بسم‌ اللّه الرّحمن‌ الرّحیم

جیسا کہ حضرات نے ذکر کیا، گلپایگان شہر اور گلپایگان کا پورا علاقہ علم و علما کا گہوارہ رہا ہے۔ حالیہ ڈیڑھ سو سال کی مدت میں اس شہر سے بہت بڑے علما نکلے، ان بزرگ علمی ہستیوں میں سے آج بھی بحمد للہ کچھ علما دینی درسگاہوں میں موجود ہیں۔ تاہم شہادت کا رنگ اور شہادت کی زینت تو ایک ایسی چیز ہے جو ان باتوں سے کہیں بالاتر ہے۔ بحمد للہ جیسا کہ حضرات کی گفتگو سے بھی معلوم ہوا، شہر گلپایگان نے عظیم شہیدوں کی قربانی بھی پیش کی ہے۔ منجملہ شہید صدوق مرحوم جن کے بارے میں میرے ذہن میں تو کوئی چیز نہیں تھی، تاہم جو خصوصیات آپ نے بیان کیں وہ بڑی نمایاں خصوصیات ہیں۔ پہلی چیز عوام کی خدمت کرنا، دوسرے طاغوتی نظام کے خلاف جدوجہد اور سب سے بڑھ کر راہ خدا میں شہادت پانے کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اسی راہ میں اپنی جان قربان کی اور شہادت پر فائز ہوئے۔ یہ بہت اہم اور عظیم چیز ہے۔ اللہ تعالی شہید کے درجات بلند کرے اور آپ کو اپنے اولیا کے ساتھ، صدر اسلام کے شہدا کے ساتھ اور شہدائے کربلا کے ساتھ ان شاء اللہ محشور فرمائے۔

دیگر شہدا جو دشمن کے خلاف جنگ کے میدان میں خواہ وہ مقدس دفاع ہو یا دوسری جنگ ہو، شہید ہوئے ہیں، وہ سب شہادت کے اس عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔ شہادت کے باب میں جو چیز بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص آمادہ ہوتا ہے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسے راہ خدا میں قربان کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ ہمارے مجاہدین، ہمارے ایثار پیشہ سپاہی اور جذبہ فداکاری رکھنے والے مجاہدین جو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں گئے ان سب کو یہ فضیلت حاصل ہے۔ تاہم اللہ تعلی بعض افراد پر خاص لطف کرتا ہے اور انھیں انعام یعنی شہادت سے نوازتا ہے۔ اس طرح ان کی قدر و منزلت کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ انھیں ان کا نقد انعام مل گیا۔ اِنَّ اللهَ اشتَریّْ مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّـةَ یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلونَ وَعـدًا عَلَیهِ حَقًّا فِى التَّورىّْةِ وَ الاِنجیـلِ وَ القُرءان (۲)، یعنی اللہ تعالی ان کی جان کو، ان کے اس سرمائے کو قبول کرتا ہے اور اس کے عوض انھیں بہشت عطا کرتا ہے۔ سب سے بڑا سودا یہی ہے۔ سب سے بڑا منافع یہی ہے۔ ہماری زندگی تو ایسا سرمایہ ہے جو لا محالہ ختم ہو جانے والا ہے۔ یعنی کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اس جان اور زندگی کو جو اس کا سب سے قیمتی انسانی سرمایہ ہے محفوظ رکھ سکے۔ یہ سرمایہ کچھ عرصہ رہتا ہے اس کے بعد لے لیا جاتا ہے۔ الگ الگ شکلوں میں لے لیا جاتا ہے۔ کوئی شخص کسی سڑک پر یا کہیں صحرا میں ایکسیڈنٹ میں مر جاتا ہے، کوئی شخص بیماری میں مر جاتا ہے، مگر کوئی شخص ایسا ہے جو اپنی جان کا سودا اللہ سے کرتا ہے۔ اس ختم ہو جانے والی زندگی کا سودا کرتا ہے۔ انقلاب سے پہلے میں اپنی تقریروں میں بار بار کہتا تھا کہ شہادت ایک تاجرانہ موت ہے۔ تخمینے اور دور اندیشی کے تحت انجام پانے والا سودا ہے۔ جو شخص راہ خدا میں شہید ہوتا ہے وہ در حقیقت بہترین حساب کتاب کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اس لئے کہ یہ جان ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔ معروف ضرب المثل ہے؛ «روغن ریخته، نذر امامزاده»، یعنی یہ روغن گر چکا ہے، یہ اب بچنے والا نہیں ہے، بہتر ہے کہ انسان اسے اولیائے خدا کی نذر کر دے، یہ بہت اچھی بات ہوگی، اس لئے بڑی سوجھ بوجھ چاہئے۔ ہمارے شہیدوں کے یہاں یہ سوجھ بوجھ تھی جنہوں نے ختم ہو جانے والی اس زندگی کا سودا اللہ سے کیا اور اللہ تعالی ان سے اس لہجے میں بات کرتا ہے؛ اِنَّ اللهَ اشتَریّْ مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَهُم۔ یا اللہ! ہماری بساط کیا ہے کہ تو ہماری جان کو ہم سے خرید رہا ہے؟ یہ جان بھی تو تیری ہے، تیری دی ہوئی ہے۔ اس پر ہمارا اختیار کہاں ہے؟ تو آپ دیکھئے کہ اللہ تعالی مجاہد فی سبیل اللہ کو کتنی عزت اور عظمت عطا کرتا ہے۔ مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّـةَ یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلون، یہ ماجرا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمارے شہیدوں کے لئے یہ صلہ رکھا ہے۔ اس مقام و مرتبے کی ہمیں بہت قدر کرنا چاہئے۔ آپ حضرات اس عزیز شہید، شہید صدوق اور اپنے شہر کے دیگر شہیدوں کا دفاع کر رہے ہیں، ان کی حمایت کر رہے ہیں، ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، ان کی تعظیم کر رہے ہیں تو یہ بھی بہت اچھا عمل ہے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو اجر دے اور شہر گلپایگان کے ماضی کی طرح اس کا مستقبل بھی علم و روحانیت اور جذبہ ایثار سے مزین رہے۔

1۔ اس ملاقات کے آغاز میں جو اجتماعی ملاقات تھی، ماہرین اسمبلی کے رکن حجت الاسلام و المسلمین محمد حسن فاضل گلپایگانی، گلپایگان کے امام جمعہ حجت الاسلام سید علی طہماسبی اور سیمینار کے کنوینر جناب محمد اسماعیل علی شاہی نے رپورٹیں پیش کیں۔ یہ کانفرنس 1 مارچ 2018 کو منعقد ہوگی۔

2۔ سورہ توبہ آیت نمبر 111 کا ایک حصہ؛ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں۔۔