عید نیمہ شعبان کی آمد کی مناسبت سے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے مورخہ ۱۳۸۹/۰۸/۰۶ ہجری شمسی مطابق 28 اکتوبر 2010 کی اس تقریر کو شائع کیا ہے۔

تقریر کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

جمکران کی مقدس مسجد کے خدام یہاں تشریف فرما ہیں۔ ہماری نظر میں اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہونے والی بڑی توفیقات میں سے ایک مقدس و با برکت مسجد جمکران میں خدمات کی انجام دہی ہے۔ جنھیں یہ توفیق حاصل ہوئی ہے، خواہ وہ برادران عزیز ہوں یا خواہران گرامی، اس خدمت کی قدر کریں۔

انسان کی روحانی زندگی کے ستون ہیں بیداری، توسل، خشوع اور ذکر خداوندی اور یہ چیزیں اللہ کی مساجد میں، عبادت کی جگہوں میں انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ خاص طور پر ان مراکز اور مساجد میں جہاں اولیاء کی نشانیاں اور اثرات ہیں۔ جس جگہ کے تعلق سے انسان کو علم ہو کہ وہ اولیائے خداوندی کی توجہ کا مرکز ہے، فطری طور پر اس جگہ پر روحانیت زیادہ ہوتی ہے۔ مسجد جمکران ایسے ہی مقامات و مراکز میں ہے جہاں انسان کو توجہ، خشوع اور تضرع کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔

خوش قسمتی سے اس وقت یہ مرکز عوام الناس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ جن برسوں میں ہم قم میں تھے شب بدھ  اور شب جمعہ کو تھوڑے سے افراد اس مسجد میں جاتے تھے جو بہت چھوٹی سی تھی، لوگ جاکر زیارت کرتے تھے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی وہاں رکتا تھا۔ بہت چھوٹی سی جگہ تھی۔ خود ہم بھی چند سال قم میں رہے لیکن چند مرتبہ ہی یہ توفیق ہوئی کہ مسجد جمکران جائیں۔ اس وقت رائج نہیں تھا، یہ سلسلہ نہیں تھا۔ روحانیت کی جانب قلوب اس طرح مائل نہیں تھے۔ فضا و ماحول پر روحانیت حکمفرما نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اتنا اہم مرکز، اتنا مقدس مرکز جو برگزیدہ ہستیوں کی توجہ کا مرکز رہا ہو، جو عرفا، اللہ کے خاص بندوں، محرمان اسرار خداوندی کی عنایت کا مرکز رہا ہو، اس طرح لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ رہے۔ کوئی ادھر متوجہ ہی نہیں تھا۔ علمائے افاضل یہاں آتے تھے زیارت کرتے تھے۔ ان میں فیض کاشانی مرحوم بھی تھے۔ آپ کے فرزند علم الہدی (1) رضوان اللہ تعالی علیہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہم اپنے والد کے ساتھ مسجد جمکران پہنچے، اس کی زیارت کی اور وہاں ٹھہرے۔

اہل دل اور عرفائے کرام اس جگہ سے خاص انسیت رکھتے تھے، لیکن عوام الناس یہاں تک کہ ہم طلبہ بھی اس کی جانب متوجہ نہیں تھے، غافل تھے۔ غیر دینی اور غیر روحانی سیاسی نظام کی حکمرانی کا ایک بڑا عیب یہی غفلت ہے۔ عوام الناس بالکل سامنے کے اقدار سے غافل رہ جاتے ہیں جن سے وہ بآسانی استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگر معاشرے پر حکمفرما نظام ایک روحانی نظام ہوتا ہے، الہی نظام ہوتا ہے، دینی نظام ہوتا ہے تو اس کی ایک فطری خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ روحانیت کو فروغ ملتا ہے، روحانیت لوگوں کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہے۔ لوگوں کے دل اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ آج یہی ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت گناہ نہیں ہو رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کوئی برا آدمی نہیں ہے، اب کوئی غافل اور لا ابالی شخص نہیں بچا ہے۔ کیوں نہیں، ایسے لوگ بھی ہیں لیکن بہت فرق ہے کہ سماج کی عمومی فضا روحانی فضا ہو، روحانی امور کو اقدار کے طور پر پیش کیا جائے یا پھر اس سے پوری طرح غفلت برتی جا رہی ہو، اسے اقدار کے منافی قرار دیا جائے۔ لہذا ضروری ہے کہ اس فضا کی قدر کی جائے۔

