بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین.
بہت بہت خوش آمدید، عزیز بھائیو اور عزیز بہنو! اور میں تہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمت کرکے اس مفید بلکہ ایک معنی میں حیاتی اور حیات بخش تحریک کو، یعنی شہداء کے نام اور ان کی یاد کو زندہ رکھنے کی تحریک کو، شہرِ کرج اور صوبۂ البرز میں شروع کیا۔
صوبۂ البرز کی ایک خاص خصوصیت ہے جس کی طرف حضرات نے بھی اشارہ کیا؛ یہاں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک مجموعہ آباد ہے جو کئی دہائیوں سے اس شہر کی طرف ہجرت کرتے آئے ہیں۔ اس بنا پر اس شہر میں کیا جانے والا ہر نیک کام اس امکان کا حامل ہے کہ وہ پورے ملک میں منتقل ہو اور وہاں بھی اثر انداز ہو۔ لہٰذا آپ کا کام نہایت اچھا ہے، اور یہ اقدام خدا پسندانہ اور مفید ہے۔ میں اس کارِ خیر کے تمام منتظمین اور کارکنوں کا شکر گزار ہوں۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ آپ نے قدردانی کے پروگراموں کی وضاحت میں اچھی باتیں بیان کیں، دونوں حضرات نے (2) اہم نکات پیش کیے اور اس کام سے متوقع اثرات کا ذکر کیا، لیکن یہ سب آپ کی خواہشات ہیں، ان کا عملی طور پر پورا ہونا ضروری ہے۔ اس پر غور کیجیے؛ یعنی اس کتاب کے پڑھنے والے ہیں، اس فلم کے دیکھنے والے ہوں، اور یہ سب نئے سرے سے ایک دوسری سعی و کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کام کو فنکارانہ انداز میں انجام نہ دیا جائے، یا اس کی پیروی نہ کی جائے، یا اس کے مختلف پہلوؤں کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے، تو یہ محنت جو بجا اور خوش اسلوبی سے کی گئی ہے، اپنے مطلوبہ نتائج تک نہیں پہنچ پائے گی۔ آپ کو ایسا انتظام کرنا ہوگا کہ یہ کوشش اپنے ثمرات تک پہنچے، اور خود یہ امر ایک مزید اور مسلسل کوشش کا طالب ہے۔ میرا مقصود یہ عرض کرنا ہے کہ کسی اچھے کام کا خیال اور اس کی منصوبہ بندی، اس کام کا نصف ہے؛ دوسرا نصف، جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے، اس کی پیروی، تسلسل اور عملی نفاذ ہے، اور یہی ذمہ داری آپ کو ادا کرنی ہے۔
یہاں ایک اور اہم نکتہ یاد اور قدردانی کے ان پروگراموں سے متعلق ہے؛ ہم یہ تقریبات آخر کس مقصد کے لیے منعقد کرتے ہیں؟ جب ہم مسلط کردہ جنگ کے شہداء کو دیکھتے ہیں، یا حالیہ جنگ کے شہداء پر نظر ڈالتے ہیں، تو مجموعی طور پر ان جنگوں کے بیشتر شہداء میں کچھ ایسے محرکات نظر آتے ہیں جنہوں نے انہیں خطرے کے میدان میں پہنچا دیا اور بعض اوقات ان کی جانیں گئيں۔ بہت سے اور لوگ بھی انہی محرکات کے حامل تھے جو بحمد اللہ سلامت اور عافیت کے ساتھ واپس لوٹ آئے۔ وہ محرکات کیا تھے؟ آخر کیوں ایک نوجوان آرام دہ زندگی، والدین کے ساتھ رہنا، تعلیم و تعلم، کام کاج، آرزوئیں، پیشہ اور سب کچھ ترک کرکے جنگ کی سختیوں اور دشواریوں میں قدم رکھتا ہے، ایسی دشواریاں جنہیں وہی لوگ جانتے ہیں جو اس میدان میں موجود رہے، اور خود کو اس آزمائش میں جھونک دیتا ہے؟
اگر ہم اس عظیم کارنامے اور اس بڑی تحریک کو محض جذباتیت تک محدود کر دیں تو یہ ظلم ہوگا؛ یہ کہنا کہ چند تقاریر ہوئیں، ان نوجوانوں کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ چل پڑے، یہ حقیقتاً اس واقعے کے ساتھ بھی ناانصافی ہے اور ان افراد کے ساتھ بھی۔ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے پس منظر میں اور بھی حقائق ہیں؛ ان حقائق کو شمار کیجیے، انہیں تلاش کیجیے اور سامنے لائیے۔
این مسئلهی «احساس تکلیف دینی»، که این یک تکلیف است و به او گفته شده، و باید انجام بدهد؛ مثل نماز؛ باید این اتّفاق بیفتد، انجام بگیرد. مسئلهی «حسّ مقابلهی با دشمن»؛ این احساس مهمّی است. وقتی که جوان به درک و شعور جوانی خودش میرسد ــ در آن حد که از نوجوانی و از بچّگی خارج میشود ــ احساس میکند که یک تکلیفی در قبال کشور دارد که باید آن را انجام بدهد، و کسانی هستند مترصّدند که خانهی او را، کشور او را، و داشتههای فرهنگی و مدنی و میراثهای ماندگار او را از او بستانند؛ در مقابل اینها میخواهد بِایستد؛ این یک حسّی است در انسان؛ و از این قبیل. شاید ده انگیزهی مهم را انسان پشت سر هم بتواند برای این حرکت این جوانها بشمرد که حالا آقایان این کار را میکنید و انجام میدهید. ما اینها را باید منتقل کنیم به نسل بعد؛ حرف من این است.
