قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی حامنہ ای نے جمعرات کی صبح شہر قم میں علماء و فضلاء و اساتذہ و طلبہ اور دینی مدارس کے منتظمین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں دینی تعلیمی مراکز میں آنے والی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں اور اس تبدیلی کو انتظامی کوششوں کے ذریعے صحیح رخ دئے جانے پر تبصرہ کیا اور دینی علمی مرکز اور اسلامی نظام کے مابین پائے جانے والے باہمی رابطے کے سلسلے میں دشمن کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کی تشریح کرتے ہوئے اسلامی نظام کو کمزور بنانے اور دینی علمی مراکز اور علماء کو تنہا کرنے کے لئے جاری اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کا انکشاف کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مقدس شہر قم میں حضرت معصومہ کے روضہ اقدس کے طویل و عریض صحنوں میں علما، فضلا، اساتذہ اور طلبا کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں شہر قم کو عالم اسلام کا مرکزعلم و معرفت قرار دیا اور فرمایا کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد کے بعد والے دور کی مانند اس وقت بھی شہر قم معارف اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کا اصلی گہوارا ہے اور دھڑکتے ہوئے دل کی مانند پوری امت اسلامیہ کے پیکر میں معرفت و بیداری و بصیرت کا خون جاری کر سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی معارف و تعلیمات کے حصول اور پھر ان کی ترویج کے لئے شہر قم میں نظر آنے والی دسیوں ہزار طلبا کی محنت و مجاہدت کو بے نظیر شئے قرار دیا اور فرمایا کہ قم کبھی بھی موجودہ دور کی مانند عالمی مسائل اور تبدیلیوں کے سلسلے میں موثر نہیں رہا ہے اور اسی ممتاز پوزیشن کی وجہ سے آج جیسے دوست اور دشمن پیدا ہو گئے ہیں ویسے کبھی نہیں تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایک مغالطے کی جانب اشارہ کیا کہ بعض حلقے دینی علمی مرکز کی سیاسی مسائل میں مداخلت کو دشمنیوں کے بڑھنے اور دینی علمی مرکز کا احترام کم ہونے کا باعث قرار دیتے ہیں اور اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں قائد انقلاب اسلامی نے اس حقیقت کا تجزیہ کیا کہ کوئی بھی باارزش ادارہ کبھی بھی گوشہ نشینی اور لا تعلقی کے روئے کی بنا پر محترم قرار نہیں پاتا کیونکہ فقط زندہ، فعال اور صاحب اثر موجودات ہیں جو خیر خواہوں اور حتی دشمنوں کو عش عش کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
قم کے دینی علمی مرکز کو تنہا اور لا تعلق بنانے کے لئے پھیلائے جانے والے اس مغالطے کے جواب میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ کنارہ کشی اور لا تعلقی تو اس مرکز کے مٹ جانے کا باعث بنے گی۔ آپ نے فرمایا کہ شیعہ علماء کی صنف کلی طور پر ہمیشہ ہی سماجی و سیاسی واقعات اور تبدیلیوں میں مرکزی نقطے میں موجود رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مسلمان یا غیر مسلم علماء کے کسی اور طبقے کو وہ اثر و نفوذ حاصل نہیں ہوا ہے جو شیعہ علماء کے حلقے کو حاصل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دین اسلام کی تقویت کو عالمی و سیاسی مسائل میں دینی علمی مرکز کی سرگرمیوں اور کردار کی دوسری وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ دینی علماء کا طبقہ دین کا خادم و سپاہی طبقہ ہے لہذا اگر یہ طبقہ کمزوری کا مظاہرہ کرے گا تو یقینی طور پر دین کو نقصان پہنچے گا اور ظاہر ہے کہ یہ چیز علمائے دین کے وجود سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔ قائد انقلاب اسلامی نے میدان میں علماء کی موجودگی کو دشمن کی برافروختگی کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ دشمنیاں کلی جائزے میں، اگر ہم آگاہ و بیدار ہوں، مواقع پیدا ہونے کا باعث نظر آتی ہیں کیونکہ اس سے فکری فعالیت میں اضافہ ہوتا ہے اور شبہات کے جوابات دینے رغبت بڑھتی ہے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو (یہ دشمنیاں) اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج و تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ آپ نے اس مغالطے کے جواب میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ یہ لا تعلقی