قائد انقلاب اسلامی نے آٹھویں پارلیمانی انتخابات کو بڑا اہم موقع قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم، عوام کی بھرپور شرکت اور نتیجتا بہترین صلاحیت اور اہلیت رکھنے والے افراد کے انتخاب سے، انتخابات کے نتائج عوام اور ملک کی فلاح و بہبود اور اسلامی جمہوری نظام کی مزید پیش رفت و ترقی اور عزت و سربلندی کا باعث بنیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ انتیس برسوں کے دوران اور بالخصوص حالیہ چند برسوں میں اسلامی نظام کی مستقل ترقی کے عمل کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کی پیش رفت کا ایک نمونہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس شعبے میں بڑی نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو افراد یہ کہہ رہے تھے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی بساط سمیٹ دینی چاہئے آج وہی کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کی پیش رفت کا اعتراف کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ کچھ عرصے کے لئے ان سرگرمیوں کو روک دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو پائداری و استقامت کا ثمرہ ہے۔
آپ نے ایٹمی شعبے کی ترقی میں صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے کردار کو نہایت کلیدی و نمایاں قرار دیا اور فرمایا کہ ایٹمی شعبے میں قوم کی استقامت کے ساتھ ہی ساتویں پارلیمنٹ نے بھی ماضی سے بڑھ کر حقیقی استقامت و پائداری کا ثبوت دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام، محترم علما، مختلف شعبوں کے حکام بالخصوص حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے ایٹمی مسئلے میں دو ٹوک موقف اختیار کئے جانے کی قدردانی کی اور فرمایا کہ کسی بھی مسئلے میں عوام کی بھرپور حمایت اور حکام کا اتفاق رای، اسلامی نظام کے استحکام کا باعث ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے آٹھویں دور کے انتخابات کو بڑا اہم موقع قرار دیا اور ساتویں پارلیمنٹ کی قابل ستائش کارکردگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس بار بھی عوام، انتخابات میں بھرپور شرکت کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ شجاع، مومن، انقلاب کے اقدار اور اصولوں کے پابند، کام کی صلاحیت اور عوامی ہمدردی کے جذبے سے سرشار افراد کا انتخاب کرکے، ایسی پارلیمنٹ تشکیل دیں گے جو ملک و نظام کے مفاد میں پہلے سے زیادہ فعال ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے معیاروں اور اصولوں کی پابندی اور صریحی بیان کی اسلامی جمہوری نظام کی خصوصیت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام ایک ایسی حقیقت ہے جس نے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر سیاسی و سماجی نظام کا نیا نمونہ پیش کیا ہے بنابریں اسلامی نظام کے معیار دنیا کے دیگر نظاموں کےمعیاروں سے مختلف ہیں اور دیگر نظاموں کے معیار، اسلامی نظام کے لئے معیار قرار نہیں پا سکتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ معیاروں کے مختلف ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دوسروں کے کامیاب تجربات اور معلومات سے استفادہ نہ کیا جائے لیکن ان تجربات کے کامیاب ہونے کو اسلامی نظام کے معیاروں پر پرکھا جانا چاہئے۔
آپ نے اسلامی نظام کے معیاروں کو انقلاب اور امام خمینی (رہ) کے مسلمہ اصول قرار دیا اور فرمایا کہ امام خمینی (رہ) کا راستہ حقیقی اسلامی معیاروں کا راستہ ہے، امام خمینی (رہ) اسلام کے اصولوں اور انقلاب کی قدروں کو بیان کرنے میں صراحت سے کام لیتے تھے اور ان پر عمل آوری کے سلسلے میں کوئي ہچکچاہٹ پسند نہیں کرتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے معیاروں پر روشنی ڈالتےہوئے عدل و انصاف کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اقتصادی، عدالتی، سماجی اور سبھی شعبوں میں عدل و انصاف اسلامی نظام کا بنیادی اصول ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقتصادی شعبے میں انصاف کی پابندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، اقتصادی شعبے میں حکام کی عدل پسندی کا معیار یہ ہے کہ ان کی زندگی کا موازنہ معاشرے کے سب سے کمزور طبقے سے کرنا چاہئے
