بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس کونسل کے محترم اراکین اور دوستان عزیز وقت دیتے ہیں، اور یہ جلسے منعقد کرتے ہیں، اس پر میں بہت زیادہ شکر گزار ہوں۔ اگر چہ اس کونسل کے کاموں پر کئے جانے والے بعض اعتراضات اور تنقیدیں صحیح ہیں لیکن جیسا کہ جناب خاتمی صاحب نے فرمایا ہے بعض معاملات میں اچھے فیصلے کئے گئے ہیں۔

یہ اعتراضات جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، قبل اس کے کہ اس مفید اور پربرکت کونسل کے باہر کے لوگوں کی طرف سے کئے جائيں، خود کونسل کے بعض اراکین نے پیش کئے ہیں۔ اس ایک سال میں، یعنی اس سے پہلے کے اجلاس میں جب میں آپ حضرات کی خدمت میں تھا اور ثقافت، تدیّن اور یونیورسٹیوں کے مسائل کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں، اس کے بعد سے اب تک، کونسل کے متعدد اراکین اور اس سے وابستہ افراد نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور کچھ یاد دہانیاں گرائی ہیں۔ مجموعی طور پر ان سبھی حضرات نے کونسل کے کاموں میں پیشرفت کے تعلق سے گلہ کیا ہے۔ البتہ جیسا کہ جناب آقائے خاتمی نے اشارہ کیا ہے، صحیح ہے، میں بھی تنقید کا خیر مقدم کرتا ہوں اور تنقید کو تکامل کا وسیلہ سمجھتا ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اپنی کارکردگی اور دوسرے لوگوں اور خود کونسل کے اراکین کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لینے کا بہترین مرکز خود یہ سپریم کونسل ہے۔ جن حضرات نے  اعتراضات کئے ہیں ان میں سے بعض اس کونسل کی تشکیل کے وقت سے اور اس سے پہلے جب یہ ایک کمیٹی تھی، اسی وقت سے، بیس سال سے اس کے ساتھ اور اس کے رکن رہے ہیں۔  بہرحال ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ثقافتی، علمی، دینی اور انس و محبت سے مملو اس بہت اچھے اجلاس میں، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ثقافت کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے اسلامی جمہوری نظام میں ثقافت کو کم اہمیت دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کے انفرادی اور اجتماعی طرزعمل اور کردار کے تعیّن کے اصلی عامل کے عنوان سے بھی اور سیاسی اثرات اور سیاسی رجحانات کے حامل عنوان سے بھی ثقافت کی تاثیر کی طرف سے غفلت برتی گئی ہے اور جتنی توجہ اس پر دینے کی ضرورت تھی اتنی نہیں دی گئی ہے۔ باتیں کی جاتی ہیں، کچھ باتیں کہی جاتی ہیں، میں خود بھی کچھ باتوں کو بار بار کہتا ہوں، لیکن عمل میں دیکھتے ہیں کہ اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ میرا ایک خیال ہے جسے میں آپ دوستان عزیز کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ذمہ دار عہدیداروں کے عنوان سے بھی اور بحیثیت قوم بھی ہمارا انفرادی اور اجتماعی طرز عمل دو طرح کے عوامل  کے زیر اثر ہے۔ عوامل کا ایک مجموعہ استعداد، صلاحیتوں اور وسائل، عوام کی توانائیوں اور استعداد  پر مشتمل ہے۔ فرض کریں ہم کسی شخص کو نظر میں رکھیں، ہر میدان میں اس کی سرگرمیوں اور سعی و کوشش کا ایک حصہ اس کی اپنی استعداد، صلاحیتوں اور توانائیوں نیز اس ماحول سے تعلق رکھتا ہے جس سے وہ استفادہ کرتا ہے۔ دوسرا وہ عامل ہے جو اس پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کے اندر خیال پیدا کرتا ہے اور اس کو سمت دیتا ہے۔  ثقافت سے ہماری مراد وہی خیال پیدا کرنے والے اور جہت دینے والے عوامل ہیں۔ جہاں بھی میں لفظ ثقافت استعمال کرتا ہوں ثقافت کے عام معنی مراد ہوتے ہیں۔ یعنی انسان کے وجود پر حکمفرما وہی سوچ اور فکر جو اس کی رفتار اور طرز عمل کی کسی سمت میں ہدایت کرتی ہے۔ اس میں سرعت یا کندی پیدا کرتی ہے۔ یہ ہر طرز عمل اور رفتار کا تعین کرنے، جہت اور سمت دینے اور آگے بڑھانے والے عوامل کا کم سے کم نصف حصہ ہے۔ اس مسئلے اور اس تشویش کو جو میرے ذہن میں ہے مکمل طور پر واضح کرنے کے لئے کہ میں بعض اوقات اس مسئلے پر زیادہ کیوں بولتا ہوں، ایک محاذ جںگ فرض کریں جس میں کچھ فوجی ہیں جو فداکاری، اپنی قوت فیصلہ، عزم و ارادے اور استقامت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے محاذوں پر آٹھ سال تک جو جنگ جاری رہی ہے، اس زمانے میں آپ کسی علاقے میں پہنچتے تھے، دیکھتے تھے کہ کچھ مومن، حزب اللّہی اور فداکار نوجوان ہیں جو اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں، استقامت سے کام لے رہے ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان میں سے جس سے بھی آپ سوال کرتے کہ یہ جدوجہد کیوں کر رہے ہو؟ وہ کہتا "میرا فریضہ ہے، امام نے کہا ہے، میرے دین کا حکم ہے۔ دشمن نے ہمارے ملک پر جارحیت کی ہے، ہماری سرحدوں اور ناموس کے لئے خطرات پیدا کئے ہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں، ہمیں اپنا دفاع کرنا چاہئے۔" وہ اپنے ذہنی عقائد آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، جس میں خدا پر اعتقاد، قیامت پر اعتقاد، شہادت پر اعتقاد، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے حکم پر اعتقاد، امام کی اطاعت کے لازمی ہونے  پر اعتقاد، دشمن کے جارح ہونے کا یقین اور اس بات کا یقین کہ ہم ایسی قوم ہیں جس کو اپنا دفاع کرنا چاہئے، یہ سب اس میں شامل ہے۔ دینی اعتقادات سے آمیختہ یہ ساری باتیں اس کے بیان میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ اعتقادات اس بات کا باعث بنے ہیں کہ یہ نوجوان کھڑا ہو، اپنے گھر کا آرام و آسائش، اپنی زندگی، اپنی تعلیم، یونیورسٹی ہر چیز کو ترک کرکے محاذ پر جائے اور اپنی جان کی بازی لگائے، شہید یا زخمی ہو جائے اور پوری عمر معذوری کی حالت میں گزارے جیسا کہ آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہیں کہ وھیل چیئر پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اب اگر اسی حال میں کہ یہ نوجوان میدان جنگ میں پورے جوش و خروش کے ساتھ جنگ کر رہا ہے، کوئی آکے اس کے اعتقادات کو کمزور کرنے کی کوشش شروع کر دے، مثلا کہے کہ " یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ یہ دشمن جارح ہے، تو کیسی جارحیت؟ پہلے ہم نے حملہ کیا تھا!" وہ دشمن کے جارح ہونے کے بارے میں اس کے یقین اور شہادت کی اہمیت اور قدر و منزلت کو کم کرنے کی کوشش شروع کرتا ہے، اس کے اس اعتقاد کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا حکم ہے اور امام کے حکم کی تعمیل ضروری ہے، اس کے اس اعتقاد اور یقین کو کمزور کرتا ہے کہ انسان کو اپنے ملک، اپنی سرحدوں اور اپنے وطن کا دفاع کرنا چاہئے۔ اب آپ دیکھیں کہ وہی نوجوان جو اس طرح دشمن سے جنگ کے لئے پرعزم ہے، یقین اور اعتقاد کی اس تبدیلی سے کیا بن جاتا ہے؟  پشیمان، متزلزل، شک و تردد کا شکار ہو جاتا ہے اور شاید محاذ سے واپس ہو جائے۔ یعنی وہی شخص، وہی انسان، انہیں استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ، اسی جسمانی قوت اور ذہانت کے ساتھ، جسمانی اور ذہنی لحاظ سے انہیں توانائیوں کے ساتھ اسی قوت ارادہ اور قوت فیصلہ کے ساتھ ، ذہنی تصورات اور یقین کے بدل جانے سے ایک فعال، سرگرم، پیش قدم، اور موثر عنصر کے بجائے ایک پشیمان اور شکست خوردہ انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بہت واضح بات ہے۔ اب ممکن ہے کہ کوئی جاکے اس کے احساسات و جذبات اور  اس کے ایمان و یقین کی تقویت کرے یا جس کے اندر یہ ایمان اور یقین نہیں ہے، جو ان جذبات و احساسات سے عاری ہے، اس کے اندر یہ ایمان اور یقین پیدا کرے، تو اس کو ایک فعال اور پیش قدم انسان میں تبدیل کر دے گا۔ میں اس نکتے کی طرف متوجہ ہوا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ " مداد العلما افضل من دماء الشہدا"(1) اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عالم ہے وہ انسانوں کے ذہن میں جو کچھ ہے اس کو تبدیل کر سکتا ہے، اس جسم اور آج کی اصطلاح میں، اس بشری ہارڈ ویئر کو ایک اعلی، پیش قدم، فعال اور مضبوط انسان میں تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک عالم یہ کام کرسکتا ہے۔ "مداد العلما" واقعی " دماء شہدا" سے افضل ہے۔ اس لئے کہ یہی نوجوان طلبا جنگی تبلیغاتی ٹیم میں، میدان جنگ میں جاتے تھے، میں نے بارہا خود وہاں مشاہدہ کیا ہے، یہ اپنی تبلیغ سے معمولی انسانوں کو مضبوط انسانوں میں تبدیل کر دیتے تھے۔ کمزور انسانوں کو محکم انسانوں میں اور متزلزل انسانوں کو استقامت کے ساتھ ڈٹ جانے والے انسانوں میں  تبدیل کر دیتے تھے۔ یہ ثقافت کا کردار ہے۔ اب آپ اس کو پورے ملک کی سطح پر دیکھیں۔ اس وقت ہم ملک کے اندر ایک ایسے فوجی ہیں جس کو عوام کی استقامت، فکری توانائیوں، عزم راسخ اور ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دشمن سے متاثر نہیں ہوتے۔ یہ ذمہ داری کون پوری کرے؟ کون عوام کو سمجھائے کہ دشمن کون ہے، اس کی دشمنی کیسی ہے اور آج ملک کی ضرورت کیا ہے؟ کون دین کو جو قوم کی سرافرازی ، استقامت اور فداکاری کا سرچشمہ اور ان کی گوناگوں مادی کششوں کے سامنے نہ جھکنے کا باعث ہے، اس دین کو عوام، نوجوان نسل، یونیورسٹیوں کے طلبا اور افراد معاشرہ تک پہنچائے اور ان کو سمجھائے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم منتظر بیٹھیں کہ دینی مدارس اور علمائے کرام اسی پرانی روش اور روایتی تقاریر کے ذریعے یہ کام انجام دیں، یا نہیں بلکہ آج ہماری حکومت اسلامی ہے، نظام اسلامی ہے ہم پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور دینی شخصیتوں کی حیثیت سے ہمارے کچھ دینی فرائض ہیں۔ چاہے وہ لوگ ہوں جو صاحب عمامہ ہیں یا وہ لوگ جو صاحب عمامہ نہیں ہیں۔ جس نے بھی کوئی عہدہ قبول کیا ہے در اصل اس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے کہ اسلامی نظام اور اس ملک کو پائیدار اور محکم بنائے گا اور تکامل تک پہنچائے گا؟ ہمارے علاوہ اور کون اس بات کا ذمہ دار ہے کہ عوام اگر متزلزل ہیں تو انھیں محکم بنائے، اگر شک و تردد کا شکار ہوں تو ان کا شک دور کرے، اگر ان کے اعتقادات میں کمی ہو تو اس کی اصلاح کرے اور ان کے سامنے  صحیح نیز محکم اعتقادات پیش کرے، اگر دشمن کے اہداف اور کاموں کے بارے میں ان کے  اندر شک ہو تو اس شک اور تزلزل کو دور کرے، ان کے عزم و ارادے کو محکم اور مصمم بنائے، تاکہ عوام اس حق کا جس نے اس ملک کا پرچم اٹھایا ہے، بھرپور دفاع کریں؟ عوام کو اس سمت میں لانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ہمارے علاوہ، حکام کے علاوہ، خاص طور پر ثقافتی امور کے ذمہ داروں کے علاوہ، ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے علاوہ جو اسی مقصد سے قائم کی گئ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ اگر آج ہم  عوام کو متدیّن، شرع کا پابند، دیندار، دینی اصولوں سے آگاہ بنا دیں، دینی تعلیمات سے آراستہ کر دیں تو جتنا بھی اس راہ میں آگے بڑھیں گے اس مملکت، اس ملک و قوم کے مستقبل کی اتنی ہی  ضمانت فراہم کریں گے۔ جتنا بھی اس بات کی اجازت دیں گے کہ رخنہ اندازی کی جائے، عوام کے یقین اور اعتقادات، دینی مقدسات، مسئلہ شہادت، مسئلہ جہاد، اسلام اور مسلمین سے دشمنوں کی واضح دشمنی کے بارے میں ان کے یقین کو کمزور کیا جائے، عوام کے ذہنوں میں شک پیدا کریں، جتنا اس بات کی اجازت دیں گے، اس ملک و قوم کے مستقبل کو اتنے ہی خطرات سے دوچار کریں گے، اس سعادت اور کامرانی کے امکان کو اتنا ہی کم کریں گے جس کے لئے اس قوم نے قیام کیا اور انقلاب لائی اور دشمن کے غلبے کا امکان اتنا ہی زیادہ بڑھا دیں گے! یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک ثقافتی امور کی تقویت نہ کی جائے۔ درحقیقت ملک کے ثقافتی امور کے سبھی ذمہ داروں کو، ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل، حکومتی ارکان جو اس کونسل میں ہیں، غیر سرکاری تنظمیں جیسے ادارہ تبلیغات اسلامی اور دوسرے ثقافتی ادارے سب کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا۔  آج کام کی بنیاد یہ ہے۔

