اسلامی جمہوریہ ایران کی یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز کے مفکرین، اساتذہ، محققین، مصنفین اور نظریہ پردازوں نے بدھ چار جنوری 2012 کی شب قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی موجودگی میں تیسرے اسٹریٹیجک نظریات اجلاس میں عورت اور خاندان کے موضوع کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔
اس سے قبل پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے اور انصاف جیسے دو موضوعات پر دو اسٹریٹیجک نظریات اجلاس منقعد ہو چکے ہیں، ان نشستوں کے انعقاد کا مقصد ملک کی ضرورت کے اہم ترین اور حیاتی موضوعات پر علمی کد و کاوش اور بحث و مباحثے کے بعد صائب فیصلے تک پہنچنا ہے۔ بدھ کی شب چار گھنٹے تک جاری رہنے والی نشست میں دس محققین نے جن کے مقالے نشست کے سکریٹریئیٹ کو موصول ہونے والے ایک سو اٹھاسی تحقیقاتی مقالوں میں ممتاز قرار دیئے گئے، اپنے نظریات بیان کئے۔ علمی مقالے پڑھے جانے کے بعد قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے محققین اور دانشوروں کی شرکت سے اسٹریٹیجک نظریات اجلاس کے انعقاد کے مقاصد پر روشنی ڈالی، آپ نے فرمایا کہ ان نشستوں کا مقصد عالمانہ تبادلہ افکار ہے تاکہ مختلف علمی نظریات سے استفادے کی زمین ہموار ہو اور منصوبہ بندی و اجراء کے لئے جامع اور صحیح فکر تک رسائی حاصل ہو سکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بنیادی اور حیاتی موضوعات پر بحث و مباحثے کے لئے جاری ان نشستوں کے ثمرات کا یقینی، فکری گہرائی سے آراستہ، پائیدار اور منظر عام پر پیش کئے جانے کے قابل ہونا ضروری ہے۔
آپ نے فرمایا کہ گزشتہ دو نشستوں میں جو بحثیں ہوئیں ان کے سلسلے میں اطمینان بخش کام ہوا ہے اور پوری سنجیدگی سے ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورت اور خاندان کا مسئلہ ملک کا بنیادی ترین مسئلہ ہے، عورت اور خاندان کے موضوع پر مستند اور نمایاں اسلامی تعلیمات اور مآخذ موجود ہیں جنہیں قابل عمل نظریات کی شکل میں متعارف کرایا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام میں عورتوں کے کردار اور ان کی شراکت کو بے مثال قرار دیا اور فرمایا کہ انقلابی تحریک کے دوران اور اسلامی انقلاب کے کامیاب ہو جانے کے بعد کے ادوار بالخصوص مقدس دفاع کے سخت ترین دور میں مختلف میدانوں میں عورتوں کا کردار بہت موثر، ممتاز اور بے بدیل رہا ہے جس کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس نے عورتوں کے ممتاز مقام اور اہم ترین کردار کا بخوبی ادراک کیا اور مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کی راہ ہموار کی وہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ذات تھی، امام خمینی ہی وہ پہلی ہستی تھے جس نے عوام کے مقام و منزلت اور ان کی شراکت کی اہمیت کا ادراک کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی عوام کی قدر و منزلت سے آگاہ تھے، ان کی توانائیوں اور صلاحیتوں سے واقف تھے، چنانچہ آپ نے اسی شناخت کی بنیاد پر عوام الناس پر اعتماد کیا۔ عوام نے بھی تمام شعبوں میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہا اور جب بھی ضرورت پڑی تمام طبقات کے لوگ دل و جان سے میدان میں اترے اور آگاہانہ اور انتہائی لازمی شراکت کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قومی شراکت کے تناظر میں عورتوں کی با قاعدہ فعالیت ملک کی دائمی ضرورت ہے لہذا معاشرے میں عورتوں کی صلاحیتوں کی حفاظت اور ان کے کردار کے تسلسل کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں کے موضوع پر خاص توجہ کی دوسری اہم وجہ بیان کرتے ہوئے خاندان کے اندر عورت کے محوری کردار کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اسلام کی نظر میں خاندان، سماج کا انتہائی اہم ستون اور اصلی یونٹ ہے اس طرح سے کہ صحتمند اور بانشاط خاندانوں کے فقدان کی صورت میں معاشرے کی ترقی خاص طور پر ثقافتی پیشرفت کی کوئی صورت نہیں ہے اور اس طرح کے خاندان باایمان، باشعور اور ذی فہم عورت کے بغیر نہ تو تشکیل پاتے ہیں اور نہ اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام پر عورتوں کو بنیاد بناکر دشمن کی جانب سے کئے جانے والے سیاسی و تشہیراتی حملوں کو خواتین کے موضوع پر خاص توجہ کی تیسری اہم وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ دنیا بھر میں عوام الناس میں آگاہی پھیلا کر مغرب کے منصوبہ سازوں اور سیاستدانوں سے یہ موقعہ چھین لیں کہ وہ عورتوں کے تعلق سے اسلامی اصولوں پر حملے کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے خاندان کے مسئلے پر بحث سے مغرب کے شاطرانہ گریز کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ مغرب والے عورت کے مسئلے کو تو بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھاتے ہیں لیکن کبھی خاندان کے موضوع پر بات نہیں کرتے کیونکہ حاندان اور کنبے کا مسئلہ ان کی خامیوں اور نقائص کی غمازی کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورت اور خاندان کے مسئلے میں بے شمار ادھورے کاموں کی یاددہانی کرائی اور فرمایا کہ اس مسئلے میں نظریہ پردازی اہم ضرورت ہے جس پر یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام، مفکرین اور دانشور حضرات کی طرف سے خاص توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس مسئلے کو عام کرنے میں ذرائع ابلاغ عامہ کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورت اور خاندان کے موضوع میں دنیا کے رائج نظریات کے تجزیئے اور تنقید میں علمی و تحقیقی سرمایہ کاری اور مرعوب ہونے سے اجتناب کو اس موضوع میں نظریہ پردازی کی دو اہم شرطوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ علمی سرمائے پر تکیہ کرکے اسلامی تعلیمات سے میانہ مدت اور دراز مدت میں درجنوں پیشرفتہ نظریات اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ آپ نے عورتوں کے سلسلے میں مغرب کے نقطہ نگاہ کو گہری گمراہی و ضلالت اور عورتوں کی کھلی توہین قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انتہا پسندی کی حد تک فیمینسٹ نظریات رکھنے والے لوگ بھی اپنے خیال کے برخلاف عورت کو بہت بنیادی نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے عورت کو اتنا گرایا کہ اسے مرد کی شہوانی خواہشات کی تسکین کا وسیلہ قرار دے دیا اور افسوس کا مقام ہے کہ آج مغربی رائے عامہ میں یہ چیز تسلیم شدہ اور عام بات بن گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نگاہ کو انتہائی بلند اور نمایاں قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام کی نگاہ میں نوع بشر کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے اور قرب الہی کی منزل تک رسائی کے سفر میں مرد اور عورت یکساں مقام کے حامل ہیں۔ آپ نے خاندان کے سلسلے میں بھی اسلام کے نقطہ نگاہ کو انتہائی پرکشش اور برتر نقطہ نگاہ قرار دیا اور فرمایا کہ عورتوں کی بہت سے مشکلات کی وجہ خاندان کے مسائل ہیں اور اس میدان میں قانونی اور روایتی خلاء موجود ہے۔ اگر ان مسائل کو حل کر لیا جائے تو معاشرے میں عورتوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول اسلام میں عورت یا مرد ہونا ثانوی حیثیت کا حامل مسئلہ ہے اور زندگی کے فرائض کی نوعیت میں یہ مسئلہ ملحوظ رکھا جاتا ہے ورنہ عورت اور مرد کے مقام و منزلت میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آپ نے زوجہ اور ماں کے کردار کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اچھی زوجہ مرد کو معاشرے کے موثر اور مفید رکن میں تبدیل کر سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں عورتوں کی ملازمت کو قابل قبول مسئلہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس سلسلے میں دو بنیادی شرطوں کی مکمل پاسداری کی جانی چاہئے۔ ایک تو یہ کہ روزگار، گھر اور خاندان میں عورت کے بنیادی کردار یعنی ماں اور زوجہ ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد فرائض کو متاثر نہ کرے اور دوسرے یہ کہ محرم و نامحرم کا مسئلہ بھی پوری طرح ملحوظ رکھا جائے۔ آپ نے حکومت کو ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کی سفارش کی اور فرمایا کہ حکومت ایسی منصوبہ بندی کرے کہ ملازمت پیشہ عورتیں گھر اور خندان کے امور کی دیکھ بھال کے اپنے اصلی فریضے کو بخوبی ادا کر سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مختلف ادیان اور خاص طور پر دین اسلام میں شادی کو ایک مقدس موضوع قرار دیا اور فرمایا کہ مہر کی بڑی رقم یا دوسرے اضافی اخراجات اور دکھاوے کے کاموں سے معاشرے میں شادی کے تقدس کو ختم کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سادہ، کم خرچ اور سنت مہر کے ساتھ ہونے والی شادی کی ترویج کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ معاشرے کے بااثر افراد، دینی علوم کے مراکز اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ذرائع ابلاغ کا اس سلسلے میں بہت اہم کردار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے خاندان کی حفاظت میں مرد کے کردار کو بہت اہم اور موثر قرار دیا اور فرمایا کہ مردوں کی ایک اہم ترین ذمہ داری گھر میں عورتوں کی خدمات کی دائمی قدردانی کرنا ہے، خاص طور پر ان خواتین کی جو گھر سے باہر سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ماں کے کردار کو بخوبی نبھانے کی خاطر انہوں نے گھر سے باہر ملازمت کا انتخاب نہیں کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے خاندان کے اندر اولاد کے کردار کا بھی ذکر کیا اور ان کی سب سے اہم ذمہ داری ماں باپ کا احترام کرنا بتایا۔