قائد انقلاب اسلامي نے آزادي کے بارے ميں اسلام اور مغرب کے نظريات ميں پائے جانے والے فرق کو واضح کئے جانے کي ضرورت پر زور ديا ہے-
منگل کي رات تہران ميں ايک سو پچاس دانشوروں، مفکرين اور ديني مدارس اور يونيورسٹيوں کے سرکرہ اساتذہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے يہ بات زور ديکرکہي کہ آزادي کو اسلامي نظريات کي اساس پر سمجھنے کي ضرورت ہے- آپ نے فرمايا کہ لبرل نظريات ميں آزادي کي اساس انساني فکر يا ہيومن ازم پر ہے جبکہ اسلام ميں آزادي توحيد کے عقیدے پر استوار ہے جس کے معني خدا پر يقين اور کفر نيز طاغوت کے انکار کے ہيں-
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ اسلام کي نظر ميں انسان خدا کي بندگي کے سوا ہر قيد و شرط سے آزاد ہے۔ آپ نے انساني وقار کو اسلامي آزادي کا بنيادي اصول قرار ديا اور اسلامي تعليمات کي روشني ميں آزادي کي بحث کے چار پس منظر بيان فرمائے جس ميں ، قران ميں حق، فقہ اور قانون ميں حق،
فرائض اور اقداري نظام شامل ہيں- آپ نے فرمايا کہ قران ميں حق سے مراد ايک منظم اور بامقصد نظام ہے جس کي بنياد پر عالم تکويني اور عالم تشريعي دونوں حق ہيں اور آزادي، انسان کا حق ہے جو باطل کے مد مقابل ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فقہ اور قانون ميں حق کے تناظر ميں آزادي کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ اس کا مطلب انسان ميں مطالبے کي توانائي پيدا کرنا ہے جبکہ فرائض کے تناظر ميں آزادي کا مطلب يہ ہے کہ انسان اپني اور دوسروں کي آزادي کا خيال رکھے۔ آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے مغربي سماج ميں آزادي کي حقيقت کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ مغربي سماج ميں انتہائي برے، تلخ، گھناونے اور بعض اوقات ايسے نفرت انگيز حقائق دکھائي ديتے ہيں جن کے نتائج تعصبات، طاقت کے بے جا استعمال، جنگ اور انساني حقوق اور جمہوريت جيسے نيک نظريات کے بارے ميں امتیازی طرز عمل کي صورت ميں سامنے آتے ہيں۔
قائد انقلاب اسلامي نے يہ بات زور ديکر کہي کہ تمام تر افسوسناک حقائق کے باوجود آزادي کے مفہوم کے بارے ميں مغربي مفکرين کے نظريات پر غور و خوص مفيد ہے کيونکہ آزادي کے تعلق سے فکري نظام کي تشکيل اور اختلاف رائے کے حوالے سے اہل مغرب کے تجربات بہت زيادہ ہيں-