قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان میں اپنی چوتھی ملاقات میں بدھ کے روز ملک کے سیکڑوں دانشوروں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اکیڈمک بورڈز کے اراکین سے یونیورسٹی، سائنس، تحقیق، ثقافت، سیاست اور معاشیات کے مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔
اس سے قبل حالیہ ہفتوں میں طلبا، شعراء و ادباء اور اقتصادی و صنعتی شعبے کے افراد قائد انقلاب اسلامی سے الگ الگ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
بدھ کے روز ہونے والی اس ملاقات کی ابتدا میں یونیوسٹیوں کے اکیڈمک بورڈز کے چودہ اراکین نے دو گھنٹوں سے زیادہ وقت میں مختلف مسائل کے بارے میں اپنے نظریات بیان کیے اور تجاویز، تنقیدیں اور راہ حل پیش کیے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یونیورسٹی کے اساتذہ کے خیالات سننے اور ان پر غور کرنے کے بعد ملک کی سائنسی ترقی اور یونیورسٹیوں کے کردار اور اسی طرح سے یوم قدس کے سلسلے میں ایک اہم تقریر کی۔
آپ نے یوم قدس کے قریب آنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یوم قدس ایک بین الاقوامی اسلامی اور عظیم و اہم دن ہے جس میں ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام، اس سچائی کا نعرہ لگاتی ہیں جسے دبانے کے لیے سامراج نے کم از کم ساٹھ برسوں سے سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
آپ نے کہا کہ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل، یوم قدس کا اعلان اور تہران میں صیہونی حکومت کے سفارتخانے کی فلسطین کے سفارتخانے میں تبدیلی ایک ایسا جارحانہ اقدام تھا جو دنیا کے جغرافیے سے فلسطین کو مٹا دینے کی سامراج کی ساٹھ سالہ سازش کے خلاف انجام دیا گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یوم قدس، ملک کی سلامتی کا سہارا بھی ہے اور ہر وہ ایرانی جو یوم قدس کو سڑک پر آتا ہے درحقیقت ملک و قوم کی سلامتی اور اسلامی انقلاب کی کامیابیوں اور کارناموں کی حفاظت میں مدد کرتا ہے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے اس سال بھی یوم قدس ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں زیادہ پرشکوہ طریقے سے منعقد ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح اپنے خطاب میں سائنسی پیشرفت کو، سامراجی محاذ کے مقابلے میں ایرانی قوم کی باوقار اور ٹھوس استقامت کی اہم ترین بنیادوں میں سے ایک بتایا اور کہا کہ علمی اور سائنسی میدانوں میں حاصل ہونے والی یہ کامیابیاں، جنہوں نے ایران کی عظیم قوم میں خود اعتمادی، سربلندی، قوت ارادی، شجاعت اور استقامت بھر دی، یونیورسٹیوں اور یونیوسٹیوں سے متعلق افراد کی رہین منت ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمنوں کی جانب سے دی جانے والی مسلسل فوجی، سیکورٹی، سماجی اور سیاسی دھمکیوں، ملک کے سائنسدانوں کے قتل، ایران پر پابندیاں عائد کیے جانے، ملک میں فتنہ انگیزی کی تسلط پسندوں کی سازش اور تسلط پسندانہ نظام کے سامنے اسلامی نظام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم دشمن کے محاذ کے مقابلے میں پوری طاقت اور استقامت کے ساتھ ڈٹی ہوئي ہے اور اس نے ملک میں سائنسی اور عملی پیشرفت اور کامیابیوں کے سہارے عالمی تسلط پسندوں اور توسیع پسندوں کے سامنے جھکنے سے کھل کر انکار کر دیا ہے۔
