پہلے اسٹریٹیجک افکار اجلاس میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور دیگر دسیوں مفکرین، دانشوروں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور دینی علوم کے مرکز سے وابستہ صاحب رائے افراد نے شرکت کی۔ بدھ کی رات منعقد ہونے والے اس اجلاس میں پیشرفت کے اسلامی-ایرانی نمونے کی خصوصیات، پہلوؤں اور بنیادوں کا جائزہ لیا گيا۔ چار گھنٹے سے زیادہ دیر تک چلنے والے اس اجلاس میں پہلے چودہ مفکرین اور دانشوروں نے پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات اور موقف پیش کئے۔ اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک کی ممتاز شخصیات اور مفکرین کی خدمات حاصل کرکے اس اہم نمونے کی تدوین کی ضرورت پر زور دیا اور فکر، علم، زندگی اور روحانیت کو اسلامی و ایرانی نمونے کے اہم پہلوؤں سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نمونہ ملک کے مستقبل اور اہم منصوبوں کے لئے سب سے بنیادی اور ترجیحی دستاویز قرار پائے گا۔ آپ نے اجلاس میں اساتذہ، مفکرین اور دانشوروں کے تحقیقی مقالوں اور بیانوں کی قدردانی اور اس پر اظہار مسرت کرتے ہوئے اسے ملک کے دانشوروں اور مفکرین کے اندر پنہاں بے پناہ صلاحیتوں کا غماز قرار دیا اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں اس قسم کا اجلاس پہلے کبھی منعقد نہیں ہوا۔ آپ نے اسٹریٹیجک افکار اجلاس کا سلسلہ جاری رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان اجلاسوں کا ایک اہم مقصد ملک کے بنیادی اور بڑے امور میں مفکرین اور دانشوروں کو دخیل کرنا بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کے اندر بہت سے انتہائی اہم اور بڑے کام ہیں جن کی انجام دہی میں ممتاز شخصیات اور دانشوروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کئے جانے کی ضرورت ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ملک کے بڑے امور میں مفکرین کی شراکت اور تعاون ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان اجلاسوں کا ایک اور مقصد بڑے مسائل کے سلسلے میں مفکرین اور دانشوروں کے درمیان بحث و گفتگو کو عام کرنا اور پھر اسے معاشرے کی عوامی سطح پر پھیلانا بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان نشستوں کا ایک اور مقصد ملک کے مستقبل کے لئے صحیح راستے کا تعین اور پھر اس راستے کو ہموار کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان اجلاسوں میں نتیجہ اخذ کرنے میں کسی بھی طرح کی عجلت پسندی سے اجتناب کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین، ایک دراز مدتی عمل اور پر امید رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور ساتھ ہی مناسب رفتار بھی اس سلسلے میں لازمی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے میں اہداف معین رہتے ہیں تاہم حالات اور وقت کے تقاضے کے مطابق ممکن ہے کہ اسٹریٹیجی میں اصلاح اور تبدیلی کی جائے اور یہ خصوصیت نمونے میں لچک کی گنجائش کی علامت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کے چاروں الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے نمونے کو ایک جامع نقشہ قرار دیا اور فرمایا کہ جامع نقشہ نہ ہونے کی صورت میں گزشتہ تیس سال کے بعض اقتصادی اور ثقافتی امور کی طرح ہم متضاد اقدامات سے دوچار ہوں جائیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے نمونے کے لئے اسلامی ہونے کی قید کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نمونے کے اہداف، اقدار اور طریقوں کا اسلامی تعلیمات اور معارف پر استوار رہنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا معاشرہ اور ہماری حکومت اسلامی ہے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم اسلامی مآخذ اور سرچشموں کی مدد سے اپنے لئے پیشرفت کے نمونے کی تدوین کرنے پر قادر ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی کی صفت کے تعین کی وجہ بیان کرتے ہوئے پیشرفت کے اس نمونے میں ایران کی تاریخی، جغرافیائي، ثقافتی، اقتصادی اور سماجی خصوصیات اور صفات کو مد نظر رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ان