنیا کی کسی کمیاب ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک دو سو سے زیادہ ملکوں کے درمیان چوتھے نمبر پر یا پانچویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔ جمہوریت کا ایک کام توانائیوں کو زندہ کرنا بھی ہے۔ جب پوری قوم میدان عمل میں اترتی ہے، جب عوام پر اعتماد کیا جاتا ہے، جب عوام پر توجہ دی جاتی ہے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ عوام کے اندر قومی خود اعتمادی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ پھر علمی میدانوں میں پیشرفت حاصل ہوتی ہے، صنعتی میدانوں میں پیشرفت حاصل ہوتی ہے، جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت حاصل ہوتی ہے، علاقے میں سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے، یہ سب کچھ عوام کی شراکت اور ملک کے تغیرات میں عوام کے کردار کا نتیجہ ہے، اس سے ملک اور قوم کو عظمت حاصل ہوتی ہے۔  

آج آپ دیکھئے کہ مثال کے طور پر کوئی ملک جو امریکہ پر منحصر ہے، روزانہ دس ملین بیرل تیل فروخت کر رہا ہے، اس کے خزانے میں بہت زیادہ دولت بھی ہے، مگر وہ ملک غریب ہے، وہ ملک پسماندہ ہے، اس ملک کے عوام کا کہیں کوئی نام تک نہیں آتا، اس ملک میں جن کو شہرت حاصل ہے وہ چند طاغوتی عناصر ہیں جن کے ہاتھ میں قیادت ہے، اس ملک کے عوام کا دنیا میں کہیں کوئی نام و نشان نہیں ہے کہ اس قوم نے مثلا فلاں کارنامہ انجام دیا یا فلاں اقدام کیا۔ لیکن جب اسلامی جمہوریت ہو، جیسے ہمارے وطن عزیز میں اسلامی جمہوری نظام ہے، تو دنیا کی جو سرسری نگاہ مملکت ایران پر پڑتی ہے تو عوام سب سے نمایاں نظر آتے ہیں، اسی لئے دشمنوں کی دشمنی بھی عوام ہی سے ہے۔ آج امریکی ہمارے دشمن ہیں تو وہ صرف اس حقیر یا چند حکومتی عمائدین کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ پوری قوم کے دشمن ہیں، اس لئے کہ یہاں سب کچھ ملت ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ساری چیزیں جن سے وہ خشمگیں ہو جاتے ہیں اور غصے میں تلملانے لگتے ہیں وہ اس ملت کے اقدامات ہیں، اس ملت کی عظمت ہے۔ جمہوریت میں عوام کا مرتبہ بہت بلند ہو جاتا ہے۔ یعنی ملت کا اپنا الگ تشخص ہوتا ہے، ایک عمومی اور عالمی شناخت و شہرت ہوتی ہے، عزت و احترام حاصل ہوتا ہے، جبکہ یہ ساری چیزیں طاغوتی (شاہی) دور میں ناپید تھیں۔ یہ سب کچھ اسلامی جمہوری نظام کے دور میں اور انقلاب کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔

جمہوریت کا نتیجہ ہوتا ہے ملک کی پیشرفت۔ پیشرفت بھی واقعی غیر معمولی ہے۔ ہم نے انقلاب کی چوتھی دہائی کو پیشرفت اور عدل و مساوات کا عشرہ قرار دیا ہے۔ ملک میں حقیقی معنی میں پیشرفت ہوئی ہے۔ عدل و مساوات کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے۔ عدل و مساوات کے سلسلے میں ہم پیچھے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ہم خود بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں، اس کا اقرار کرتے ہیں۔ پیش رفت اور عدل و مساوات کی دہائی میں ہمیں پیشرفت حاصل کرنے میں بھی کامیابی ملنی چاہئے تھی اور عدل و مساوات میں بھی کامیابی حاصل ہونی چاہئے تھی۔ پیشرفت کی بات کی جائے تو واقعی ہمیں کامیابی ملی ہے، ہم نے واقعی پیشرفت کی ہے، تمام میدانوں میں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن عدل و مساوات کے میدان میں ہمیں محنت کرنی ہے، ہمیں کام کرنا ہے، ہمیں اللہ تعالی سے اور عزیز عوام سے معذرت خواہی کرنا چاہئے۔ عدل و مساوات کے سلسلے میں مشکلات ہیں۔ ان شاء اللہ با صلاحیت اور مومن مردوں اور عورتوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں اس پہلو سے بھی ہم پیش رفت حاصل کریں گے۔ تاہم مادی پیشرفت کے اعتبار سے واقعی بہت زیادہ اور بڑے اہم کام انجام پائے ہیں۔