آپ نے یونیورسٹی کو ایرانی قوم کی سائنسی پیشرفت اور عزت کا سرچشمہ بتاتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر دشمن، ایران کی عزت میں اضافے کے اس اہم مرکز کی جانب سے غافل نہیں ہے اور آگے بھی غافل نہیں رہے گا۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں سے علم اور دین کے خاتمے کو تسلط پسند محاذ کے دو اہم اہداف بتاتے ہوئے اس کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ایران کے سائنسدانوں کا قتل، اس طریقۂ کار کا ایک حصہ ہے تاہم دشمن کی اصلی اور پیچیدہ سازش یہ ہے کہ طالب علم، پروفیسر اور یونیورسٹی کو غیر علمی و غیر سائنسی کاموں میں الجھا دیا جائے تاکہ علم و سائنس کی چوٹیاں سر کرنے کی ایرانیوں کی قومی آرزو پوری نہ ہونے پائے۔
آپ نے علم و دانش کے کارواں سے ایران کے علمی فاصلے کو پاٹنے کے لیے مسلسل اور تیز رفتار کوششوں کو ازحد ضروری قرار دیا اور کہا کہ ہمیں علمی تحریک میں نئي روح پھونکنی ہوگی اور یونیورسٹیوں کی تمام تر گنجائش اور تمام اساتذہ و طلباء کو ملک کی علمی و سائنسی پرواز کے لیے اس فیصلہ کن میدان میں اترنا ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں جامع علمی و سائنسی منصوبے کو ملک کی سائنسی ضرورتوں کے نظام کی ترسیم کے لیے ضروری بتایا اور کہا کہ مفید علم پر بھروسہ کرتے ہوئے ملک کی ضرورتوں اور مختلف سائنسی شعبوں کی سرگرمیوں کے درمیان ہماہنگی پیدا کی جانی چاہیے۔
دسیوں لاکھ اساتذہ اور طلباء کے درمیان جدت عمل کی ثقافت کی ترویج، ایک مکمل علمی و سائنسی نظام کی تشکیل، جامع علمی و سائنسی منصوبے کے نفاذ کے لیے ہمہ گیر کوشش اور ملک کے مسائل کے حل میں یونیورسٹیوں کو محض خانہ پری کے لیے نہیں بلکہ حقیقت میں دخیل کیا جانا ایسے موضوعات تھے جنہیں قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی سائنسی پیشرفت کی بحث میں پیش کیا۔
آپ نے علمی نظریے سے لے کر استعمال کے مرحلے تک کے عمل پر توجہ کو بھی بہت اہم بتایا اور کہا کہ حکومت اور یونیورسٹیوں کو باہمی تعاون کے ذریعے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے ذہن میں آنے والے خیال، اسے سائنس کا جامہ پہنانے، پھر اسے ٹیکنالوجی بنانے اور آخرکار صنعت میں تبدیل کرنے کے عمل کو نظم و ضبط دینا چاہیے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں سے علم و سائنس کے خاتمے کے لیے دشمن کی سازشوں کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کے بعد سامراجی محاذ کے دوسرے ہدف یعنی علمی مراکز سے دین کے خاتمے کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم حقیقی کامیابی اور حقیقی و معنوی سلامتی کی خواہاں ہے اور اس انتہائي اہم ہدف کو علم کے بغیر یا دین سے عاری علم کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بنابریں پورے معاشرے اور سب سے بڑھ کر یونیورسٹی کو صحیح معنی میں دیندار ہونا چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دیندار یونیورسٹی کی اصطلاح کا ظاہری اور سطحی مفہوم اخذ کرنے سے اجتناب پر زور دیا اور فرمایا کہ دیندار یونیورسٹی سے مراد ایسی یونیورسٹی ہے جس کے پاس گہری دینی بصیرت ہو، پختہ ایمان ہو اور دین و معارف دینی کے سلسلے میں گہری معرفت ہو اور اس سلسلے میں اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج کے طلبا کو ملک کے مستقبل اور میدان فکر و عمل کے قائدین سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ تسلط پسند طاقتیں طلباء کی نوجوان نسل کو فکری دیوالئے پن، عقیدتی گمراہی اور ایمان سے لا تعلقی کی سمت لے جانا چاہتی ہیں لہذا تمام افراد اور خاص طور پر اساتذہ کا فریضہ ہے کہ اس مذموم سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے نوجوان و دیندار سائنسدانوں کی صنف کو ترقی و پیشرفت کی حدوں سے گزر جانے والی صنف قرار دیا اور فرمایا کہ ہمارا دیندار نوجوان دفاعی صنعت، اسٹیم سیلز، ایٹمی ٹکنالوجی، سپر کمپیوٹر اور دیگر میدانوں میں اپنی روشنی