اس وقت یہاں جو برادران و خواہران گرامی تشریف فرما ہیں اور اس مسجد کے لئے کسی نہ کسی طرح سے خدمات انجام دے رہے ہیں وہ اس کی قدر کریں اور اس مقدس مقام پر ہر چیز کو، تمام  پروگراموں، تمام اقدامات اور عوام کو دی جانے والی تمام خدمات کو ذکر و توسل و تضرع کی نیت سے انجام دیں۔ کیونکہ شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ روحانی مراکز میں بھی شیطان اپنا کام کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کسی جگہ مسجد بن گئی، حرم اور روضہ بن گيا تو شیطان وہاں نہ جاتا ہو۔ جی نہیں، ہم اور آپ جہاں کہیں بھی ہیں شیطان بھی وہاں موجود ہے۔ طواف کعبہ کے وقت بھی شیطان موجود رہتا ہے۔ بدترین فسق و فجور اور گستاخیاں بعض اوقات مقدس ترین مقامات پر انجام پاتی ہیں۔ خواہ وہ کعبہ شریف کے طواف کے دوران انجام پانے والے گناہ ہوں یا منا اور عرفات میں انجام پانے والے فسق و فجور ہوں۔ تاریخ میں اس کا ذکر ہے۔ ہم 'مغنی' میں جو یہ شعر پڑھتے ہیں؛

فو الله ما ادری و ان کنت داریا

بسبع رمَین الجمر ام بثمان(۲)

عمر ابن ربیعہ معروف عرب شاعر نے یہ شعر کہا ہے۔ یہ رمی جمرات اور اس جیسے مقامات سے متعلق ہے۔ مسجد جمکران میں بھی شیطان موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں شیطان نہ ہو۔ شیطان سے ہوشیار رہئے۔ خیال رکھئے کہ شیطان لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے اور خود آپ کو بھی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اسی ہوشیاری اور انتباہ کو قرآنی اور اسلامی ادبیات میں تقوی کہا گیا ہے۔ تقوی کا یہی مطلب ہے۔ یعنی یہ کہ انسان دائمی طور پر متوجہ رہے، اپنے اوپر نظر رکھے۔ اگر توجہ رہے گی تو شیطان کی تاثیر اور شیطان کا نفوذ کم ہوگا، شیطان کا خنجر کند ہو جائے گا۔ اگر توجہ نہ ہو اور ہم غافل ہو جائیں تو ہم شیطان کے چنگل میں پھنس جائیں گے اور پھر جو بھی وہ چاہئے گا ہمارے ساتھ کرے گا۔ بالکل بے جان اور بے ہوش جسم کی مانند جو کسی ہوشیار شخص کے ہاتھ لگ جائے۔ وہ جس طرف چاہے اس جسم کو موڑ سکتا ہے۔ اگر ہم نے غفلت کی تو شیطان ہمارے ساتھ یہی کرے گا۔ شیطان نماز میں بھی آتا ہے، شیطان طواف کے دوران بھی آتا ہے، شیطان دعا کے دوران بھی آتا ہے، شیطان توسل کی حالت میں بھی آتا ہے۔ بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

بہرحال مسجد جمکران میں مصروف خدمت آپ تمام برادران و خواہران گرامی کا، جناب وافی صاحب (3) کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ان خدمات کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ خداوند عالم آپ سب کی مدد فرمائے، آپ کی تائید فرمائے۔ آپ لوگ وہاں ہیں تو ہمارے لئے بھی دعا کیجئے۔ دعا کیجئے کہ اللہ ہمیں توسل اور تضرع کی توفیق عنایت فرمائے۔ ہمیں بھی خضوع و خشوع حاصل ہو۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله

۱) محمّد، مشهور به علم ‌الهدی، فیض کاشانی کے فرزند

۲) قصیده‌ عمر بن ابی ربیعه

۳) مسجد جمکران کے متولی حجّت‌ الاسلام و المسلمین حاج شیخ ابو القاسم وافی