سب باتوں کے علاوہ اس نمونے کو وضع کرنے والے ایرانی مفکرین ہیں اور یہ نمونہ در حقیقت ملک کے مستقبل کا خاکہ کھینچنے کی اس سرزمین کے دانشوروں کی مساعی کا عکاس بھی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ترقی کے بجائے پیشرفت کے لفظ کے انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ترقی، عالمی سطح پر رائج ایک اصطلاح ہے جس کے اپنے خاص مفاہیم اور تقاضے ہیں جن سے ہم متفق نہیں ہیں، اسی بنا پر ہم نے پیشرفت کا لفظ استعمال کیا ہے، ویسے بھی دوسروں کے مفاہیم کے عاریتا استعمال سے گریز، اسلامی انقلاب کی تاریخ میں پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مطلوبہ صورت حال اور منزل کے تعین اور موجودہ صورت حال سے اس منزل تک رسائی کے راستے کی نشاندہی کو پیشرفت کے نمونے کی تدوین کے عمل کی ضروریات میں قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی و ایرانی الفاظ کے استعمال کا مطلب دوسروں کے صحیح تجربات اور کامیابیوں سے استفادہ نہ کرنا ہرگز نہیں ہے۔ ہم اپنے اس سفر میں کھلی ہوئی آنکھوں سے ہر صحیح علم و معرفت کا انتخاب کریں گے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کے سلسلے میں تمام سوالات پیش کئے جانے اور ان کے جواب دئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک سوال تو یہی ہے کہ اس نمونے کے تعین کے لئے موجودہ زمانے کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران جمع ہونے والے تجربات اور معلومات سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دور اس سفر کی شروعات کے لئے بہت مناسب دور ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس نمونے کی تدوین کے لئے ملک میں فکری توانائیاں موجود نہیں ہیں لیکن بے پناہ امکانی صلاحیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی مفکرین اور نظریہ پرداز اس نمونے کی تدوین کی صلاحیت و استعداد سے سرشار ہیں اور ایسا ہوکر رہے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے نمونے کے میدانوں کی تشریح کرتے ہوئے فکر و علم، زندگی و روحانیت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین اس انداز سے انجام دی جانی چاہئے کہ وہ معاشرے کو مفکر و اہل نظر معاشرہ بنا دے اور تدبر و تفکر اور نئے افکار و نظریات کو معاشرے کی ایک نمایاں حقیقت میں تبدیل کر دے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے نمونے کی تدوین میں فکری میدان میں پیشرفت کی اسٹریٹیجی اور لوازمات کی نشاندہی اور تعلیم و تربیت نیز ذرائع ابلاغ سمیت متعلقہ وسائل پر توجہ کو ضروری قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے علم و دانش کے میدان کو بھی پیشرفت کے اہم میدان سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ علمی خود انحصاری کے لئے جاری کوششیں اور خلاقیتیں مزید سرعت کے ساتھ جاری رہنا چاہئے اور ہمہ جہتی اور گہری علمی پیشرفت کی راہوں کا تعین ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے میں زندگی کے بنیادی امور جیسے سیکورٹی، انصاف، رفاہ، آزادی، حکومت، خود مختاری اور قومی وقار کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ پیشرفت کے اس نمونے میں شبعہ ہائے زندگی پر بھرپور توجہ ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے روحانیت کو بھی چوتھا اور انتہائی اہم میدان قرار دیا جس پر پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین کے پیچیدہ اور طولانی عمل میں توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ روحانیت تمام امور اور میدانوں میں حقیقی پیشرفت ما حصل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں انسانوں کی زندگی ایک حقیقی اسلامی زندگی کا صحیح نمونہ ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ انسان اپنی چند ہزار سالہ تاریخ میں مسلسل زندگی کے پیچ و خم سے گزرتا رہا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں حقیقی پیشرفت کی شاہراہ پر پہنچے گا تاہم اس کے لئے بلا وقفہ سعی و کوشش کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں پیشرفت کے نمونے کی اسلامی خصوصیت