پیشرفت اسے نہیں کہتے کہ غیر ملکی آئیں ملک کا سرمایہ اٹھا لے جائیں اور بدلے میں اس ملک کے لئے ٹاور تعمیر کر دیں، اسے پیشرفت نہیں کہتے۔ بعض لوگ ہمارے ارد گرد کے ممالک کو دیکھتے ہیں جن کے پاس تیل کی دولت ہے، انھیں نظر آتا ہے کہ جی ہاں! وہاں تو ایسا ایئرپورٹ ہے، وہاں تو ویسا ٹاور ہے! جی نہیں، یہ پیشرفت نہیں ہے۔ غیر ملکی آئیں اور ایک ملک کا پیسہ لے لیں، اس ملک کے عوام کی تحقیر کریں اور ان کے لئے ٹاور بنا دیں تو یہ پیشرفت نہیں ہے۔ یہ تو پیچھے جانا ہے، یہ تو نقصان ہے۔ آج علاقے کا سب سے اونچا ٹاور علاقے کے سب سے نااہل ملک کے اندر ہے! یہ تو پیشرفت نہیں ہے! پیشرفت یہ ہوتی ہے کہ کوئی ملک، کوئی قوم اپنی توانائی کے سہارے، اپنی قوت ارادی کے سہارے، اپنے فیصلے سے، اپنے علم و دانش سے، اپنی صلاحیتوں سے خود کو اگلی صفوں میں پہنچائے۔ یہ پیشرفت ہوتی ہے، بحمد اللہ ہمارے ملک کے اندر ایسا ہی ہوا ہے۔ آج ہم میڈیکل سائنس کے اعتبار سے ایک مرکز بن چکے ہیں۔ دنیا میں علم و سائنس کے اعتبار سے ہمارا مقام اونچا ہے، علاقائی مسائل میں ہم صاحب رائے ہیں، ایٹمی شعبے میں ہمارے پاس ہائی ٹیکنالوجی ہے، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری پوزیشن کافی بلند ہے،  بایو ٹیکنالوجی میں ہماری پوزیشن کافی بلند ہے، سائیبر اسپیس کے میدان میں ہمارے پاس بہت اعلی درجے کی ٹیکنالوجی ہے، اسے کہتے ہیں پیشرفت۔ ہمارے نوجوانوں میں واقعی اس قدر استعداد ہے کہ وہ بلندی پر پہنچنے کے لئے بس ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ اس تعلق سے دیکھا جائے تو ہم عہدیداران کے اندر قدرے کوتاہی پائی جاتی ہے۔ ورنہ اگر ہم نوجوانوں کا ذرا اور ساتھ دیں تو وہ علم و سائنس کے میدان میں، ٹیکنالوجی اور سروسز نیز دوسرے گوناگوں میدانوں میں واقعی پرواز کرنے لگیں گے، بالکل اسی طرح جیسے روحانی و معنوی میدانوں میں وہ محو پرواز ہیں۔ سیکورٹی کے شعبے میں، دفاعی شعبے میں، زراعت کے شعبے میں، صحت عامہ کے شعبے میں، سائنس کے میدان میں اور بنیادی انفراسٹرکچر کے میدان میں کافی آگے پہنچ چکے ہیں۔ ہماری پیشرفت الحمد للہ کافی اچھی ہے۔ پیشرفت اور عدل و مساوات کی دہائی میں پیشرفت تو اچھی حاصل ہوئی ہے۔ یہ سب انقلاب کی برکتیں ہیں۔ البتہ چونکہ پروپیگنڈے میں ہم کمزور ہیں، لہذا ممکن ہے کہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کی نظر میں یہ پیشرفت نہ آ سکے، مگر دشمن ان میں بیشتر سے واقفیت رکھتا ہے۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ ہم بہت سے میدانوں میں کافی طاقتور ہیں لیکن تشہیراتی میدان میں کمزور ہیں، پروپیگنڈے کے میدان میں، جو کچھ انجام پایا ہے اسے بیان کرنے کے میدان میں ہم کمزور، ناقص العمل اور خلاقانہ اقدامات میں پیچھے ہیں۔ اس میدان میں بھی ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔ لیکن جو ہمارے دشمن ہیں اور جو تمام چیزوں پر نظر رکھتے ہیں، وہ ملک کی ترقی کو بخوبی دیکھ رہے ہیں، انھیں بخوبی پتہ ہے کہ ملک کتنا آگے بڑھا ہے اور کس مقام پر پہنچ چکا ہے۔