آج حضرات (2) نے اس گفتگو کی رپورٹ پیش کی ہے جو ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران آپ بہنوں اور بھائيوں کے درمیان کی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گزشتہ سال بھی تقریبا اسی قسم کی باتیں کی ہیں اور اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ معاشرے میں تدیّن کو غلبہ حاصل ہو اور عوام دینداری کی طرف آئيں۔ تدیّن سے مراد دین کا تظاہر اور تقدس مآبی نہیں ہے۔ البتہ ظواہر کی بھی بہت اہمیت ہے۔ ظواہر کا یقینا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ دینی سلوگن کے مسئلے کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ چیزیں بہت موثر ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہی گہرے، بنیادی، فکر اور اعتقادی کام بھی انجام دنیا ضروری ہے۔  انقلاب سے پہلے جو لوگ تبلیغی اور دینی کاموں کی توانائی رکھتے تھے، اپنی وسعت بھر کام کرتے تھے۔ آج وہ کوششیں ہزاروں گنا زیادہ ہو جانی چاہئے۔ دس گنا اور سو گنا نہیں کہا جا سکتا۔ آج پوری حکومت اور اتنا عظیم نظام اتنے امکانات و وسائل کے ساتھ ہمارے اختیار میں ہے۔ عوام کو سیلاب کی طرح اسلام اور اسلامی اصولوں اور اسلامی اہداف کی طرف لانا چاہئے۔

اگر ہمارے اندر عزم ہو، فیصلہ ہو تو کون سی چیز ہمارے سامنے رکاوٹ بن سکتی ہے؟ لہذا درحقیقت مجھے بعض حکومتی اداروں سے گلہ ہے اور میں نے اپنا گلہ بیان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کام کم کیا گیا ہے،  سستی پائی جاتی ہے۔ میں نے ایک بار اس اجلاس میں، دو تین سال قبل یہ عرض کیا تھا کہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مقابل تفکر کو ختم کر دیں، اس کا قلع قمع کر دیں۔ ہم قلع قمع کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم اس کی فکر میں نہیں ہیں۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ کسی فکر کا قلع قمع کرنا ممکن اور مفید ہے۔ ہمارا نظریہ ہے کہ فکر پیش کی جائے، تقریر و تحریر میں اس کو بیان کیا جائے، لیکن ہمارے پاس منطق، استدلال اور صحیح فکر ہے۔ ہم منطق اور استدلال سے ثابت کریں کہ یہ فکر غلط ہے۔ فکری بیانات و اظہارات کے مقابلے میں، سیاسی میدان میں، اسلامی میدان میں، مخالفین، دشمنان اسلام، اسلام، مسلمین اور اسلامی نظام کے مقابلے پر آنے والے، جو فکر پیش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں کام کیا جائے۔ اگر دیکھا جائے کہ کچھ لوگ میدان میں آکے ثقافتی صف آرائی کر رہے ہیں تو مجھے خوشی ہوگی کہ وہ باتیں جو اب کہی جا رہی ہیں، اس سے زیادہ کہی جائيں، لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس صف آرائی کا مشاہدہ کریں۔ وزارت ارشاد ( اسلامی ہدایت کی وزارت) اعلی تعلیم کی وزارت، وزارت صحت، وزارت تعلیم و تربیت، ادارہ تبلیغات اسلامی، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سب مل کے دکھائيں کہ ان کی صف آرائی ہے۔ ثقافتی مراکز اور قوتوں کی صف آرائی دینی، اسلامی اور انقلابی صف آرائی ہونی چاہئے۔ اس میں واپسی نہیں ہے۔ یہ غلط اور خطرناک ہے کہ ہم ناگہاں یہ احساس کریں کہ دشمن نے ہماری صف آرائی در برہم کر دی ہے اور ہم ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ میدان جنگ کی طرح، آپ ناگہاں دیکھیں کہ بجائے اس کے کہ آپ کے فوجی دشمن کے مقابلے پر مورچہ سنبھالیں، مورچہ بنائيں، آپ کے مورچے قلب دشمن تک چلے گئے ہیں اور دشمن کے مورچے آپ کے درمیان آ گئے ہیں، ایک دوسرے سے مل گئے ہیں! آپ نے اپنے ہی لوگوں کے مقابلے پر مورچے بنا لئے ہیں! یہ باعث تشویش ہے۔ مجھے آج اس کی تشویش ہے۔

