قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں اجتہاد اور جدیدیت کے زیر عنوان لبنان میں ایک کانفرنس کا انعقدا کیا گيا۔ یہ کانفرنس دارالحکومت بیروت کے ایک ہوٹل کی گیلری میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی افتتاحیہ تقریب میں جناب شیخ شفیق جرادی نے کانفرنس کے مہتمم کی حیثیت سے اس کانفرنس کے انعقاد کے اہداف پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ رسمی اور تشریفاتی کارروائیوں سے ہٹ کر ایک کھلی فضا میں ایک عظیم دانشور کے بارے میں غور و خوض کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں قائد انقلاب اسلامی ایران آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ کی علمی شخصیت اور نئے زمانے کی علمی پیشرفت کے ساتھ ساتھ اجتہاد کے سلسلے میں آپ کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ روش کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اس کانفرنس سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے خطاب کیا۔ انہوں نے قائد انقلاب اسلامی کے سلسلے میں اپنی آشنائی کے بارے میں کہا کہ آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے میرا براہ راست تعارف سنہ انیس سو چھیاسی میں ہوا اور مجھے آپ کے افکار و نظریات، فکری بنیادوں، تجزئے کی روش، حقائق کو پرکھنے کے لئے آپ کے نقطہ نگاہ، آپ کی انتظامی صلاحیتوں، قائدانہ توانائیوں اور قوت فیصلہ نیز اخلاقی خصوصیات سے واقفیت ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں مجھے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ قیادت، تقوا، فقہ و اجتہاد کے میدانوں میں ہمارے سامنے یہ ایک عظیم ہستی ہے۔ ایسی ہستی جو پائيدار فکری بنیادوں پر استوار ہمہ گیر، عمیق اور متین نظریات رکھتی ہے، جسے مشکلات اور احتیاجات کی پوری خبر ہے، جسے امکانات کا بھرپور ادراک ہے، جو اصولوں اور بنیادوں کے مطابق مناسب راہ حل سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام واقعات و تغیرات کے سلسلے میں اسی ہمہ جہتی نقطہ نگاہ اور روشن و عمیق طر‌ز فکر کی بنیاد پر موقف اختیار کرتے ہیں۔ آپ عوامی طبقات سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں موضوع سے پوری طرح آگاہ اور تمام تفصیلات اور جزوی باتوں سے باخبر پائیں گے جو ماہرانہ انداز میں اپنا نظریہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے قائد انقلاب اسلامی کی سیاسی دقت نظری کے بارے میں کہا کہ انیس سو اکانوے میں میڈرڈ کانفرنس کے وقت جب عالمی اندازے تہہ و بالا ہوتے دکھائے دئے اور علاقے اور دنیا کی سطح پر گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں، امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ اس نے (فلسطین کے سلسلے میں) نام نہاد امن کے عمل کو انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان حالات میں بہت سے لوگوں نے سوچا کہ اب نام نہاد امن کا عمل پورا ہونے والا ہے۔ ایک عام نظریہ یہ قائم ہوا کہ امریکہ اس عمل کو مسلط کر دے گا۔ اس وقت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا خیال مختلف تھا، آپ اس اتفاق رائے سے الگ نہج پر سوچ رہے تھے۔ آپ نے ان حالات میں بھی فرمایا کہ یہ کانفرنس بے نتیجہ رہے گی۔ نام نہاد امن کا عمل پورا نہیں ہوگا اور امریکہ اس عمل کو مسلط نہیں کر سکے گا۔ آج بیس سال گزر جانے کے بعد ہم کانفرنس کے فریقوں اور اس میں شرکت کرنے والی بعض شخصیات کی زبان سے دو عشروں کی ناکامی اور مایوسی کی بات سن رہے ہیں جو امن سے متعلق مذاکرات کے نتیجے میں ان پر طاری ہوئی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے مزاحمت و استقامت کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای مزاحمت و استقامت کی فتح کی بات کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ انہیں اس فتح کا مکمل یقین ہے اور یہ یقین ان کے عقیدے اور ایمان پر مبنی ہے۔ انیس سو چھیانوے کے بعد آپ فرماتے تھے کہ اسرائیل دلدل میں پھنس چکا ہے، وہ نہ آگے بڑھ سکتا ہے کہ لبنان پر دوبارہ قبضہ کر لے اور نہ پسپائی اختیار کرنے پر قادر ہے اور نہ ہی اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے۔ لہذا ہمیں اس کا منتظر رہنا چاہئے کہ کیا واقعہ رونما ہونے والا ہے؟ تاہم یہ معاملہ اسلامی مزاحمت کی کارکرگی پر منحصر ہے۔ سنہ انیس سو ننانوے کے اواخر میں اسرائیل میں نیتن یاہو اور باراک کے درمیان وزارت عظمی کے لئے مقابلہ آرائی ہوئي۔ باراک نے اعلان کیا کہ جولائی میں اسرائیل لبنان سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس وقت لبنان اور شام کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ یہ تاریخ آ جائے گی اور اسرائيل عقب نشینی نہیں کرے گا۔ باراک نے لبنان سے پسپائی اختیار کرنے کے وعدے کے جواب میں حکومت لبنان اور (شام کے صدر) حافظ الاسد سے ضمانتیں اور مراعات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں تاہم اسے ناکامی ہاتھ لگی جس کے بعد یہ خیال عام ہونے لگا کہ اسرائیل لبنان سے پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ جب اس وعدے کے ایفاء کا وقت آئے گا تو وہ کہہ دے گا کہ اس نے ضمانتیں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو اسے نہیں دی گئیں لہذا وہ لبنان کو چھوڑ کر پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اسلامی مزاحمتی تحریک (حزب اللہ) کے اندر ہم لوگوں کا بھی خیال تھا کہ یہی ہونے والا ہے۔ ان حالات میں ہماری ملاقات آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ہوئی اور ہم نے اپنا خیال ظاہر کیا تو آپ نے بالکل مختلف رائے پیش کی اور کہا کہ لبنان میں آپ کی فتح بالکل قریب آ چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ نزدیک آ پہنچی ہے جتنا آپ سوچ سکتے ہیں۔ یہ بات دستیاب اطلاعات اور تجزیوں کے برخلاف تھی۔ اطلاعات تو یہ تھیں کہ اسرائیل کی جانب سے اس پسپائی کی کوئي تیاری بھی شروع نہیں کی گئی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ خود کو اس کامیابی کے لئے تیار کیجئے اور اس بارے میں غور کیجئے کہ اسرائیل کی پسپائی کے بعد آپ کو کیا اقدامات کرنے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اسرائیل نے پسپائی اختیار کی تو ہمیں تعجب نہیں ہوا کیونکہ ہم اس کے لئے پہلے سے تیار تھے۔
سید حسن نصر اللہ نے لبنان کے خلاف اسرائیل کی تینتیس روزہ جارحیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان دنوں کو یاد کیا اور کہا کہ تینتیس روزہ جنگ میں جو عالمی سطح کی ایک جنگ تھی، اس کا فیصلہ عالمی سطح پر کیا گيا تھا، بعض عرب ممالک نے اس کی حمایت کی تھی اور اسرائیل نے اسے جامہ عمل پہنایا تھا، اس جنگ کا مقصد لبنان میں اسلامی مزاحمت کو کچلنا تھا۔ آپ سب نے اس جنگ میں اسرائیل کے وحشی پنے کو دیکھا۔ ان حالات میں فتح کی بات کرنا بلکہ اس جنگ سے صحیح و سالم باہر نکل آنے کی بات کرنا بھی دیوانے پن کی بات کرنے جیسا تھا۔ کیونکہ اسلامی مزاحمتی تحریک اور چھوٹا سا ملک لبنان ایسے حالات میں پہنچ گئے تھے کہ پوری دنیا مل کر ان کے خلاف سازش کر رہی تھی۔
