رہبر انقلاب اسلامی نے ظالم شاہی حکومت کے خلاف مقدس شہر قم کے عوام کے 9 جنوری 1978 کے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں جو آج آٹھ جنوری 2021 کو ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر ہوا کلیدی موضوعات پر بحث کی۔

خطاب حسب ذیل ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمدللہ ربّ العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا محمّد و آلہ الطّاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.

قم کے عزیر عوام اور عظیم الشان دینی تعلیمی مرکز (حوزۂ علمیہ) کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔ افسوس کہ اس سال ہماری سالانہ ملاقات کی صورتحال اس طرح کی ہے اور میں قم کے برادران عزیز کے منور چہروں کی زیارت سے محروم ہوں لیکن خیر یہ بھی زندگي کی ایک شکل ہے، نشیب و فراز کا حصہ ہے۔ زندگي میں اس طرح کے موڑ بہت ہوتے ہیں، زندگي کے راستے پر آگے بڑھتے رہنا چاہیے، ان شاء اللہ یہ حالات بھی گزر جائيں گے۔ دیگر تمام تلخ و شیریں واقعات کی طرح یہ وقت بھی گزرنے والا ہی ہے اور ان شاء اللہ خداوند عالم کی عطا کردہ توفیق سے زندگی کا سفر کنکریٹ کی سڑک پر آ جائے گا۔

شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی کی برسی پر ایران اور عراق کے عزیز عوام کے اقدامات پر ان کا شکریہ اور خدا کا شکر

آج میں 'انیس دی' کے اہم واقعے کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا اور ان دنوں کے بعض مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں کروں گا جو رائے عامہ میں گردش کر رہے ہیں لیکن اصل موضوع پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ خداوند عالم کا شکر ادا کروں اور اپنے ملک کے عزیز عوام کا شکریہ ادا کروں کہ انھوں نے ہمارے عزیز شہید قاسم سلیمانی(1) کی برسی پر ملک میں ایک عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی بحمد اللہ پورے ملک میں عوام کی جانب سے رقم کیے گئے اس کارنامے میں نمایاں طور پر سامنے آئے اور عوام کے اس عظیم الشان کارنامے نے ملک اور قوم کے جسم میں ایک نئي روح پھونک دی اور کسی بھی حکم یا ہدایت سے اس طرح کے عظیم الشان کارنامے کا وجود میں آنا ممکن نہ تھا۔ یہ عوامی کارنامہ، لوگوں کے جذبات، ان کے دل، ان کی بصیرت اور ان کے صحیح محرکات کا نتیجہ تھا۔ اسی طرح بغداد اور بعض دیگر عراقی شہروں میں اہم عراقی کمانڈر شہید ابو مہدی اور عراقی عوام کے عزیز مہمان شہید سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی برسی کے پروگرام منعقد ہوئے۔ یہاں اور عراق میں ان پروگراموں میں شرکت کرنے والے تمام بھائيوں اور بہنوں کا دل کی گہرائيوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میں شہید سلیمانی کے ساتھی شہداء کا نام ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ شہید سلیمانی کی عظمت کے سبب ان شہیدوں کا نام کم ہی سامنے آتا ہے: شہید پور جعفری(2)، شہید مظفری نیا(3)، شہید طارمی(4)، شہید زمانی نیا(5) کہ یہ سب عالی قدر شہیدوں میں شامل ہیں اور اسی طرح شہید ابو مہدی کے ساتھی عراقی شہداء، جن کے نام میرے ذہن میں نہیں ہیں۔

اسی طرح میں کرمان میں شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ کے دوران رونما ہونے والے حادثے کے شہیدوں اور تہران میں ہوائي جہاز(6) کے انتہائي تلخ اور ناگوار حادثے کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حقیقت میں ہوائي جہاز کا حادثہ بڑا ہی تلخ تھا، ناگوار تھا اور اس نے ملکی حکام کو بھی سوگوار کر دیا اور امید ہے کہ خداوند عالم ان شہداء کو چاہے وہ کرمان کے شہداء ہوں یا تہران کے شہداء ہوں اپنے خاص لطف و رحمت میں جگہ دے گا اور ان کے اہل خانہ کو اپنے فضل و کرم سے صبر، تسلی اور دلی سکون عطا کرے گا۔ البتہ حکام کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور انھیں ہدایت کر دی گئي ہے۔

اس طرح میں شہید فخری زادہ رحمۃ اللہ علیہ (7) کی شہادت کے چہلم کی مناسبت سے انھیں بھی خراج عقیدت پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ بڑے ہی عالی قدر انسان تھے، بہت بڑی شخصیت تھے۔ ہم نے حالیہ دنوں میں دو بڑی علمی شخصیات کو کھویا ہے: ایک شہید فخری زادے تھے اور دوسرے جناب آیۃ اللہ مصباح(8) تھے۔ یہ دونوں ہی نمایاں علمی شخصیات تھیں، اپنے اپنے میدان میں اور اپنے اپنے کام میں، دونوں نے ہی اپنے زیر نظر کام کرنے والے حلقے میں گرانقدر ورثہ چھوڑا ہے جو ان شاء اللہ پوری طاقت سے اور بہترین طریقے سے جاری رہے گا۔

ہجری شمسی کیلنڈر کے دسویں مہینے 'دی' کی انیس تاریخ (مطابق 9 جنوری) کے قیام کے بارے میں دو نکات

جہاں تک انیس دی کے قیام کی بات ہے تو اس سلسلے میں میں دو نکات عرض کرنا چاہتا ہوں: ایک یہ کہ ضروری ہے کہ ہم انیس دی اور انیس دی کے واقعے کی یاد کو محفوظ رکھیں، دوسرے یہ کہ انیس دی کے واقعے کے مضمون اور پیغام کی حفاظت کریں۔ یعنی خود واقعے کو زندہ رکھنے کے معنی میں اس کی حفاظت بھی ہمارے لیے ضروری ہے اور اسی طرح اس اہم واقعے کے اصل مضمون اور پیغام کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ اس کی وجہ میں بیان کروں گا۔

(1) ایرانی قوم کو زندہ قوم ثابت کرنے والے واقعے کی حیثیت سے انیس دی کے واقعے کی یاد کو تازہ رکھنا

