بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور قائد انقلاب آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے سیاسی مکتب فکر میں اسلامی بیداری کے نظرئے کا مقام کے زیر عنوان تہران میں یک روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔
قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے بین الاقوامی کانفرنس ہال میں تیرہ مئی کو منعقدہ کانفرنس میں ماہرین کی کونسل کے سربراہ آيت اللہ مہدوی کنی، قائد انقلاب اسلامی کے دفتر کے چیف آف اسٹاف حجت الاسلام گلپائیگانی، عالمی امور میں قائد انقلاب اسلامی کے مشیر اعلی ڈاکٹر علی اکبر ولایتی، قائد انقلاب اسلامی کے مشیر ڈاکٹر حداد عادل، معروف دانشور رحیم پور ازغدی، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بیٹی ڈاکٹر زہرا مصطفوی اور تہران کے عارضی امام جمعہ حجت الاسلام صدیقی نے اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔
ڈاکٹر ولایتی نے اپنی تقریر میں عالمی سطح پر پھیلی اسلامی بیداری کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسلامی رجحان امریکا کا غالب دینی رجحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک میں ویٹیکن کی جانب سے بڑے پیمانے پر بجٹ صرف کئے جانے کے باوجود تمام ممالک میں اسلام پسندی کی لہر پھیل چکی ہے اور لوگوں کو حقیقی زندگی کی شیرینی اسلام میں نظر آ رہی ہے۔ ڈاکٹر ولایتی نے تاریخ اسلام اور ابتدا سے لیکر عصر حاضر تک اسلامی بیداری کے مختلف مراحل کا جائزہ لیتے ہوئے دعوت دین، حکومت کی تشکیل اور اسلام کی نشر و اشاعت کو صدر اسلام کی تاریخ کے تین اہم ادوار سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس زمانے کی تہذیبوں کی سرحدوں تک اسلام کی رسائی ہو جانے کے بعد اسلامی ثقافت کا مختلف ثقافتوں سے لین دین شروع ہو گیا اور اسلامی تہذیب و تمدن اور مسلمانوں کے شرح صدر کے نتیجے میں دیگر تہذیبوں کی اقدار کو مسلمانوں میں پذیرائی ملی۔ انہوں نے تہذیبوں کے ٹکراؤ کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں پذیرائی کی خصوصیت تھی لہذا مسلمانوں نے دیگر تہذیبوں کے مفکرین کی کتب کا ترجمہ کرکے ان سے استفادہ کیا اور اپنی علمی توانائیوں میں اضافہ کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بیٹی ڈاکٹر زہرا مصطفوی نے کہا کہ ایران میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہی اسلامی انقلاب دیگر ممالک میں پہنچ گیا اور اس اسلامی انقلاب نے ثابت کر دیا کہ ایک قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر زہرا مصطفوی نے کہا کہ اگر ہم اسلامی بیداری کی حقیقت کو صحیح طور پر پہچان لیں تو عالم اسلام کے مستقبل کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں اور مسلمانوں کو ممکنہ طور پر لاحق ہونے والے خطرات کی بھی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے سیاسی مکتب فکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خداشناسی اور انسان شناسی کی بحثوں پر نظر ڈالتے وقت امام خمینی کے فلسفے اور عرفان کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ امام خمینی کے سیاسی فلسفے کی اصلی بنیادیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بیداری کی تشریح اور ایران کے اسلامی انقلاب سے اس کے گہرے رابطے کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی کا نظریہ امام خمینی کے افکار کے عین مطابق ہے اور یہ مماثلت ان کی محکم فکری بنیادوں کی وجہ سے ہے اور ان بنیادوں کا سرچشمہ ان کے عارفانہ افکار ہیں۔
ڈاکٹر زہرا مصطفوی نے امام خمینی کے عارفانہ نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ توحید کا ایک مرتبہ توحید افعالی سے عبارت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ دنیا میں جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ ارادہ الہی سے مربوط ہے۔ اگر انسان یہ یقین حاصل کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے خوفزدہ نہیں کر سکتی، اس کا یہ عقیدہ جیسے جیسے مضبوط ہوتا جائے گا انسانی قوتوں پر اس کا اعتماد اور بھروسہ اتنا ہی محدود ہوتا جائے گا۔ ڈاکٹر مصطفوی نے مزید کہا کہ دوسری جانب امام خمینی کا یہ نظریہ بھی ہے کہ انسان کے اندر پاکیزہ انسانی فطرت ہوتی ہے جو کمال مطلق کی طالب ہوتی ہے۔ یعنی ہر انسان اپنے باطن کی گہرائیوں سے کمال کی حقیقت کو سمجھتا اور اس کی طرف مائل رہتا ہے جبکہ نقص و عیب سے گریزاں نظر آتا ہے۔ یہ فطرت الہی ہے جو کبھی بدلتی نہیں اور جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ البتہ انسان کبھی کبھی اس کی شناخت میں غلطی کر دیتا ہے اور نتیجے میں اس چیز کی جانب نہیں بڑھتا جسے وہ اپنا کمال سمجھتا ہے یا کسی چیز کو فضیلت سمجھ کر اس کی جانب بڑھتا ہے جبکہ وہ چیز فضیلت سے عاری ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مشیر ڈاکٹر حداد عادل نے بھی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عالم اسلام میں انقلابی تحریک چلانے والے تمام عناصر کی نگاہیں ایران کے اسلامی انقلاب پر لگی ہوئی ہیں اور ان کے لئے ایران کا پیغام مغرب کے تسلط کی مخالفت اور امریکا سے رابطے کے بغیر ترقی و پیشرفت کا پیغام ہے۔