اور گوشہ نشینی دشمن کے خاموش ہو جانے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ مزید جارحیت کے لئے اس کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قم کے طلبا، علماء و فضلا کے اس عظیم الشان اجتماع میں اپنے خطاب میں مزید کچھ مغالطوں کی جانب اشارہ کیا اور دو غلط خیالات یعنی مولویوں کی حکومت اور علماء کو حکومتی مولوی اور غیر حکومتی مولوی میں تقسیم کئے جانے کا حوالہ دیا اور اور ان دونوں مغالطوں میں پنہاں دشمنان اسلام کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی نظام کو علماء کے فکری، عقلی اور استدلالی سرمائے سے محروم کر دیں اور میدان میں سرگرم انقلابی علماء کے طبقے کو بخیال خود تنہا اور بدنام کریں لہذا ان عزائم کا ہوشیاری سے مقابلہ کیا جانا چاہئےـ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان دونوں منحرفانہ مغالطوں کے پس پردہ دشمن کی سازشوں کے مختلف پہلوؤں کے افشاء کے لئے علماء کی صنف اور اسلامی نظام کے مابین باہمی نسبت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام سے دینی تعلیمی مرکز کی نسبت حمایت و نصیحت اور اصلاح کے ساتھ ساتھ دفاع کرنے پر استوار ہے۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ کو مولویوں کی حکومت کہے جانے کو تہمت اور کھلا ہوا جھوٹ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام دین اور دینی اقدار کی حکومت سے عبارت ہے مولویوں کی حکومت سے نہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام میں حکومتی منصبوں کے حصول کے لئے صرف عالم دین ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ صرف عالم دین ہو جانے سے اہلیت پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے اہلیت ختم ہوتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علماء کو حکومتی مولویوں اور غیرحکومتی مولویوں میں تقسیم کئے جانے کو بھی ایک کھلی ہوئی غلطی قرار دیا اور فرمایا کہ حکومت اور حکومتی عہدوں کی جانب بڑھنا، دوسرے کسی بھی ہدف کی مانند اگر دنیاوی امور اور خواہشات کی تکمیل کے لئے ہوتو ناقابل قبول ہے لیکن اگر کوئی عالم دین روحانی اور الہی جذبے کے تحت اسلامی نظام کی حمایت و معاونت کرتا ہے یا کوئی عہدہ قبول کرتا ہے تو یہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی نمایاں مثال اور مجاہدت فی سبیل اللہ کا مصداق ہے۔ اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے دو اہم ترین حقائق یعنی دینی علمی مرکز پر اسلامی نظام کے فکری و علمی انحصار اور نظام کے سلسلے میں دینی علمی مرکز اور علماء کے لا تعلق نہ رہنے پر روشنی ڈالی۔ آپ نے پہلے نکتے کے سلسلے میں فرمایا کہ اسلامی نطام علمی اور فکری لحاظ سے علمائے دین اور دینی علمی مرکز کا محتاج ہے اور ان کی مساعی کے نتیجے میں اسلامی نظام کو پشتپناہی اور حوصلہ ملتا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کی دینی ماہیت کی وجہ سے سیاست، معیشت اور انتظامی امور، تربیتی مسائل جیسے تمام میدانوں میں نظریہ پردازی اور ملک کے نظم و نسق کے سلسلے میں متعلقہ مسائل پر بحث علمائے دین یعنی ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اسلام کو پہچانتے اور اس کے سلسلے میں مہارت رکھتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک و معاشرے کے مختلف شعبوں میں دینی نظریہ پردازی کے فقدان کو مغربی اور غیر دینی نظریات کے نفوذ اور جاگزینی کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ یونیورسٹیوں میں آرٹس کے موضوعات پر خاص توجہ دینے کے سلسلے میں میری مکرر تاکید کی وجہ بھی یہی حقیقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آرٹس کے موجودہ موضوعات الہی و دینی آئیڈیالوجی سے ہٹ کر ایک الگ آئیڈیالوجی پر استوار ہیں جس کی وجہ سے ملک کے مستقبل کے عہدہ داروں کی تربیت مغرب کی مادی آئیڈیالوجی کے اہداف کی بنیاد پر انجام پاتی ہے چنانچہ دینی علمی مرکز اور علمائے دین کو چاہئے کہ اس انحراف کو روکنے کے لئے مختلف میدانوں میں اسلامی نظریات کا تعین کریں اور منصوبہ بندی کے لئے انہیں حکام کے حوالے کریں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دینی علمی مرکز کی جانب سے مختلف شبہات کے جوابات دئے جانے کو بھی علمائے دین پر اسلامی