ہمیں کیوں اس واقعے کی حفاظت و نگہبانی کرنی چاہیے؟ اس لیے کہ یہ ایرانی قوم کی حیات کے اوج کا ایک پہلو تھا۔ اقوام کے عروج و زوال کے پہلو ہوتے ہیں۔ عروج کے پہلوؤں کو زندہ رکھا جانا چاہیے۔ اوج کے پہلو وہ ہیں جو ان حساس موقعوں پر کسی قوم کے زندہ ہونے، میدان میں موجود ہونے اور پر عزم ہونے اور اسی طرح اس کی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انیس دی کا واقعہ ایسا ہی تھا۔ رفعت کے پہلو کو زندہ رکھا جانا چاہیے کیونکہ یہ آئندہ آنے والوں کو جذبہ بھی عطا کرتا ہے اور قومی فخر و عزت کا بھی موجب ہے۔ رفعت کے یہ پہلو تاریخ میں رقم ہو جاتے ہیں اور آئندہ آنے والوں کے لیے راستے کو واضح کر دیتے ہیں۔ بنابریں اس واقعے پر وقت کی گرد نہیں پڑنے دینی چاہیے اور جس طرح سے آج تک یہ واقعہ زندہ اور متحرک باقی رہا ہے، اسی طرح آگے بھی باقی رہنا چاہیے۔

(2) انیس دی کے واقعے کے پیغام کی حفاظت اور اس کی غلط تشریح کی روک تھام

اور جہاں تک اس واقعے کے پیغام کی حفاظت کی بات ہے تو ہر واقعے کا ایک مضمون ہوتا ہے، ایک پیغام ہوتا ہے، ایک مفہوم ہوتا ہے۔ اس واقعے کا مضمون کیا تھا؟ ہمیں اس مضمون کو صحیح طریقے سے سمجھنا اور اس کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کیوں تحفظ کرنا چاہیے؟ کیونکہ غدار راوی اور دشمن تجزیہ نگار کوشش کر رہے ہیں کہ بڑے واقعات کو اپنے حق میں اور دنیا کی غاصب طاقتوں کے حق میں بدل دیں۔ یہ کام ماضی میں بھی ہوتا تھا کہ دشمن راوی کسی واقعے کو اس طرح بیان کرتا تھا کہ اس واقعے کا برعکس مفہوم سننے اور پڑھنے والے کے ذہن میں آئے۔

آج بھی ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی وسائل کے فروغ اور بے پناہ وسائل کے سبب دشمن طاقتوں اور غدار ہاتھوں کے لیے اس بات کا موقع فراہم ہو گيا ہے کہ وہ واقعات کو بدل دیں، حادثات کے پیغام کو تبدیل کر دیں، غلط تشریح کریں اور رائے عامہ کو فریب دے دیں، خاص طور پر بعد والی نسلوں اور جو لوگ اس واقعے میں موجود نہیں تھے اور انھوں نے اسے قریب سے نہیں دیکھا تھا یا اس کے وقوع پذیر ہونے کے قریبی وقت میں اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہے اور اس واقعے سے دور ہیں ان کے افکار کو بدل دیں۔ آج جاسوسی کے اداروں کا ایک اہم کام یہی ہے کہ وہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات پر نظر رکھتے ہیں اور پھر وہ خود براہ راست نہیں بلکہ دوسروں کی زبان سے دوسروں کے قلم سے، مؤقر اور مشہور افراد کے مقالوں یا تجزیوں سے، اپنے پاس موجود وسائل کے ذریعے، پیسے سے، دھمکی سے، لالچ سے، کسی واقعے کے بارے میں اپنے پیش نظر جو تشریح ہوتی ہے، اسے عام کرتے ہیں۔

میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی ہے جسے ایک امریکی نے لکھا ہے۔ بلکہ درحقیقت اس نے اس کی تالیف کی ہے کیونکہ مختلف افراد اس کتاب کی تصنیف میں دخیل ہیں۔ یہ کتاب دنیا کے اہم اخبارات و جرائد پر جاسوسی تنظیم سی آئي اے کے تسلط کے بارے میں ہے۔ یہ کتاب ہے ہی اس بارے میں۔ کتاب میں تشریح کی گئي ہے کہ کس طرح سی آئي اے نے معروف مصنفوں یا جریدوں کے مقالوں میں، تجزیوں میں، تحریروں میں اور گفتگو میں مداخلت کی اور حقیقی تشریح کی جگہ اپنی تشریح رائے عامہ کے سامنے پیش کی اور اسے کنٹرول کیا۔ یہ کام صرف امریکی اخبارات و جرائد میں نہیں بلکہ دیگر ملکوں اور یورپ تک میں کیا گيا۔ کتاب میں ایک معروف فرانسیسی جریدے کا نام لیا گيا ہے اور کہا گيا ہے کہ وہاں یہ کام کیے گئے، اس طرح سے کہا گیا، اس طرح سے لکھا گيا۔ مطلب یہ کہ اس وقت دنیا میں یہ کام رائج اور موجود ہے۔ در حقیقت سی آئی اے کا ادارہ اس کام کے ذریعے مسائل و واقعات کے بارے میں اپنے انحرافی اور غلط تجزیے منتقل کرتا ہے اور رائے عامہ کو گمراہ کرتا ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جو ہمیشہ موجود ہے۔

انیس دی کا واقعہ، ملک میں عمومی قیام کا پیش خیمہ

ہمیں انیس دی کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے کہ اس معاملے میں طرح کا کام نہ ہونے پائے۔ البتہ میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا کہ قم میں انیس دی کے قیام کا مضمون، پیغام اور مفہوم کیا تھا جسے عوام اور اعلی دینی تعلیمی مرکز نے مشترکہ طور پر انجام دیا تھا۔ اگر قم کا معاملہ، اسی شہر قم میں ختم ہو جاتا اور قم ہی تک محدود رہتا تو ممکن تھا کہ کوئي اسے ایک جذباتی اور ہیجانی رد عمل قرار دیتا جو  مذہبی اور فوری رجحان کے سبب سامنے آتا ہے۔ لوگ کہتے: "نڈر لوگ تھے، ایک واقعے میں انھوں نے قیام کیا، پھر اس قیام کی سرکوبی کر دی گئي اور بات ختم ہو گئي۔" ممکن ہے کہ ایسا کہا جائے لیکن قم کا واقعہ ایسا نہیں تھا۔ قم کا واقعہ قم میں ختم نہیں ہوا، قم تک محدود نہیں رہا، قم سے تبریز، یزد، کرمان، شیراز، مشہد اور تہران تک پہنچ گيا اور پھر بتدریج ایک عمومی قیام پر منتج ہوا۔ شروعات قم سے ہوئي تھی، شروع کرنے والے قم کے لوگ تھے لیکن یہ واقعہ قم میں ختم نہیں ہوا۔ تقریبا پانچ چھے مہینے میں یہ واقعہ تمام شہروں اور پھر دیہاتوں میں ایک ملک گیر عوامی قیام میں تبدیل ہو گيا، سبھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ کون سا واقعہ ہے؟ اس کے بعد اس قیام کی بنیاد پر تاریخ کا ایک نادر بلکہ بعض پہلوؤں سے بے نظیر عظیم عوامی انقلاب برپا ہو گيا۔

انیس دی کے واقعے کا مطلب: آمر، پٹھو، بدعنوان، دین مخالف، دولتمندوں سے وابستہ اور طبقاتی حکومت پر لوگوں کا غصہ اور احتجاج