 میں نظر دوڑاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارے ثقافتی میدان میں اسلام کے نام پر بہت کم کام ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر وزارت ارشاد یہ اعلان نہیں کرتی ہے کہ ہم اسلامی فلمیں بنانا چاہتے ہیں! ہمیں کس بات کی ہچکچاہٹ ہے؟ کسی زمانے میں اس دنیا میں ایسے لوگ تھے جو بسم اللہ کہنے اور اسلام کا نام لینے میں شرم محسوس کرتے تھے۔ ہم نے دنیا میں اسلام کو رائج اور مقبول کیا۔ اب ہم اس بات میں شرم محسوس کریں کہ ہم اسلامی سنیما اور تھئیٹر پیش کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں یہ اعلان نہیں کرتے؟ صراحت کے ساتھ کہیں کہ ہم اپنے سنیما کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ اسلامی سنیما کا مطلب کیا ہے؟ یعنی یہ کہ ہم اس تکنیک، اس پیرائے اور اس ہنر کو جو بہت سی دوسری چیزوں کی طرح دوسروں سے لیا ہے، معانی اور مفاہیم کے لحاظ سے اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس قالب اور ہنر سے ہر اس چیز کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو اسلام سے منافات رکھتی ہو۔ یہ کہنے میں کیا حرج ہے؟ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ہم اپنے اسٹیج آرٹ میں، یونیورسٹی میں، فلاں پروگرام میں مسلمان ہدایتکار چاہتے ہیں؟ اس کی تشریح کی جائے کہ ہم مسلمان ہدایتکار، مسلمان اسکرپٹ رائٹر اور مسلمان اداکار تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم معاشرے کے ماحول کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وضاحت کیوں نہیں کی جاتی؟ یونیورسٹیوں میں اس بات کی تشریح کیوں نہیں کی جاتی کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں؟ میں نے چند سال قبل یہ بات پیش کی تھی۔ البتہ مجھے اطلاع ہے کہ آپ حضرات نے اس سلسلے میں میٹنگیں کی ہیں۔ ان شاء اللہ ان میٹنگوں کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ یہ کہنے میں شرم محسوس نہ کریں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں اسلامی ہوں۔ اس میں خوف محسوس نہ کریں۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے اس قوم نے قیام کیا ہے اور ہم آپ اس قوم کے ظاہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا ارادہ، ہماری فکر ، ہمارا تصور اور ہمارے جذبات اس قوم کے طبقات کی گہرائیوں کی عکاسی نہیں کرتے! قوم کے طبقات وہی ہیں جو انقلاب لائے، جنہوں نے جںگ لڑی اور اتنے شہید دئے۔ اب بھی تیار ہیں  اگر اسی طرح کا امتحان درپیش ہو تو اسی طرح شہادتیں پیش کریں گے،  بھوک اور سختیاں برداشت کریں گے، عوام مومن ہیں۔

جناب آ‍قائے خاتمی سے ان کی تقریر کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی، شاید کل یا پرسوں، انھوں نے اپنی تقریر میں ایک جملہ کہا تھا جو مجھے بہت پسند آیا۔ انھوں نے کہا تھا کہ "ایران کا تشخص اسلام کے ساتھ ہے" دیکھئے ہمارا ملک ایسا ملک ہے جس کا حصہ گزشتہ چند صدیوں کے دوران تمام اسلامی علوم میں سب سے زیادہ رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے۔ تفسیر کی کتابیں، حدیث کی کتابیں، فقہ کی کتابیں، عربی ادب کی کتابیں، فلسفے اور عرفان کی کتابیں ایرانیوں نے زیادہ کیوں لکھی ہیں؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم جس کے ہم اور آپ آج حاکم ہیں اور اس کی زمام حکومت ہمارے ہاتھ میں ہے، یہ اپنے وجود کی گہرائیوں تک اسلامی اور مسلمان ہے۔ پہلوی آئے، کچھ نہ کر سکے۔ کمیونسٹوں نے اپنے طور پر کوشش کی لیکن اس قوم کو پلٹانے میں  ناکام رہے۔ ایک چنگاری اٹھی، ایک فقیہ، ایک امام اور مرجع تقلید میدان میں اترا تو دیکھا کہ کیا ہوا؟! آپ سب تو شاہد تھے، آپ نے تو دیکھا ہے کہ عوام کس طرح آگے بڑھے، کیسا قیام کیا، کیسی استقامت دکھائی، کیسی فداکاری کی اور یہ نظام قائم کیا! یہ عوام مسلمان ہیں۔ اگر ہم اور آپ اسلام نہ چاہیں، اسلام کا نام لینے میں شرم محسوس کریں اور عوام جان لیں تو ہمیں کنارے لگا دینے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ ہمیں اسلام سے  تمسک حاصل کرنا چاہئے۔ اسلام وہ چیز ہے جو اس ملک و قوم کی ترقی، پیشرفت، رشد، تکامل اور سربلندی کا عامل ہے اور اس کی جگہ یہی ثقافت ہے۔ مجھے وزارت ارشاد سے توقع ہے۔ البتہ جناب آقائے مہاجرانی بظاہر نہیں ہیں، انھوں نے یہاں آکے ہماری باتیں سننے کی زحمت سے خود کو بچا لیا! بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ رہیں یا نہ رہیں، میرا اعتراض یہ ہے اور اس اعتراض کو میں نے بارہا بیان کیا ہے، اس وقت ایک بار پھر آپ سے کہتا ہوں کہ وزارت ارشاد نے اس دو سال میں جب سے وہ اس کے سربراہ ہیں، اسلامی عنوان سے کوئی کام نہیں کیا ہے! یہ میرا پہلا اعتراض ہے۔ فرض کریں کہ ریڈیو ٹیلی ویژن کے بارے میں بہت کم ایسے ہفتے گزرتے ہوں کہ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا ہو اور کوئی تند پیغام نہ دیا ہو۔ لیکن ریڈیو ٹیلی ویژن نے بہت سے اسلامی کام کئے ہیں۔ اسلامی پروگرام، اسلامی آرٹ کے پروگرام تیار کئے ہیں۔ علمی اور رپورٹوں پر مبنی پروگرام تیار کئے ہیں۔ اگر غلطی اور کچھ خلاف ورزی ہوئی ہے تو دوسری طرف کام بھی کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ وزارت ارشاد نے اسلامی تفکر کی تقویت کے لئے کتنی کتابیں شائع کی ہیں؟ کتنی فلمیں اسلامی اور انقلابی  فکری بنیادوں کی تقویت کے لئے تیار کی ہیں؟ کتنے ڈرامے اس تعلق سے تیار کئے ہیں۔ اس وقت وزارت ارشاد کے ہالوں میں مسلسل تھئیٹر اور ڈرامے اسٹیج کئے جا رہے ہیں، جن میں سے بعض سو فیصد دین اور انقلاب کے مخالف ہیں! کچھ لوگوں نے جاکے دیکھا اور اس کے بعد مجھے رپورٹ دی ہے۔ اب اگر ان ڈراموں اور تھئیٹروں کے ساتھ پانچ چھے نمونے مجھے دکھاتے کہ یہ ڈرامے اور تھئیٹر یا یہ فلمیں ہم نے تبلیغ اسلام کے لئے تیار کی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ تب میں کہتا  "خلطوا عملا صالحا و آخر سیّئا، عسی اللہ ان یتوب علیھم"(3) لیکن ایسا نہیں ہے۔ جو بھی ہے اس طرف سے ہے! یہ میرا اعتراض ہے۔ میں وزارت ارشاد کے طرزعمل سے راضی نہیں ہوں۔

ناولوں کے بارے میں چند باتیں۔ میں ہمیشہ ناول پڑھتا تھا۔ آج بھی رابطے میں ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ ناولوں کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ آج خراب ترین ناول شائع ہو رہے ہیں۔ البتہ ان تین چار مہینوں میں کسی حد تک یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ بظاہر پارلیمنٹ میں جو آواز اٹھائی گئی یا ادھر ادھر سے جو اعتراضات کئے گئے ہیں اس وجہ سے یہ ہوا ہے۔ وزارت ارشاد نے چند ناولوں کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے لئے پیسے اور وسائل ان لوگوں کے اختیار میں دیئے گئے جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ یقینی طور پر انھیں چاہئے کہ  انقلاب اور جنگ کے بارے میں چند ناول شائع کریں۔ کتنے ناول اس قسم کے لکھے گئے؟ یہ ہمارا سوال ہے۔ کیا وزارت ارشاد کا فریضہ اس کے علاوہ کچھ ہے؟ وزارت ارشاد اسلام کی ترویج کے لئے ہے۔ البتہ ادارہ تبلیغات اسلامی پر بھی میرا یہ اعتراض ہے۔ لیکن چونکہ وسائل اور امکانات کے لحاظ سے اس کا دائرہ وزارت ارشاد کے مقابلے میں کم تر ہے اس لئے زیادہ اعتراض وزارت ارشاد پر ہے۔

