فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے جنرل سکریٹری رمضان عبد اللہ اور ان کی سربراہی میں ایران آنے والے وفد نے آج تہران مین قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات میں جنگ غزہ اور متعلقہ تبدیلیوں کی مکمل تفصیلات پیش کی۔

اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے بیس روزہ جنگ غزہ میں اہل غزہ اور اسلامی استقامت کی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کچھ غزہ میں رونما ہوا وہ کسی معجزے کی مانند تھا۔
آپ نے فرمایا کہ جنگ غزہ میں ملنے والی فتح الہی لطف و نصرت کا نتیجہ تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ غزہ کا معاملہ در حقیقت اللہ تعالی کے ہاتھ میں تھا جو اہل غزہ اور مزاحمتی تنظیموں کے جہاد و ایمان و عزم راسخ کے ذریعے وقوع پذیر ہوا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس جنگ میں غزہ کے عوام نے حقیقی معنی میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور متعلقہ حکام اور عہدہ دار اپنی شاندار کارکردگی اور متحدہ و ٹھوس موقف کے ذریعے اس امتحان سے سرخرو ہوکر نکلے۔
قائد انقلاب اسلامی نے غزہ کے معاملے میں عالمی رای عامہ کے کردار کو بھی بہت اہم اور موثر قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی مزاحمت و استقامت کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسے عالمی رای عامہ کی حمایت حاصل ہو گئی جس کے باعث فلسطین کا نام دنیا کے لغت سے حذف کر دینے اور فلسطینوں کو خلل انداز عنصر کی حیثیت سے متعارف کرانے کی دشمن کی سازش ناکام رہ گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے رای عامہ سے رابطے کے تسلسل کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ جنگ غزہ کے اختتام کے بعد دشمن اس کوشش میں ہے کہ نفسیاتی و تشہیراتی جنگ کے ذریعے غزہ کے عوام کو ورغلائے اور اسلامی مزاحتمی تنظیموں کو عوام کے مسائل و مشکلات کا ذمہ دار اور قصوروار ظاہر کرے لہذا دشمن کی اس سازش سے مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے روز افزوں زوال کے عمل کے آغاز پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اور یورپ نے مشرق وسطی کے علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے اسرائیل بنایا تھا لیکن ساٹھ سال گزر جانے کے بعد اس حکومت کی حالت یہ ہے کہ اس کو بچانے کے لئے امریکہ اور یورپ سے بحری بیڑا صیہونی حکومت کے ساحل پر لایا جا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دین و اسلام پر عمل کوفلسطینی عوام کی فتح و کامرانی کے سلسلے کے آغاز کی اصلی وجہ قرار دیا اور جنگ غزہ سے متعلق معاملات اور بعد کے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنگ اور متعلقہ تبدیلیاں در حقیقت حق و باطل کے محاذوں کو آشکار کرنے والی ثابت ہوئیں اور منافقین کے چہرے کھل کر سامنے آ گئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سیاسی موقف میں استحکام فوجی شعبے میں فتح کا ضامن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی میدان میں حالات اور دشمن کی خواہشات کے سامنے ہرگز جھکنا نہیں چاہئے بلکہ اپنی توانائیوں کے سہارے حریف کو فوجی میدان کی ہی مانند پسپا کر دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آخر میں سر زمین فلسطین کی مکمل آزادی کی امید ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب جبکہ وعدہ الہی کے آثار نمایاں ہو چکے ہیں، ہمارا خیال و یقین یہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو مستقبل قریب میں ہی حتمی فتح بھی نصیب ہوگی۔
اس ملاقات میں فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے سکریٹری جنرل رمضان عبد اللہ نے جنگ غزہ اور اس کے بعد کے حالات اور تبدیلیوں کی مکمل رپورٹ پیش کی اور قائد انقلاب اسلامی سے کہا : میں ملت فلسطین اور مزاحمتی تنطیموں کی نمایندگی کرتے ہوئے جناب عالی اور عظیم ملت ایران کی وسیع حمایتوں کی قدردانی کرتا ہوں، جنگ غزہ میں ملنے والی کامیابی در حقیقت ملت ایران کی فتح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دشمن، تینتیس روزہ جنگ لبنان کی اپنی تمام تر کمزوریوں کا تدارک کرنے کی کوشش کے باوجود جنگ غزہ میں اپنا ہدف پورا نہیں کر سکا۔
رمضان عبد اللہ نے کہا کہ جنگ غزہ میں صیہونی حکومت کی واحد کامیابی عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہے اور جنگ غزہ میں فلسطینیوں کی فتح سے ثابت ہو گیا کہ صیہونی حکومت اب وہ حکومت نہیں رہ گئی ہے جس نے چھے روزہ جنگ میں عرب ممالک کی افواج کو شکست دی تھی بلکہ اب اس حکومت کا زوال شروع ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی اور ان کے حامی سمجھ رہے تھے کہ علاقے میں اسلامی مزاحمت و استقامت کے سلسلے کی سب سے کمزور کڑی غزہ ہے لیکن اس جنگ میں اسرائیل کی شکست علاقے میں رونما ہونے والا اہم اسٹریٹیجک واقعہ اور فلسطین کی حتمی فتح کی نوید بن گیا۔