تو اس نظریے سے قم کے واقعے کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا اور اسے ایک ہیجانی عمل نہیں بتایا جا سکتا۔ نہیں، اس واقعے کا کچھ اور ہی مطلب ہے، اس میں گہرائي ہے، اسے گہرے معنی حاصل ہو جاتے ہیں۔ تو انیس دی کے واقعے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے آمر، پٹھو، بدعنوان، دین مخالف، دولتمندوں سے وابستہ اور طبقاتی حکومت پر لوگوں کا غصہ اور شدید احتجاج۔ لوگوں کی ناراضگی اور عوام کا غصہ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھا ہو گيا تھا اور اسے امام خمینی کے دروس، تقریروں اور قم و نجف سے جاری ہونے والے ان کے بیانوں سے فکری و نظریاتی پشت پناہی بھی حاصل ہو گئي تھی۔ اس عظیم تحریک نے اور عوام کی اس بھرپور ناراضگي نے، جو امام خمینی کی فکری پشت پناہی پر استوار تھی اور امام خمینی مسلسل اسے لوگوں تک پہنچاتے رہتے تھے، جدوجہد کرنے والے نوجوانوں اور خاص طور پر دینی طلباء کے ذریعے اسے پورے ملک میں پہنچایا اور اس عظیم قیام کو وجود عطا کیا۔

انیس دی کے واقعے کے دو اہم نکات: عوامی قیام کا دینی پہلو اور امریکا مخالف پہلو

یہاں پر دو نکات کی طرف توجہ دی جانی چاہیے جو بڑے فیصلہ کن ہیں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ اس عوامی تحریک کے رہنما ایک مرجع تقلید تھے، ایک بڑے عالم دین، ایک نمایاں مذہبی شخصیت اور دینی تعلیمات کے مروّج۔ یہ عظیم رہنما پہلے دن سے عوام کو دین کی دعوت دے رہے تھے۔ جدوجہد کے آغاز سے، سن انیس سو اکسٹھ سے، امام خمینی کی دعوت دینی بنیادوں پر استوار تھی اور اگر وہ کوئي اعتراض کرتے، کوئي پیش کش کرتے تو سب دینی بنیادوں پر استوار ہوتی۔ بنابریں عوام کی تحریک بنیادی طور پر ایک دینی تحریک تھی، اس لیے کہ وہ امام خمینی کی قیادت میں تھی، امام خمینی کی تعلیمات، ہدایات اور رہنمائی میں تھی اور امام خمینی ایک مرجع تقلید تھے، ایک ممتاز عالم دین تھے اور ان کا کام شروع سے ہی دینی بنیادوں پر استوار تھا۔ یہ پہلا نکتہ ہے جو انتہائي اہم ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قم کے عوام کے قیام سے تقریبا ایک ہفتے پہلے امریکی صدر نے، اس وقت کارٹر تھے، تہران میں پہلوی حکومت اور محمد رضا کی سو فیصد حمایت اور پشت پناہی کا اعلان کیا۔ ان کے لیے ایک تقریر تیار کی گئي تھی جو انھیں پارٹی میں کرنی تھی، انھوں نے وہ تقریر جیب میں رکھ لی اور خود ہی بولنا شروع کر دیا، یہ بات بعد میں ان کے تجزیہ نگاروں اور ساتھیوں نے عیاں کر دی، کارٹر نے محمد رضا اور پہلوی حکومت کی بہت زیادہ تعریف کی اور اس کی سو فیصد حمایت کا اعلان کیا۔ بنابریں قم کی تحریک، ایک امریکا مخالف تحریک تھی، سامراج مخالف تحریک تھی، ان خبیث طاقتوں کے خلاف تحریک تھی جو اپنے مفادات کی خاطر آمر، دین مخالف اور بدعنوان پہلوی حکومت کی حمایت کرتی تھیں۔ یوں درحقیقت اس قیام کا دینی پہلو بھی تھا اور امریکا مخالف پہلو بھی تھا۔

انیس دی کا قیام، امریکا کے بڑے بت پر ابراہیمی کلہاڑی کی پہلی ضرب

درحقیقت انیس دی کے قیام کو، بڑے بت پر ابراہیمی کلہاڑی کی پہلی ضرب سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ اس کلہاڑی کا پہلا وار تھا جو قم کے عوام نے امریکا کے بڑے بت پر لگایا تھا۔ اس کے بعد بھی وار لگانے کا یہ سلسلہ جاری رہا اور آج آپ امریکا کی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ بڑے بت کی آج کی حالت اور صورتحال آپ دیکھ رہے ہیں! یہ اس کی ڈیموکریسی ہے، یہ اس کی انتخابی فضیحت ہے، یہ اس کے انسانی حقوق ہیں، ایسے انسانی حقوق کہ ہر کچھ گھنٹے میں ایک بار یا کم از کم ہر کچھ دن میں ایک بار ایک سیاہ فام کو بلا وجہ، بے قصور سڑک پر قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے قاتل کا کچھ نہیں بگڑتا۔ یہ اس کے اقدار ہیں جس کا مسلسل شور مچایا جاتا ہے، "امریکی اقدار، امریکی اقدار" اور آج یہ اقدار پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا کے دوست بھی ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ادھر اس کی مفلوج معیشت ہے۔ امریکی معیشت حقیقی معنی میں مفلوج ہے، کروڑوں لوگ بے روزگار، بھوکے اور بے گھر ہیں۔ یہ امریکا کی آج کی حالت ہے۔ یہ واقعی اہم چیز ہے لیکن اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اب بھی بعض افراد امریکا کو ہی اپنی قبلہ گاہ سمجھتے ہیں، اب بھی ان کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز امریکا ہے۔ وہ امریکا جس کی ایسی حالت ہے۔

خیر ہم نے کہا کہ عوام کا عمومی قیام، امریکا کے خلاف تھا، وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ امریکی صدر نے آ کر (شاہ کی) سو فیصد حمایت کی تھی، یہ دراصل قوم کی اس اندرونی ناراضگي اور غصے کا باہر آنا تھا ورنہ پچیس سال سے امریکا، ایران کے اندر عوام پر طرح طرح کے دباؤ ڈال رہا تھا اور آمر اور بدعنوان پہلوی حکومت کے ذریعے اس نے ایران کو اپنی اصلی چھاؤنی بنا رکھا تھا اور اس کا نتیجہ ہمارے ملک کے لیے پیشرفت نہیں تھا بلکہ اس کے برخلاف ہمارے ملک میں امریکا کی موجودگي کا نتیجہ تھا۔ معاشی غربت، علمی و سائنسی غربت، بے راہروی اور ثقافتی پچھڑاپن، اس طرح کی صورتحال پیدا کر دی گئي تھی۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ہم امریکا سے تعاون کریں ، اگر اس سے آشتی کر لیں، اس سے دوستی کر لیں تو ملک کی صورتحال بہشت بریں جیسی ہو جائے گي۔ نہیں، انقلاب سے پہلے کی صورتحال کو دیکھیے کہ کیسی ہے۔ ان ملکوں کو دیکھیے جو اس وقت امریکا کے سامنے بچھے جا رہے ہیں، دیکھیے کہ ان کی حالت کیسی ہے؟ یہ ان کی معاشی حالت ہے اور وہ ان کی علمی صورتحال ہے۔ ہمارے اپنے اسی خطے میں بھی ایسے ممالک ہیں جن کا نام میں نہیں لوں گا، آپ خود جانتے ہیں۔

