بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین المعصومین المطهّرین سیّما بقیّة الله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

عزیز بھائیو اور بہنو! قم کے سربلند عوام! قم کے محترم افاضل کرام! واقعی آپ کا اجتماع، آپ سے ملاقات، آپ کا یہ دن برسوں سے ہمیشہ ہی سرچشمہ امید و نشاط اور باعث عمل اور سبق آموز ثابت ہوا ہے۔ 9 جنوری کا دن صرف قم کے عوام کی تعریف و تحسین اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نہیں ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ یہ چیز بھی انجام دی جائے۔ واقعی قم کے عوام کی، قم کے نوجوانوں کی جنہوں نے اس عظیم قیام کا آغاز کیا، اس تاریخی موڑ کو وجود بخشا جو ناقابل فراموش ہے، تعریف و تحسین کرنا چاہئے۔ اس میں تو کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں۔ قم وہ جگہ ہے جو ایک طوفانی دریا کا سرچشمہ ثابت ہوا، جو انقلاب کے متلاطم  سمندر کے وجود کا نقطہ آغاز بنا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ قم انقلاب کا شہر ہے، انقلاب کا مرکز ہے، مادر انقلاب ہے۔

البتہ میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایسے عزائم موجود ہیں کہ قم کے اس انقلابی ماحول کو بدل دیا جائے، قم کے انقلابی جذبے اور دینی احساسات کو کم رنگ کیا جائے۔ ایسے عزائم موجود ہیں۔ دشمن کی سازشوں کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہئے، اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دشمن اقتصادی پہلو سے عیارانہ اور مکارانہ اقدامات کر رہا ہے اور ہماری بھرپور توجہ اس طرف ہے تو ثقافتی میدان میں دشمن کے مکر و حیلے سے بھی ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دشمن کے ایسے عزائم ہیں، وہ اپنے افراد بھیجتے ہیں۔ اس پر توجہ رکھنا ضروری ہے۔ قم کے بزرگان، قم کے نوجوان یہ موقع نہ دیں کہ خیانت کار عناصر قم کی انقلابی مرکز کی حیثیت کو اور انقلاب کے گہوارے کی حیثیت کو ختم کر دیں یا وہاں انقلاب کو کم رنگ کر دیں۔ بہرحال دنیا کو ہلا دینے والی اس تحریک کا اصلی سرچشمہ قم ہے اور اس کا روحانی اور فکری سائبان قم کا دینی علوم کا مرکز ہے۔ اس تحریک نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ سفر جاری ہے البتہ ہم ابھی ابتدائے راہ میں ہیں۔

بنابریں 9 جنوری کی تاریخ قم کے عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی دن ہے اور اس کے لئے یہ مناسب موقع ضرور ہے لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ نو جنوری کی تاریخ میں ہمارے آج کے دور کے لئے اہم سبق موجود ہیں۔ اس تحریک کے متن میں جس چیز کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور جس کے بارے میں تحقیق کی جا سکتی ہے میں اس کا ایک مختصر سا حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ نوجوان توجہ فرمائیں! ان حقائق پر خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کو توجہ دینا چاہئے، کیونکہ یہ کام آپ نوجوانوں کا ہے اور مستقبل بھی آپ کا ہے۔

