قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے ارکان نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اقدار کی پابندی، انصاف پسندی، سادہ زیستی، رئیسانہ شان و شوکت سے پرہیز، سعی و کوشش، بلا وقفہ عوام کی خدمت اور سامراج کی مخالفت جیسی بنیادی پالیسیوں کی حفاظت پر تاکید کی اور فرمایا کہ عوام الناس کی زندگی کے لئے رفاہی وسائل کی فراہمی اور ترقیاتی منصوبے پر مزید توجہ کے سلسلے میں اقدام کیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے شروعاتی برسوں کے صدر مملکت اور وزیر اعظم شہید رجائی اور شہید با ہنر کے یوم شہادت اور ہفتہ دولت کی مناسبت سے انجام پانے والی اس ملاقات میں ان دونوں شہیدوں کو مومنانہ مساعی و محنت اور اصولوں کی مکمل پابندی کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ ان نورانی چہروں کی بقاء مخلص بندوں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے اظہار تشکر کی علامت ہے جو اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنے جملہ امور میں اسلامی اور انقلابی اقدار کو نمایاں رکھتے ہیں۔ آپ نے دو ہزار نو کے منصوبہ بند فتنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس فتنے سے ملک کی ترقی کے عمل اور کام کی روش پر بہت بڑی ضرب لگی اور دشمن کی امیدیں بڑھیں لیکن حکومت اور عوام نے اعتماد و ایمان و استقامت کے ساتھ کاموں کو آگے بڑھایا اللہ تعالی کے لطف و کرم سے بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں اس طرح یہ معاملہ بھی شہید رجائی اور شہید با ہنر کی پالیسیوں پر تواتر سے عمل کا مظہر بن گیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے نعروں پر عمل آوری کو اپنے لئے باعث افتخار قرار دینے کی حکومت کی پالیسی کو اس کی کامیابیوں کا راز قرار دیا اور صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے فرمایا کہ عوام انصاف پسندی، دین کی پابندی اور سامراج کی مخالفت کے نعروں پر عمل آوری کی بنا پر آپ کی پذیرائی کرتے ہیں لہذا آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس موقف کی پوری سنجیدگی کے ساتھ حفاظت کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کی سرگرمیوں میں ضروری اقدام کے طور پر عوام الناس کی زندگی کو آسان بنانے کی کوششوں کی ضرورت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس موضوع پر خاص توجہ دی جانی چاہئے تاکہ عوام کی زندگی کے مختلف پہلو تحفظ اور امن و سلامتی سے بہرہ مند رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ترقیاتی منصوبے سند چشم انداز کو بھی حکومت کی ترجیحی پالیسی قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ترقیاتی منصوبہ ملک کی بیس سالہ سرگرمیوں کا نقشہ راہ ہے جو زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی باریک بینی سے تیار کیا گیا ہے لہذا اس پر ہر قسم کے حالات میں توجہ دی جانی چاہئے۔ آپ نے اس منصوبے پر عمل آوری کی شروعات کو پانچ سال کا عرصہ بیت جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس مدت میں جو راستہ طے ہوا ہے اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس انداز سے عمل کرنا چاہئے کہ مخلتف ادوار کے مطابق اس ترقیاتی منصوبے کے اہداف حاصل ہوتے رہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اس انتہائی اہم دستاویز کو نظر انداز کرکے ہم دس سال تک آگے بڑھتے رہیں تو پھر باقی بچی مدت میں اس منصوبے کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوگا بنابریں حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کو مامور کرے جو تدبر و تفکر کے ساتھ پوری دانشمندی سے اس سوال کا جواب دیں کہ ترقیاتی منصوبے کے تحت پیشرفت طے شدہ وقت کے اندر حاصل ہوئی ہے یا نہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے چوتھے عشرے کے نعروں یعنی انصاف و ترقی پر توجہ کو حکومت کے لئے دیگر اہم ترجیح قرار دیا اور فرمایا کہ چوتھے عشرے کے آغاز کو دو سال کا عرصہ بیت رہا ہے اور ان دو برسوں میں ترقی کی راہ میں بڑے اہم