قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ جنگ افروزی، غربت پھیلانا اور بدعنوانی کی ترویج تسلط پسند نظام اور اس کے ہم نواؤں کی تین اہم پالیسیاں ہیں جبکہ اسلام ان تینوں پالیسیوں کی شدت سے مخالفت کرتا ہے اور یہی مخالفت انقلاب کے سامنے موجود اصلی چیلنجوں کی بنیاد ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کی استبدادی حکومتوں، تسلط پسندانہ نظام سے وابستہ ممالک اور بین الاقوامی سطح پر لوٹ کھسوٹ کرنے والے نیٹ ورکوں کو ملت ایران کے انقلاب کے پیغام کا دشمن قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ 34 سال کے دوران دشمنوں کی تمام سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو اسی بنیادی ٹکراؤ کے تناظر میں دیکھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایٹمی مسئلے کا بھی اسی نقطہ نگاہ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم امریکا یا کسی بھی دوسرے ملک کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دینی عقائد کی بنیاد پر جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار نہیں ہونا چاہئے تو یقینی ہے کہ ہم خود ان ہتھیاروں کے حصول کے لئے کوشاں نہیں ہیں، لیکن اس سلسلے میں دشمنوں کا اصلی ہدف کچھ اور ہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یقینا کچھ ممالک ایٹمی توانائی کے شعبے میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس طرح کے معاملات میں اس انداز سے ہنگامہ آرائی نہیں کرتے، بنابریں امریکا، مغربی ممالک اور ان سے وابستہ حلقوں کی ایٹمی مسئلے میں اس ہنگامہ آرائی کو اسلامی انقلاب اور استکبار کے مابین جاری مقابلہ آرائی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب سے استکباری طاقتوں کی گہری دشمنی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی عظمت و جلالت کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی آپ کا احترام کرتے تھے لیکن دشمنوں کی دلوں کے اندر اس درخشاں سورج سے زیادہ منفور کوئی اور شخصیت نہیں تھی کیونکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی بصیرت کاملہ کے ذریعے دشمنوں کے معاندانہ مقاصد کو سمجھ لیا اور کسی کہسار کی مانند ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت یہی صورت حال ہے، چنانچہ جو بھی انقلاب کے اصلی پیغام کے تعلق سے جتنا زیادہ وفادار اور پابند ہے اور دشمنوں کی سازشوں اور ان کے برتاؤ کو اسلامی انقلاب اور تسلط پسندانہ نظام کے مابین مقابلہ آرائی کے تناظر میں دیکھتا ہے وہ استکباری طاقتوں کی نظر میں دوسروں سے زیادہ منفور ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ڈپلومیسی کے شعبے کی پیچیدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سفارت کاری کا میدان مسکراہٹوں، مذاکرات کی دعوت اور گفت و شنید کا میدان ہے لیکن اس طرز سلوک اور برتاؤ کو بھی اصلی چیلنج اور مقابلہ آرائی کے تناظر میں سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے خارجہ و داخلی سیاست میں منطقی اور صحیح اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس چیز کو میں برسوں قبل ' کشتی گیر کی لچک' سے تعبیر کر چکا ہوں اس کی اب بھی حمایت کرتا ہوں کیونکہ بعض مواقع پر یہ چیز بہت مناسب اور ضروری ہوتی ہے لیکن اس کے لئے ایک بہت بنیادی شرط کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق مد مقابل فریق کی ماہیت کا ادراک اور اس کے اصلی اہداف کا صحیح اندازہ 'کشتی گیر کی لچک' کی تکنیک کو بروئے کار لانے کی بنیادی شرط ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ماہر کشتی گیر بھی بعض مواقع پر فنی وجوہات کی بنیاد پر لچک دکھاتا ہے لیکن ہرگز فراموش نہیں کرتا کہ اس کے مد مقابل کون ہے اور اس کا اصلی ہدف کیا ہے؟
امام ہشتم فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہما السلام کے یوم ولادت با سعادت پر پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں، جوانوں اور ریٹائرڈ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے پاسداران انقلاب فورس کی درخشاں کارکردگی کو ایک قوم کے تشخص کی گہرائی اور کامیاب تجربات کا آئینہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کی عمومی پاسبانی کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کا اصلی اور پرکشش پیغام ہے ظلم سے اجتناب کے ساتھ ساتھ ظلم کی چکی میں پسنے سے بھی انکار، چنانچہ تمام مسائل منجملہ تسلط پسند طاقتوں کے بیانوں اور طرز سلوک کا جائزہ اس پیغام سے استکباری طاقتوں کے ٹکراؤ کے تناظر میں لینا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے روحانی مقامات عقل کی قوت ادراک اور زبان کی قوت بیان سے بالاتر ہیں تاہم ان عظیم ہستیوں کی زندگی، جاودانہ عملی درس ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام ہشتم حضرت علی ابن موسی الرضا علیہما السلام کی پچپن سالہ زندگی اور تقریبا بیس سالہ دور امامت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اسی مختصر سی مدت میں اور ہارون کے زمانے میں شدید گھٹن کے ماحول میں انتہائی وسیع النظری اور دور اندیشی کے ساتھ حقیقت اسلام اور مکتب اہل بیت پیغمبر کو اس طرح سے گہرائی و گیرائی عطا کی کہ وقت کی آمریت اسے روکنے میں ناکام رہی اور اپنی سابقہ سازش کے برخلاف امام کو شہید کرنے پر مجبور ہو گئی۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام ہشتم کی شہادت کے واقعے اور مشہد مقدس میں آپ کی تدفین کو حکمت خداوندی قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں بھی اس مہربان امام کے نقطہ نگاہ کے مطابق دواز مدتی امور پر توجہ دینا اور ان کے لئے منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پاسداران انقلاب فورس کی درخشاں کارکردگی کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ پاسداران انقلاب فورس گہرے جذبہ ایمانی کے ساتھ مجاہدت و استقامت کے میدان میں اتری اور اس نے انتہائی باہوش اور تیز بیں کمانڈروں اور فوجی حکمت عملی ترتیب دینے والے ماہرین کی تربیت کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سول شعبے میں بھی بہترین صلاحیتوں کے حامل بیورو کریٹ تیار کرکے حکومتی اداروں کو دئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلابی زندگی جینے، ہمیشہ انقلابی بنے رہنے اور ثبات قدم کو پاسداران انقلاب فورس کی پر کشش خصوصیات قرار دیا اور فرمایا کہ یہ مضبوط و مستحکم سسٹم کبھی بھی عالمی تغیرات اور داخلی ضروریات کے بہانے اپنے اصلی اور صحیح راستے سے منحرف نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کہنا کہ دنیا میں تبدیلیاں آ چکی ہیں، اہداف اور امنگوں کو ترک کر دینے اور صحیح راستے سے ہٹ جانے کا قابل قبول بہانہ نہیں ہو سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سیاسی شعبے کی بحثوں میں جاری ایک مغالطے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ پاسداران انقلاب فورس سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہو لیکن انقلاب کی حفاظت و پاسبانی کے لئے حقائق کی صحیح شناخت ضروری ہے، بنابریں یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ادارہ جو انقلاب کی محافظت کرنے والا بازو سمجھا جاتا ہے انحرافی یا اغیار سے وابستہ سیاسی تغیرات پر اپنی آنکھیں بند لے۔