31 دسمبر 1977 کو امریکہ کے صدر تہران آئے اور یہاں انہوں نے بڑی فصیح تقریر کی جس میں محمد رضا (شاہ  ایران) کی جھوٹی اور مبالغہ آمیز تعریف کی۔ انہوں نے اس تقریر میں کہا: "ایران جزیرہ ثبات ہے۔" یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ امریکہ کو ایران کی طرف سے پورا اطمینان تھا جو امریکہ پر پوری طرح منحصر تھا اور جہاں کے حکام امریکہ کی نوکری کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔ یہ جزیرہ ثبات ہے۔ یہ بات 31 دسمبر کو کہی گئی۔ دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ قم کا وہ واقعہ رونما ہوا اور 9 جنوری کو قم کے عوام نے قیام کر دیا، باہر نکل پڑے، اس ظالم، غیروں کی غلام اور بدعوان شاہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ امریکہ اور مغرب کے پالیسی ساز اداروں کا یہ حال ہے۔ اس پر آپ توجہ دیجئے۔ خود مغربی اور امریکی حکام اپنی پیشین گوئی اور تخمینے اور اندازے کی صلاحیت پر بہت فخر کرتے ہیں۔ اپنی تجزیاتی صلاحیت، مستقبل کا پہلے سے اندازہ لگا لینے کی صلاحیت پر انھیں فخر ہے۔ یہاں بھی کچھ لوگ ہیں جو امریکہ زدہ اور مغرب زدہ ہیں اور امریکہ کے تخمینوں اور اندازوں کا بار بار ذکر کرتے رہتے ہیں کہ "امریکہ نے یہ کہہ دیا ہے، فلاں امریکی دانشور نے اور فلاں امریکی تحقیقاتی ادارے نے یہ کہہ دیا ہے۔ دنیا کے بارے میں یہ رائے قائم کی ہے اور مستقبل کی یہ تصویر پیش کی ہے۔" جبکہ امریکہ کی تخمینہ لگانے کی صلاحیت کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتا ہے؛ "یہ جزیرہ ثبات ہے" اور دس دن بھی نہیں گزرتے کہ سب کے سامنے آ جاتا ہے کہ اس جزیرہ ثبات کا کیا تھا؟  قم کا قیام، اس کے بعد تبریز کا عوامی قیام، اس کے بعد عظیم الشان عوامی تحریک، اس کے بعد سب کچھ تہہ و بالا کر دینے والی اسلامی انقلاب کی تحریک اور اغیار کی غلام پہلوی طاغوتی حکومت کی نابودی عمل میں آتی ہے (1)۔ یہ ان کی اندازے کی صلاحیت ہے۔ یہی تخمینے کی صلاحیت آج تک چلی آ رہی ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے ایک امریکی عہدیدار نے (2) مٹھی بھر اوباش اور دہشت گرد عناصر کے درمیان کہا کہ انھیں امید ہے یا ان کی آرزو ہے کہ 2019 کا کرسمس کا جشن تہران میں منائیں! 2019 کا کرسمس کا جشن ابھی چند روز قبل گزرا ہے۔ یہ وہی تخمینے اور اندازے کی صلاحیت ہے۔ یہ وہی افراد ہیں۔ ان کے تخمینوں کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی امیدیں لگائیں! جیسے صدام حسین کو امید تھی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر تہران پہنچ جائے گا، صدام کے دوسرے مہروں یعنی منافقین کی امید کی طرح کہ وہ کرمان شاہ سے روانہ ہوں گے اور تین دن میں براہ راست وہ تہران پہنچ آئیں گے۔ یہ ان کے تخمینے ہیں! دشمن کی تخمیہ لگانے کی یہ صلاحیت ہے۔ کچھ امریکی عہدیداران یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جنونی ہیں! میں اس سے اتفاق نہیں رکھتا، البتہ وہ پہلے نمبر کے احمق ضرور ہیں۔

قم کے عوام کا قیام تخمینہ لگانے والے دو اداروں کی  مقابلہ آرائی، شناخت کے دو نظاموں کی مقابلہ آرائی، دو متصادم تجزیاتی روشوں کی مقابلہ آرائی تھی۔ ایک مغرب کا دلدل میں ڈوبنے والا جھوٹی لبرل جمہوریت کا شناختی نظام تھا اور دوسرا توحیدی و اسلامی توحیدی نظام تھا۔ قم کے قیام سے اندازے اور تخمینے کے دو محاذوں کی مقابلہ آرائی کی تصویر سامنے آئی۔ امریکہ کا اندازے اور تخمینے لگانے والا نظام جس نے ایران کے سلسلے میں اپنا وہ نظریہ قائم کیا، امریکیوں کے اسی ابتدائی تخمینے کے مطابق امریکی سینیٹ نے اسلامی انقلاب کی فتح کے ابتدائی مہینوں میں ایران پر پابندیاں لگا دیں، اس نظام نے یہ اندازہ لگایا کہ پانچ مہینے میں یا چھے مہینے میں ایران کا اسلامی انقلاب ختم ہو جائے گا۔ یہ ان کا اندازہ تھا۔ اب آپ اسلامی نظام کی تخمینے کی صلاحیت کو ملاحظہ فرمائیے کہ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا کہ "میں مارکسزم کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سن رہا ہوں۔" (3) اس کے ایک سال بعد، دو سال بعد ساری دنیا نے ان ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سن لی۔ امر واقعہ یہ ہے۔ مغرب کے سامنے ایک ایسی حقیقت موجود ہے۔ یہ حقیقت اسلامی انقلاب ہے۔ ایک طرف آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے عسکری، مالی اور سیاسی وسائل کا انبار اور دوسری جانب جوش و جذبے سے، محنت و تحرک سے آراستہ، مستقبل پر نظر رکھنے والی نو ظہور تمدنی اور شناختی قوت جسے بخوبی علم ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ جسے بخوبی پتہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کس طرف جانا ہے۔ یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