بنابریں انقلاب نے ملک میں بہت بڑا کام انجام دیا۔ ملک کو مفلوک الحالی سے باہر نکالا، ملت کو رسوائی، ذلت اور شرمندگی کی حالت سے نجات دلائی۔ آج ہماری قوم سربلند ہے اور یہ کسی بھی ملک کے لئے اور کسی بھی قوم کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ البتہ اس طرح کی کامیابیاں بہت سی ہیں اور ان کی فہرست طولانی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہماری تشہیراتی سرگرمیاں کمزور ہیں۔ میری سفارش یہ ہے کہ عہدیداران مبالغہ آرائی کے ساتھ نہیں بلکہ صرف رپورٹ پیش کرنے کے طور پر، عملی طور پر، فنکارانہ انداز میں، ملک کی پیشرفت کی گوناگوں انواع و اقسام کی صحیح رپورٹیں پیش کریں۔ تاکہ جو افراد غافل ہیں اور شک پھیلاتے ہیں وہ بھی متوجہ ہو جائیں، بعض افراد غافل نہیں ہیں بلکہ عمدا کیڑے نکالتے ہیں، اسی طرح دوسری جگہ کے عوام کو بھی معلوم ہو کہ انقلاب نے کیا تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ یہ کچھ باتیں تھیں انقلاب کے تعلق سے۔

