خامنہ ای ڈاٹ آئي آر ویب سائٹ اس سلسلے میں بین ا لاقوامی امور میں مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر کے معاون خصوصی حسین امیر عبداللہیان کی ایک گفتگو کے بعض حصے شائع کر رہی ہے۔
عالمی امور میں رہبر انقلاب اسلامی کے تجربے کے پیش نظر وہ ہمیشہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں ہمیشہ اعتدال سے کام کرنا چاہیے؛ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی خود مختاری، اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے لیے "نہ شرقی، نہ غربی" کی پالیسی پر بھی عمل کرنا چاہیے اور دنیا کے تمام خطوں سے تعلقات کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔
اکیسویں صدی، ایشیا کی صدی
بلاشبہ اکیسویں صدی، ایشیا کی صدی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ ایشیا پر خاص توجہ دی ہے۔ ایشیا میں اور روس، چین، ہندوستان، پاکستان، ملیشیا، انڈونیشیا اور برصغیر کے ملکوں میں بھی ہنوز ایسی اہم اور ناشناختہ صلاحیتیں اور گنجائشیں موجود ہیں جن سے ہم ایشیا کے اس علاقے کے ساتھ اپنے اشتراکات کے پیش نظر مفید تعاون کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی بھی تاکید کرتے ہیں، خارجہ پالیسی میں ہم اپنے ملک کے قومی مفادات کی حفاظت کے لیے مشرق کو مغرب پر اور ہمسائے کو دور کے ممالک پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ان ممالک سے تعلقات، جن کے ساتھ ہمارے مشترکہ مفادات ہیں ان ممالک سے تعلقات پر ترجیح رکھتے ہیں جن کے مفادات ممکن ہے کہ ہمارے مفادات سے متصادم ہوں۔
عالمی تغیرات اور ایک اہم علاقائي طاقت کی حیثیت سے ایران کے کردار کے پیش نظر، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ روس کے تعاون کے اچھے تجربات رہے ہیں۔ البتہ خطے کی سلامتی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کا کردار ناقابل انکار ہے۔ امریکا کی مخالفت کے باوجود شام کی مدد کے سلسلے میں ایران اور روس کے مثبت تعاون کا تجربہ ان امور میں سے ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ ایران اور روس کے درمیان تعاون کے مزید کامیاب تجربات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
ایران کے اسٹریٹیجک تعلقات پر وائٹ ہاؤس کی تبدیلیوں کا کوئي اثر نہیں پڑے گا
ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر کا دورۂ روس بھی کچھ تمہیدوں کے ساتھ انجام پایا۔ ملک کی گیارہویں پارلیمنٹ کا کام شروع ہونے کے پہلے ہفتے میں مسٹر ویاچسلاو وولودین نے، جو صدر پوتین کے قریبی افراد میں سے ایک اور روسی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں، اپنے خصوصی ایلچی کو ایران کی نئي پارلیمنٹ کا کام شروع ہونے کی مبارکباد پیش کرنے کے لیے تہران بھیجا۔ اس ایلچی کے پاس ایران کے اسپیکر کے دورۂ ماسکو کا سرکاری دعوت نامہ تھا۔
یہ دورہ اور وہ بھی اس حساس وقت میں جب وائٹ ہاؤس میں نئے کرائے دار پہنچ چکے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے علاقائي اتحادیوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایران اس سے زیادہ وائٹ ہاؤس میں پہنچنے والے نئے افراد اور امریکی حکومت یا ایٹمی معاہدے کے رکن تین یورپی ملکوں (فرانس، برطانیہ اور جرمنی) کے کھیل میں الجھنے والا نہیں ہے اور وائٹ ہاؤس میں کیا جانے والا کوئي بھی فیصلہ، ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ تہران کے اسٹریٹیجک تعلقات کے تحفظ، استحکام، فروغ اور مضبوطی کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے رخ اور اسی حالیہ صدی کے اہم کھلاڑی کی حیثیت سے ایشیا کے سلسلے میں ایران کے اسٹریٹیجک اور طویل المیعاد نظریے میں کسی بھی طرح کی کوئي تبدیلی نہیں لا سکتا۔ امریکا اور یورپ کے لیے وقت ختم ہو چکا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے علاقائي پارٹنرز کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وائٹ ہاؤس کی تبدیلیاں، ہمارے اسٹریٹیجک روابط پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ یہ وقت ایسا تھا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے روس کو ایک پیغام دینے کی ضرورت محسوس کی؛ یہ اہم پیغام نئے عالمی حالات کے ادراک کے پیش نظر دیا گیا تھا۔
جس نشست میں رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام روسی نمائندے کے حوالے کیا گيا، اس میں، میں خود موجود تھا۔ روس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر مسٹر وولودین کو، پارلیمنٹ کے اسپیکر کی حیثیت سے نہیں بلکہ صدر پوتین کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے یہ پیغام حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ روس نے پہلے ہی ایک سرکاری نوٹ میں اعلان کر دیا تھا کہ پروٹوکولز کی خاطر رہبر انقلاب اسلامی کے اس پیغام کے حصول میں تاخیر کو روکنے کے لیے ایک خصوصی نمائندہ اسے ماسکو میں حاصل کرے گا۔ اس کے لیے روس کے صدر کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے مسٹر وولودین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ پیغام منتقل کیے جانے کے کچھ ہی گھنٹے بعد ہمیں پتہ چلا کہ صدر پوتین نے وہ پیغام پڑھ لیا ہے اور انھوں نے اسے بہت زیادہ اہم مانا ہے۔
پوتین کے روس اور سوویت یونین کے روس میں بنیادی فرق ہے
پوتین کا روس، سوویت یونین اور کمیونزم کا مشرقی بلاک نہیں ہے۔ پوتین کا روس، پوتین سے پہلے والے روس سے بھی کافی مختلف ہے۔ روس جیسے ممالک سے تعاون کو فروغ دے کر اور اسے مضبوط بنا کر ہمیں یقینی طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔ ایران اور روس کے تعلقات کی گم شدہ کڑی، ان دونوں ملکوں کے عوام کی قریب سے شناخت نہ ہونا ہے۔ دونوں ملکوں کی نمایاں ثقافتی خصوصیات اور دونوں سماجوں کی صحیح شناخت، معاشی اور تجارتی شعبوں اور اسی طرح دیگر میدانوں میں آپسی تعاون کو مضبوط و مستحکم بنانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ کورونا سے مقابلے میں آپسی تجربات کے لین دین اور ویکسین کی تیاری سے لے کر معاشی، تجارتی، فشریز، دفاعی و سلامتی، سیاسی، سڑک اور ریلوے جیسے شمال-جنوب کوریڈور یہاں تک کہ بجلی گھروں کی تعمیر تک میں دونوں ملک ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں جو کہ ایران اور روس کے درمیان نیا اور اہم تعاون ہوگا۔