اس نو ظہور اور نمو کے مراحل طے کرنے والی حقیقت سے مغرب اور امریکہ کے سامراجی نظام کی دشمنی ایک فطری چیز ہے۔ کسی کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں، یا پھر شاید معاملہ کچھ اور ہے، وہ کہتے ہیں کہ آپ نے کیوں وہ بات کہہ دی کہ امریکہ آپ کا دشمن بن گيا؟! وہ اس خیال میں ہیں کہ امریکہ کی دشمنی کی وجہ امام خمینی کا کوئی خاص بیان یا کسی عہدیدار کی کوئی خاص تقریر ہے جس میں امریکیوں کو برا بھلا کہا گيا۔ معاملہ یہ نہیں ہے۔ اصلی ماجرا کچھ اور ہے۔ یہ قضیہ بہت عمیق ہے۔ چالیس سال ہو رہے ہیں کہ یہ نو ظہور طاقت آگے بڑھتی جا رہی ہے، روز بروز نمو کے نئے مراحل طے کر رہی ہے، پروان چڑھ رہی ہے، اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی قوت بڑھ رہی ہے۔ اسے وہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ جوش و خروش اور جذبہ عمل سے سرشار اس نو ظہور روحانی طاقت کے سامنے آنے کے بعد، دنیا کے لئے نا آشنا اس عجیب روحانی قوت کے سامنے آنے کے بعد استکبار کی ظاہری قوت میں دراڑیں پڑ گئیں اور ان چالیس برسوں میں یہ دراڑیں چوڑی اور گہری ہوتی جا رہی ہیں۔  دنیا کی امیر ترین طاقتیں آج دنیا کی سب سے مقروض اور سب سے زیادہ مشکلات میں گرفتار حکومتیں بن چکی ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ یہ وہی نکات ہیں جن پر ہمارے نوجوانوں کو توجہ دینا چاہئے۔ یہ کسی ایک عہدیدار یا دوسرے عہدیدار کی زبانی محاذ آرائی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ماہیت اور شناخت کا معاملہ ہے۔ یہ تحریک کا معاملہ ہے۔ یہ امنگوں اور مستقبل کا قضیہ ہے۔  

البتہ انھیں چوٹ کھانی پڑی۔ سب سے پہلی چیز تو یہ ہوئی کہ ایران جیسا تر نوالہ ان کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ ایران افریقا یا لاطینی امریکہ کا کوئی دور افتادہ ملک نہیں ہے۔ ایران دنیا میں جغرافیائی اسٹریٹیجک پوزیشن کی بلند چوٹی ہے۔ ایک نہایت اہم مرکز ہے، مغربی ایشیا کا کوئی بھی جغرافیائی علاقہ ایران جیسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بہت کم سرزمینیں ایسی ہیں جہاں ایران جیسی مادی دولت اور گوناگوں صلاحیتیں ہیں۔ اس کا اعتراف خود دشمن بھی کرتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایک مغربی ادارے نے اس حقیر کے سلسلے میں بدکلامی کرتے ہوئے ایک بات کہی جس میں اس نے اعتراف کیا کہ ایران دنیا کا پانچواں سب سے دولت مند ملک ہے۔ اس کی یہ بات صحیح ہے۔ ایران ایسا ہی ہے۔ ہمارے پاس موجود توانائیاں اور صلاحیتیں غیر معمولی ہیں۔ یہ نرم لقمہ ان کے ہاتھ سے پھسل گیا، ان کی برہمی کی پہلی وجہ یہی ہے اور یہ برہمی آج تک جاری ہے۔

اصلی مسئلہ دو نظریات کے ٹکراؤ کا مسئلہ ہے۔ حق و باطل کی مقابلہ آرائی کا مسئلہ ہے۔: جاءَ الْحَقُّ وَ ما یُبْدِئُ الْباطِلُ وَ ما یُعید (4) ابھی محترم قاری نے اس آیت کی تلاوت کی، حق جب آ گیا تو باطل فطری طور پر لرزنے لگتا ہے۔ یہ استکباری طاقتیں ہیں، یہ استعماری طاقتیں ہیں، ان کی زندگی اور ان کی غذا کا انحصار قوموں کا خون چوسنے پر ہے۔ دنیا میں ایک نئی طاقت ابھری ہے جو اس ظالمانہ نظام کی مخالف ہے اور کھل کر مخالفت کر رہی ہے، ان کے دباؤ میں آنے کے لئے تیار نہیں ہے، جہاں تک ممکن ہو اپنی آواز دیگر اقوام کے کانوں تک پہنچا رہی ہے اور اب تک وہ مسلسل کامیابیاں بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ ہم اس چالیس سالہ عرصے میں کامیاب رہے ہیں۔ آپ خود دیکھئے کہ آج کتنی اقوام میں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں؟ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ملت ایران کی یہ عظیم تحریک ان طاقتوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ ظالم اور مستبد مادی طاقتوں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ قوموں کا خون چوسنے والی کثیر القومی کمپنیوں کو ہرا‎ساں کر رہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے برے انجام  کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جی ہاں، تمدنوں میں روحانی خلا کا منفی اثر فورا سامنے نہیں آتا۔ مغرب نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا، صنعتی سفر کا آغاز کیا، علم حاصل کیا، دولت حاصل کی، دنیا کو اپنی مٹھی میں کر لیا، شور شرابا کیا، لیکن اس کے اندر وہ اصلی اور کلیدی خلا یعنی روحانی خلا دیمک کی طرح اپنا کام کر رہا ہے۔ اس کا اثر فوری طور پر نظر نہیں آتا، کبھی صدیوں بعد اس کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اب اس کا اثر دکھائی دینے لگا ہے۔ آپ یورپ کو دیکھئے! امریکہ میں الگ انداز سے، یورپ میں الگ انداز سے، ان کے ہمنوا ممالک میں الگ انداز سے۔ جبکہ دنیا کے ان حالات میں اسلام، اسلامی جمہوریت، اسلامی تحریک، اسلامی تمدن دنیا کے موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، دنیا میں موجود وسائل کی مدد سے روز بروز پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ ان طاقتوں کے لئے بڑی خوفناک تصویر ہے، انھیں دہشت زدہ کر دینے والی تصویر ہے۔ ظاہر ہے وہ اس سے دشمنی نکالیں گے۔