نظام کے انحصار کا ایک اور مصداق قرار دیا اور فرمایا کہ معاشرے میں گوناگوں مذہبی، سیاسی اور اعتقادی شکوک و شبہات پھیلانے کا اسلامی نظام کے دشمنوں کا ہدف اسلامی نظام کی بنیادوں کو مخدوش کرنا ہے لہذا معاشرے کے صفحہ ذہن سے ان غبار آلود شبہات کو دور کرنے کا علماء و فضلاء کا اقدام اسلامی نطام کی مدد ہے اور اسلامی نظام دینی علمی مرکز پر اس نقطہ نگاہ سے بھی منحصر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دوسری حقیقت یعنی اسلامی نظام سے دینی علمی مرکز کے بے اعتنا نہ رہنے کی تشریح کرتے ہوئے علمائے دین اور دینی علمی مراکز بالخصوص قم کے دینی مرکز کو اسلامی نظام کی ماں اور معمار قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک ماں سے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اپنے بچے کی جانب سے غافل و لا تعلق بن جائے اور ضرورت پڑنے پر اس کا دفاع نہ کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام اور دینی علمی مراکز کی باہمی نسبت تعاون، امداد باہمی اور حمایت کی نسبت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مراکز کے آزاد اور غیر جانبدار رہنے کے موضوع پر بھی روشنی ڈالی۔ آپ نے ایک سوال کرکے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ آپ نے سوال کیا کہ اسلامی نظام کی جانب سے دینی علمی مرکز کی حمایت سے اس مرکز کی آزادی اور غیر جانبداری میں کوئی خلل واقع ہوگا یا نہیں؟ قائد انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں مخالف حکومتوں اور شیعہ حکومتوں دونوں کے دور میں دینی علمی مرکز کی تاریخی آزادی کے تحفظ و تسلسل کا ذکرکیا اور فرمایا کہ علمائے دین جب بعض شیعہ حکومتوں کی مدد کرتے تھے تب بھی وہ حکومتوں کے قبضے میں نہیں ہوتے تھے اور شیعہ علمائے دین کا طبقہ جس طرح ماضی میں آزاد رہا، عصر حاضر اور مستقبل میں بھی بفضل الہی آزاد ہی رہے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مرکز کی آزادی و غیر جانبداری پر تاکید کرنے کے ساتھ ہی اس سلسلے میں مغالطہ پیدا کرنے کی بعض لوگوں کی کوششوں سے ہوشیار رہنے کی بھی سفارش کی اور فرمایا کہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ آزادی کے نام پر اسلامی نظام سے دینی علمی مرکز کے رابطے کو ختم کر دیں لیکن یہ بات عیاں ہے کہ انحصار ایک الگ چیز ہے اور تعاون و معاونت ایک الگ شئے اور یہ بات عین ممکن ہے کہ آزاد رہتے ہوئے باہمی تعاون انجام دیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کو دینی علمی مرکز کا احسان مند قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کا فرض ہے کہ دینی علمی مرکز کے داخلی امور میں مداخلت کئے بغیر اس کی مدد کرے کیونکہ اس شعبے میں بعض ایسے مسائل ہیں جو سرکاری خزانے کی مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبا کی معیشت کو دینی علمی مرکز کے لئے اسلامی نظام کی مالی مدد سے الگ قرار دیا اور فرمایا کہ طلبا کی معیشت دینی علمی مراکز کی اسی روحانی روش کے مطابق معاشرے کے لوگوں سے حاصل ہونے والی رقوم شرعیہ ہر استوار ہونا چاہئے کیونکہ یہ چیز دینی علمی مراکز سے عوام کے دلنشیں مستحکم رابطے و رشتے کا ایک راز ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی نظام کی جانب سے دینی علمی مرکز کی مدد و اعانت صرف مالی امور تک محدود نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج بفضل پروردگار اور عوامی حمایت کی بنا پر سب سے اہم اور سب سے زیادہ وسیع قومی پلیٹ فارم علماء اور مراجع تقلید کے اختیار میں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مرکز کی آزادی اور اسلامی نظام کے ساتھ اس کے باہمی تعاون کے درمیان پائے جانے والے فرق کے تعین پر زور دیا اور فرمایا کہ اسلامی نطام اور دینی علمی مرکز دو عظیم حقیقتیں ہیں جو مختلف پہلوؤں اور خصوصیات کی بنا پر ایک دوسرے سے وابستہ اور متصل ہیں اور فی الواقع دونوں کا انجام بھی ایک ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام پر کسی بھی ضرب سے دینی علمی مرکز اور علمائے دین کو یقینا شدید نقصان ہوگا لیکن اسلامی نظام پوری طرح قوی و توانا ہے اور بلا شبہ تمام در پیش چیلنجوں پر غالب آ جائے گا۔