البتہ ہمارے اس عظیم انقلاب کے بعد بھی امریکا نہیں مانا۔ وہ اب بھی ہمارے ملک پر جہنمی تسلط حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ صرف ہمارے ملک پر ہی نہیں بلکہ ایران اور پورے خطے پر۔ یہ جو بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ امریکا اور فلاں یورپی ملک میں کیا فرق ہے؟ فرق یہی ہے۔ چونکہ امریکا برسوں تک یہاں سے فائدہ حاصل کرتا رہا ہے اور اسے یہاں کی لت پڑ گئي تھی، وہ اپنے آپ کو ایک برتر طاقت سمجھتا ہے، اس لیے مسلسل اسی پرانی حالت پر لوٹنے کی کوشش میں ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ایرانی قوم کو ہوشیار کرتی ہے، متنبہ کرتی ہے۔ البتہ بعض غدار علاقائي حکومتیں بھی اس کی مدد کرتی ہیں۔

امریکی مفادات، خطے میں عدم استحکام اور آشوب پر منحصر

یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ امریکا موجودہ حالات میں اپنا فائدہ اور اپنے مفادات، اس علاقے کے عدم استحکام میں دیکھتا ہے، جب تک کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس خطے پر مسلط نہ کر لے، اس سے پہلے تک امریکا کا فائدہ خطے میں عدم استحکام میں ہے۔ اسے وہ لوگ خود بھی کہتے ہیں، اس بات کا وہ لوگ برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ امریکا کے ایک مشہور تھنک ٹینک، انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ(9) کے ایک مشہور تجزیہ نگار نے، جس کا اگر میں نام لوں تو سیاست میں سرگرم بہت سے لوگ، اسے پہچان جائيں گے، کھل کر یہ بات کہی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم ایران، عراق اور شام میں ثبات و استحکام کے خواہاں نہیں ہیں۔ اصل بات ان ملکوں میں عدم استحکام کی ضرورت یا عدم ضرورت نہیں ہے، یعنی واضح ہے کہ ان ملکوں میں عدم استحکام پیدا ہونا چاہیے، بلکہ ان ملکوں میں ہمارے مدنظر عدم استحکام پیدا کرنے کا طریقۂ کار ہے، عدم استحکام کس طرح پیدا کیا جائے۔ یہ کبھی کہیں پر داعش کے ذریعے، کبھی 2009 کے فتنے کے ذریعے اور خطے میں ان کے کاموں کے ذریعے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ وہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ کوئي امریکی ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ ایران، خطے میں عدم استحکام کا سبب ہے! جی نہیں، ہم استحکام کے ضامن ہیں، ہم امریکا کی جانب سے پیدا کیے جا رہے عدم استحکام کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ سن 2009 میں امریکا چاہتا تھا کہ ایران میں عدم استحکام پیدا کرے، وہی بلا جو دو ہزار اکیس میں اس کے سر ٹوٹ پڑی۔ وہی کام جو ان دنوں بالخصوص پرسوں (10) واشنگٹن میں ہوا اور کچھ لوگ کانگریس میں گھس گئے، کانگریس کے اراکین کو خفیہ راہداریوں سے بھگا کر باہر نکالا گيا، یہی کام وہ ایران میں کرنا چاہتے تھے، وہ یہاں آشوب بپا کرنا چاہتے تھے، خانہ جنگي شروع کرانا چاہتے تھے لیکن خداوند عالم نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ سن 2009 وہ یہاں آشوب بپا کرنا چاہتے تھے، اب سن دو ہزار اکیس میں خداوند متعال نے یہ بلا انہی کے سر پر نازل کر دی۔

نئے اسلامی تمدن کی تشکیل، ہمارا اصلی ہدف

البتہ جب ہم انیس دی سے لے کر اب تک ملک اور انقلاب کی پیشرفت کے راستے پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک کم از کم دس برابر، ویسے تو شاید کہا جا سکتا ہے کہ سو برابر مگر میں عمدا بڑے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا، طاقتور ہو چکا ہے، اس میں گہرائي اور مضبوطی آ چکی ہے، تجربہ حاصل ہو چکا ہے، لیس ہو چکا ہے۔ اس وقت ہم لیس نہیں تھے، آج کافی لیس ہیں، فکری لحاظ سے بھی لیس ہیں، عملی لحاظ سے بھی لیس ہیں، سیاسی لحاظ سے بھی لیس ہیں اور فوجی لحاظ سے بھی لیس ہیں بحمد اللہ۔ ہم نے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کر لیا ہے۔ ہمارا ہدف، نئے اسلامی تمدن کی تشکیل ہے۔ یہ ہمارا اصلی اور آخری ہدف ہے۔ ممکن ہے کہ ایک نسل یہ ہدف حاصل نہ کر پائے لیکن یہ راستہ جاری رہے گا اور ان شاء اللہ اگلی نسلیں یہ ہدف حاصل کر کے رہیں گي۔ ہمیں ان رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہیے جو تسلط پسند طاقتیں ہماری راہ میں ڈال رہی ہیں اور ہمارے ملک کے خلاف خباثت بھری پالیسیاں اختیار کر رہی ہیں۔ امریکی حکومت کے خلاف ہمارا موقف اسی نظریے کے سبب ہے، اسی دلیل اور اسی  منطق کی وجہ سے ہے۔ یہ تو انیس دی سے متعلق باتیں تھیں۔

ایران اور سامراجی محاذ کے درمیان کچھ اہم چیلنجز

اب آج کے کچھ اہم مسائل کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور دوسری طرف امریکا کی سرکردگی میں سامراجی محاذ کے درمیان اہم مسائل میں سے ایک، پابندیوں کا مسئلہ ہے، دوسرا ایران کی علاقائي موجودگي کا مسئلہ ہے اور ایک ایران کی دفاعی صلاحیت اور میزائيلی طاقت کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں، کوئي بات کرتے ہیں، کوئي شکایت کرتے ہیں اور یہاں سے بھی انھیں جواب دیا جاتا ہے۔ البتہ ہمارے حکام نے تینوں مسائل میں سامراجی محاذ کا جواب دیا ہے۔ فوجی حکام نے بھی، وزارت خارجہ نے بھی اور عوامی نعروں میں بھی انھیں جواب دیا گيا ہے اور اب میں اس سلسلے میں آخری اور قطعی بات عرض کرتا ہوں۔