اب یہاں دو اہم نکتے ہیں۔ ایک نکتہ اس دشمنی کی وجہ ہے۔ تساہلی نہیں برتنا چاہئے، سادہ لوحی سے بچنا چاہئے۔ اس دشمنی کی وجہ اس عظیم تحریک کی ماہیت و حقیقت ہے۔ یہ دشمنی کی وجہ ہے۔ دشمنی کی وجہ ملت ایران کی شجاعت و جذبہ ایثار ہے، ملت ایران کی وفاداری ہے، یہ دشمنی کی اصلی وجہ ہے۔ دشمنی کی وجہ اسلامی اصولوں پر اسلامی جمہوریہ کا کاربند رہنا ہے، آج تک یہ التزام پوری طرح باقی ہے، دشمنی کی وجہ یہ ہے۔ دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ یہ ثابت کر رہی ہے کہ ایک تمدن نمو و بالیدگی کے مراحل طے کر رہا ہے اور اگر توفیق پروردگار اور نصرت خداوندی سے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے تو مغربی حکومتوں کے مظالم، استکبار اور استعمار کی بساط لپیٹ دے گا، دشمنی کی یہ وجوہات ہیں۔

اقوام کو ایران سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مغربی اقوام کو بھی دشمنی نہیں ہے۔  ممکن ہے کہ پروپیگنڈہ کریں، کہیں اسلاموفوبیا پھیلائیں، کہیں ایرانوفوبیا پھیلائیں، لیکن جہاں بھی حقیقت عوام کے سامنے ہے عوام اسلامی جمہوریہ سے دشمنی رکھنا تو در کنار اس تحریک کو دل سے چاہتے ہیں، قومیں اسے پسند کرتی ہیں، قومیں اس کی حمایت بھی کرتی ہیں۔ دشمن تو ظالم قوتیں ہیں، دنیا کے فرعون ہمارے دشمن ہیں۔ جس طرح فرعون حضرت موسی کا دشمن تھا، جبکہ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت موسی حق پر ہیں، قرآن صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ فرعون کو معلوم تھا کہ حضرت موسی حق پر ہیں، لیکن وہ دشمنی رکھتا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی سے فرمایا کہ: لا تَخافا إِنَّنی مَعَکُما أَسمَعُ وَ أَرىٰ (5) میں تمہارے ساتھ ہوں، جاؤ اپنا مشن شروع کرو اور اسے آگے بڑھاؤ! بے شک فرعون تخت سلطنت و اقتدار پر بیٹھا ہے، خوفناک ہے، دہشت ناک ہے، لیکن تم جاؤ اور اپنا کام شروع کرو، إِنَّنی مَعَکُما أَسمَعُ وَ أَرىٰ۔ آج من و عن یہی خطاب ملت ایران سے بھی ہے۔ تو دشمنی کی وجہ یہ ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس دشمنی کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس دشمنی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ جس کے ساتھ ہوگا اسے فتح ملے گی۔ اس لئے کہ قوت و طاقت کا سرچشمہ تو ذات اقدس پروردگار ہے۔ اگر ہم اللہ کے ساتھ رہیں، راہ خدا پر چلیں تو فتح سو فیصدی یقینی ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر ہم نے کوتاہی کی تو ہم کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ یہ ہماری کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ ہماری خراب کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ جہاں ہم درستگی کے ساتھ عمل کریں گے، صحیح انداز سے کام کریں گے، ہمارے عہدیداران اپنے انداز سے، عوام اپنے انداز سے۔ جہاں اقدام درستگی کے ساتھ انجام دیا جائے گا وہاں بلا شبہ اللہ تعالی مدد کرے گا؛ وَ لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (6) اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