پور توجہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے اس نمونے میں توحید و یکتا پرستی کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اللہ تعالی پر عقیدے اور اس عقیدے کے التزام کو انسانی زندگی میں عام کر دیا جائے تو انسانی زندگی کی مشکلات حل ہو جائیں گی اور حقیقی پیشرفت کا باب وا ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے اس نمونے کے تحت آخرت اور اخروی حساب کتاب پر اعتناء کو سختیوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنے اور ایثار و قربانی کی ترویج کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بنیادی اور تقدیر ساز مفہوم پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے میں ہی صحیح طور پر سامنے آتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نگاہ سے دنیا و آخرت کی ایک دوسرے سے وابستگی اور انسان کو حاصل مرکزی مقام و منزلت کو پیشرفت کی اسلامی ماہیت کا جز قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلام میں انسان کو محوری نقطہ قرار دئے جانے اور مغرب کے مادہ پرست مکتب فکر میں اسے بنیادی حیثیت دئے جانے میں بہت فرق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام کا مقصد انسان کی نجات و سعادت ہے اور اس نقطہ نگاہ سے عدل و انصاف، رفاہ و آسائش، تحفظ و سلامتی اور عبادت و مناجات مقدمات یا ذیلی اہداف ہیں اور اصلی ہدف یہ ہے کہ انسان خوشبخت ہو جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلام کے نقطہ نگاہ سے انسان کو صاحب اختیار، ذمہ دار اور ہدایت الہی سے سرشار قرار دیا اور پیشرفت کے نمونے میں اس نقطہ نگاہ کے انعکاس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نقطہ نگاہ سے جمہوریت انسانوں کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا فریضہ بھی قرار پاتی ہے اور کوئی بھی یہ کہہ کر دامن نہیں چھڑا سکتا کہ معاشرے کی بھلائی یا برائی سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے میں اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق حکومت کی حقیقت پر توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام میں شخصی صلاحیتوں کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ جو شخص بھی کوئی عہدہ اور کوئی انتظامی ذمہ داری قبول کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے اندر ضروری صلاحیت و اہلیت بھی پیدا کرے ورنہ دوسری صورت میں عہدہ قبول کرنا ناجائز فعل قرار پائے گا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نقطہ نگاہ سے صحیح حکومت کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے تسلط پسندی کی نفی پر زور دیا اور فرمایا کہ جو شخص تسلط پسند ہے اور ہر شئے کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے اسلام کی رو سے اسے حکومت کرنے کا حق نہیں ہے اور عوام کو بھی ایسے شخص کے انتخاب کا حق نہیں ہے اور یہ سعادت بخش اصول پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے میں بھی مد نظر رکھا جانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے نمونے میں معیشت پر توجہ کو بھی ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ دانشوروں اور ممتاز مفکرین کی فکری کاوشوں سے تدوین پانے والے پیشرفت کے نمونے میں انصاف و مساوات کو بنیادی اصول کا درجہ حاصل ہوگا کیونکہ اسلام میں انصاف حق و باطل کا معیار اور حکومتوں کی شرعی حیثیت کی کسوٹی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین کے سلسلے میں ایک انتہائي اہم نکتے کے طور پر معیشت کے سلسلے میں غیر مادی نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اسلام دولت کو اہمیت دیتا ہے اور دولت کے حصول کو پسندیدہ فعل مانتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسے بد عنوانیوں، دوسروں پر تسلط اور فضول خرچی کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسٹریٹیجک افکار کے عنوان سے نشستوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین کے لئے ممکن ہے کہ دسیوں نشستوں اور یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مرکز میں دسیوں علمی و فکری حلقوں کی تشکیل کی ضرورت پیش آئے۔ تاہم یہ سلسلہ جو شروع ہو چکاہے ملک کے ممتاز مفکرین کے تعاون سے جاری رہنا چاہئے، یہاں تک کہ وہ اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس نمونے کی تدوین کے لئے ایک مرکز کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ بیشک یہ عظیم مہم کسی ایک گروہ تک محدود نہیں رہ سکتی بلکہ اس میں ملک کے تمام مفکرین اور دانشوروں کا تعاون ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس مہم کے لئے جو مرکز یا کمیشن معرض وجود میں آئے گا، اس کے لئے مفکرین اور دانشوروں کی حمایت اور پشتپناہی ملنے کی صورت میں پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین کے انتہائی اہم ہدف کا حصول آسان تر ہو جائے گا۔
اجلاس کے آغاز میں علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے استاد، ڈاکٹر مسعود درخشاں نے پیشرفت کی اسلامی و ایرانی بنیادوں پر ایک نظر عنوان کے تحت مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کو الہی و شرعی احکام اور معیاروں پر استوار ہونے کے ساتھ ہی نصف صدی تک تیل کی آمدنی پر منحصر رہنے والی ایرانی معیشت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہونا چاہئے۔
مشہد کی فردوسی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر مصطفی سلیمی فر نے بھی اپنی گفتگو میں پیشرفت کے نظریات میں بتدریج آنے والی تبدیلی کے عمل کا جائزہ لیا اور کہا کہ پیشرفت کے مفہوم کے سلسلے میں آنے والے تمام تر تغیرات کے باوجود یہ پیشرفت اپنے مطلوبہ ہدف کو نہیں حاصل کر سکی کیونکہ ترقی کے اس نقطہ نگاہ کا سرچشمہ الحادی آئیڈیالوجی تھی۔
اسلامی فکر و ثقافت تحقیقی مرکز کے ڈاکٹر سید حسین میر معزی نے بھی اس اجلاس میں کہا کہ پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی اصطلاح سے پیشرفت کے اسلامی نمونے کی ایران کی معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی خصوصیات سے ہم آہنگی کی ضرورت کا عندیہ ملتا ہے۔
اجلاس میں یزد یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر زہرا نصر اللہی، معروف مفکر حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حمید پارسا نیا، امام صادق علیہ السلام یونیورسٹی کے ڈاکٹر عادل پیغامی اور شہید بہشتی یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات ڈاکٹر فرامرز رفیع پور نے بھی اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔ تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر حداد عادل نے اپنے مقالے میں کہا کہ پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے میں دینی اصولوں اور اہداف پر بھی توجہ دینا چاہئے اور ساتھ ہی ایران اور دنیا کے زمینی حقائق پر بھی نظر رکھی جانی چاہئے۔ ایوان صدر کے اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر پرویز داؤدی نے نویں اور دسویں حکومتوں میں پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین کے لئے انجام دی جانے والی کوششوں کی رپورٹ پیش کی۔ ٹیچرس ٹریننگ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عماد افروغ، قم اور نجف اشرف کے دینی علوم کے مراکز کے استاد آيت اللہ محمد مہدی آصفی، علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر سید حبیب اللہ طباطبائیان، آيت اللہ حائری شیرازی اور یونیورسٹی پروفیسر محترمہ علا سوند نے بھی اس سلسلے میں اپنے موقف بیان کئے۔
اسٹریٹیجک افکار اجلاس کے سکریٹری ڈاکٹر واعظ زادہ نے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں کہا کہ یہ تجویز سب سے پہلے تقریبا دو ماہ قبل قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے سامنے آئی جس کے بعد سکریٹریئیٹ کا قیام عمل میں آیا اور دانشوروں، اساتذہ، مفکرین اور صاحب نظر افراد سے گفت و شنید کے بعد پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کے موضوع کا انتخاب کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان اجلاسوں میں تبادلہ خیالات کے ساتھ ہی عملدرآمد کے امکانات اور تمہیدات پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