(1) خیانت کارانہ اور خباثت آمیز پابندیوں کا مسئلہ

جہاں تک پابندیوں کی بات ہے تو مغربی محاذ اور ہمارے دشمنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خباثت آمیز حرکت یعنی ایرانی قوم کے خلاف پابندیوں کو ختم کریں اور انھیں فورا روک دیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ تمام پابندیوں کو اٹھا لیں۔ یہ ایک خیانت آمیز کام ہے، ایک خباثت آمیز کام ہے، ایرانی قوم سے ایک بڑی اور بلاوجہ کی دشمنی ہے۔ صرف اسلامی جمہوری نظام یا حکومت سے نہیں بلکہ ایرانی قوم سے دشمنی کر رہے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ فوری طور پر ان پابندیوں کو ختم کریں۔ البتہ میں نے بارہا کہا ہے، ایک بار پھر دوہرا رہا ہوں کہ انھیں پابندیوں کو ختم کرنا چاہیے، ہمیں بھی اپنی معیشت کو اس طرح منظم کرنا چاہیے، اس طرح پروگرام بنانا چاہیے کہ پابندیوں کے باوجود ہم بخوبی ملک چلا سکیں۔ میں نے اسے بارہا کہا ہے(11) اور اب پھر کہہ رہا ہوں۔ ہم یہ فرض کریں کہ پابندیاں نہیں ہٹیں گي، البتہ پابندیاں دھیرے دھیرے بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔ یعنی وہ لغو چیز میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن ہم یہ مان کر چلیں کہ پابندیاں باقی رہیں گي، ہمیں اپنے ملک کی معیشت کا پروگرام اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ پابندیوں کے آنے جانے سے یا دشمن کے کھیل سے، ملک کی معیشت میں ہمیں کوئي پریشانی نہ ہو۔ ایسا کرنا ممکن ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں، اقتصادی ماہرین کہہ رہے ہیں، ہمدردی رکھنے والے کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کام ممکن ہے، ملک کی داخلی صلاحیتیں اور گنجائشیں بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے اسے ایک پالیسی کی شکل میں ارسال کیا ہے(12) جو مزاحمتی معیشت سے عبارت ہے اور اس پر بڑی سنجیدگی اور پوری شدت سے کام کیا جانا چاہیے۔ بنابریں پابندیوں کے مسئلے میں حتمی اور آخری جواب یہ ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں کام کیجیے، فلاں کام نہ کیجیے، یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ پابندیاں ایک خیانت ہے، ایرانی قوم کے ساتھ ایک خیانت ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔ یہ ہوئي ایک بات۔

خطے میں ایران کی استحکام بخش موجودگي

ہماری علاقائي موجودگي کے بارے میں وہ لوگ مسلسل یہ کہتے ہیں کہ ایران کیوں خطے میں موجود رہتا ہے، اسلامی جمہوری نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا رویہ رکھے کہ خطے میں اس کے دوستوں اور حامیوں کی تقویت ہو۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ ہماری موجودگی کا مطلب، ہمارے دوستوں کی تقویت اور حامیوں کو مضبوط بنانا ہے۔ ہمیں ایسا کوئي کام نہیں کرنا چاہیے کہ خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دوست اور وفادار کمزور ہو جائیں۔ ہماری موجودگي، کچھ اس طرح کی ہے۔ اور ہماری موجودگي ثبات و استحکام پیدا کرنے والی ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگي عدم استحکام کے عوامل کا خاتمہ کرنے والی ہے جیسے عراق میں داعش کا مسئلہ، شام میں گوناگوں مسائل اور اسی طرح کی دوسری مثالیں جن کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ جو لوگ ان مسائل سے مربوط ہیں وہ ان باتوں کو جانتے ہیں۔ بنابریں، ہماری یہ علاقائي موجودگي، یقینی ہے، اسے باقی رہنا چاہیے اور باقی رہے گي۔

(3) ایران کی دفاعی اور میزائلی طاقت

جہاں تک دفاعی طاقت کی بات ہے تو اسلامی جمہوری نظام کو ہرگز اس بات کا حق نہیں ہے کہ ملک کی دفاعی توانائی کو ایسی حالت میں پہنچا دے کہ صدام حسین جیسا کوئي ناکارہ انسان، تہران پر بمباری کر دے، میزائيل فائر سکے اور اس کا مگ-25 جہاز آ کر تہران کی فضائي حدود میں پرواز کرے اور نظام کچھ نہ کر سکے۔ یہ ہو چکا ہے۔ اسی شہر تہران میں یا پھر عراقی میزائل آتے تھے، جنھیں انہی یورپی حضرات نے مضبوط بنایا تھا، انہی لوگوں نے اس کے میزائلوں کی اس طرح تقویت کی تھی کہ وہ بغداد سے تہران آ سکتے تھے۔ دوسرے شہروں کی تو خیر بات ہی نہیں ہے۔ یا مگ-25 جہاز آتا تھا اور کافی اونچائي سے بمباری کرتا تھا، ہم کچھ نہیں کر پاتے تھے، ہمارے پاس وسائل نہیں تھے۔ اسلامی نظام کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ ملک کو اس شکل میں رہنے دے اور خداوند عالم کی توفیق سے ہم نے اس طرح نہیں رہنے دیا ہے۔ آج ہماری دفاعی طاقت ایسی ہے کہ ہمارے دشمن جب بھی حساب کتاب کرتے ہیں تو وہ ایران کی توانائيوں اور طاقت کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب اسلامی جمہوریہ ایران کا میزائل، امریکا کے جارح طیارے کو، ایران کی فضائي حدود میں مار کر گرا سکتا ہے، یا جب ایران کے میزائل عین الاسد چھاؤنی(13) کو اس طرح برباد کر سکتے ہیں، تب دشمن مجبور ہے کہ اپنے منصوبوں میں، اپنے عسکری فیصلوں میں، ملک کی اس طاقت اور توانائي کو مدنظر رکھے۔ ہمیں ملک کو بے دفاع اور نہتا نہیں چھوڑنا چاہیے، یہ ہمارا فرض ہے۔ ہمیں ایسا کوئي کام نہیں کرنا چاہیے کہ دشمن میں جر‏ئت پیدا ہو اور ہم دشمن کے مقابلے میں کچھ نہ کر سکیں۔

ایٹمی معاہدے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے وعدوں میں کمی کے بارے میں کچھ باتیں:

ایک دوسرا مسئلہ جس پر آج کل بہت بات ہو رہی ہے اور حکام، عوام اور سیاستدانوں کی زبان پر اور اسی طرح سائبر اسپیس اور دیگر ذرائع میں جس کے چرچے ہیں وہ ایٹمی معاہدہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وعدے ہیں جن کے بارے میں ایران نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ان میں سے بعض پر عمل درآمد روک دیا ہے، حال ہی میں اس نے یورینیم کی بیس فیصد افزودگي بھی شروع کر دی ہے اور حکومت نے پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے قانون کو عملی جامہ پہنایا ہے، یہ ان بحثوں میں سے ایک ہے جو آج کل کی جا رہی ہیں۔ ایٹمی معاہدے کے اس مسئلے میں دو تین نکات عرض کروں گا۔

(1) ایٹمی معاہدے میں امریکا کی واپسی

پہلی بات یہ ہے کہ بحث کی جا رہی ہے کہ امریکا، ایٹمی معاہدے میں لوٹے گا یا نہیں لوٹے گا؟ ہمیں کوئي اصرار نہیں ہے، کوئي جلدبازی نہیں ہے کہ امریکا ایٹمی معاہدے میں لوٹے۔ بلکہ ہمارا یہ تو مسئلہ ہے ہی نہیں کہ امریکا ایٹمی معاہدے میں لوٹے یا نہ لوٹے۔ ہمارا جو منطقی مطالبہ ہے، ہمارا جو معقول مطالبہ ہے، وہ پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ پابندیاں ختم ہونی چاہیے۔ یہ ایرانی قوم کا غصب شدہ حق ہے۔ چاہے امریکا ہو یا یورپ جو امریکا سے چپکا ہوا ہے اور اس کا پٹھو ہے، ان کا فرض ہے کہ ایرانی قوم کے اس حق کو ادا کریں۔ اگر پابندیاں اٹھا لی جائيں تو ایٹمی معاہدے میں امریکا کی واپسی کا کوئي مطلب ہو سکتا ہے، البتہ نقصانوں کے ہرجانے کا مسئلہ بھی ہمارے مطالبات میں شامل ہے جسے بعد کے مراحل میں اٹھایا جائے گا، لیکن اگر پابندیاں نہیں ہٹائي جاتیں تو ممکن ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکا کی واپسی، ہمارے لیے نقصان دہ ہی ہو، ہمارے حق میں تو نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ہمارے لیے نقصان دہ ہو۔ البتہ میں نے حکام سے، حکومت میں بھی اور پارلیمنٹ میں بھی کہا ہے کہ وہ ان امور میں پوری ہوشیاری سے اور ضوابط کی مکمل پابندی کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور کام کریں۔

(2) ایٹمی معاہدے کے تحت کمٹمنٹس کو منسوخ کرنے کا صحیح فیصلہ

دوسری بات یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تحت کیے گئے کمٹمنٹس کو منسوخ کرنے کا پارلیمنٹ اور حکومت کا فیصلہ، ایک صحیح فیصلہ ہے، پوری طرح سے منطقی، عاقلانہ اور قابل قبول فیصلہ ہے۔ جب فریق مقابل ایٹمی معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے تقریبا کسی بھی فیصلے پر عمل نہیں کر رہا ہے تو بالکل بے معنی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، ایٹمی معاہدے کے اپنے تمام وعدوں پر عمل کرتا رہے۔ لہذا کچھ عرصہ پہلے سے بتدریج بعض کمٹمنٹس پر عملدرآمد روک دیا گيا، حال ہی میں کچھ دیگر کمٹمنٹس کو بھی الگ رکھ دیا گيا۔ ہاں اگر وہ لوگ اپنے کمٹمنٹس پر عمل کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں تو ہم بھی اپنے کمٹمنٹس پر عمل کے لیے لوٹ آئيں گے۔ میں نے شروع سے یہی کہا ہے۔ شروع میں ہی جب ایٹمی معاہدے کی بات سامنے آئي تھی، تبھی میں نے کہا تھا کہ کمٹمنٹس کے مقابلے میں کمٹمنٹس، بالمقابل، ان کے کام کے مقابلے میں ہمارا کام۔ جو کام ہمیں کرنا ہے، فریق مقابل بھی اس کے مقابلے میں کام کرے۔ شروع میں یہ کام نہیں ہوا، اب اسے انجام پانا چاہیے۔

ملک چلانے میں تجربہ کار افراد کے تجربے کے ساتھ نو جوانوں کے جوش و جذبے اور جدت عملی سے استفادہ

ایک دوسرا موضوع جسے یہاں پیش کرنا چنداں نامناسب نہیں ہے اور جسے میں نے نوٹ بھی کر رکھا ہے، یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ حقیر نے ایک ٹی وی پروگرام (14) میں جو بظاہر نشر ہو چکا ہے، ایک بار یہ کہا ہے کہ نوجوان حزب اللہی حکومت بر سر اقتدار آنی چاہیے۔ ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ تجربہ کار لوگوں سے استفادہ نہ کیا جائے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے؟ یہ دونوں آپس میں میل نہیں کھاتے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ نہیں، یہ دونوں آپس میں میل کھاتے ہیں، ان دونوں کا آپس میں کوئي تضاد نہیں ہے۔ دیکھیے، میرا خیال ہے کہ جوان افراد پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اس پر میرا پورا یقین ہے اور یہ اب کی بات بھی نہیں ہے، بہت پہلے سے میرا یہ خیال اور یقین تھا۔ نوجوان افراد پر بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو ملک کے بعض اہم انتظامی امور میں نوجوانوں سے استفادہ کیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جو جدت عمل وہ پیش کرتے ہیں، جو کام کرتے ہیں، جس ہمت و نشاط کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کا خیر مقدم کیا جائے۔ کبھی کوئي نوجوان ہر جگہ جاتا ہے اور ایک اہم کام کی تجویز پیش کرتا اور کہتا ہے کہ وہ یہ کام انجام دے سکتا ہے، اسے کوئي جواب نہیں دیا جاتا، وہ ہمارے پاس آتا ہے۔ جب ہم اس کی تجویز کو ماہر کے پاس بھیجتے ہیں تو وہ اس کی تصدیق کرتا ہے، کہتا ہے کہ صحیح ہے، یہ کام، اہم ہے اور یہ شخص اسے انجام دے سکتا ہے۔ تو میرا کہنا یہ ہے کہ ملک کو نوجوانوں کی جدت طرازی، ان کی نشاط، ان کے کام کے جذبے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے، یہ ہمارے بچے ہیں، ملک کے بچے ہیں اور ملک کو ان سے استفادے کا حق ہے۔ بنابریں، انتظامی امور کا مسئلہ بھی ہے اور یہ نکتہ بھی ہے۔ البتہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ انتظامی امور میں ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلی نسل کو پوری طرح سے الگ کر دیا جائے! نہیں، ضرورت کے مطابق انتظامی امور کہیں نوجوان کو سنبھالنا چاہیے اور کہیں ایک انتہائی تجربہ کار شخص کو۔ انقلاب کے آغاز سے ایسا ہی رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ امام خمینی نے تہران میں ایک چالیس سالہ امام جمعہ مقرر کیا ہے کہ جو میں تھا۔ ہاں لیکن اسی وقت کرمان شاہ میں ایک اسّی سالہ امام جمعہ(15) مقرر کیا تھا۔ یزد میں، شیراز میں، مشہد میں، تبریز میں اور ایسی ہی جگہوں پر بڑے علماء کو، ایسے افراد کو جن کی عمریں تقریبا ستّر سال کی تھیں، امام جمعہ مقرر کیا۔ ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ انقلاب کے اوائل میں امام خمینی نے سپاہ پاسداران کا سربراہ ایک نوجوان(16) کو بنایا جس کی عمر تیس سال سے کم تھی، زمینی فوج کا سربراہ ایسے شخص(17) کو بنایا جس کی عمر تقریبا ساٹھ سال تھی۔ کہیں ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ایک نوجوان شخص انتظامی امور سنبھالے، کہیں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ایک تجربہ کار شخص کو لایا جائے۔ میں نوجوان حزب اللہی حکومت کے بارے میں ان شاء اللہ بعد میں، انتخابات کے قریب بات کروں گا۔ یعنی کچھ باتیں ہیں جنھیں بعد میں عرض کروں گا لیکن کوئي یہ سوچے کہ اگر ہم نے کہا کہ تجربہ کار افراد سے استفادہ کیا جائے تو یہ بات نوجوانوں سے استفادے کی بات کے منافی ہے تو ایسا نہیں ہے، اس میں کوئي تضاد نہیں ہے۔