یونیورسٹیوں کے تعلق سے بھی یہی صورتحال ہے۔ میں ابھی ڈاکٹر معین اور ڈاکٹر فرہادی سے عرض کرتا ہوں: برادران عزیز! میں آپ دونوں حضرات کو متدین اور انقلابی سمجھتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مومن اور انقلابی افراد پر دباؤ بڑھایا جائے ان کو کنارے لگایا جائے۔ آپ یہ نہ ہونے دیں۔ اس دباؤ ڈالنے والے گروپ کا نام جو بھی ہو، چاہے یہ کام اسلامی انجمن کے نام پر ہی کیوں نہ کیا جا رہا ہو! بعض اسلامی انجمنیں صرف یہی نہیں کہ اسلامی نہیں ہیں بلکہ فاسد ہیں! اسلام مخالف ہیں! آپ اس قسم کی اسلامی انجمنوں کی حمایت اور ان کا دفاع نہیں کر سکتے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ نہ حکومتی وسائل سے، نہ اس وزارت سے جو اسلامی نظام نے آپ کو دی ہے (ان کی حمایت نہیں ہونی چاہئے)۔ آپ کو اسلام، انقلاب اور امام کے راستے کا دفاع کرنا چاہئے۔ ان چیزوں کا دفاع کرنا چاہئے۔ آج عوام جس چیز کے لئے جان دینے پر تیار ہیں وہ اسلام ہے۔ تجربہ شاہد نہیں ہے کہ بعض لوگ کمترین آسائش بھی ترک کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن اس معاشرے میں ابھی ایسے لوگ ہیں اور الحمد للہ ان کی تعداد زیادہ بھی ہے، کم نہیں ہیں جو راہ خدا اور راہ اسلام میں اپنی جان نثار کرنے کے لئے تیار ہیں۔

بہرحال میرے خیال میں ثقافت کا کردار بنیادی اور فیصلہ کن ہے اور ہم آج یلغار کی زد پر ہیں۔ جو جناب خاتمی صاحب نے اشارتا کہا ہے صحیح ہے میں اس کی سو فیصد تائید کرتا ہوں۔ ثقافتی یلغار کے مسئلے کا ہمیں علمی اور اصولی طور پر جائزہ لینا چاہئے۔ البتہ جب میں نے یہ بات کہی تھی تو بعض لوگوں نے اس کو سیاسی محرکات پر محمول کیا تھا، لیکن خدا گواہ ہے کہ خدائی محرک کے علاوہ کوئی محرک نہیں تھا۔ کوئی سیاسی محرک نہیں تھا۔ حقیقت قضیہ مد نظر تھی۔ چونکہ میں جریدوں سے واقف ہوں، اس ملک کے پرنٹ میڈیا سے مجھے کافی انس اور لگاؤ ہے۔ اب بھی یہی حالت ہے۔ میں کھیل کود کے بعض جرائد بھی پڑھتا ہوں۔ ان دنوں، انیس سو بانوے ترانوے میں، میں نے دیکھا کہ کس طرح کی چیزیں ملک کی ثقافت میں داخل کر رہے ہیں۔ شروعات وہاں سے ہوئی تھی، یہ سازش کا آغاز تھا۔ میں نے اس وقت ثقافتی یلغار کا مسئلہ بیان کیا۔ البتہ اب معاشرے میں اس کے وسیع تر پہلو آشکارا ہو چکے ہیں۔ واقعی اس وقت ہمارے خلاف ثفافتی یلغار جاری ہے۔ البتہ یہ ثقافتی یلغار جس کی زد پر اس وقت یہ انقلاب، مومنین، اسلام اور متدیّن افراد ہیں اور اس یلغار میں جو بھی ان سے بن پڑ رہا ہے، کر رہے ہیں، اگرچہ یہ یلغار ایک چھوٹے سے گروہ کی طرف سے ہے کسی بڑے گروہ کی طرف سے نہیں ہے، لیکن یہ یلغار ایک سیاست کی حامل ہے! یہ ثقافت بھی نہیں ہے! کبھی انسان کسی فکر کو قبول نہیں کرتا ہے تو ایک فلسفے کے عنوان سے اس کو مسترد کر دیتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اس طرح کا نہیں ہے۔ اس وقت جو کچھ پایا جاتا ہے اس میں سیاسی ارادہ اور سیاسی جہت پائی جاتی ہے۔ بہرحال مجھے ان تمام دوستوں اور حضرات سے جو اس کونسل میں ہیں، یہ توقع ہے کہ ثقافت اور دشمن کے مقابلے میں ثقافتی صف آرائی کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ وہ امر ہے کہ اگر میں اس راہ میں قتل کر دیا جاؤں تو سمجھوں گا کہ راہ خدا میں قتل کیا گیا ہوں۔ جو بھی اس راہ میں محنت کرے گا وہ راہ خدا میں محنت کرے گا۔ یہ معمولی امر نہیں ہے۔ دشمن چاروں طرف سے ہمارا محاصرہ کر رہا ہے ۔ کتابیں، اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، نیوز ایجنسیاں، جعلی خبریں اور انواع و اقسام کے ثقافتی وسائل تیار کر رہے ہیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور بعض اوقات ان سے ہم آہنگ ہوکے ان کی آواز میں آواز ملائیں! یہ نہیں ہو سکتا۔ اسلامی نظام کو اپنا دفاع کرنا چاہئے۔ اس کے پاس حقیقت اسلام اور انقلاب کے دفاع میں بولنے کے لئے بہت کچھ اور کافی ثقافتی ذخائر موجود ہیں اور اس کا مرکز یہی کونسل ہے۔ میں اس کونسل کو بہت ہی اہم مرکز سمجھتا ہوں۔ اس قانونی مسئلے کے تعلق سے جس کا ذکر کیا گیا(4) میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کوئی قانونی ابہام نہیں پایا جاتا۔ میں محکم انداز میں کہتا ہوں۔ میں آئین سے ناواقف نہیں ہوں، یہ قانون کے مطابق ہے۔ اس لئے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کو منظوری دی ہے اور اس پر تاکید فرمائی ہے اور جس کو امام اور رہبر انقلاب منظور کرے اور اس پر تاکید کرے وہ آئين کے مطابق عین قانون ہے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر آئین میں اور اس کے مفہوم میں کوئی شبہ اور ابہام ہے تو نگراں کونسل سے سوال کریں۔ اس کا جواب بھی یقنیا یہی ہوگا۔ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل اور دیگر مختلف کونسلیں سبھی، یا ایک واسطے سے یا براہ راست خود حضرت امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں پاس ہوئی ہیں۔ بہرحال رہبر کی منظور کردہ ہیں اور قانونی لحاظ سے ان میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ آج حکومت کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو اسی طریقے سے دور ہوتی ہیں۔ انہیں دور ہونا چاہئے، اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس لئے کہ اس میں کوئی شبہ اور ابہام نہ رہ جائے، ان شاء اللہ اس سلسلے میں سوچوں گا اور کوئی چارہ جوئی کروں گا کہ ان پہلؤوں سے کوئی شک و شبہ جو ممکن ہے کہ بعض حضرات کے اذہان میں ہو، باقی نہ رہے۔ بہرحال میری گزارش یہ ہے کہ جو حضرات ثقافتی امور کے ذمہ دار ہیں، وہ اس کونسل کے فیصلوں کو قانونی اور ایسے فیصلے سمجھیں جن پر عمل ضروری ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب دل چاہے اس کے مطابق کام کریں اور جب دل نہ چاہے نہ کریں۔ فرض کریں کہ کونسل کے اراکین متعدد نشستوں میں ثقافتی پالیسیاں منظور کریں، جو اچھی ثقافتی پالیسیاں ہوں، بعد میں مثال کے طور پر  تشخیص مصلحت نظآم کونسل میں ان پر کوئی توجہ نہ دی جائے، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ ایک بنیادی اور اہم مرکز ہے۔ یہ کونسل ثقافتی امور میں یقینا تشخیص مصلحت نظام کونسل پر ترجیح رکھتی ہے۔ کم سے کم یہ ہے کہ یہ کونسل ث‍‍قافتی امور کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور وہ ایسا مرکز ہے جہاں رہبر کے مشاورین ہیں۔ یہاں رہبر کے منصوب کردہ افراد ہیں جن کا کام ثقافتی مسائل اور پالیسیوں پر بحث کرنا ہے اور جب انھوں نے  کوئی چیز پاس کرکے تشخیص مصلحت نظام کونسل میں بھیجی  تو وہاں اس کو معتبر سمجھ کے اہمیت دی جانی چاہئے تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ اس کونسل میں منظور کیا گیا اس کو بعینہ وہاں پاس کیا جاتا، تشخیص مصلحت نظام کونسل کو اس میں فیصلے کا حق ہے لیکن اس کونسل کے فیصلوں پر معتبر سمجھ کے توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن یہ نہیں ہوا۔ البتہ اس کے بعد میرے دفتر میں کسی حد تک اس کی تلافی کی گئی اور جو ثقافتی پالیسیاں وہاں مد نظر رکھی گئی تھیں تیسرے ترقیاتی پروگرام میں نظام کی مجموعی پالیسیوں میں ان کو شامل کیا گیا۔

بہرحال، امید ہے کہ خداوند عالم آپ کی اور ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم اپنے فرائض پر عمل کر سکیں اور ان کے تعلق سے جواب دے سکیں۔ جو کام ہم کریں، ان کا جواب بھی دینا ضروری ہے؛ ہمیں یہ فکر بھی کرنی چاہئے کہ ان کاموں کے تعلق سے ہمیں جواب بھی دینا ہے۔ خداوند عالم ہم سے ان کے تعلق سے سوال کرے گا: "ثم لتسئلنّ یومئذ عن النعیم" (5) یہ نعمت عظیم ہے خداوند عالم یقینا اس کے تعلق سے سوال کرے گا۔ ہمیں جواب دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1-منہاج الصادقین، جلد 9، صفحہ 211

2-  رہبر معظم کے دفتر کے عہدیداران

3- سورہ توبہ آیت نمبر 102

4-اجلاس کے آغاز میں صدر مملکت کی پیش کردہ رپورٹ

5- سورہ تکاثر آیت نمبر 8