رہبر انقلاب نے جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کو تاریخ بشریت کی ممتاز شخصیتوں میں شمار کیا اور فرمایا کہ عظیم و والامقام شخصیت و عظمت کی حامل یہ خاتون ایک نمونۂ عمل ہیں اور آپ کی شخصیت اور نرس طبقے کے درمیان نسبت اور وابستگی، حقیقتاً ایک مبارک اور بجا اقدام ہے۔

آپ نے فرمایا کہ نرسوں کی قدردانی در حقیقت انسانی اور اخلاقی اقدار کی قدردانی ہے جو اس دور میں عنقا ہوتی جا  رہی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اخلاقیات کے فقدان کو موجودہ دور میں بشریت کی اکثر مشکلات کا سبب قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت ایرانی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس فخریہ اور اہم راہ میں اخلاقی اقدار کی ترویج بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے دسمبر دو ہزار نو میں پیش آنے والے ایک سخت امتحان کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۹ کو ایرانی عوام ایک بڑے سخت امتحان سے روبرو ہوئے مگر انہوں نے بصیرت اور ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے سربلندی کے ساتھ اسے سر کیا اور دشمن کی ایک عمیق اور بڑی سازش کو ناکام بنا دیا۔

آپ نے دو ماہ قبل ملک میں ہونے والے بلوے کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ عوام کے کچھ مطالبات ہوتے ہیں اور وہ اکثر مواقع پر حق بجانب بھی ہوتے ہیں اور اگر انکی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو انہیں اعتراض بھی ہوتا ہے۔ مگر عوامی مطالبات اور انکے بہانے سے ملک میں شرانگیزی یا بلوا کرنے میں فرق ہے، شرانگیزی دشمن کا کام ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام کچھ مطالبات لے کر سڑکوں پر نکلے مگر اسی موقع پر دشمن کے تیار کردہ افراد بھی ان مطالبات سے غلط فائدہ اٹھانے کے لئے میدان میں کود پڑے اور فوراً انہوں نے تخریبی کاروائیاں شروع کر دیں۔ یہاں بھی ایرانی عوام کی بصیرت اور ہوشیاری اُس وقت سامنے آئی جب انہوں نے دشمن کی سازش کو سمجھتے ہوئے خود کو شرپسندوں سے علیٰحدہ کر لیا اور فتنہ پرور عناصر میدان میں تنہا رہ گئے۔ پھر چند روز کے بعد ایرانی عوام نے ملک کے مختلف شہروں میں عظیم ریلیاں نکال کر دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔

آپ نے فرمایا کہ دسمبر  ۲۰۰۹ کے فتنے کی مانند اس سال بھی دشمن کی سازش کو جس چیز نے ناکام بنایا وہ عوام کی ہوشیاری سوجھ بوجھ اور بصیرت ہی تھی۔

رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ دو ماہ قبل ملک میں بلوے کے دوران گیہوں یا تیل کے گودام جیسی بنیادی تنصیبات اور سرکاری املاک کو تاراج کرنے والے عناصر کا تعلق غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے ایک غیر ملکی سیاستداں کے حوالے سے یہ بات بتائی کہ بلوے کے پہلے دن امریکی حکام بڑے خوش تھے اور ان کو لگا کہ ایران کا کام تمام ہو چکا ہے مگر جب انہوں نے ایک دو دن کے بعد یہ دیکھا کہ انہیں خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہو پایا، تو وہ بڑے ناراض ہوئے۔

آپ نے اس قسم کے واقعات کو امریکی حکام کے بے عقلی قرار دیا اور فرمایا کہ در حقیقت امریکہ نے داعش کی شکست کا انتقام لینے کے لئے عراق کی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے مراکز پر حملہ کیا ہے کیوں کہ یہی وہ قوت تھی جس نے داعش کو اپنے ملک میں تباہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایرانی حکومت و عوام کے ساتھ مل کر امریکہ کے اس سنگین جرم کی سخت مذمت کرتا ہوں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پورے عراق اور بالخصوص بغداد میں موجود امریکہ مخالف جذبات کو امریکی جرائم کا فطری نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ہم ان مسائل کا ذمہ دار ایران کو سمجھتے ہیں اور ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے۔ مگر میں اُن سے دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ اگر تم نے کچھ ایسا کیا تو یہ تمہاری حماقت ہوگی کیوں کہ ان مسائل کا کوئی تعلق ایران سے نہیں ہے، دوسری بات یہ کہ عقل و منطق سے کام لو اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ عراق میں حالیہ چند دنوں میں رونما ہونے والے واقعات کا اصل سبب کیا ہے۔ البتہ مجھے معلوم ہے کہ عقل و منطق سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

آپ نے خطے میں پائی جانے والی امریکہ دشمنی کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ امریکیوں کو یہ سمجھ لینا ہوگا کہ خطے، عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں امریکہ دشمنی کی وجہ خود انکے اپنے جرائم ہی ہیں۔

آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی اور دلیرانہ موقف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ اگر کسی ملک سے مقابلے کا فیصلہ کر لے تو وہ پوری صراحت کے ساتھ کھل کر یہ کام کرے گا اور اگر کوئی ایران کو دھمکی دینے کی کوشش کرے گا تو وہ سمجھ لے کہ ہم بغیر کسی وقفے کے میدان میں اتر آئیں گے اور اس پر کاری ضرب لگائیں گے۔

آپ نے ایرانی عوام کو سراہتے ہوئے انہیں شجاع، دلیر، بابصیرت اور تمام میدانوں کے لئے ہر وقت تیار رہنے والے عوام قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک کو جنگ کا سامنا ہو سکتا ہے مگر ہرگز ایسا نہیں ہے اور ہم ملک کو جنگ کی طرف نہیں لے جائیں گے لیکن اگر دشمن نے ملک پر کسی خاص مسئلے کو مسلط کرنے کی کوشش کی تو پھر ہم پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے۔

آپ نے فرمایا کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اس لئے (دشمن کے مقابلے میں) کامیابی و کامرانی بھی ایرانی عوام کا مقدر ہے اور ساتھ ہی ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایران کا مستقبل حال سے کہیں زیادہ بہتر اور تابناک ہوگا اُسی طرح جیسے ملک کا حال اسکے ماضی سے بہت بہتر ہے۔