ڈاکٹر غلام علی حداد عادل نے کہا کہ صیہونی حکومت، کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور ساز باز کی نفی اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کی تشکیل اور فلسطین میں حماس کا وجود ایران کے اسلامی انقلاب کے دوسرے اہم پیغامات ہیں۔
انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کی ناکامیاں صرف سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ بیسویں صدی عالم اسلام کے لئے بہت تلخ صدی ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک تلخ واقعہ روس میں مارکسسٹ انقلاب کی کامیابی اور سوویت یونین کی تشکیل کا تھا جس کے نتیجے میں وسطی ایشیا اور قفقاز میں دسیوں لاکھ مسلمان دین مخالف مارکسسٹ حکومت کے تسلط میں چلے گئے اور ستر سال کے طویل عرصے کے لئے عالم اسلام سے ان کا رابطہ پوری طرح منقطع ہو گیا۔
جناب حداد عادل نے کہا کہ ایک اور تلخ واقعہ جعلی صیہونی حکومت کی تشکیل کی صورت مین رونما ہوا۔
ڈاکٹر حداد عادل نے کہا کہ پاکستان کی تشکیل بھی اس صدی کی اہم ترین تبدیلی تھی، اس ملک کے بانیوں کا مطمح نظر مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا لیکن بد قسمتی سے یہ ملک ایک مضبوط اسلامی ملک نہ بن سکا بلکہ شروع سے ہی ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحدیں پرامن سرحدیں نہیں رہیں اور کشمیر کی صورت میں پرانا زخم تنازعے کا سبب پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔
ڈاکٹر حداد عادل نے اکثر اسلامی ممالک کو مغربی استعمار کا شکار قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اور ترکی جیسے ممالک میں ظاہری جمہوریت ایک طرف اور دیگر ممالک میں سلطنتی نظام دوسری جانب، عالم اسلام کے لئے مغرب کے تجویز کردہ یہی دو ماڈل تھے۔
ڈاکٹر حداد عادل نے اسلامی ممالک کے مغربی ممالک کی مصنوعات کے صارف بازار میں تبدیل ہو جانے کو بھی اسلامی ممالک کے لئے بہت بڑا المیہ قرار دیا اور کہا کہ خود باختگی اور مغرب کے سامنے سر بسجود رہنا ایک فطری بات ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر حداد عادل نے ان حالات میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کو ناقابل یقین واقعہ قرار دیا اور کہا کہ انقلاب ایران اسلامی، استعمار مخالف، حریت پسندانہ اور خود اعتمادی جیسے جذبات پر استوار تھا اور تمام اسلامی ممالک کو اس نے پیغام دیا کہ دنیا کی تمام تحریکوں اور قیاموں سے یہ انقلابی تحریک بالکل مختلف ہے۔
ماہرین کی کونسل کے سربراہ آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی نے بھی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی بیداری کی تاریخ کے ارتقائی عمل پر شیعہ مذہبی قیادت کے گہرے اثرات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس کے معنی بیداری کے ہوں، اس معنی کا کسی حد تک تاثر دینے والے الفاظ قیام اور اقامہ ہیں۔ قیام کا لفظ آٹھ مقامات پر آیا ہے اور اس سے مراد اٹھ کھڑے ہونے اور حرکت میں آنے کے ہیں لہذا ان معانی کی روشنی میں قیام سے مراد بامقصد تبدیلی اور ایک مرحلے سے نکل کر بہتر اور بالاتر مرحلے میں قدم رکھنا ہے۔
آيت اللہ مہدوی کنی نے کہا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ تبدیلی لائے تو اسے سختی برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے چنانچہ خاتم النبیین کے لئے اللہ تعالی کی پہلی سفارش یہ ہے کہ قیام کریں اور اٹھ کھڑے ہوں، جس کے بعد دینی فکر کے احیاء کا مرحلہ آتا ہے۔
آیت اللہ مہدوی کنی نے بیداری میں انسانی فطرت کے موثر کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انسانی فطرت الہی عطیہ اور ارتقائی منزلیں طے کرنے والی استعداد ہے جسے حرکت میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ بیداری صرف اور صرف انسانی فطر کی وجہ سے وجود میں آتی ہے بلکہ اس فطرت کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے کا اہم کام انبیاء و اولیائے الہی کے ہاتھوں سرانجام پاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسانی فطرت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ منحرف ہو جاتی ہے۔ لہذا فطرت کو صحیح و سالم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ صحت صحیح قیادت کی متقاضی ہے چنانچہ قیادت و رہنمائی بہت اہم ہے۔