انقلاب کو لاحق خطرات کا جہاں تک سوال ہے تو اب چونکہ وقت کم رہ گیا ہے اور ظہر کا وقت قریب ہے، میں اختصار سے چند جملے عرض کروں گا۔ تمام انقلابوں کو در پیش خطرات میں سے ایک رجعت پسندی ہے، رجعت پسندی کا کیا مطلب ہے؟ یعنی یہ جو نیا سفر انقلاب نے شروع کیا تھا اور قوم جس راستے پر انقلابی توانائی کی مدد سے تیزی کے ساتھ رواں دواں تھی، کسی منزل پر پہنچ کر رفتار کم ہو جائے اور پھر پیش قدمی کا عمل رک جائے، اس کے بعد قوم واپس پلٹ جائے، اسے کہتے ہیں رجعت پسندی۔ رجعت پسندی یعنی پیچھے لوٹ جانا۔ تاریخ کے جتنے بھی بڑے انقلابات ہیں جن سے ہم آشنائی رکھتے ہیں، جیسے فرانس کا انقلاب، روس کا انقلاب، اسی طرح جو انقلاب افریقی ملکوں میں، لاطینی امریکہ کے ملکوں میں یا دوسری جگہوں پر آئے۔ تقریبا سارے ہی انقلاب اپنی عمر کے ابتدائی برسوں میں ہی اس مصیبت سے دوچار ہوئے۔ یہ خصوصیت کی چالیس سال گزر جائیں اور انقلاب کے بنیادی نعرے صحیح و سالم باقی رہیں، اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، ان میں سے کسی بھی انقلاب میں نہیں تھی۔ جبکہ ہم نے ان نعروں کی کامیابی کے ساتھ حفاظت کی ہے۔ لیکن خطرات لاحق ہیں اور میرا فریضہ ہے کہ اپنے عزیز عوام کو ان خطرات کے بارے میں بتاتا رہوں۔ ہم اگر اشرافیہ کلچر کی طرف گئے تو یہ رجعت پسندی ہوگی، اگر کمزور طبقات پر توجہ دینے کے بجائے ملک کے اندر دولتمند اور حریص طبقے کے چاہنے والے بن گئے تو یہ بھی رجعت پسندی ہے، اگر عوام پر تکیہ کرنے کے بجائے غیر ملکیوں پر بھروسہ کیا اور غیروں سے آس لگائی تو یہ بھی رجعت پسندی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ معاشرے کی اہم شخصیات بہت توجہ رکھیں، سماج کے اعلی عہدیداران ہوشیار رہیں۔ ملک کے عہدیداران کو چاہئے کہ سختی کے ساتھ نظر رکھیں، عوام الناس بھی نظر رکھیں، بڑی مستعدی کے ساتھ ہمارے روئے پر، عہدیداران کی روش پر نگاہ رکھیں، پوری حساسیت کے ساتھ۔ رجعت پسندی بڑی خطرناک چیز ہے۔ رجعت پسندی جب رونما  ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عہدوں پر تو وہی پرانے انقلابی لوگ موجود ہیں لیکن ان کا راستہ تبدیل ہو چکا ہے، ان کی سمت بدل چکی ہے۔ گویا انقلاب صرف اس لئے آیا تھا کہ پرانے عہدیداران چلے جائیں اور ان کی جگہ ہم بیٹھ جائیں۔ انقلاب اس لئے تو نہیں آیا تھا۔ انقلاب کا مقصد تھا تبدیلی، انقلاب یعنی راستے کی تبدیلی، انقلاب یعنی اعلی اہداف کو پیش نظر رکھنا اور ان کی جانب گامزن رہنا، اگر ہم نے یہ اہداف فراموش کر دئے تو اب انقلاب باقی نہیں رہا۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب تو 1979 میں آیا اور ختم ہو گیا، یہ غلط سوچ ہے۔ انقلاب 1979 میں شروع ہوا، ختم نہیں ہوا۔ تبدیلی کی شروعات اور سماج میں اصلاحات کی شروعات 1979 میں ہوئی۔ 11 فروری کو ہوئی۔ اس دن سے شروعات ہوئی۔ اس مشن کو بتدریج عمیق تر، وسیع تر اور عاقلانہ تر انداز میں آگے بڑھنا چاہئے، نہ یہ کہ رک جائے۔ ایسا نہ ہو کہ اگر ہم کہیں کہ فلاں انقلابی ہے تو اس کے بارے میں غلط رائے قائم ہو۔ یا اگر کہیں کہ فلاں انقلابی ہے تو یہ رائے قائم ہو کہ بغیر سوچے سمجھے کام کرنے والا شخص ہے، ایسا شخص ہے جسے کسی چیز کا خیال نہیں۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ملک کا نظم و نسق جس سسٹم کے تحت چلتا ہے وہ محترم ہے، آئین محترم ہے، آئین کے تمام اصولوں پر عمل ہونا چاہئے، انقلاب کو اسی سانچے کے اندر رکھا گیا ہے، لہذا اس پیکر کا احترام کیا جانا چاہئے، یہ ضروری ہے۔

اگر ہم یہ سوچیں کہ نظم و ضبط کے بغیر بھی انقلاب کا کوئی معنی و مفہوم ہے تو یہ بھی غلط ہے، دوسری طرف کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ انسان ہر چیز پر، تمام واقعات پر، اسلامی نظام کے تمام حصوں پر اعتراض کرے، تنقید کرے انقلابی ہونے کے نام پر۔ جی نہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ انقلاب یعنی انقلابی نظام۔ یہ اسلامی نظام، یہی امت اور امامت کا نظام، یہ دینی جمہوری نظام اعلی انقلابی اہداف سے مزین ہونا چاہئے، انقلابی روش، انقلاب کی سمت و جہت سے آراستہ ہونا چاہئے۔ یہ ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے یہاں انقلابی افراد کی کمی نہیں ہے۔ عوام کے اندر انقلاب آج سکہ رائج الوقت ہے۔ عہدیداران کے درمیان بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو حقیقی معنی میں انقلاب کے طرفدار ہیں۔ یہ حساسیت ختم نہیں ہونی چاہئے۔