انقلاب کو چالیس سال ہو رہے ہیں۔ چالیس سال کوئی بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ تمدنوں کی زندگی کے اعتبار سے چالیس سال تو فکری بلوغ و ارتقاء کا نقطہ آغاز ہے۔ چالیس سال کی عمر بڑھاپے کی عمر نہیں بلکہ شگوفائی اور پروان چڑھنے کی عمر ہے۔ ان شاء اللہ یہ شگوفائی حاصل ہوگی۔ اس شگوفائی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ آج بحمد اللہ ہمارے ملک میں دینی عقیدہ بہت اچھا ہے، ہماری قوم کے اندر عزم راسخ موجود ہے، عوام کے اندر آمادگی بہت اچھی ہے، صاحب ایمان اور عزم راسخ سے آراستہ نوجوان کم نہیں کافی زیادہ ہیں۔ میں جانتا ہوں، البتہ سب کو نہیں جانتا، لیکن ملک کے گوشہ و کنار میں ہزاروں نوجوان عمیق کاموں میں، فکری کاموں میں مصروف ہیں۔ دانشور نوجوان، عزم راسخ سے آراستہ نوجوان تعمیری کاموں میں، پروڈکشن میں، ایجادات میں اور ملک بھر میں جدت عملی کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ مستقبل کی تعمیر کرنے والے ہیں۔ ان کا جذبہ ایمانی بہت مستحکم اور قوی ہے۔ اللہ پر ان کا توکل بہت زیادہ ہے، اللہ پر ان کا اعتماد بہت زیادہ ہے، درخشاں مستقبل کے سلسلے میں ان کی امیدیں بہت محکم ہیں، ان کی بصیرت بہت اچھی ہے۔ عوام کے اندر یہ نوجوان موجود ہیں اور ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ میں نے کہا ایسے ہزاروں افراد ہیں تو میں نے ان افراد کی بات کی ہے جن کو میں جانتا ہوں، جبکہ ان کی کل تعداد اس سے درجنوں گنا ہے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارے نوجوان آمادہ ہیں۔ اس سب کی بنیاد و اساس لطف و فیض پروردگار ہے۔ اگر اللہ  تعالی کا ارادہ نہ ہوتا کہ یہ کام آگے بڑھے تو وہ یہ مقدمات فراہم نہ کرتا۔ ایک موقع پر، اب مجھے اس کی ساری تفصیلات یاد نہیں ہیں، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس بات پر کہ کوئی کام آسانی سے انجام پا گیا، یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اللہ چاہتا ہے کہ یہ کام انجام پائے؛ اِذا اَرادَ اللهُ شَیئاً هَیَّاَ اَسبابَه‌۔ اللہ خود مقدمات فراہم کر دیتا ہے۔ یعنی صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کی یہ مرضی تھی کہ یہ کام انجام پائے۔ مقدمات کی فراہم یعنی انقلاب کو کامیاب کرنا، اسلامی جمہوریہ کی تشکیل، اسلامی نظام کی تشکیل در حقیقت مقدمات کی فراہمی ہے اس زمانے اور اس صدی کے مطابق اسلامی تمدن کی تشکیل کے لئے۔ اس منزل تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے یہ مقدمات فراہم کئے ہیں اور ہم ان شاء اللہ وہاں پہنچیں گے۔

میری دو گزارشیں ہیں۔ ایک گزارش عہدیداران اور حکام وغیرہ سے ہے اور ایک گزارش عزیز ملت ایران سے ہے۔ عہدیداران سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے اپنی حیثیت کو سمجھئے۔ یہ جو آپ کسی عہدے پر مشغول خدمت ہیں تو یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر انسان کو کوئی ذمہ داری ملے، اگر ایسے اہداف کے لئے کام کرے، ایسی قوم کے لئے کام کرے، ایک ایسے ملک کے لئے کام کرے تو یہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ انھیں اس کی قدر کرنا چاہئے اور اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس بڑی نعمت کے لازمی تقاضے بھی پورے کریں۔ بہت خيال رکھیں کہ غلط روش کی جانب رجحان، اشرافیہ کلچر کی جانب میلان، فضول خرچی کی طرف رجحان، ان چیزوں کی طرف رجحان جو طاغوتی حکام کے درمیان رائج ہوتی ہے ہرگز پیدا نہ ہونے پائے۔ یہ ہمارے عہدیداران کی ذمہ داری ہے۔ یہ راستہ اسلام کا راستہ ہے، یہ اسلامی حکومت ہے۔ ہم امیر المومنین علیہ السلام کی طرح تو عمل نہیں کر سکتے لیکن اسے ہم اپنے راستے کے طور پر سامنے رکھ سکتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں اسی سمت میں جانا ہے، بڑھنا ہے، اسی نمونہ عمل کے سائے میں قدم بڑھانا ہے۔