پھیلا رہا ہے اور دیگر سائنسدانوں کی مدد سے ملک کو آگے لے جانے کے لئے کوشاں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کی ممتاز علمی شخصیات سے ہونے والی اس ملاقات اور ملاقات میں بیان کئے جانے والے انتہائی سنجیدہ اور پر مغز نکات پر خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ جو باتیں اس جلسے میں بیان کی گئيں ان میں بہت سے بالکل نئے نکات اور تجاویز تھیں اور اس طرح یونیورسٹیوں اور علمی حلقوں کی چنندہ شخصیات کی جانب سے ایک جامع رپورٹ سامنے آئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں مستقبل پر توجہ رکھنے والے ایک خصوصی ادارے کی کمی سے متعلق ایک پروفیسر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسٹریٹیجک نظریاتی نشستوں کے انعقاد کا مقصد اسی خلاء کو بھرنا ہے اور ان نشستوں کے ضمن میں اہل علم کے تعاون سے گراں بہا کارنامے انجام دیئے جانے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت معاشرے کی ایک اہم ضرورت اہل فکر و نظر کی شرکت کے ساتھ علمی نشستوں کا انعقاد اور ان میں پیش کئے جانے والے نظریات کو معاشرے کی سطح پر منعکس کرنا ہے تاکہ یہ افکار معاشرے میں عام بحث کا موضوع بن جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز کے اساتذ کے لئے ملکی حقائق سے مکمل واقفیت اور حالات کے صحیح تجزیئے کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ اغیار کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ناقص، غیر حقیقی اور خامیوں سے بھری ہوئي خبروں اور تجزیوں کی بوچھار کر رہا ہے ایسی صورت حال میں اگر یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز سے تعلق رکھنے والے حلقوں کے پاس صحیح اطلاعات نہ ہوں گي تو ممکن ہے کہ وہ ان زہریلے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی کے حلقوں کو ملک کے حقائق سے باخبر رکھنے کے سلسلے میں حکام کی یونیورسٹیوں میں مسلسل آمد و رفت کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ حکام کو چاہئے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ساتھ جلسے رکھیں، ان کی تعمیری تنقیدوں کو سنیں اور علمی حلقوں کے نظریات سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکام کے لئے ضروری ہے کہ علمی شخصیات کی تند و تیز عالمانہ و تعمیری تنقیدوں کو قبول کریں اور انہیں اسلامی نظام کی مخالفت پر حمل نہ کریں۔
آپ نے فرمایا کہ بسا اوقات بعض چبھتے ہوئے اعتراضات بھی ہمدردانہ جذبے کے تحت کئے جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی اور دینی علمی مراکز کے اساتذہ کو بھی سفارش کی کہ تنقید کے وقت تعمیری اور تخریبی پہلوؤں کے فرق کو مد نظر رکھا جائے اور تنقید اس طرح نہ کی جائے کہ اس سے دشمن کے مقاصد کی تکمیل ہو اور معاشرے میں بد گمانی بڑھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ اور علمی شخصیات کے لئے علاقے اور دنیا کے حالات خصوصا علاقے میں پھیلنے والی اسلامی بیداری سے مکمل واقفیت کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ علاقے کے موجودہ تغیرات در حقیقت انتہائی اہم اور موثر واقعات ہیں۔ آپ کے مطابق علاقے کے حالیہ تغیرات کا ایک نتیجہ یہی ہے کہ اس سے مغرب کے سیاسی و اقتصادی نظریات پر خط بطلان کھنچ گيا۔ آپ نے فرمایا کہ علاقے میں رونما ہونے والے واقعات اور مغربی ممالک کی معاشی بدحالی سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مغرب کے سیاسی و اقتصادی نظریات ناقص اور بے نتیجہ تھے بنابریں ضروری ہے کہ اسلامی فکر و نظر کو زیادہ سے زیادہ تقویت دینے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے جائیں۔