قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں سربراہان مملکت اور اجلاس میں شریک دیگر اعلی رتبہ وفود کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ چھے عشرے قبل چند ذمہ دار اور ہمدرد سیاستدانوں نے وقت کی شناخت،شجاعت اور ذہانت سے کام لیکر جو تحریک قائم کی تھی اس کو آج کے زمانے کی ضرورت کے مطابق آگے بڑھائیں اور اس کو نئی زندگی عطاکریں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ تمام انسان، نسلی ، زبانی اور ثقافتی تنوع کے باوجود، یکساں فطرت کے مالک ہیں جو انہیں پاکیزگی، عدالت، نیکوکاری، اور باہمی تعاون و ہمدردی کی دعوت دیتی ہے اور تمام انسانوں کی یہی سرشت اگر سلامتی کے ساتھ گمراہ کن افکار سے عبور کرجائے تو انسانوں کو توحید اور معرفت خدا تک پہنچادیتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر بین الاقوامی تعاون اس سرشت پر استوار ہو تو حکومتوں کے تعلقات کی بنیاد دھمکی، خوف ، کثرت طلبی، یک طرفہ مفاد، اور خیانت کے بجائے مشترک اور سالم مفادات اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے مفادات ہوں گے ۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ناوابستہ تحریک کے محرکات چھے عشرے گزرنے کے بعد آج بھی اپنی جگہ باقی ہیں، آج بھی استعماریت کے خاتمے، اور سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خودمختاری ، طاقت کے بلاکوں سے عدم وابستگی، اور رکن ملکوں کے درمیان تعاون و یک جہتی وہ حقائق ہیں کہ دنیا ان سے دور ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ ہم نے ماضی قریب میں سردجنگ کے دور کے خاتمے اور اس کے بعد یک طرفہ خودسری کا مشاہدہ کیا ہے ۔ دنیا اس تاریخی تجربے سے عبرت حاصل کرنے کے ساتھ، نئے بین الاقوامی نظام کی جانب بڑھ رہی ہے جس میں ناوابستہ تحریک نیا کردار ادا کرسکتی ہے ۔آپ نے فرمایا کہ اس نئے بین الاقوامی نظام کو سبھی کی مشارکت اور تمام اقوام کے حقوق کی برابری پر استوار ہونا چاہئے اور اس نئے نظام کی تشکیل کے لئے ناوابستہ تحریک کے رکن کے درمیان یک جہتی ضروری ہے ۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ موجودہ عالمی حالات شاید ناوابستہ تحریک کے لئے دوبارہ وجود میں نہ آئيں، فرمایا کہ دنیا کی کمان، چند ڈکٹیٹر مغربی ملکوں کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہئے بلکہ بین الاقوامی نظام کو چلانے میں عالمی جمہوری مشارکت ضروری ہے ۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بارے میں فرمایا کہ سلامتی کونسل کا ڈھانچہ غیر معقول ، غیرمنصفانہ اور پوری طرح غیر جمہوری ہے ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے ایٹمی اسلحے کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی اسلحہ نہ سیاسی طاقت مستحکم کرتا ہے اور نہ ہی تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ دونوں کے لئے خطرہ ہے اور نوے کے عشرے کے واقعات نے ثابت کردیا کہ یہ اسلحے سوویت یونین جیسی حکومت کو نہ بچاسکے اور آج بھی ایسے ممالک ہیں جو ایٹمی اسلحے رکھنے کے باوجود بدامنی کا شکار ہیں ۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی، کیمیائی اور اس قسم کے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ناقابل معافی اور بڑا گناہ سمجھتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے مشرق وسطی کو ایٹمی اسلحے سے پاک علاقہ قرار دیئے جانے کا نعرہ بلند کیاہے اور اس کے پابند ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پر امن ایٹمی ٹکنالوجی کے استعمال اور اور ایٹمی ایندھون کی تیار ی کے اپنے حق سے چشم پوشی کرليں گے ۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت امریکا جو تنہا حکومت ہے جس نے ایٹمی اسلحے استعمال کئے ہیں وہی ایٹمی اسلحے کے عدم پھیلاؤ کا پرچم اپنے کندھوں پر لینا چاہتی ہے ۔ امریکیوں اور ان کے مغربی اتحادیوں نے صیہونی حکومت کو ایٹمی اسلحے سے لیس کیا اور اس حساس علاقے کو بڑے خطرے سے دوچار کیا اور یہی دھوکے باز ہیں جو آزاد اور خود مختار ملکوں کے لئےایٹمی توانائی کے پر امن استفادے کے بھی مخالف ہیں اور دواؤں کی تیاری نیز دیگر پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ایندھن کی پیداوار کی بھی مخالفت کرتے ہیں ۔
آپ نے سرزمین فلسطین پر قبضہ جاری رہنے کو ناقابل قبول ظلم اور عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس مسئلے کا منصفانہ حل صرف یہ ہے کہ تمام فلسطینی چاہے وہ سرزمین فلسطین میں موجود ہوں یا یہاں سے نکال دیئے گئے ہوں چاہے وہ مسلمان ہوں عیسائی ہوں یا یہودی ، استصواب رائے میں شرکت کریں اور اس ملک کے لئے سیاسی نظام کا اانتخاب کریں اور تمام مہاجر فلسطینی اپنے ملک واپس ہوں اور اس ریفرنڈم میں شرکت کریں ۔ صرف اسی صورت میں امن قائم ہوسکتا ہے ۔
قائد انقلاب اسلامی نے آخر میں ایک بار پھر فرمایا کہ دنیا بہت اہم تاریخی دور سے گزر رہی ہے اور دنیا کے دو تہائی ملکوں پر مشتمل ناوابستہ تحریک مستقبل کی تشکیل اور بدامنی جنگ اور تسلط پسندی سے دنیا کو نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