شجاعت اور خردمندی۔ یہ بھی عہدیداران کا دوسرا اہم فریضہ ہے۔ شجاع ہوں، کسی کی بھی دہاڑ اور چیخ پکار سے خوفزدہ نہ ہوں۔ جو صحیح عمل ہے، جو اقدام انجام دینا ہے اسے امریکی حکام، یورپی حکام اور دوسروں کی ہرزہ سرائی کی وجہ سے ہرگز ترک نہ کریں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیسی مہمل باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی باتیں واقعی بعض اوقات جوکروں جیسی ہوتی ہیں۔ امریکی عہدیدار دنیا میں ہمارا مذاق اڑانے کے لئے کہتا ہے کہ ایران کو چاہئے کہ سعودی عرب سے انسانی حقوق کی پاسداری سیکھے! ایسے شخص کو کیا کہا جا سکتا ہے؟ جوکر کے علاوہ کچھ کہا جا سکتا ہے؟ اس کو کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے؟ یہ شخص اور اس کے جیسے دوسرے افراد کی دھمکیوں، وعدوں اور دستخط کسی بھی چیز کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ان پر توجہ ہی نہیں دینا چاہئے۔ صحیح راستے پر پوری شجاعت سے آگے بڑھنا چاہئے، اسی طرح خردمندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ جذبات کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ صرف جذبات و احساسات کی بنیاد پر ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ جذبات بہت ضروری ہیں، لیکن خردمندی کے سائے میں۔ راستے کا انتخاب خردمندی سے کریں اور پھر اس پر پورے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں۔

ایک اور فریضہ جس پر عہدیداران کی خاص توجہ ہونا چاہئے، ملک کی داخلی اور اندرونی صلاحیتوں کی قدر شناسی اور ان صلاحیتوں سے آگاہی ہے۔ بہت سی صلاحیتیں ایسی ہیں کہ اگر ہم ان سے آگاہ نہ ہوں تو جمود کا شکار ہو جاتی ہیں، چنانچہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ ہم بہت سی صلاحیتوں کو پہنچان نہیں سکے، منجملہ انھیں اچھے نوجوانوں کی صلاحیتیں ہیں۔ بعض بڑے حکومتی و سرکاری اداروں میں بعض عہدیداران کے کاموں میں کچھ رکاوٹیں ہیں اور یہ نوجوان ان گرہوں کو کھول سکتے ہیں، اپنی تابناک جواں سال فکر و تدبر کے ذریعے بھی اور اپنے عملی اقدامات کے ذریعے بھی ان گرہوں کو کھول سکتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی قدر کیجئے۔ نوجوانوں سے رجوع کیجئے، ان کے نظریات سے استفادہ کیجئے۔ جن مواقع پر بھی ہم نے ان کے نظریات سے استفادہ کیا ہے اور ان کی مدد لی ہے ان میں بیشتر مواقع پر  ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ نوجوانوں کی قدر کرنا چاہئے، ان کی بلند فکری پروازوں کی بھی قدر کرنا چاہئے۔ نوجوانوں کی فکر بلند پروازی کی طرف مائل ہوتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی بلند پروازی قوم کو آگے لے جاتی ہے اور جمود سے بچاتی ہے۔ مغربی طاقتوں کے شور شرابے سے انھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

عوام کی معیشت کے مسئلے پر خاص توجہ دیں۔ اس وقت سب سے اہم اور ترجیحی کام یہی ہے کیونکہ دشمن کی توجہ بھی اس پر مرکوز ہے، کمزور طبقات کی معیشت پر اس کی نظر ہے۔ کمزور طبقات کی معیشت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں انھیں دور کرنا ملک کے عہدیداران کا، حکومتی عہدیداران کا بنیادی ترین فریضہ ہے۔ ممکن ہے کہ داخلی وسائل محدود ہوں لیکن انسان دیکھ سکتا ہے کہ ملک کے اندر ایسے افراد موجود ہیں، ایسے حلقے موجود ہیں جو ان محدود وسائل کو ظالمانہ طریقے سے نگل رہے ہیں، یہ دلال بازی، مادی مسائل کے بارے میں، تجارت وغیرہ کے معاملے میں اجارہ داری کے اقدامات ملکی پیشرفت میں رکاوٹ ہیں۔ ہم ہمیشہ داخلی پیداوار پر تاکید کرتے ہیں مگر چونکہ داخلی پیداوار امپورٹ کا کام کرنے والے دلال کے مفادات سے متصادم ہے اس لئے وہ جاکر الگ الگ طریقوں سے خلاف ورزی کرتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ اسی وجہ سے نتیجہ حاصل نہیں ہو پا رہا ہے۔ عوام کی معیشت پر توجہ دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پیسے تقسیم کریں۔ ان مضر اور خطرناک پہلوؤں پر نظر رکھنا اور ان کا سد باب کرنا اہم  ترین کام ہے۔ ہم نے ملک کے عہدیداران کو بعض اوقات تمام تفصیلات کے ساتھ رسمی ملاقاتوں میں متوجہ کرایا اور متنبہ کیا ہے اور ایک بار پھر میں اس پر تاکید کرتا ہوں۔ ہم یہ باتیں عہدیداران سے کہنا چاہتے ہیں۔

