میلاد حضرت ختمی مرتبت کی مناسبت سے بارہ ربیع الاول سے منائے جانے والے ہفتہ اتحاد کے پہلے دن فلسطین کی مزحمت کار تحریکوں کے رہنماؤں نے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استقامت و پائيداری و جہاد کے زیر سایہ فلسطین اور قدس شریف، مسلم امہ کی آغوش میں واپس آ جائے گا اور غاصب اسرائیل کا انجام شکست و نابودی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی اس انتہائی اہم اور امید افزا گفتگو میں فلسطینی قوم اور غزہ کے ثابت قدم عوام کی فولادی مزاحمت و استقامت کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطینی قوم کی یادگار استقامت کے تسلسل، مزاحمت کے محور پر جانباز مجاہد فلسطینی گروہوں کے اتحاد اور اللہ تعالی کی ذات پر ایمان و توکل کے ذریعے فلسطین کو آزادی ملے گی اور صیہونی حکومت کے حامیوں کا مقدر روسیاہی اور تاریخی رسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ آپ نے فلسطین اور غزہ کے عوام کی قابل تحسین استقامت کو حیرت انگیز اور ایک انوکھی حقیقت اور فلسیطنیوں کی پوزیشن کی مضبوطی اور پیشرفت کی بنیاد قرار دیا۔ آپ نے فلسطینی قوم کی قدردانی اور تشکر کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ اور فلسطین میں نہ ختم ہونے والی مشکلات اور دباؤ کا سامنا اللہ تعالی کی ہدایت و نصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور فلسطینی قوم در حقیقت تاریخ کی سب سے ثابت قدم قوم کے لقب کی سزاوار ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فلسطینی قوم کے اندر استقامت و ثابت قدمی کے جذبے کی حفاظت و تقویت کو مزاحمت کار فلسطینی تنظیموں کا سب سے اہم فریضہ اور فلسطین کی فتوحات کی تمہید قرار دیا اور فرمایا کہ صیہونی دشمن اور اس کے دوسرے رفقائے کار غزہ اور مغربی کنارے کے عوام پر شدید اور گوناگوں دباؤ کے ذریعے انہیں استقامت و مزاحمت سے روگردانی کرنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن فلسطینی قوم کو چاہئے کہ اپنے دوہرے جوش و خروش اور بھرپور امید کے ساتھ یہ اطمینان رکھے کہ اس کی عظیم الشان تحریک یقینی طور پر نتیجہ خیز ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے استکبار و کفر کے محاذ کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کرنے والے محاذ کی روز افزوں طاقت کو ایک نمایاں اور ناقابل انکار حقیقت قرار دیا اور فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں سے فرمایا کہ مزاحمت کے محاذ کی نمایاں مضبوطی اور پیشرفت تحریک مزاحمت میں روحانیت اور توکل علی اللہ کے عنصر کی شمولیت کا نتیجہ ہے بنابریں فلسطینی قوم میں حقیقی دینی و ایمانی جذبے کی تقویت کرنی چاہئے اور اللہ تعالی کے وعدوں کی تکمیل کے سلسلے میں حسن ظن اور توکل و امید میں اضافہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے استبدادی شاہی نظام پر ملت ایران کی فتح و کامرانی کو اللہ تعالی کے سچے وعدوں کی تکمیل کا بین ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے ملک میں جہاں کی طاغوتی حکومت کو امریکا اور مغرب کی بھرپور حمایت حاصل تھی، اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل ایک امر محال تصور کی جاتی ہے لیکن اللہ تعالی کی ذات پر توکل، اتحاد و ایمان و ثابت قدمی پر مبنی جہاد اور امام خمینی کے ٹھوس اور پختہ موقف کے نتیجے میں یہ امر محال، امر ممکن بن گیا، یقینا فلسطین کی آزادی استبدادی شاہی حکومت پر ملت ایران کی فتح سے زیادہ دشوار نہیں ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں مغرب والوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کئے جانے اور حقائق کو منظر عام پر لانے کو بہت اہم قرار دیا اور بائیس روزہ جنگ غزہ میں امریکا اور انسانی حقوق کے دفاع کے دوسرے دعوے داروں کی رسوائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکا اور صیہونیوں کے دوسرے حامیوں نے غزہ میں انسانی حقوق کی وسیع ترین اور بھیانک ترین پامالی کو یکسر نظر انداز کر دیا، وہ تو جب دنیا کی قومیں ریلیوں اور مظاہروں کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئیں تب بعض یورپی حکومتوں اور انسانی حقوق اور آزادی کے دفاع کے دعوے کرنے والے اداروں نے مزید بدنامی سے بچنے کے لئے، ان جرائم کی زبانی مذمت شروع کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے بائيس روزہ جنگ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے تعلق سے اقوام متحدہ کے موقف کو بھی ایک طرح کی بدنامی کی بات قرار دیا اور فرمایا کہ گولڈ اسٹون کمیٹی کی رپورٹ کی رو سے تو غاصب و غیر قانونی صیہونی حکومت کے مجرم و گنہگار حکام کو مقدمہ چلا کر سزائیں دی جانی چاہئے لیکن کیوں اس سلسلے میں سناٹا ہے، بلکہ غاصب و غیر قانونی حکومت کی حمایت میں اضافہ بھی ہو گیا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے بائیس روزہ جنگ غزہ میں اکثر عرب حکومتوں کی ناکام کارکردگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکومتیں مسئلہ فلسطین کو عربوں کا مسئلہ کہتی تھیں لیکن جب فلسطینیوں کی امداد کا معاملہ آیا تو انہوں نے اس پہلو سے بھی کوئی کام نہیں کیا اور اپنے فلسطینی عرب بھائيوں کو دشمن اور اس کے حامیوں کے سامنے بے سہارا چھوڑ دیا، یہ کارکردگی اور یہ طرز عمل تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی صدر کے تبدیلی کے نعرے کو واشنگٹن کی بدنامی اور رسوائی پر پردہ ڈالنے کی مہم بتایا اور فرمایا کہ یہ جھوٹے دعوے بھی بے ثمر رہے کیونکہ امریکیوں نے مسئلہ فلسطین اور دوسرے بہت سے معاملات میں آشکارہ دروغ گوئی کی اور ملت ایران تیس سال سے یہ دروغ گوئی سننے کی عادی ہو گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی تہذیب اور لبرل جمہوریت کے دعوےداروں کے لئے مسئلہ فلسطین کو ایک چیلنج سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ فلسطینی قوم کی استقامت نے آزادی اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کے کئی سو سالہ دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور مسئلہ فلسطین آج آزادی اور انسانی حقوق کے سچے دعوے کرنے والے اور جھوٹے دعویداروں کی شناخت کی کسوٹی میں تبدیل ہو گيا ہے۔
آپ کے مطابق ملت فلسطین کی استقامت کے سامنے امریکا کا جھکنا یقینی ہے، آپ نے فرمایا کہ بلا شبہ گزشتہ ساٹھ ستر برسوں کے دوران امریکی حکومتوں کی جانب سے صیہونیوں کی حمایت تاریخ میں اس ملک کی بدنامی و رسوائی کا سبب بنے گي۔
قائد انقلاب اسلامی نے نئے مشرق وسطی یعنی اسلامی مشرق وسطی کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے ملت فلسطین کے دفاع کو انسانی اور اسلامی فریضہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس سلسلے میں اسلامی حکومتوں کے زیادہ سنگین فرائض ہیں اور قومیں بھی بیدار اور فلسطین کی زیادہ حمایت کی خواہاں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کے لئے فلسطین کی حمایت کو ایک عقیدتی مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ مسئلہ فلسطین ہمارے لئے اور ہمارے عوام کے نزدیک کوئی سیاسی-اسٹریٹیجک مسئلہ نہیں بلکہ دل و ایمان کا معاملہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ایرانی عوام گيارہ فروری (جشن انقلاب کی تاریخ) کی ہی مانند جو ان لوگوں اور ان کے ملک کی تقدیر اور سرنوشت سے منسلک دن ہے، یوم قدس پر بھی ملک گیر مظاہرے کرتے ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کے دفاع کے تعلق سے اپنے سچے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
