قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی (رہ) کی قیادت کی گرمی جس نے صدیوں کے ظلم و استبداد سے پیدا ہو جانے والی مایوسی اور جمود کو توڑ کر ایرانی قوم کو دنیا کی بیدار و آگاہ قوم میں تبدیل کر دیا آج بھی فضا میں موجود ہے اور قوم کے جسم و جان میں سمائی ہوئي ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی (رہ) کی قیادت کے زیر سایہ اسلامی انقلاب کا بہت بڑا اور بنیادی کارنامہ ملک کی روش میں بنیادی تبدیلی اور ملت ایران کو اس تسلط و استبداد سے نجات دلانا تھا جس کا شوم سایہ دور قاجاریہ سے دور پہلوی کے اختتام تک ملت ایران پر قائم رہا، آپ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کےبعد ملک کے حالات ہمیشہ حساس رہے اور اس کا ثبوت ملک پر مسلط کی جانے والی جنگ، اور امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد دس سالہ سازش سمیت دشمن کی متعدد سازشیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دس سالہ سازش کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن اس زعم میں تھا کہ اسلامی نظام کے اصلی ستون کی حیثیت رکھنے والے امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد باریک بینی سے تیار کئے جانے والے منظم منصوبے پر عملدرآمد کے ذریعے عوام کی ثقافتی اور اعتقادی بنیادوں کو متزلزل کیا جا سکتا ہے اسی طرح اسلامی انقلاب کے سلسلے میں عوام کی ذہنیت کو تبدیل کرکے ظلم و استبداد اور تسلط و توسیع پسندی کے نظام کی واپسی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ثقافتی یلغار، اندرونی سیاسی اختلافات، عالمی سیاسی دباؤ، انقلاب مخالف عناصر کو بار بار منظر عام پر لانا، اسلامی نظام میں یقین نہ رکھنے والے افراد کی سیاسی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد دشمن کے دس سالہ منصوبے کے اہم نکات تھے، آپ نے کہا کہ دشمن اپنے زعم ناقص میں یہ سمجھ رہا تھا کہ دس سال کی مدت میں سازش کے ان پہلؤں کو عملی جامہ پہنانے کےبعد عوام کو اسلامی نظام کے خلاف بغاوت پر اکسایا جا سکتا ہے۔ تیر تیرہ سو اٹھتر ہجری شمسی مطابق جون_جولائی انیس سو ننانوے کا واقعہ اسی تناظر میں قابل غور ہےـ
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن نے ملک کے دانشور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اور بعض عہدہ داروں کو اپنے جانب کھینچنے کی کوشش کی تاہم اسلامی انقلاب کی جڑوں اور بنیادوں کی مضبوطی اور عوام و حکام کی ہوشیاری و دانشمندی کے نتیجے میں یہ سازش ناکام ہو گئی۔
تمام سازشوں کے باوجود آج بھی جب انقلاب کی کامیابی کو اٹھائیس برس گذر چکے ہیں، اسلامی نظام سے عوام کی وابستگی اور جذباتی لگاؤ بہت گہرا اور مستحکم ہے اور یہ اسلام و انقلاب سے عوام کی ہر فرد کے عشق و محبت کا نتیجہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی توانائی تک ایرانی قوم کی رسائی کی دشمن کی جانب سے مخالفتوں دوہرے معیار کی پالیسیوں اور بہانہ تراشیوں کو ملک کے حالات کے انتہائي حساس ہونے کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ ان حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری بنیادی خطرات کی شناخت ہے اور آج کی تاریخ میں سب سے بڑا خطرہ عزم و ارادے میں کسی بھی طرح کا تزلزل، غفلت اور معمولی دنیاوی مفادات کے دام میں گرفتار ہونا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بڑی طاقتوں کے تسلط و استبداد کے دور کی واپسی کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور استبداد و تسلط پسندی کی مخالفت پر استوار دینی جمہوریت کو عوام میں پائدار اور دائمی ثقافت کا مقام دلانے کے لئے ممکن ہے کہ ملت ایران کو دسیوں سال تک اس نظام کی نگہبانی کرنا پڑے۔
آپ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ آٹھویں پارلیمانی انتخابات، ان کی شفافیت، انتخابی ثقافت، منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں قدم رکھنے والے افراد کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حالات میں، حکام کی سب سے اہم ذمہ داری مسلسل سعی و کوشش اور عوام کی خدمت قرار دیا اور فرمایا کہ عوام دوست ہونا، عوام سے قریبی رابطہ، خود کو عوام کا خدمت گزار سمجھنا، غرور و تکبر سے محفوظ رہنا ، فرض شناسی اور اپنے دامن کو پاک رکھنا مختلف سطح کے عہدہ داروں کی سب سے اہم ذمہ داریاں ہیں۔