ان حالات میں آيت اللہ خامنہ ای کا ایک زبانی پیغام جنوبی بیروت میں مجھے موصول ہوا۔ ایسے عالم میں جب ضاحیہ کی عمارتوں پر بم برس رہے تھے مجھے تفصیلی پیغام موصول ہوا۔ میں اس کی بعض باتوں کی جانب اشارہ کروں گا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس پیغام میں کہا کہ برادران گرامی! یہ جنگ، خندق اور احزاب کی جنگ کی مانند ہے جب قریش، مدینے کے یہودی اور تمام قبائل جمع ہو گئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا محاصرہ کر لیا۔ یہ فیصلہ کیا گيا کہ اسلام اور مومنین کی اس جماعت کو نابود کر دیا جائے۔ یہ جنگ بھی اسی جنگ کی مانند ہے۔ لوگ جاں بلب ہو جائیں گے لیکن آپ اللہ تعالی پر توکل کیجئے! میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ یقینی طور پر فتحیاب ہوں گے بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ جب یہ جنگ آپ کی فتح کے ساتھ ختم ہوگی تو آپ ایسی طاقت میں تبدیل ہو چکے ہوں گے کہ کسی طاقت میں اس کے مقابلے کی تاب نہ رہے گی۔
سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے مستقبل اور اس سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی کے نظرئے کے تعلق سے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کا یہ ایقان ہے کہ اسرائيل زوال کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے، ان کا یہ یقین ہے کہ اس حکومت کی نابودی میں اب زیادہ وقت نہیں بچا ہے بلکہ یہ نابودی بالکل قریب ہے، ان کا ماننا ہے کہ نام نہاد امن کا عمل کسی نتیجے تک پہنچنے والا نہیں ہے اور جو کـچھ آج فلسطین میں، علاقے میں، نام نہاد امن کے عمل کے تعلق سے، مزاحمتی تنظیموں کے سلسلے میں یا فلسطینی عوام کے قیام کے بارے میں رونما ہو رہا ہے ہو اس حقیقت پر دلیل ہے کہ اس وقت فلسطینی قوم کی نئی نسل ہمارے سامنے ہے جو اپنی سرزمین کی طرف واپسی کے سلسلے میں ہمیشہ سے زیادہ پر عزم ہے۔ ہم امریکہ کے زوال، مزاحمتی تحریکوں کی کامیابیوں، تینتیس روزہ جنگ لبنان، غزہ کی جنگ کے تناظر میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں جو وہ اسرائیل کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان باتوں کی بنیاد پر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسرائیل انشاء اللہ مستقبل قریب میں مٹ جانے والا ہے۔ یہ اس رہبر شجاع کا بالکل درست نظریہ ہے جو زمینی حقائق پر استوار ہے۔
سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے بعد ایک ڈاکٹر کرووک نامی دانشور نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی شخصیت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے سمجھنے کے لئے موجودہ دنیا کا بھرپور ادراک ہونا ضروری ہے۔ ان قدیمی شخصیات کے برخلاف جو اپنے سماجی ماحول تک محدود رہتی تھیں۔ ان کے خطابات نے معروضی حالات کو رفتہ رفتہ بدل کر رکھ دیا اور انہیں دنیا کی بیداری و آگاہی کی سمت میں موڑا، اس بیداری نے آج کی دنیا میں ایک نئی گفتگو کا آغاز کر دیا جس سے مغربی مفکرین اور نظریہ پرداز حیران و پریشان ہیں۔ اس شخصیت نے مغربی نظاموں کے حربوں کو جو وہ اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے ناکام کر دیا۔ انہوں نے ایسا راستہ تعمیر کیا جو عوامی سطح پر طرز فکر میں اعتدال پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوا اور اسی روش نے لوگوں کی نگاہ کو اسلام کے ارفع و اعلی اقدار کی جانب مرکوز کیا۔