قائد انقلاب اسلامی نے، دشمن کے مقابلے میں صریحی اور واضح موقف اور اسلامی انقلاب کے اقدار اور اصولوں کے فخریہ اعلان کو اسلامی نظام کا ایک اور خاصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام کی تدبیروں اور بعض امور کو مصلحت کی بنا پر آشکارہ یا پنہاں کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی نظام کی ماہیت ہمیشہ آشکارہ رہنی چاہئےکیوں کہ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا سمبل ہے۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ انقلاب کے اصولوں اور اقدار کو بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے، اقدار اور اصولوں کا فخریہ بیان، اسلامی نظام کی پیش رفت اور سربلندی کا باعث ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب سے قلبی وابستگي رکھنے والی فورسز کے درمیان ہم آہنگی اور مستقل رابطے اسی طرح دشمنوں کے مقابلے میں اپنا فرق واضح رکھنے کو بھی اسلامی نظام کا اصول قرار دیا اور فرمایا کہ انقلاب پر ایقان رکھنے والی فورسز، اپنی متنوع مہارتوں اور نظریات کے ساتھ، بنیادی اصولوں کے تناظر میں ایک دوسرے سےتعاون کریں اور دشمن کے مقابلے میں اپنے افکار، اعتقادات اور اقدار کو واضح رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کی ثقافتی یلغار، صرف ثقافتی شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ دشمن اقتصادی اور سیاسی امور پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی ثقافتی حربے استعمال کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی ایک مثال ملک کے سیاستدانوں کو دو گروہوں اعتدال پسند اور انتہا پسند میں تقسیم کرنے کی دشمن کی کوشش ہے اور اس تقسیم بندی میں اسلامی نظام کے اصولوں کے پابند افراد کو انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر فرمایا کہ ماضی میں اعلی رتبہ حکام امام خمینی (رہ) کے مخلص اور اصولوں کے پابند افراد رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت بھی ملک کی فضا اور معاشرے پر حکمفرما رجحان اصولوں اور اقدار کی پابندی کا رجحان ہے۔ آج کابینہ کے اراکین، پارلیمانی اراکین اور دیگر اداروں کے حکام اسلامی نظام کی پابندی و پاسداری پر افتخار کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن ملک کے سیاستدانوں کو انتہا پسند اور اعتدال پسند میں تقسیم کرنے کے لئے اپنا رائج حربہ استعمال کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے اصولوں کی پابندی کے رجحان کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ دشمن نے اعلانیہ کہا ہے کہ ایران پر دباؤ بڑھانا چاہئے تاکہ آئند دونوں اہم انتخابات میں اعتدال پسند یعنی وہ افراد جو اسلامی نظام اور اصولوں پر یقین نہیں رکھتے، اقتدار میں آئيں۔
آپ نے فرمایا کہ عوام اور حکام کی اکثریت، انقلاب و اسلامی نظام کے اصولوں سے وابستگي رکھتی ہے۔ یہ اصول، قومی اتحاد اور تعاون کا محور ہونے چاہئیں۔ آپ نے کہا کہ اقلیتوں کو بھی، جو ان اصولوں سے وابستگي نہیں رکھتیں، تمام شہری حقوق حاصل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیا میں ثقافت اور ثقافتی صف آرائی کو ایک اہم ترین مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ کسی معاشرے میں ثقافت، سانس کے لئے ضروری ہوا کا درجہ رکھتی ہے، اگر یہ ہوا صاف اور غیر آلودہ ہے تو معاشرے کے افراد کے نقل و حرکت، اخلاق و برتاؤ اور موقف پر اس کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جائےگا۔
اس ملاقات میں ماہرین کی کونسل کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے آٹھویں پارلیمانی انتخابات کے شاندار انعقاد کے لئے قائد انقلاب اسلامی کی رہنمائي اور ہدایات کی قدردانی کی۔