میں صدارت کے زمانے میں ایک افریقی ملک کے دورے پر گیا۔ وہاں انقلاب کی کامیابی کو سات آٹھ یا دس سال ہوئے تھے۔ سربراہ مملکت ایک سیاہ فام رہنما تھے جو انقلاب کے رہنما اور انقلاب کے کمانڈر بھی تھے اور اب سربراہ مملکت تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس سربراہ مملکت کا طور طریقہ جو ہمارے میزبان تھے، بالکل اس پرتگالی جنرل کی مانند تھا جو انقلاب سے پہلے اس ملک پر حکومت کیا کرتا تھا۔ طور طریقہ بالکل وہی تھا۔ غالبا یہ ملک اسپین یا پرتگال کی نوآبادیات کا حصہ تھا۔ اس ملک پر ایک پرتگالی فوجی رہنما نے برسوں حکومت کی تھی، اب یہ صاحب جو انقلاب کے لیڈر ہیں ان کا بھی وہی رویہ ہے! تو پھر یہ کیسا انقلاب ہے؟ عوام کے سلسلے میں اس کا نظریہ، گرد و پیش کے افراد کے سلسلے میں اس کا برتاؤ، ملنے والوں سے ان کا سلوک سب ویسا ہی تھا۔ اسلامی جمہوریہ اس حالت سے دور ہے۔ بحمد اللہ اب تک دور رہی ہے۔ آئندہ بھی اس سے دور ہی رہے گی۔ عہدیداران کے اندر اشرافیہ کلچر، عہدیداران کا امتیازات حاصل کرنا، بیت المال کے سلسلے میں عدم احتیاط، غریب طبقے سے بے توجہی، یہ سب انقلاب مخالف باتیں ہیں۔ نظام کا مکمل نیٹ ورک انقلاب کے اہداف کو مد نظر رکھ کر کام کرے۔

ایک اور اہم مسئلہ جو آج زیر بحث ہے معیشت کا مسئلہ ہے۔ میں یہاں اسے بھی عرض کر دوں۔ تمام عہدیداران، باخبر افراد، آگاہ لوگ اور عوام یہ مانتے ہیں کہ آج ملک کا ایک بنیادی مسئلہ ملکی معیشت کا مسئلہ ہے۔ ملکی معیشت کی اصلاح کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ ایک راستہ ہے عوام پر تکیہ کیا جائے۔ یعنی استقامتی معیشت۔ ہم نے اس کا اعلان کیا اور ملک کے تمام عہدیداران نے اس کی حمایت بھی کی، یعنی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ البتہ کبھی کبھار گوشہ و کنار سے کوئی نکتہ چینی بھی سننے میں آتی ہے، لیکن جب استقامتی معیشت کی پالیسیوں کا اعلان کیا گیا تو ملک کے تمام عہدیداران نے تصدیق کی کہ راستہ صرف یہی ہے۔ استقامتی معیشت کا مطلب ملک کے اندر محصور اور مقید ہوکر رہ جانا نہیں ہے۔ آکر کوئی یہ نہ کہے کہ' ہم چاہتے ہیں کہ دنیا سے رابطہ رکھیں'، ظاہر ہے استقامتی معیشت میں بھی دنیا سے رابطہ موجود ہے لیکن اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ تکیہ عوام پر ہونا چاہئے، اندرونی طور پر پھلنے پھولنے والی اور بیرونی دنیا میں شاخیں پھیلانے والی معیشت۔ اقتصادی سرگرمیوں کا سرچشمہ ملک کے اندر ہے۔ یہ سرچشمہ ہے عوام کی استعداد، عوام کے پاس موجود وسائل، عوام کا سرمایہ۔ ایسی تدابیر سوچی جائیں کہ یہ سرمایہ، یہ استعداد اور یہ صلاحیتیں ملک کے اندر پیداوار کے فروغ، ثروت سازی اور ثروت کی پیداوار پر منتج ہوں۔ اس کے لئے تدبیر کی ضرورت ہے۔ ہماری نظریں ملک سے باہر نہ لگی ہوں۔ البتہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ داخلی معیشت فروغ پائے تو اس کے لئے برآمدات ضروری ہیں اور مناسب درآمدات ہونی چاہئيں، اقتصادی روابط کی ضرورت ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ملک کے اندر غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری بھی ہو، میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کہ غیر ملکی آئيں اور سرمایہ کاری کریں لیکن امور کی تدبیر اور امور کی باگڈور داخلی عہدیداران کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے، فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہونا چاہئے، ان کے ارادے سے کام ہونا چاہئے، امور کو اغیار کے ہاتھوں میں سونپ نہ دیا جائے۔ اگر کام پوری طرح غیروں کے سپرد کر دیا گيا تو امور کی لگام ملکی عہدیداران کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس سلسلے میں بڑے عبرت ناک واقعات ہو چکے ہیں۔