قم کے علماء، فضلاء اور طلبا کے اس عظیم الشان اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مرکز میں تغیر و اصلاح کے اہم ترین موضوع پر بھی تفصیلی بحث کی۔ آپ نے صحیح و مفید تبدیلی اور غلط و انحرافی دگرگونی کے مابین فرق کو
واضح کرنے کے لئے بالکل سامنے کی کچھ مثالیں پیش کیں اور فرمایا کہ اگر تبدیلی سے مراد دینی علمی مرکز کے بنیادی خد و خال کا تغیر مثلا اجتہاد کے طریقے کی تبدیلی ہے تو یہ بالکل نامناسب ہے اور ایسی دگرگونی ہے جس کا انجام سقوط و تنزلی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مراکز میں رائج اجتہاد کے طریقے کو مناسب ترین اور معقول ترین روش قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت اگر کوئی بھی، کسی بھی نام سے اجتہاد کے سلسلے میں غیر اصولی اور معمول کے خلاف کسی اور روش کو اختیار کرتا ہے تو اس کا عمل نادرست اور ناقابل قبول ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعض ایسے افراد کا بھی حوالہ دیا جو دنیا کے مادہ پرستانہ مزاج عرف عام کو مد نظر رکھتے ہوئے بلکہ سامراج کی خوش آمد کے لئے فتوا صادر کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کسی نے فتوی دیا ہے کہ ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیاں چونکہ بڑی طاقتوں کی نظر میں مشکوک ہیں لہذا جائز نہیں ہیں لیکن ہمارا یہ کہنا ہے کہ سامراج کی حماقت ہے کہ اس نے ملت ایران پر شک کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر دینی علمی مرکز میں رائج طریقے کی بنیاد پر بعض لوگوں کی اجتہادی نظر مختلف فتوؤں پر منتج ہوتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ اس سے دینی علمی مرکز کو اور بھی فروغ ملے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالمی سطح کی فلسفیانہ، فقہی اور عقیدتی بحثوں میں دینی علمی مرکز کی فعال شراکت کی سفارش کی اور فرمایا کہ دینی علمی مرکز کو چاہئے کہ مختلف مسائل میں گوناگوں مکاتب فکر کے الگ الگ نظریات کے پیش نظر دنیا میں زیر بحث موضوعات اور ضرورتوں کے مدلل، مستحکم اور اطمینان بخش جوابات پیش کرے۔ آپ نے پیشرفتہ مواصلاتی وسائل کی دست یابی کو قومی اور عالمی ضرورت کے مطابق دینی علمی مرکز کے جوابات کو سرعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا اچھا موقع قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام کے سیاسی و معاشی نقطہ نگاہ اور علمی روش کی وضاحت، فقہی اور قانونی مفاہیم کی تشریح، اسلام کے اخلاقی و تربیتی نظام کی صحیح اور علمی پیشکش ایسے مسائل ہیں جن پر دینی علمی مراکز عالمی سطح پر کام کر سکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مراکز میں تبدیلی کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے اجتہادی مباحث کو اس تبدیلی کی صحیح اساس قرار دیا اور فرمایا کہ تبدیلی و تغیر ناگزیر چیز ہے چنانچہ مراجع تقلید، بزرگ علمائے کرام اور مفکرین کو چاہئے کہ اس تبدیلی کے لئے منصوبہ بندی اور اس کی رہنمائی کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے تبدیلی سے غلط مفہوم اخذ کرنے کی ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے تعلیم و تعلم کے سلسلے میں دینی علمی مرکز کے نہایت کارآمد روایتی انداز کو ترک کر دئے جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ یہ روایتی انداز رفتہ رفتہ عالمی سطح پر مرکز توجہ بن چکا ہے لہذا اگر کچھ لوگ تبدیلی کے نام پر اس روایتی روش کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ رجعت پسندانہ حرکت ہوگی اور اس کے نتائج ہرگز قابل قبول نہیں ہوں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے استاد کے آزادانہ انتخاب کی روش، استاد پر (علمی) اعتراض کرنے، غور کرنے، مطالعہ کرنے، کتابوں کو محض رٹنے سے بچنے، مباحثہ، استاد کے احترام اور استاد و شاگرد کی باہمی احترام کی پابندی کو دینی علمی مراکز کی بہت مناسب روایتی روش قرار دیا اور فرمایا کہ دینی علمی مراکز میں تبدیلی اس روش کی تقویت پر مرکوز ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے اور عوام کی ضروریات اور دینی علمی مراکز کی علمی بحثوں اور مساعی کے مابین مطابقت کو بھی دینی علمی مراکز میں مثبت تبدیلی کا جز قرار دیا اور فرمایا کہ دینی علمی مراکز میں تبدیلی کے تناظر میں اخلاقیات اور نشست و برخاست