اقدامات کئے گئے ہیں تاہم انصاف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے واضح اور روشن معیاروں کا تعین ضروری ہے تاکہ سماجی، اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی اور دیگر میدانوں میں انصاف کے نعرے پر عمل آوری کو ان معیاروں پر پرکھا جا سکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پانچ سالہ قومی ترقیاتی منصوبے کو بھی حکومت کی اہم ترجیحات کا جز قرار دیا اور پارلیمنٹ میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے پر بحث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مقننہ اور مجریہ کے حقیقی تعاون اور تال میل سے یہ منصوبہ بحسن و خوبی تدوین اور منظوری کے مراحل طے کرےگا۔ آپ نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ پانچ سالہ منصوبے میں بنیادی تبدیلی کرنے سے پارلیمنٹ کے گریز اور اس منصوبے کو علاقائی اور فروعی منصوبے کی حیثیت سے دیکھنے سے اجتناب پر زور دیا اور فرمایا کہ حکومت کو بھی چاہئے کہ اس نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اسے نا قابل تنقید و ترمیم نہ سمجھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کے معاشی اقدامات کے بارے میں صدر مملکت کی جانب سے اس ملاقات میں بیان کردہ نکات کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی تبدیلی کے پروگرام کی تمام شقوں پر عمل آوری کی سفارش کی اور فرمایا کہ سبسڈی کو با مقصد بنانے کے علاوہ بینکاری کے نظام، کرنسی اور دیگر موضوعات کے بارے میں اس پروگرام کے دوسرے حصوں پر بھی بخوبی توجہ اور عمل ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشی شعبے میں دراز مدتی پروگراموں پر توجہ کو ضروری قرار دیا اور ترقیاتی منصوبے میں معین شدہ پیداوار کی شرح میں اضافے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ پر زور دیا۔ آپ نے حکومت کو روزگار کے مسئلے پر مسلسل اور خاص توجہ دینے کی ہدایت کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے دفعہ چوالیس کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے انجام پانے والی سرگرمیوں کے جائزے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ دفعہ چوالیس کا نچوڑ عوامی نظم و ضبط اور سرمایہ کاری نیز نجی شعبےکی معاشی شعبے میں شراکت ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اس دفعہ کے فلسفہ وجودی پر توجہ دیتے ہوئے سرمایہ کاری، نگرانی اور ہدایت کے عمل کو بدستور اپنے اختیار میں رکھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعض شعبوں میں نجی سیکٹر میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی توانائی کے فقدان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت کی پالیسی اور اقدامات ایسے ہوں کہ نجی سیکٹر بڑی سرمایہ کاری کے لئے بھی کمر ہمت کسے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دفعہ چوالیس کے صحیح اور مکمل اجراء کو طویل المیعاد اور وسط مدتی کام قرار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ کام انجام دے دیا جائے تو ملک کی معیشت میں واقعی بڑی گشائش ہوگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں حکومت کے انتظامی فرائض کے بارے میں اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے اسی ضمن میں عوام اور حکام کے فرائض کے تعین میں کابینہ کی انتہائی اہم ذمہ داری کا ذکر کیا اور فرمایا کہ تمام وزاء حکومت کے فیصلوں میں موثر اور شریک ہیں بنابریں انہیں مکمل پختگی اور ماہرانہ تیاری کے ساتھ بحثوں میں شرکت کرنا چاہئے تاکہ منظور ہونے والے بل صحیح انداز میں تیار اور مکمل ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے مختلف اداروں کی ترقی میں باہمی امداد کو بھی وزیروں کے اہم انتظامی فرائض کا جز قرار دیا اور حکومت کے اندر بعض فطری اختلافات کو رائے عامہ کے سامنے برملا کرنے کے بعص اداروں کے اقدام پر نکتہ چینی کی اور فرمایا کہ اس طرح کے مسائل کو کابینہ کے اجلاس میں حل کر لیا جانا چاہئے۔ آپ نے خارجہ پالیسی سمیت مختلف شعبوں میں تکراری کاموں سے پرہیز اور وزراء کے اختیارات و فرائض کے دائرے میں ان پر اعتماد کو اہم انتظامی نکات میں شمار کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کابینہ کے ارکان کو تنقید برداشت کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے امور میں حکومت حق بجانب ہوتی ہے لیکن پھر بھی کابینہ کے ارکان کو چاہئے کہ تنقید سننے کا جذبہ اور شرح صدر پیدا کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل پر حکومت کی توجہ اور اس شعبے کے لئے بجٹ کی منظوری پر خوشی ظاہر کی اور ثقافتی بجٹ کے استعمال کی کیفیت کے بارے میں انتہائی حساسیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی امور کے لئے بجٹ کی تخصیص میں اہداف و حقا‍ئق کے مد نظر ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہئے اور پھر کام کی فنکارانہ اور ہنری مضبوطی کی جانب پوری توجہ مرکوز کرنا چاہئے کیونکہ ثقافتی شعبے میں تصنع آمیز کاموں سے نہ صرف یہ کہ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے واضح طور پر نقصان پہنچے گا۔ آپ نے حکومت کی سفارتی کوششوں کو لائق تشکر قرار دیا تاہم یہ بھی فرمایا کہ سیاسی آمد و رفت سے زیادہ جس چیز پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے وہ سفارتی روح اور رخ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے وزارت خارجہ کو ایسے جملہ امور کی منظم اور منصوبہ بند رہنمائی کا ذمہ دار قرار دیا جو کسی نہ کسی صورت میں خارجہ پالیسی یا دیگر ممالک سے تعلقات سے مربوط ہیں۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے مختلف شعبوں میں حکومت کی کوششوں اور خدمات کی مفصل رپورٹ پیش کی۔ صدر مملکت نے پہلے نویں اور دسویں حکومتوں کے بنیادی طرز عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی خدمت کے شوق اور جذبہ عمل کی ترویج، عوام بالخصوص محروم طبقے کے سامنے انکساری، مسلسل اور دگنا کام، انصاف کا قیام، انقلاب اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے راستے پر حرکت اور اسلامی و انقلابی اقدار کی حمایت حکومت کی بنیادی پالیسیوں کا جز ہے اور اسی بنیاد پر منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔ صدر مملکت نے انصاف کی ترویج کے لئے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تہتر صوبائی دورے، انصاف حصص کی تقسیم، معاشرے کی نچلی سطح تک بینک کی سہولیات کی تقسیم، رہائشی مکانات اور دیہی علاقوں کی تعمیر نو، گیس سپلائی کے نیٹ ورک کی توسیع، سبسڈی کو زراعت اور محروم علاقوں تک پہنچانا، طبی مراکز کی تعداد میں اضافہ، خاندانی ڈاکٹر نامی منصوبے پر عملدرآمد اور حکومتی ڈھانچے میں رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کا خاتمہ وہ اہم اقدامات ہیں جو حکومت نے انصاف کی ترویج کے لئے کئے ہیں۔ ڈاکٹر احمدی نژاد نے اس کے بعد مختلف شعبوں میں حکومت کے بعض اقدامات کی جانب اشارہ کیا اور معاشی شعبے کے بارے میں کہا کہ اس شعبے میں کی جانے والی کوششوں کی بنیاد معاشی ڈھانچے کی اصلاح تھی اور اسی اساس پر سونے، زر مبادلہ اور آٹو موبائل کے بازار کو کنٹرول کیا گیا۔ صدر مملکت نے انٹیلیجنس اور سیکورٹی کے شعبے میں حکومت کے اقدامات کے بارے میں غیر ملکی انٹیلیجنس سروسز اور دشمن کی سرگرمیوں پر مکمل نگرانی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں حکمت، تدبیر اور مصلحت کے تناظر میں حکومت نے فعال کردار نبھایا ہے اور اسی بنیاد پر صدر نے اکیاسی ممالک کے دورے کئے اور ستر عالمی وفود کی میزبانی کی ہے۔ صدر مملکت نے تہران میں منعقدہ ایٹمی ترک اسلحہ کانفرنس اور نیویارک میں این پی ٹی نظر ثانی کانفرنس میں ایران کی فعال شرکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی حمایت سے حکومت پابندیوں اور سیاسی دباؤ کے باوجود سامراج کے سیاسی دبدبے کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ملاقات کے اختتام پر قائد انقلاب اسلامی کی امامت میں نماز مغرب و عشا ادا
کی گئی اور پھر حاضرین نے قائد انقلاب اسلامی کے ساتھ روزہ افطار کیا۔