ان محرکات میں سے ایک 'شوقِ لقائے الٰہی' ہے۔ ہم ان نوجوانوں کے درمیان ایسے افراد کو پہچانتے اور پاتے ہیں جو حقیقی معنوں میں لقائے الہی کے شوق میں ڈوبے ہوئے تھے؛ یعنی وہی بات جو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اہلِ معرفت اور اہلِ سلوک جیسے بزرگوں کے بارے میں فرمائی تھی کہ آپ نے ایک عمر عبادت کی، قبول ہو، لیکن ذرا اس نوجوان کا وصیت نامہ بھی پڑھیے۔ یہ نوجوان کبھی چند مہینوں میں، بلکہ چند دنوں میں، وہ راستہ طے کر لیتا ہے جسے بعض اوقات ستر، اسی برس کی عمر بھر کی ریاضت میں طے کیا جاتا ہے، اور اس مقام تک جا پہنچتا ہے۔ یہی شوق، یہی شوقِ الیاللہ نوجوانوں کے دلوں میں پیدا کرنا ضروری ہے۔
ایک اور محرک 'دینی فریضے کا احساس' ہے؛ یہ کہ یہ ایک ذمہ داری ہے جو اس پر عائد کی گئی ہے اور اسے اس کو انجام دینا ہے۔ جیسے نماز؛ اسے ادا ہونا چاہیے، یہ کام ہونا چاہیے۔ اسی طرح 'دشمن کے مقابل کھڑے ہونے کا جذبہ' بھی ایک اہم احساس ہے۔ جب نوجوان اپنی جوانی کی سمجھ اور شعور کو پہنچتا ہے۔ یعنی بچپن اور لڑکپن سے نکل آتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذمے اپنے وطن کے حوالے سے ایک فرض ہے جسے اس کو ادا کرنا ہے۔ اور یہ کہ کچھ لوگ گھات لگائے بیٹھے ہیں جو اس کے گھر، اس کے ملک، اور اس کی ثقافتی و تمدنی متاع اور اس کے پائیدار ورثے کو اس سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ وہ ان کے مقابل کھڑا ہونا چاہتا ہے؛ یہ انسان کے اندر پیدا ہونے والا ایک فطری احساس ہے، اور اسی طرح کے اور بھی کئی محرکات ہیں۔ شاید دس اہم محرکات ایسے ہوں جنہیں انسان یکے بعد دیگرے ان نوجوانوں کی اس عظیم حرکت کے پس منظر میں گن سکتا ہے، اور آپ حضرات یہ کام کریں گے، انجام دیں گے۔ میری بات یہ ہے کہ ہمیں ان محرکات کو آنے والی نسل تک منتقل کرنا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ آپ کو یہ نہیں ہونے دینا چاہیے کہ یہ محرکات سرد پڑ جائیں یا بجھ جائیں؛ انہیں لازماً اگلی نسل تک منتقل ہونا چاہیے۔ بعض ثقافتی اداروں اور بعض ذمہ دار محکموں، اور ان لوگوں کے طرزِ عمل کو دیکھ کر جو دراصل ان امور کے بارے میں سوچنے کے پابند ہیں، ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کام ہو رہا ہے؛ یعنی واقعی ہم ان بلند مفاہیم اور ان اقدار کو نوجوان نسل تک منتقل کر رہے ہوں، یہ چیز ہمیں نظر نہیں آتی، بلکہ بہت سے مواقع پر اس کی کمی صاف دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے نوجوان، الحمدللہ، اچھے نوجوان ہیں۔ آج جو ذرائع اور وسائل موجود ہیں، مسلط کردہ جنگ اور انقلاب کے ابتدائی دور میں موجود نہیں تھے؛ آج جو نہایت ترقی یافتہ نظام اور آلات پیغام، مفہوم اور مواد کو ذہنوں تک منتقل کرنے اور انہیں متاثر کرنے کے لیے سرگرم ہیں، اُس زمانے میں نہیں تھے۔ آج کا نوجوان ان سب کے مقابل ڈٹا ہوا ہے۔ جو نماز کا پابند ہے، جو نمازِ شب پڑھتا ہے، جو نوافل کا اہتمام کرتا ہے، جو مسجد سے وابستہ ہے، جو انجمن اور سینہ زنی سے جڑا ہوا ہے، وہ درحقیقت اس عظیم موج کے مقابل اپنی دینی شناخت کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کی حفاظت اور تقویت کر رہا ہے؛ یہ نہایت قیمتی بات ہے، اور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک آج کے ہمارے نوجوان بہت اچھے نوجوان ہیں اور آمادگی رکھتے ہیں۔ ہماری منصوبہ بندی یہ ہونی چاہیے کہ وہ اقدار جنہوں نے ان شہادتوں کو جنم دیا، اس عظمت اور اس ایثار کو قومِ ایران میں پیدا کیا، ہم انہیں واضح طور پر بیان کر سکیں اور آنے والی نسل تک منتقل کریں، تاکہ وہ ان شاء اللہ ملک اور معاشرے کو آگے بڑھا سکیں۔
خوش قسمتی سے، تمام تر سختیوں، تنگ دستیوں اور مشکلات کے باوجود، ہمارے ملک میں بے شمار مثبت پہلو موجود ہیں، اور انسان ملک میں انقلاب اور اسلام کی سمت آگے بڑھنے کے لیے بڑی آمادگی دیکھتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہ مثبت پہلو مزید مضبوط ہوں گے، اور آپ کا کام اس راہ میں ایک غیر معمولی اور نمایاں کردار ادا کرے گا، اور ان شاء اللہ آپ اپنے علاقے میں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دے سکیں گے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، صرف اپنے صوبے تک اکتفا نہ کیجیے؛ بلکہ ایسا طریقۂ کار اور ایسا اقدام ہونا چاہیے کہ جو لوگ دوسرے شہروں، دوسرے علاقوں اور ملک کے مختلف حصوں سے وابستہ ہیں، وہ اس پیغام کو یہاں سے ایک تحفے کے طور پر اپنے ساتھ لے جائیں، وہاں کے لوگوں کو آمادہ کریں، فکر، رجحان اور تیاری کو منتقل کریں، اور یہ اقدار ان شاء اللہ ملک کے دوسرے علاقوں تک بھی پہنچیں۔
اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے، آپ کی تائید اور مدد کرے، تاکہ آپ اس مقصد تک پہنچ سکیں جس کے لیے آپ نے یہ کام شروع کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ آپ سب بھائیوں کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ ہم شہرِ کرج کے عزیز عوام کو، اور بالخصوص معزز شہداء کے خاندانوں کو بھی اپنا سلام پیش کرتے ہیں۔
والسّلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ
۱) اس ملاقات کے آغاز میں صوبۂ البرز میں ولیِّ فقیہ کے نمائندے اور سیمینار کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ حجّت الاسلام والمسلمین سید محمد مہدی حسینی ہمدانی ، صوبۂ البرز کے گورنر اور سیمینار کی مرکزی کمیٹی کے سربراہ جناب مجتبیٰ عبداللہی اور صوبۂ البرز میں سپاہِ امام حسن مجتبیٰؑ کے کمانڈر اور سیمینار کے سیکرٹری جنرل بریگیڈیئر جنرل پاسدار علیرضا حیدرنیا نے اظہارِ خیال کیا۔
۲) سیمینار کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ اور سیمینار کے سیکرٹری جنرل۔