البتہ اس بات پر بھی توجہ ہونی چاہیے کہ بعض ادھیڑ عمر کے افراد بھی نوجوانوں کی طرح ہیں۔ شہید سلیمانی کی عمر تقریبا ساٹھ سال تھی لیکن آپ نے دیکھا کہ وہ پہاڑوں میں، دشت و صحرا میں اور ہر جگہ نوجوانوں کی طرح آگے بڑھتے تھے، کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتے تھے۔ البتہ ان کے کاموں کے بارے میں لوگوں کے پاس بہت کم معلومات ہیں، یہی جو ٹی وی پر دکھائي گئي ہیں لیکن جو چیزیں میں جانتا ہوں، وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ کبھی کبھی چوبیس گھنٹے میں کسی ملک میں اتنا زیادہ کام اور سرگرمیاں انجام دیتے تھے کہ انسان اسے پڑھ کر تھکن محسوس کرنے لگتا تھا کہ چوبیس یا چھتیس گھنٹے میں کتنا زیادہ کام ہوا ہے۔ بعض لوگ اس طرح کے بھی ہوتے ہیں۔

کورونا وائرس کے سلسلے میں کچھ نکات: (1) ایران میں تیار کی گئي ویکسین باعث فخر و مباہات

آخری موضوع کورونا کے بارے میں ہے، جسے ہم دوبارہ عرض کریں گے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کورونا کے لیے جو ویکسین تیار کی گئي وہ باعث فخر ہے۔ اس کا انکار نہ کریں، یہ ملک کے لیے باعث عزت ہے، ملک کے لیے قابل فخر ہے۔ البتہ مختلف راستوں سے ویکسین کے لیے کوشش کی جا رہی ہے اور بعض میں انسانی ٹیسٹ کے مرحلے تک پہنچ چکے ہیں اور وہ ویکسین تیار ہو گئی ہے۔ اس کا انکار کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کچھ لوگ ہیں جو ملک میں انجام پانے والے ہر بڑے کام کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ جب ان ایٹمی سینٹری فیوج مشینوں کو ہمارے نوجوانوں نے تیار کیا تھا اور میں نے اپنی تقریر میں کئي بار اس کا نام لیا، اس کی طرف اشارہ کیا تو ان بڑی سائنسی ہستیوں میں سے بعض نے مجھے خط لکھا کہ جناب! آپ ان کے فریب میں نہ آئيے، یہ لوگ اس طرح کا کام کر ہی نہیں سکتے۔ وہ انکار کر رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا اور معاملہ کہاں تک پہنچ گیا۔ بالکل یہی بات اسٹیم سیلز کے بارے میں بھی تھی۔ جب مرحوم کاظمی (18) اور ان عزیز نوجوانوں نے، جو بحمد اللہ آج بھی ہیں، اسٹیم سیلز کی تیاری میں کامیابی حاصل کر لی جو انسانی حیاتیات کے شعبے میں ایک بہت بڑا کام ہے، تب بھی بعض افراد اسی وقت ہمیں پیغام دے رہے تھے یا خط لکھ رہے تھے، خط کی بات مجھے یاد نہیں ہے کہ زیادہ بھروسہ مت کیجیے۔ کچھ لوگ یہاں آئے اور انھوں نے خود مجھ سے کہا کہ ان پر زیادہ یقین نہ کیجیے، یہ بہت زیادہ قابل قبول نہیں ہے۔ جی نہیں، قابل قبول تھا اور ہم نے یقین بھی کیا تھا اور اس وقت صحیح بھی تھا، اس کے بعد بھی دس گنا زیادہ پیشرفت ہوئي۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہے۔ اس ویکسین کو تیار کیا گيا اور اس کا ہیومن ٹرائل بھی ہوا، ان شاء اللہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ مکمل ویکسین بھی بنائيں گے، یعنی روز بروز زیادہ مکمل ہوتا جائے گا، اب تک کامیاب رہے ہیں، ان شاء اللہ اس کے بعد بھی کامیاب رہیں گے۔ یہ پہلا نکتہ کہ ویکسین باعث فخر ہے۔ میں اس کام میں شامل تمام افراد، وزارت صحت اور ویکسین کی تیاری میں شامل تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

(2) ملک میں امریکی، برطانوی اور فرانسیسی ویکسین کی درآمد ممنوع

کورونا کے سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ملک میں امریکی، برطانوی اور فرانسیسی ویکسین کی درآمد ممنوع ہے۔ یہ بات میں حکام سے بھی کہہ چکا ہوں اور اب عمومی سطح پر بھی کہہ رہا ہوں۔ اگر امریکی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوتے تو خود ان کے ملک میں کورونا کے حالات کی یہ فضیحت نہ ہوتی۔ کچھ دن پہلے چوبیس گھنٹے میں وہاں چار ہزار افراد کی موت ہو گئي تھی۔ اگر یہ لوگ ویکسین تیار کرنا جانتے ہیں، اگر ان کی فائزر کمپنی ویکسین بنا سکتی ہے تو ہمیں کیوں دینا چاہتے ہیں؟ وہ خود ہی استعمال کریں ناں تاکہ اتنے زیادہ لوگ نہ مریں۔ برطانیہ بھی ایسا ہی ہے۔ بنابریں ان پر اعتماد نہیں ہے۔ مجھے واقعی بالکل اعتماد نہیں ہے، پتہ نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ لوگ ویکسین کا دوسری اقوام پر ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ اس لیے امریکا اور برطانیہ سے ویکسین نہ لی جائے۔ البتہ مجھے فرانس سے بھی خوش فہمی نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں وہ یہاں انفیکٹڈ خون(19) بھیج چکا ہے۔ البتہ اگر دوسری جگہوں سے، جو قابل اعتماد جگہ ہو، ویکسین حاصل کرنا چاہیں تو اس میں کوئي قباحت نہیں ہے۔

(3) حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی جاری رہنے کی ضرورت

کورونا کے سلسلے میں تیسرا نکتہ عوام کی جانب سے حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی ہے جو جاری رہنی چاہیے۔ اب مرنے والوں کی تعداد میں کچھ کمی آئي ہے، لیکن پھر بھی یہ تعداد زیادہ ہے۔ ایک دن میں سو لوگ یا سو سے کچھ زیادہ، کم نہیں ہے، بہت زیادہ ہے۔ لیکن چونکہ پہلے کی نسبت یہ کچھ کم ہو گئي ہے اس لیے لوگ یہ نہ سوچیں کہ مسئلہ حل ہو گيا اور بات ختم۔ جی نہیں! حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی جاری رکھیں، ملکی حکام بھی، جن کی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے، اپنے فرائض ادا کرتے رہیں۔

(4)  نئے تجربوں سے استفادے کی ضرورت

کورونا سے متعلق چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں بعض لوگوں نے کافی اچھے تجربات کیے ہیں اور کوئي دوا تیار کی ہے، اس دوا کو عہدیداروں کی زیر نگرانی آزمایا بھی گيا ہے اور اس بات کی تصدیق ہوئي ہے کہ یہ مؤثر ہے۔ اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ آس پاس ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نئے کام کر سکتے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو کہ ہر دعوے کو تسلیم کر لیا جائے، نہیں لیکن جن کاموں کا دعوی کیا جا رہا ہے ان پر بھرپور توجہ دی جائے۔

مستقبل اور معاشی، ثقافتی، سیاسی اور فوجی میدانوں میں کامیابی کی امید

عزیز عوام، قم کے معزز لوگوں اور حوزۂ علمیہ سے میری آخری بات یہ ہے کہ کل، ایرانی قوم اتحاد کے سائے میں، عزم مصمم کے سائے میں، دینداری کے سائے میں، بروقت میدان میں موجودگي کے سائے میں اور مجاہدت کے سائے میں یہ عظیم انقلاب لانے میں کامیاب رہی اور اس نے یہ بڑا کام کر دکھایا جس نے دنیا اور انسان کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ آج وہی قوم، انہی صلاحیتوں اور مزید تجربوں کے ساتھ، کئي گنا زیادہ فراہم ہو چکے وسائل کے ساتھ موجود ہے اور  تمام رکاوٹوں کو عبور کر سکتی ہے۔ یہ قوم معاشی میدان میں بھی، پیداوار کے میدان میں اور کرنسی کی قدر کے مسائل میں بھی، ثقافتی میدان میں بھی، سیاسی مسائل کے میدان میں بھی اور فوجی مسائل وغیرہ کے میدان میں بھی کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم اس قوم پر اپنے فضل و کرم میں روز افزوں اضافہ کرے گا، ان شاء اللہ۔

خدا کا سلام ہو ولی خدا، بقیۃ اللہ الاعظم، حجۃ بن الحسن (ارواحنا  فداہ) پر جن کی مدد ہمیشہ ہمارا سہارا ہے اور پروردگار عالم کی رحمت و درود ہو ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی مطہر اور مبارک روح پر کہ جنھوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 (1) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل شہید قاسم سلیمانی بغداد ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون کے حملے میں تین جنوری 2020 کو عراقی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر شہید ابو مہدی المہندس اور دس دیگر ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے۔

(2) شہید سلیمانی کے خصوصی معاون شہید حسین پور جعفری

(3) شہید سلیمانی کے محافظ شہید شہرود مظفری نیا

(4) شہید سلیمانی کے محافظ شہید ہادی طارمی

(5) شہید سلیمانی کے محافظ شہید وحید زمانی نیا

(6) کرمان کے گلزار شہداء قبرستان میں شہید قاسم سلیمانی کے جسم اطہر کے جلوس جنازہ اور تدفین کے وقت بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ افراد شہید ہو گئے تھے۔ اسی طرح آٹھ جنوری سن 2020 کو تہران سے کی ایف جانے والا یوکرین کا ایک مسافر بردار طیارہ غلطی سے ائير ڈیفنس کا نشانہ بن گيا اور اس میں سوار تمام افراد شہید ہو گئے۔

(7) ایران کے ایٹمی اور دفاعی سائنسداں شہید محسن فخری زادہ، جنھیں ستائيس نومبر 2020 کو دماوند کے آبسرد علاقے میں مسلح افراد نے شہید کر دیا۔

(8) ماہرین کونسل کے رکن اور امام خمینی تعلیمی و تحقیقی مرکز کے سربراہ آیۃ اللہ محمد تقی مصباح یزدی

(9) American Enterprise Institute

(10) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی سیکڑوں لوگوں نے امریکی کانگریس کی عمارت پر حملہ کر دیا اور کئي گھنٹے تک اس پر قبضہ کیے رکھا۔ جس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز سے ان کی شدید جھڑپیں ہوئيں اور کم از کم چار لوگ مارے گئے۔

(11) ثقافتی ہماہنگی کی اعلی کونسل کے ارکان سے ملاقات میں کی گئي تقریر (24/11/2020)

(12) مزاحمتی معیشت کی بنیادی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن (18/2/2014)

(13) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے شہید سلیمانی آپریشن کے تحت آٹھ جنوری سن دو ہزار بیس کو امریکی چھاؤنی عین الاسد کو بیلسٹک میزائیلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ یہ اقدام، شہید سلیمانی کے قتل کی امریکا کی دہشت گردانہ کارروائي کے جواب میں کیا گيا تھا۔

 (14) "غیر رسمی" کے عنوان سے نشر ہونے والا ڈاکیومینٹری پروگرام

(15) آیۃ اللہ عطاء اللہ اشرفی اصفہانی

(16) ریٹائرڈ جنرل محسن رضائي

(17) جنرل قاسم علی ظہیر نژاد

(18) رویان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ سعید کاظمی‌ آشتیانی

(19) اسّی کے عشرے میں فرانس سے وابستہ مریو انسٹی ٹیوٹ نے ایچ آئي وی وائرس سے آلودہ خون ایران برآمد کیا تھا جس کی وجہ سے ایران کے بہت سے لوگوں کی جان چلی گئي تھی۔