کے آداب کے نظام پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مراجع کرام کے احترام و تکریم کو دینی علمی مراکز کے اخلاقی نظام کا ایک مثبت پہلو قرار دیا اور فرمایا کہ مراجع تقلید عموما دینی علمی مراکز کی بلند چوٹیوں کا درجہ رکھتے ہیں اور کوئی بھی انسان آسانی سے اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا بنابریں جلیل القدر مراجع تقلید کا دینی علمی مراکز کے لوگوں کے درمیان ہمیشہ احترام کیا جانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تہذیب نفس کو دینی علمی مراکز میں مثبت تغیرات کے تسلسل کا ایک ستون قرار دیا اور فرمایا کہ دینی علمی مراکز کے اخلاقی نطام اور رجحان میں انقلابی جذبات و خیالات کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہئے کیونکہ دشمن اور ان کے آلہ کار انقلابی ماحول کو ختم کرکے اپنے مذموم اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ انقلابی نظریات اور جذبات کی کسی فرد کی جانب سے مخالفت کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دشمن اسی مخالفت کو اساس بناکر مخالف ماحول بنانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ دینی علمی مراکز کو چاہئے کہ اس موضوع پر بھی پوری توجہ دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے رضاکار و انقلابی علمائے کرام کو تنہا کرنے، شہادت اور شہیدوں کی تحقیر اور ملت ایران کے آٹھ سالہ مقدس دفاع پر سوالیہ نشان لگائے جانے کو دینی علمی مراکز میں انقلابی ماحول کو کمزور کرنے کی اسلام دشمن عناصر کی سازش قرار دیا اور ان مراکز کے بزرگوں کو اس نکتے پر توجہ دینے کی سفارش کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی علمی مراکز کے انقلابی و پرجوش طلبا اور نوجوانوں کو ملک کی مستقبل کی امیدوں سے تعبیر کیا تاہم انہیں یہ ہدایت بھی کی کہ ہر طرح کی بے احتیاطی سے پرہیز کریں اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اس انداز سے عمل کریں کہ کوئي ان پر انتہاپسندی کی تہمت نہ لگا سکے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر انقلابی شخص کو چاہئے کہ اپنے جذبات و احساسات کی حفاظت کرتے ہوئے بصیرت و ہوشیاری سے کام لے، وقت کی پیچیدگیوں کو سمجھے اور مشکلات و آزمائش کے مقابلے میں پائیداری و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ منطقی اور معقول رویہ اختیار کرے۔ آپ نے انقلابی افراد پر انتہا پسندی کا الزام لگانے سے اجتناب کی ضرورت پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ یہ تہمت ایک گمراہ کن حرکت ہے جو دشمن بالواسطہ یا براہ راست انجام دیتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی اس بحث کے اختتامی مرحلے میں تبدیلیوں کی صحیح رہنمائی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ صحیح انتظامی کوششو کے بغیر دینی علمی مراکز میں تہہ در تہہ، وسیع اور ہمہ گیر تبدیلی ممکن نہیں ہے چنانچہ مراجع تقلید اور مفکرین کے معتمد افراد کے ایک گروہ کو چاہئے کہ اس انتظامی ذمہ داری کو قبول کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فلسفے کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دینی علمی مراکز کو علوم عقلیہ اور اعتقادی بحثوں نیز تفسیر قرآن کے موضوع پر خاص توجہ دینے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے قم کے دینی علمی مرکز کے علماء، فضلاء طلبا اور دانشوروں کے عظیم اجتماع سے اپنے خطاب میں ہزاروں کی تعداد میں دینی طالبات کی موجودگی کو ایک بابرکت اور عظیم کامیابی قرار دیا اور فرمایا کہ لڑکیوں کے دینی علمی مراکز میں عالم، محقق اور فلسفی خواتین کی تربیت اور اس کے بعد عالمی میدانوں میں ان کی سرگرمیاں ایران و انقلاب کے لئے یونیورسٹی کے دانشوروں کی مانند عزت و توقیر کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس اجتماع کے آغاز میں دینی علمی مرکز کے زعیم آیت اللہ مقتدائی نے قم کے دینی علم مرکز کو حاصل اسلامی انقلاب کے سرچشمے کی حیثیت کا ذکر کیا اور کہا کہ اساتذہ، علما اور طلبا اسلامی نظام کی محافظت و دفاع کے علمبردار ہیں اور انحرافی افکار اور سازشوں کے مقابلے میں ولایت امر مسلمین کے مقام و مرتبے کی حفاظت اور شبہات کے مدلل جوابات دینے کے لئے آمادہ ہیں۔