یہیں تہران میں علاقے کے ایک معروف ملک کے سربراہ، اب میں اس ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، ایشیا کے نسبتا پیشرفتہ ممالک میں سے ایک ملک ہے جس نے واقعی بڑی اچھی اقتصادی ترقی کی اور بڑی اچھی اقتصادی شرح نمو حاصل کی، تقریبا بارہ سال، تیرہ سال پہلے یہاں آئے اور اس حقیر سے ملاقات کی۔ یہ وہی موقع تھا جب مشرقی ایشیا کے ممالک میں بڑا اقتصادی زلزلہ آیا ہوا تھا۔ یہ صاحب انھیں میں سے ایک ملک کے سربراہ تھے۔ میرے پاس آئے، جب کمرے میں داخل ہوئے تو سب سے  پہلی جو بات کہی وہ یہی تھی کہ 'ہم راتوں رات فقیر ہو گئے!' جب معیشت کسی یہودی، مغربی یا امریکی کے سرمایہ پر منحصر ہو تو یہی ہوتا ہے۔ اقتصادی رونق والے اور اچھی اقتصادی شرح نمو والے ملک کے سربراہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم راتوں رات فقیر ہو گئے! باہری دنیا پر تکیہ کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم نے خود بھی ایٹمی معاہدے کے قضیئے میں غیر ملکیوں پر اعتماد کا نتیجہ دیکھا ہے۔ ایٹمی مذاکرات کے معاملے میں ہم نے ان پر اعتماد کیا اور اس اعتماد سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ خوشی کی بات ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک کے عہدیداران بہت اچھے رخ پر جا رہے ہیں، میں واقعی شکریہ ادا کروں گا اپنے وزیر خارجہ کا۔ امریکیوں کی خباثت پر ان کا رد عمل اور یورپی حکام کے دوہرے روئے پر ان کا رد عمل بہت اچھا اور ٹھوس رہا ہے۔ ان کی بعض باتیں میڈیا میں آئی ہیں اور بعض نہیں آئی ہیں جن کی ہمیں اطلاع ہے۔ بہت ٹھوس اور محکم رد عمل تھا۔ جی ہاں، یہی راستہ ہے۔ سختی سے  پیش آنا چاہئے۔ غیر ملکی روابط میں قومی وقار کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ اغیار پر تکیہ کرنا خطرناک ہے۔ اغیار پر اعتماد کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ملک کے مستقبل پر مسلط ہو جاتے ہیں، اغیار پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے۔ اغیار سے استفادہ کرنا چاہئے، فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن اس پر منحصر نہیں ہونا چاہئے، اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ان مسائل میں ہے جن پر ملک کے تمام عہدیداران کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس وقت ہم انقلاب کی کامیابی کے چالیسویں سال کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ چالیس سال بہت بڑا عرصہ نہیں ہوتا۔ کسی قوم کی تاریخ میں چالیس سال بہت بڑی مدت نہیں ہے، ایک معمولی چیز ہے۔ ان چالیس برسوں میں ہماری قوم نے بڑی زحمتیں اٹھائی ہیں، واقعی سنگلاخ راستے طے کئے ہیں۔ ہم پہلے سال سے ہی تقریبا روز اول سے ہی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ پابندیاں گوناگوں شکلوں میں جاری رہیں اور ان میں اضافہ ہوتا رہا۔ جو بھی کام ہوئے ہیں، یہ تمام پیشرفت جو جاصل ہوئی ہے سب انھیں پابندیوں کے زمانے میں حاصل ہوئی ہے۔ یعنی ہم نے پابندیوں کے دور میں یہ پیشرفت حاصل کی ہے۔ یہ انقلاب کی توانائیوں اور ملت ایران کی توانائیوں کی نشانی ہے۔

ہمارے سامنے کچھ ترجیحات ہیں۔ فرسودہ بیوروکریسی پر جہادی مینیجمنٹ کو ترجیح دینا چاہئے۔ یہ ہماری  ترجیحات میں ہے؛ جہادی مینیجمنٹ پر اصرار۔ ملک کے عہدیداران مجریہ کے اندر، عدلیہ کے اندر اور گوناگوں شعبوں میں جہادی مینیجمنٹ کے مطابق کام کریں۔ جہادی مینیجمنٹ کا مطلب بے ضابطگی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے زیادہ کام کرنا، تدبر کے ساتھ آگے بڑھنا، دن رات نہ دیکھنا بلکہ مسلسل محنت سے لگے رہنا، یہ ہے جہادی مینیجمنٹ کا مفہوم۔