عوام سے بھی کچھ باتیں کہنی ہیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہمارے عزیز عوام حکام کی مدد کریں، سب مدد کریں۔ جب داخلی پیداوار اور داخلی مصنوعات کو فروغ دینے کی بات ہے تو اس کا ایک اہم حصہ عوام سے مربوط ہے۔ داخلی مصنوعات تیار کرنے والا، داخلی مصنوعات کا صارف، داخلی مصنوعات فروخت کرنے والا دوکان دار، یہ سب گہرا اثر رکھتے ہیں۔ پیداوار کی کوالٹی، ڈسٹریبیوشن کا طریقہ، یہ سب اہم چیزیں ہیں۔ ہم نے اس سال کو 'ایرانی مصنوعات کی پیداوار'  کا سال قرار دیا اور ہم نے ایرانی اشیاء و مصنوعات کے استعمال پر تاکید کی۔ اب سال کا آخری حصہ ہے۔ اس سلسلے میں کتنا کام ہوا؟ کچھ کام تو ہوا ہے لیکن ہم کس حد تک آگے بڑھے ہیں؟ ان میدانوں میں ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ عوام اس سلسلے میں مدد کر سکتے ہیں، نیک کاموں میں تعاون کر سکتے ہیں۔

عوام ملک کی خدمت کے طور پر جو کام بہترین انداز سے انجام دے سکتے ہیں وہ انقلاب کے میدانوں میں ان کی موجودگی ہے۔ عوام جو کام کر سکتے ہیں ان میں ایک دشمن کی افواہوں اور تشہیراتی حملوں کا مقابلہ ہے۔ آج دشمن کا ایک اہم حربہ افواہیں پھیلانا ہے تاکہ عوام میں اضطراب پیدا کریں، عوام کو ایک دوسرے سے لڑوائیں، ایک دوسرے کے خلاف تہمت لگانے کے لئے مشتعل کریں، لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑوائیں، ویسے ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا، لیکن ان کا ارادہ یہی ہے۔ عوام ہوشیار رہیں، متوجہ رہیں۔ بڑی بے شرمی سے وہ عوام کو انقلاب کے خلاف اور نظام کے خلاف اقدام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان عوام کو جن پر یہ نظام ٹکا ہوا ہے۔ اگر یہ عوام اس نظام کی پشت پر نہ ہوتے، اگر اس نظام کی حمایت نہ کرتے تو اتنا بڑا مشن کامیاب نہ ہوتا، آگے نہ بڑھ پاتا۔ یہ اتنے بے غیرت ہیں کہ انھیں عوام کو مشتعل کر رہے ہیں، یعنی انھیں ترغیب دلاتے ہیں، اشتعال دلاتے ہیں کہ وہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ عوام کی ذمہ داری ہے کہ ان تشہیراتی حملوں کا مقابلہ کریں، ان کے خلاف کام کریں۔ آجکل نوجوان سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں، سوشل میڈیا دشمن کے منہ پر طمانچہ لگانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