آپ نے اپنے خطاب میں صیہونیوں سے ساز باز کی راہ پر چلنے والوں کے انجام اور حالت کو دشمن صیہونیوں سے مذاکرات کے عبث اور بے نتیجہ ہونے کی دلیل قرار دیا اور فرمایا کہ جن لوگوں نے بیت المقدس اور فلسطین کے اصلی اور صحیح راستے یعنی جد و جہد اور استقامت کو نظر انداز کیا وہ دشمن کی جانب سے مسلط کردہ باتوں کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے اور اگر ایک لمحے کے لئے بھی انہوں نے ان باتوں کے دائرے سے باہر قدم رکھا تو انہیں یا تو راستے سے ہٹا دیا گيا یا پھر ان کی توہین کی گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمت و استقامت کی دانستہ یا نادانستہ طور پر کی جانے والی نفی کو فلسطینی قوم پر پڑنے والی گہری ضرب سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ان حقائق کو رائے عامہ کے سامنے تواتر کے ساتھ پیش کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نصرت الہی کو دنیا و آخرت میں مومنین کے شامل حال بتایا اور فرمایا کہ ملت ایران کے معاشی، سیاسی اور دفاعی وسائل امریکا سے کم ہیں لیکن اللہ تعالی کی با قاعدہ محسوس کی جانے والی نصرت کے باعث ہم امریکا سے زیادہ طاقتور ہیں اور ہم اپنی روز افزوں پیشرفت اور امریکا کی پسپائی میں اس نصرت کا با قاعدہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر خارجہ منوچہر متکی نے تہران میں آج سے منعقد ہونے والی قومی و اسلامی یکجہتی برائے سرنوشت فلسطین کانفرنس کے اہداف و مقاصد کی رپورٹ پیش کی اور صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت کے ارتقائی عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ صیہونی حکومت کے حامی اس غیر قانونی حکومت کی حمایت کے سلسلے میں پس و پیش کا شکار ہیں اور عالمی تنظیمیں بھی صیہونیوں کے کئی عشروں پر محیط جرائم کے کچھ گوشوں کا جائزہ لینے پر مجبور ہیں۔
فلسطین کی تحریک حماس کے رہنما خالد مشعل نے بھی ہفتہ اتحاد کے آغاز اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام کے موقع پر قومی و اسلامی یکجہتی برائے سرنوشت فلسطین کانفرنس کے انعقاد کی قدردانی کی۔ انہوں نے ماضی کے مقابلے میں علاقے کے موجودہ حالات کو بالکل بدلا ہوا قرار دیا اور کہا کہ اس وقت اللہ تعالی کے لطف و کرم اور اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت و شجاعانہ موقف کے باعث صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کا محاذ طاقتور ہوا ہے اور اسے متعدد کامیابیاں ملی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نابودی کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ خالد مشعل نے کہا کہ مزاحمت، کامیابی کا واحد راستہ ہے اور ہم سب ایک ہی محاذ کے اندر متحد ہوکر کھڑے ہیں اور جو لوگ مزاحمتی محاذ میں شگاف پیدا کرنے کے در پے ہیں ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگے گا، جیسا کہ ہم نے دو تین دن قبل دمشق میں ایران اور شام کے صدور کی زبانی سنا، مزاحمتی محاذ کا ہدف، اس کی بات اور اس کی منطق ایک ہے۔
انہوں نے فلسطینی عوام کی حمایت کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی اور ایرانی عوام و حکام کے موقف کی قدردانی کرتے ہوئے مسجد الاقصی اور مقبوضہ فلسطین میں واقع دیگر مقدس مقامات کو منہدم کرنے کی صیہونی حکومت کی کارروائيوں کے سلسلے میں خبردار کیا۔
فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے سکریٹری جنرل رمضان عبد اللہ نے بھی اپنی گفتگو میں علاقے کے انتہائی حساس ماحول میں اس کانفرنس کے انعقاد کو بے حد اہم قرار دیا اور کہا کہ مسئلہ فلسطین کا حل امت مسلمہ کے اتفاق رائے اور مختلف فلسطینی گروہوں اور عوام کے اتحاد سے ہی ممکن ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ تہران کانفرنس فلسطین کے سلسلے میں ایک مضبوط قومی اتفاق رائے کی تمہید ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل صیہونی دشمنوں کے سامنے مزاحمت و استقامت کا مظاہرہ ہے کیونکہ گزشتہ برسوں کے تجربات سے ثابت ہو گيا ہے کہ سیاسی ساز باز کا نتیجہ فلسطنیی عوام کے حقوق کی پامالی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
جہاد اسلامی تنظیم کے سربراہ نے قائد انقلاب اسلامی اور ایران کے عوام اور عہدہ داروں کی جانب سے فلسطین کی حمایت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ استقامت و مزاحمت فلسطینی عوام کا حق ہے اور عز الدین قسام، احمد یاسین اور فتحی شقاقی جیسے با عظمت افراد کے مشن کو آگے بڑھانے والی فلسطینی تنظیموں کے رہنماؤں کی حیثیت سے ہم مزاحمت و جد و جہد کے علاوہ کوئي راستہ نہیں اپنائیں گے۔
عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے سربراہ احمد جبرئیل نے بھی آج کے اجلاس میں دشمنوں اور مشرکین کا مقابلہ کرنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مشقتوں اور رنج و الم کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ہم اسی رسول کی راہ کے مسافر ہیں اور ہم نے صیہونی دشمن کے مقابلے میں فتح کی واحد راہ کے طور پر مزاحمت و استقامت کا انتخاب کیا ہے اور ہمیں اپنے اس انتخاب پر فخر ہے۔
انہو نے لبنان اور غزہ میں مزاحمتی تحریک کو ملنے والی بڑی کامیابیوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ علاقے کے موجودہ حالات ماضی کی صورت حال سے بہت مختلف ہیں اور صیہونی دشمن جو اپنی شکست و ہزیمت کے بارے میں کبھی سوچتا بھی نہیں تھا اسے کئی بار شکست کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمن گزشتہ برسوں میں اپنی مرضی کے مطابق نئے مشرق وسطی کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن آج مزاحمتی محاذ نے نئے مشرق وسطی کی بنیاد رکھی ہے جو تہران سے شروع ہوکر پورے علاقے میں پھیلے گا۔ احمد جبرئیل نے فلسطینی عوام کی مزاحمت و استقامت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران اور قائد انقلاب اسلامی کی حمایت کی قدردانی کی۔
تحریک فتح کے سکریٹری جنرل ابو موسی نے بھی بیت المقدس اور دیگر فلسطینی مقدس مقامات کو لاحق خطرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت نے مسجد الاقصی کے ارد گرد کے علاقوں پر قبضہ کرکے اور وہاں رہائشی عمارتوں کی تعمیر کے ذریعے عملی طور پر قدس شریف کا محاصرہ کر لیا ہے اور شہر بیت المقدس کو پوری طرح یہودی شہر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو مزاحمتی تحریک کے وجود میں آنے اور اس کی کامیابیوں میں بہت موثر قرار دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے صدور کی حالیہ ملاقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب احمدی نژاد اور جناب بشار اسد کا موقف امریکا اور صیہونی حکومت کو دیا جانے والا شجاعانہ جواب تھا جس سے تمام مسلمانوں بالخصوص فلسطینی عوام کے دل مسرور و شادماں ہو گئے۔
فلسطین کے عوامی محاذ کے سیاسی شعبے کے سربراہ جناب ماہر طاہر نے بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مقام اور کردار نیز مزاحمتی تنطیموں کی تشکیل میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تاثیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایران پر جو دباؤ پڑ رہا ہے وہ ایٹمی مسئلے یا دیگر امور کی وجہ سے نہیں بلکہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران بالخصوص ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے موقف کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ عوامی محاذ تنظیم کے سربراہ احمد سعدات نے جو جیل میں ہیں اسرائیل کی جیل سے صدر ایران کے لئے اظہار تشکر کا پیغام بھیجا ہے۔
تہران کانفرنس مین شام کے صدر کے خصوصی ایلچی جناب ہیثم سطائی نے بھی قائد انقلاب اسلامی کو شام کے صدر کا سلام پہنچایا اور کہا کہ شام، تہران کانفرنس میں فلسطینی تنظیموں کے شانہ بشانہ شرکت کرکے یہ پیغام دیتا ہے کہ مزاحمتی محاذ، صیہونی دشمن اور اس کے حامیوں کے مقابلے میں مزاحتمی تنظیموں کے ساتھ متحد ہوکر کھڑا ہے۔