داخلی پالیسیوں میں عوام الناس کو جماعتی اور گروہی اقلیت پر ترجیح ہونی چاہئے، عوام الناس سب پر مقدم ہیں۔ خدمت رسانی کے معاملے میں مستضعفین کو، مظلوم علاقوں کو، دور افتادہ علاقوں کو آسودہ حال افراد پر ترجیح دی جائے۔ خوشی کا مقام ہے کہ بہت سے ایسے علاقے جہاں تعمیر و ترقی کا نام و نشان نہیں تھا توجہ کا مرکز قرار پائے، متعلقہ اداروں نے بھی اور ان اداروں نے بھی جو براہ راست جوابدہ نہیں ہیں ان پر توجہ دی۔ پاسداران انقلاب فورس، مثال کے طور پر سیستان و بلوچستان میں بڑی عظیم خدمات انجام دے رہی ہے۔ حالانکہ پاسداران انقلاب فورس کا کام سروس دینا نہیں ہے لیکن پھر بھی محروم علاقوں میں پاسداران انقلاب کے ذریعے عوام کو پیش کی جانے والی خدمات قابل قدر ہیں۔ یہ سارے کام ہوئے ہیں، انھیں آگے بھی جاری رکھنا چاہئے۔ ملک کے تمام اداروں کو ان ترجیحات کا خیال رکھنا چاہئے۔

ملک کی دفاعی پالیسیوں کے تحت، ان تمام روشوں اور ان تمام وسائل کے لئے جن کی آج یا مستقبل میں ملک کو ضرورت ہے کام ہونا چاہئے ان کی جدیدکاری ہونا چاہئے۔ ہمیں اس بارے میں ایک لمحہ بھی کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ اپنے دفاع کے لئے ملک کو جس چیز کی بھی ضرورت ہے اسے حاصل کرنا ہے خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت کرے۔ جو لوگ خود بشریت کے لئے مہلک ایٹمی ہتھیاروں سے دائمی طور پر دنیا کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں، آج وہ اسلامی جمہوریہ کے میزائلوں کے موضوع سے چپک کر رہ گئے ہیں؛ کہ 'آپ میزائل کیوں بنا رہے ہیں'! آپ ہوتے کون ہیں؟! یہ ہمارا دفاعی ذریعہ ہے، ملکی دفاع کا وسیلہ ہے، اس قوم کے پاس اپنے دفاع کے وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس دفاعی وسائل نہیں ہونے چاہئیں تاکہ ہم جیسے چاہیں تحکمانہ انداز میں آپ سے بات کریں! البتہ ہم کچھ چیزوں کو حرام مانتے ہیں لہذا ان کی طرف تو کبھی نہیں جائیں گے جیسے ایٹمی ہتھیار، عام تباہی کے ہتھیار۔ ہم ان ہتھیاروں کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے اس کے بارے میں تو ذرہ برابر تامل اور تردد نہیں کریں گے۔

خارجہ پالیسی میں مشرق کو مغرب پر ترجیح، ہمسایہ ملک کو فاصلے والے ممالک پر ترجیح، دوسروں پر ان ملکوں اور اقوام کو ترجیح جن سے ہمارے اشتراکات ہیں، یہ ہماری آج کی ترجیحات میں ہیں۔

اقتصادی شعبے میں روزگار کا مسئلہ سب سے اہم ہے، پیداوار کا موضوع سب سے اہم ہے۔ میں نے اس سال کو 'پیداوار و روزگار' کا سال قرار دیا۔ اس کے لئے محنت کرنی چاہئے، کام کرنا چاہئے۔ ملک کے تمام عہدیداران اس سلسلے میں کام کریں۔ اس سال بے شک کچھ کام ہوئے ہیں، اعداد و شمار بھی دئے گئے ہیں، لیکن جو مطلوبہ ہدف ہے اس کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں محنت کرنا چاہئے کہ ملک میں روزگار کی شرح بڑھے، داخلی پیداوار کی شرح میں اضافہ ہو، ملک کے اندر معیشت کا یہی علاج ہے۔

میں ایک بات ملک کے مستقبل کے تعلق سے بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ یاد رکھئے، سب سے پہلے نوجوانوں کو چاہئے کہ خود کو آمادہ کریں، علمی اعتبار سے، عقیدے کے اعتبار سے، انقلابی جذبات کے اعتبار سے نوجوانوں کو چاہئے خود کو آمادہ کریں۔ نوجوان نسل انقلاب کی گاڑی کو آگے لے جانے والے انجن کا درجہ رکھتی ہے۔ شروع سے یہی ہوتا رہا ہے اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔ خوش قسمتی سے آج ہمارے پاس اوائل انقلاب کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں پرعزم، با ہمت اور با بصیرت نوجوان ہیں۔ یہ اوائل انقلاب جیسے نہیں ہیں بلکہ آج کے نوجوانوں کی بصیرت  اور ان کی معرفت کی گہرائی اوائل انقلاب کے بہت سے نوجوانوں سے زیادہ ہے۔ اس میدان میں ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ چیز بحمد اللہ فراہم ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ خود کو آمادہ کریں۔ یہ نوخیز لڑکے جو نوجوانی کی سمت بڑھ رہے ہیں وہ بھی خود کو آمادہ کریں۔ انقلابی فکر، انقلابی جذبہ، انقلابی بصیرت، انقلابی اقدام وہ اہم ابواب ہیں جو ہمارے نوجوانوں کے ذہن نشین ہونے چاہئیں۔

یہ بھی سب جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ طاقتور ہے، اسلامی جمہوریہ بہت طاقتور ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا ثبوت یہ ہے کہ چالیس سال سے دنیا کی ساری خبیث قوتیں اسلامی جمہوریہ کو نابود کر دینا چاہتی ہیں، مٹا دینا چاہتی ہیں لیکن وہ بال بھی بیکا نہیں کر سکیں۔ اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا ثبوت ان چار عشروں کے دوران اس کا محفوظ رہنا ہے۔ اتنے ناموافق حالات کے باوجود، اس ناسازگار ماحول کے باوجود، اس بڑے پیمانے پر دشمنی و عناد کے باوجود اسلامی جمہوریہ زندہ ہے۔ بنابریں یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ پودا آج ایسا تناور درخت بن چکا ہے جسے اس کی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا، یہ عمارت بڑی اونچی اور مستحکم و مضبوط عمارت بننے والی ہے۔ اس پر آپ یقین رکھئے! اسلامی جمہوریہ اور بھی طاقتور ہوگی۔ خطرات سے ہم آگاہ ہیں، باتوں کو سن رہے ہیں، اعلانیہ طور پر جو باتیں کہی جا رہی ہیں وہ بھی ہمارے کانوں تک پہنچ رہی ہیں اور جو باتیں بعض اوقات نشستوں کے اندر خفیہ طور پر کی جاتی ہیں وہ بھی کبھی کبھی ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کیا سازش ہو رہی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا جملہ دہراؤں گا؛ 'امریکہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا'۔ آپ عزیزوں سے اس ملاقات پر ہمیں بہت خوشی ہے۔ تبریز کے اپنے تمام عزیز عوام کو «منّن ده سلام یتیرین» (۸)۔

والسّلام علیکم و‌ رحمة الله و برکاته

1۔ اس ملاقات کے آغاز میں صوبہ آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین سید محمد علی آل ہاشم نے تقریر کی۔

2۔ رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے حاضرین میں سے کچھ لوگوں کی اجتماعی شعر خوانی کی جانب اشارہ۔

3۔ امالی صدوق، صفحہ 125

4۔ کافی، جلد 1، صفحہ 459

5۔ ترکی عبارت ہے جس کا ترجمہ ہے؛ انقلاب کا پاکیزہ علم، چالیس سال سے ہماری پناہ گاہ ہے۔

6۔ سورہ نساء، آیت نمبر 76 کا ایک حصہ؛ 'جو لوگ ایمان لائے، راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں، جو لوگ کافر ہو گئے وہ طاغوت کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔'

7۔ صحیفہ امام، جلد 10، صفحہ 515

8۔ میرا سلام کہئے۔