جہاں تک پابندیوں کا سوال ہے تو یہ پابندیاں ایک قوم پر، ایک ملک پر کچھ دباؤ تو ڈالتی ہیں۔ ملت ایران کے خلاف جو پابندیاں لگائی گئی ہیں ان کے بارے میں خود امریکی بہت خوش ہو ہوکر کہتے ہیں کہ "تاریخ میں ان کی مثال نہیں ہے!" جی ہاں، تاریخ میں ان کی مثال نہیں ہے اور ان شاء اللہ اس قضیئے میں امریکیوں کو جو ہزیمت اٹھانی پڑے گی اس کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہوگی۔ عوام، حکومت، عہدیداران، سب ایسی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں کہ یہ پابندیاں سو فیصدی ملک کے مفاد میں تبدیل ہو جائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح جنگ کے زمانے میں ہمارے اوپر پابندیاں لگائی گئی تھیں کہ ہمیں نجی طور پر ساتھ رکھے جانے والے ہتھیار بھی نہیں فروخت کرتے تھے۔، ایک موقع پر ہم نے ذکر کیا کہ خاردار تار تک ہمیں فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے (7)۔ لیکن انھیں پابندیوں کے نتیجے میں داخلی صلاحیتیں متحرک ہوئیں اور ہم دفاعی اعتبار سے ہم آج کی اس پوزیشن پر پہنچ گئے کہ ہم پورے علاقے میں پہلے نمبر پر ہیں، توفیق خداوندی سے ہمارا ملک سب سے آگے ہے۔ یہ پابندیوں کی وجہ سے ہوا۔ ورنہ اگر روز اول سے ہم جس چیز کی بھی ضرورت ہوتی آسانی سے جاکر خرید لاتے،  وہ ہمیں دے دیتے اور اپنے پیسے لے لیتے تو ہم یہ دفاعی ساز و سامان بنانے کی فکر میں نہ پڑتے اور اس مقام پر نہ پہنچ پاتے۔ دوسرے تمام معاملات میں بھی یہی ہوا ہے۔ ہمارے نوجوان ہم سے کہتے ہیں اور ثابت بھی کرتے ہیں، یعنی صرف دعوی نہیں ہے، کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کی ملک کو ضرورت ہو اور ہم اسے بنانے سے قاصر ہوں۔ ہم ہر چیز بنا سکتے ہیں۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہم نے کچھ معاملات میں انھیں آزمایا بھی ہے اور یہی نتیجہ نکلا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل صحیح ہے۔ ہمارے پاس ایسی با استعداد افرادی قوت ہے۔ تو ہمیں اس طرح عمل کرنا چاہئے کہ یہ پابندیاں شکوفائی کا ذریعہ بن جائیں، ملک کے اندر کام اور اختراعات و ایجادات کی چوٹی تک رسائی کا سبب بن جائیں۔ ہمیں چاہئے کہ خود کو دوسروں کی مصنوعات سے بے نیاز بنائیں اور دوسروں کو اپنی مصنوعات کا ضرورتمند بنائیں۔ یہ کام ہو سکتا ہے۔

ہم پابندیوں سے متعلق ان مسائل و مشکلات کو عبور کر لیں گے۔ بے شک پابندیوں سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، کچھ مشکلات ہیں، اس وقت بھی موجود ہیں، لیکن یہ مشکلات شروع کی چیز ہیں۔ اگر حکومت اور عوام مزاحمت کریں، ہوشیاری سے کام کریں، محنت اور مشقت کریں، کمر ہمت کس لیں تو ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ مرحلہ بھی کامیابی کے ساتھ عبور کر لیں گے۔ جس طرح ہم مسلط کردہ جنگ میں کامیاب ہوکر نکلے اور ہم نے صدام کو دھول چٹا دی اور وہ واصل جہنم ہوا جبکہ اسلامی جمہوریہ نمو کے مراحل طے کر رہی ہے۔ ہمارے دشمن یعنی یہی لوگ جو امریکہ میں، یورپ میں اور مغرب میں ہمارے خلاف کام کر رہے ہیں، ایک دن واصل جہنم ہوں گے اور اسلامی جمہوریہ ان شاء اللہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔

اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ پر جہنوں نے ہمارے لئے یہ راستہ تعمیر کیا۔ امام کی نصیحتوں اور سفارشات کو ہم ہرگز فراموش نہ کریں۔ ان کی پاکیزہ روح پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، ہمارے شہدا کی پاکیزہ روحوں پر بھی اللہ کی رحمتیں نازل ہوں جنہوں نے اس راہ میں اپنی جانیں قربان کیں۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان پر جو آج تک اس راہ میں جدوجہد کرتے آ رہے ہیں۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ عزیز اہل قم پر۔ اس حقیر کا سلام قم کے دیگر بھائیوں اور بہنوں کو پہنچائیے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و‌ برکاته

1)  حاضرین میں سے ایک شخص نے نعرہ لگایا 'امریکہ مردہ باد' اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بے شک امریکہ مردہ باد۔

2) امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن

3) صحیفہ امام، جلد ۲۱، صفحہ ۲۲۲

4) سوره‌ سبأ، آیت نمبر ۴۹ کا ایک حصہ؛ «...حق آ گیا ہے اب باطل نہیں آ سکتا، اس کی واپسی نہیں ہو سکتی۔

5) سوره‌ طه، آیت نمبر ۴۶ کا ایک حصہ «... مت ڈرو، میں تمہارے ساتھ ہوں سن رہا ہوں، دیکھ رہا ہوں۔ »

6) سوره‌ حج، آیت نمبر۴۰  کا ایک حصہ «...بے شک اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرے۔

7) منجملہ مورخہ  26 ستمبر 2018 کو کا مقدس دفاع کی یادیں تازہ کرنے کی خصوصی شب میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب