قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کی سامراجی حکومت کے خلاف ملت ایران کے ساٹھ سالہ عظیم جہاد میں امریکا کی سلسلہ وار شکستوں اور اس کے سیاسی، اقتصادی، فوجی اور فکری تنزل جبکہ اس کے برخلاف اسلامی نظام کی حیرت انگیز مادی و روحانی پیشرفت پر رشنی ڈالی او فرمایا کہ استقامت و بصیرت، اللہ کی ذات پر توکل، سعی پیہم اور حکام کی یکجہتی و یگانگت اس جہاد کے عظیم دروس ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کے حکام اور خاص طور پر تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ اور مجریہ) کے سربراہوں کو چاہئے کہ فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے اور موجودہ حساس حالات کے ادراک کے ساتھ اپنے اخلافات کو عوام کے درمیان لانے سے اجتناب کریں اور یاد رکھیں کہ اس وقت سے لیکر انتخابات تک جو بھی اختلافات کے لئے عوامی احساسات و جذبات سے کھلواڑ کرے وہ در حقیقت وطن عزیز سے خیانت کا مرتکب ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بدھ اکتیس اکتوبر 2012 کی صبح اسکولی طلبہ کے قومی دن اور عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن ( 13 آبان مطابق تین نومبر) کی مناسبت سے طلبہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرزند رسول امام دہم حصرت امام علی نقی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت اور عید غدیر کی مبارکباد پیش کی اور تیرہ آبان کو رونما ہونے والے تین اہم ترین اور تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اس تاریخ کو استقامت کا آئینہ اور اعلی اہداف تک رسائی کے لئے ملت ایران کے پرعزم وجود کی تصویر قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی قوم کی جد و جہد کے شروعاتی دور، اس کے مختلف مراحل اور پھر اس جد وجہد کے انجام کے صحیح ادراک کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ اس جد و جہد کا آغاز سنہ انیس سو ترپن میں اسی وقت ہو گیا جب اٹھائیس مرداد (مطابق انیس اگست) کو امریکا نے بغاوت کروائی تھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے انیس اگست کی بغاوت اور ڈاکٹر مصدق کی قانونی حکومت کی سرنگونی میں امریکا کے براہ راست کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قضیئے میں امریکیوں نے اپنے استکباری مفادات کی خاطر ڈاکٹر مصدق کی حکومت کو جو ان سے کوئي دشمنی نہیں رکھتی تھی بلکہ جس نے ان پر اعتماد بھی کیا تھا، برطانوی حکام کے ساتھ مشترکہ سازش کرکے سرنگوں کر دیا اور ملک پر محمد رضا پہلوی کی حکومت مسلط کر دی۔
قائد انقلاب اسلامی نے پندرہ خرداد سنہ تیرہ سو بیالیس ہجری شمسی (مطابق 5 جون 1963 عیسوی) کے عوامی قیام کے واقعے کو امریکی حمایت یافتہ حکومت کے استبداد اور اس کے ذریعے پیدا کر دئے جانے والے گھٹن کے ماحول کا نتیجہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ سرانجام امریکی اس ماجرے میں شامل ہو گئے اور انہی کے اشارے پر حکومت نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو سنہ 1964 میں جلاوطن کرکے بظاہر ملت ایران کو مغلوب کر لیا لیکن یہ حقیقی غلبہ نہیں تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنہ 1964 سے ملک پر حکفرما ہو جانے والے شدید گھٹن کے ماحول اور ملت ایران کے دولت پر امریکا کی اجارہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سرانجام امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی قیادت میں ملت ایران کا عظیم انقلاب شروع ہوا اور ایرانی قوم نے اپنی استقامت و فداکاری کے ذریعے اور جان کی بازی لگا کر سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کو فتح سے ہمکنار اور امریکا کی دست نگر حکومت کو سرنگوں کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پچیس سال کی جد و جہد کے بعد اسلامی نظام کی تشکیل کو امریکا کے خلاف مجاہدت کے پہلے ہی مرحلے میں ایرانی قوم کو حاصل ہونے والی فیصلہ کن کامیابی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو فتح ملتے ہی امریکیوں نے امور میں رخنہ اندازی شروع کر دی اور ان تمام سازشوں کا مرکز تہران میں امریکی سفارت خانہ یعنی وہی جاسوسی کا اڈہ قرار پایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے 4 نومبر 1979 کو جاسوسی کے اس اڈے پر ملت ایران کے ممتاز طبقے یعنی طلبہ کے قبضے کو امریکا کی دوسری بڑی شکست قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت سے شروع ہونے والا امریکی شکستوں کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس سو اناسی کی شکست فاش کی تلافی کے لئے گزشتہ چونتیس سال کے عرصے میں امریکا کی طرف سے انجام پانے والی گوناگوں سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ مسلسل جاری رہنے والی ان سازشوں کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 1979 میں امریکا کی شکست صرف ایران میں اسے ہونے والی ہزیمت نہیں تھی بلکہ یہ علاقے کی سطح پر امریکا کی کھلی ہوئی شکست تھی، چنانچہ آج شمالی افریقا اور وسیع عرب خطے میں جو کچھ رونما ہو رہا ہے اور قوموں کے اندر امریکا کی روز افزوں نفرت اسی شکست کا نتیجہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی استکباری حکومت سے ملت ایران کے جہاد کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے اس مقابلہ آرائی کے نتائج کا بھی جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ ساٹھ سالہ مقابلہ آرائی میں فتحیاب کون رہا یہ جاننا بہت اہم ہے کیونکہ اگر اس ٹکراؤ میں صاحب ایمان، پرعزم اور اللہ پر توکل بھروسہ والی قوم کو فتح ملی ہے تو وہ یقینی طور پر دیگر اقوام کے لئے بہترین نمونہ قرار پائے گی اور تاریخ بشر کے سامنے اسلامی اصولوں پر استوار ایک نیا مکتب فکر پیش کرنے میں کامیاب قوم کہلائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس مقابلہ آرائی میں ملت ایران کو امریکی حکومت پر فتحیاب قرار دیا اور اس فتح کے دلائل پیش کئے۔ آپ نے ان دلائل میں اسلامی نظام کے مقام و مرتبے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ چونتیس سال کے اس عرصے میں ایران کا اسلامی انقلاب ختم ہونا تو درکنار، زیادہ مستحکم، زیادہ مضبوط، باعظمت اور ارتقائی عمل طے کرنا والا واقع ہوا ہے۔ آپ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسلامی نطام کے استحکام و قوت اور اس کے زندہ و پائند ہونے کی سب سے نمایاں علامت یہ نوجوان نسل ہے جس نے انقلاب کے زمانے کے واقعات، مقدس دفاع اور عظیم الشان امام خمینی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے لیکن پھر بھی انقلاب لانے والی نوجوان نسل کی ہی مانند سعی و کوشش میں مصروف اور علم و دانش کے شعبوں میں حاضر اور سرگرم عمل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوموں کے درمیان ملت ایران اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شخصیت کی روز افزوں عظمت و جلالت اور دنیا میں ملت ایران کو فولادی اعصاب کی مالک، ثابت قدم اور بابصیرت قوم کی حیثیت سے حاصل ہونے والی شناخت کو اسلامی نظام کے استحکام کی دوسری اہم علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ دیگر علامتوں میں، علمی و ترقیاتی امور میں پیشرفت، علاقائی و عالمی امور کے سلسلے میں عمومی بصیرت و شعور میں اضافہ، موثر پوزیشن اور اس قوم کے نئے نظریات ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مادی پیشرفت کے ساتھ ہی روحانی و اخلاقیاتی میدانوں میں بھی حاصل ہونے والی ترقی کو اسلامی انقلاب کے زندہ و پائندہ ہونے کی دلیل قرار دیا۔ آپ نے روحانی امور جیسے دعائے عرفہ کی تقریب، اعتکاف کی عبادات، شب قدر کے راز و نیاز اور ماہ محرم کی عزاداری میں عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل کی والہانہ شرکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں بہترین جمہوریت کے قیام اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت گزشتہ 34 سال کے عرصے میں ملت ایران کی ہمہ جہتی ترقی کی دیگر علامتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ وہی انقلاب ہے جسے امریکی، چند مہینوں کے اندر شکست دینے اور نابود کر دینے کی باتیں کرتے تھے مگر آج وہ علاقے اور دنیا میں عظیم مقام کا حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی فتح کو ثابت کرنے والے دلائل پیش کرتے ہوئے امریکا کی موجودہ پوزیشن کا جائزہ لیا، آپ نے فرمایا کہ کسی کو اس میں ذرہ برابر شبہ نہیں ہے کہ گزشتہ تیس سال کے دوران امریکا طاقت اور عالمی اعتبار و حیثیت کی درجہ بندی کے لحاظ سے تیس درجہ نیچے آیا ہے، اس حقیقت کا اعتراف خود امریکیوں کو بھی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ آج دنیا میں کوئی بھی حکومت امریکی حکومت جتنی منفور نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ اگر علاقے کی حکومتیں اور دیگر ملکوں کی حکومتیں جرئت کا مظاہرہ کریں اور کسی دن کو امریکا سے اعلان نفرت کا دن قرار دے دیں تو اس دن دنیا میں تاریخ عالم کا سب سے بڑی جلوس نکلے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا کی تصویر مسخ ہونے کے ساتھ ہی اس کے اصول و اقدار کی بھی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ امریکا کے ان اصولوں میں سر فہرست دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے لیکن یہ پالیسی بھی اب اس نوبت کو پہنچ گئی ہے کہ امریکی حکومت دہشت گردوں سے ساز باز کرتی ہے اور حتی دہشت گرد تنظیم منافقین کی حمایت کرتے ہوئے اسے نام نہاد بلیک لسٹ سے نکال دیتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے جمہوریت نوازی کے کھوکھلے دعوؤں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان دعوؤں کے باوجود امریکی حکومت کی جانب سے علاقے اور دنیا کی انتہائی مستبد اور ڈکٹیٹر حکومتوں کی حمایت طشت از بام ہو چکی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ان کا ایک اور اہم اصول انسانی حقوق کی حمایت ہے جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بدترین اقدامات امریکا کی مدد سے انجام پا رہے ہیں اور صیہونیوں کو امریکا کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے جو ساٹھ سال سے علی الاعلان مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق پامال کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے قوموں کی حریت پسندانہ، اصلاح پسندانہ اور انقلابی تحریکوں کی امریکا کی جانب سے مخالفت کو قوموں کی حمایت کے اس کے دعوے کے منافی عمل قرار دیا اور فرمایا کہ امریکا کا دعوی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے دولت مند ملک ہے لیکن امریکی رہنماؤں نے وسیع قدرتی و انسانی ذخائر سے مالامال ملک کو ایسی حالت میں پہنچا دیا ہے کہ آج دنیا کی سب سے زیادہ مقروض قوم امریکی قوم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کی آبادی کے تناسب سے اس ملک کے قیدیوں کی بہت بڑی تعداد کو اس کی حریت نوازی کے دعوؤں سے متصادم حقیقت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا کا ایک اور دعوی اپنی قوم کے وقار اور سربلندی کا دعوی ہے جبکہ اس نے اپنی قوم کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا ہے اور رائے عامہ کو گمراہ کرکے حقائق سے نابلد رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ننانوے فیصدی کی تحریک ایسے حالات میں شروع ہوئی ہے کہ امریکی عوام ہنوز بے شمار حقائق سے بے خبر ہیں اور اگر امریکا یہ حقائق منظر عام پر آنے دے تو اس تحریک کا دائرہ اور بھی وسیع تر ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اقدار اور اصولوں سے امریکی حکومت کی پسپائی کی ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے صیہونیوں کے سامنے اس کے معذرت خواہانہ روئے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہوگی کہ امریکا کے صدارتی انتخابات کے امیدوار اپنے مںاظروں میں صیہونیوں سے اپنی عقیدت و ارادت ظاہر کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکی حکومتوں نے عملی طور پر خود کو صیہونیوں کا بندہ بے دام بنا رکھا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے اثر و رسوخ میں شدید کمی اور علاقے میں رونما ہونے والے تغیرات اور جنگوں میں امریکا کی پے در پے شکستوں کو اس کی اسی تنزلی کا شاخسانہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ امریکا کی نفس پرست، متکبر اور سامراجی حکومت سرفراز و مقتدر ایرانی قوم سے اپنی طویل مقابلہ آرائی میں شکست سے دوچار ہوئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 34 سال کے عرصے میں حاصل ہونے والی ان کامیابیوں کی وجوہات کے ادراک اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کو جد و جہد کے عمل کو اگے بڑھانے کے لئے بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ جب کوئی قوم عزم و ارادے کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے حریف کے سامنے ڈٹ جاتی ہے جس کے مقابلے میں اس قوم کی سائنسی، تشہیراتی اور مالیاتی توانائی کمتر ہے، اور وہ اللہ پر توکل اور جذبہ استقامت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور اس راہ میں جان و مال اور عزت و آبرو کی بازی لگا دیتی ہے تو پھر سخت سے سخت مقابلے میں بھی اس کا فتحیاب ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا اور ایرانی قوم کے درمیان جاری تنازعے کو طولانی اور ایرانی قوم کے وقار میں اضافے کا باعث قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس مقابلے میں حریف کی نقل و حرکت پر ہمیشہ نظر رکھنے اور اس سے لمحے بھر کے لئے بھی غافل نہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم آرام طلبی اور غفلت کا شکار ہوئے تو شکست کھا جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس مقابلہ آرائی کے اہم تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسقامت اور اللہ کی ذات پر توکل پر زور دیا اور فرمایا کہ اس مقابلہ آرائی کے تقاضوں میں ایک اہم تقاضہ علم و دانش، تعمیر و ترقی، انتظامی اور تجارتی میدانوں میں وطن عزیز کی پیشرفت کے لئے ہمہ جہتی سعی و جفاکشی ہے جس سے فتح و شکوفائی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد و یکجہتی پر خاص طور سے تاکید کی۔ آپ نے فرمایا کہ ضرر رساں امور میں ایک حکام کے درمیان اختلاف ہے اور اس سے بھی بری چیز اس اختلاف کو منظر عام پر لانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں حکام اور تینوں شعبوں (مجریہ، عدلیہ، مقننہ) کے سربراہوں کو خبردار کرتا ہوں کہ بہت محتاط رہیں اور اختلافات کو عوامی سطح پر اٹھانے سے اجتناب کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات اور ملت ایران کی علمی پیشرفت اور بڑھتے اثر و رسوخ پر دشمن کی جھلاہٹ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان حالات میں دشمن اختلاف ڈال کر دیمک کی طرح ہمیں اندر سے کمزور کر دینا چاہتا ہے چنانچہ سب کو ہوشیار رہنا چاہئے اور اختلافات پر قابو پانا چاہئے۔
آپ نے فرمایا کہ اختلاف رائے ایک فطری چیز ہے لیکن یہ اختلاف رائے عملی اقدامات میں اختلاف اور عوام کی نظروں کے سامنے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جانے کا باعث نہیں بننا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج سے لیکر انتخابات کے دن تک جو شخص بھی اختلافات کو عوام کی سطح پر پھیلانے کی کوشش کرے گا اور اختلافات کے لئے عوامی جذبات و احساسات سے کھلواڑ کرے گا وہ در حقیقت ملک کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام کو محنتی اور جذبہ ہمدردی سے سرشار قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ حکام مسلسل محنت کر رہے ہیں البتہ بعض اوقات غفلت بھی ہو جاتی ہے تا ہم اللہ سے ہمیں امید ہے کہ عوامی خدمت کی صادقانہ نیتوں کی بنیاد پر ایرانی قوم کو تمام میدانوں میں کامیابی سے ہمکنار کرے گا اور یقینا ایسا ہی ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں واقعہ غدیر خم کو بہت اہم واقعہ قرار دیا جس سے امامت اور اسلامی نظام کے اہم ترین رکن یعنی ولایت امر مسلمین پر اسلام کی گہری توجہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر واقعہ غدیر کے مضمون کو صحیح طور پر پیش کیا جائے تو یہ واقعہ، نقطہ اتحاد قرار پا سکتا ہے۔