قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عورت اور خاندان کے مسئلے میں صحیح اسٹریٹیجی اور لائحہ عمل کی تدوین کے لئے ایک آزاد مرکز کے قیام کی تشکیل پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہفتے کے روز بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے دانشور اور ممتاز خواتین کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ عورت اور خاندان کے مسئلے میں ہمہ جہتی اور قابل عمل حکمت عملی کے لئے تین عوامل کا ہونا ضروری ہے؛ عورتوں کے سلسلے میں غلط، روایتی رجعت پسندانہ مغربی افکار کو مرکزیت اور ماخذ کی حیثیت دینے سے مکمل اجتناب، خالص اسلامی تعلیمات اور معارف پر تکیہ کرنا اور ان مسائل پر توجہ دینا جو حقیقی معنی میں عورتوں کے اصلی مسائل سمجھے جاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی مبارک باد پیش کی اور اس مبارک و مسعود موقعے کو شہزادی کونین کی پاکیزہ زندگی سے سبق حاصل کرنے کا بہترین موقعہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے حضرت فاطمہ زہرا کی مختصر سی زندگی میں ہی آپ کو حاصل ہونے والے اعلی روحانی مقامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کائنات کی عورتوں کی سردار کی زندگی کا جدید نقطہ نگاہ سے اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرکے آپ کے نمایاں اوصاف منجملہ تقوا، عفت و طہارت، مجاہدت، شوہر کی اطاعت، بچوں کی پرورش، سیاسی شعور اور زندگی کے اہم میدانوں میں انسان کی نمایاں شراکت کو حقیقی معنی میں مثالیہ اور قابل تقلید نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں اعلی تعلیم یافتہ، روشن فکر اور ممتاز خواتین کی کثیر تعداد کو عظیم نعمت خداوندی اور اسلامی جمہوریہ کا اہم افتخار قرار دیا اور فرمایا کہ یہ حقیقت جو ایران کی تاریخ میں عدیم المثال ہے، اسلام کے بابرکت نقطہ نظر اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے رہنما افکار کی دین ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع کے موقعے پر ایرانی خواتین کی ایک الگ پہچان اور تشخص کے ظہور کو ایک درخشاں حقیقت کا نام دیا اور شہیدوں نیز جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانبازوں کی ماؤوں اور ازواج کے پرشکوہ صبر و استقامت اور عظمت کی قدردانی کی۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عورت کا موضوع انسانی معاشرے کے لئے مختلف پہلوؤں سے مطالعہ و تحقیق کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں تین پہلوؤں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ان تینوں پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اول: عورتوں کے اندر موجود عظیم صلاحیتوں اور اسعتداد کو صحیح اور صحتمند طریقے سے کس طرح بروئے کار لایاجا سکتا ہے؟
دوم: جنسیت کے نازک اور ظریف مسئلے کو بشر کے انحطاط نہیں بلکہ ارتقاء کے لئے کیسے استعمال کرنا ممکن ہے؟
سوم: مردوں اور عورتوں کے فطری فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی معاشرے میں کس قسم کے برتاؤ اور سلوک کی ترویج کی جائے کہ گھر اور سماج میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کا سد باب کیا جا سکے۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول عورت اور خاندان ایسی دو چیزیں ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے فرمایا: جو بھی عورت کے موضوع کا خاندان کے مسئلے سے الگ ہٹ کر جائزہ لیگا اصلی مشکل کی نشاندہی اور اس کے علاج کے تعین میں ہمیشہ ناکام رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مذکورہ سوالوں کے صحیح جوابات اور عورت اور خاندان کے موضوع کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لئے ایک تحقیقاتی مرکز کی تشکیل پر زور دیا اور فرمایا کہ یہ آزاد ادارہ عورت کے موضوع پر صحیح اور ہمہ جہتی حکمت عملی تدوین کرے اور اس پر عملدرآمد کے لئے ضروری اقدامات انجام دے۔ آپ نے اسی ضمن میں فرمایا کہ کسی بھی ادارے یا مرکز میں عورت کے موضوع پر تحقیقات اور حکمت عملی تیار کرنے کے کچھ لوازمات اور اہم تقاضے ہیں۔ آپ نے ان تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سب سے پہلے مغربی نظریات و افکار کی گرفت سے ذہن کو مکمل طور پر آزاد کر لینے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اہل مغرب مختلف وجوہات کی بنا پر عورت کے موضوع میں غلط نظرئے پر پہنچے ہیں مگر اسی غلط اور تباہ کن نظرئے کو انہوں نے سکہ رائج الوقت بنا رکھا ہے اور اس انداز سے ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں کہ الگ رائے رکھنے والوں کو کچھ بولنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: عورت کے موضوع سے متعلق مختلف پہلوؤں کے بارے میں اہل مغرب کے نظریات سے واقفیت ضروری ہے مگر ان نظریات کو اساس اور ماخذ کا درجہ دئے جانے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے ذہن کو ان جدید دکھائی دینے والے کہنہ افکار اور بظاہر دردمندانہ نظر آنے والے خیانت آمیز نظریات سے آزاد کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظریات ہرگز انسانی معاشروں کی سعادت و ہدایت کا ذریعہ قرار نہیں پا سکتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے وجود اور کائنات کے سلسلے میں غیر الوہی اور مادہ پرستانہ سوچ کو عورت کے سلسلے میں مغربی افکار میں گہرے انحراف کی جڑ قرار دیا اور فرمایا: روزگار سمیت اقتصادی مسائل میں عورتوں کی صلاحیتوں کو تاجرانہ نگاہ سے دیکھنا، عورت کے بارے میں تحقیر آمیز سوچ اور اسے اتنا گرانا کہ مردوں کی جنسی بھوک کی تسکین کا ذریعہ بن کر رہ جائے، وہ دیگر اسباب ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کے بارے میں مغربی نظریات پوری طرح ظالمانہ اور رجعت پسندانہ ہو گئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں کی صورت حال کے بارے میں مغربی ممالک میں شائع ہونے والی کتب اور مقالات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر ہم عورت کے مسئلے میں صحتمند، منطقی، درست اور مشکل کشا نظریہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو روزگار اور جنسی مساوات جیسے مسائل کے بارے میں مغربی افکار سے خود کو پوری طرح الگ کرنا ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مرد و زن کی مساوات کا مسئلہ بھی مغرب کی سراسر غلط باتوں میں سے ایک ہے، آپ نے فرمایا: برابری ہمیشہ انصاف کے مطابق نہیں ہوتی، انصاف ہمیشہ درست اور برحق ہوتا ہے مگر برابری کبھی مطابق حق اور کبھی برخلاف حق ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں یہ سوال اٹھایا کہ کون سی منطق یہ کہتی ہے کہ عورتوں کو جنہیں اللہ تعالی نے جسمانی اور جذباتی اعتبار سے زندگی کے ایک خاص حصے کے لئے خلق فرمایا کہ ہم ایسے میدانوں میں وارد کریں جہاں وہ سختیوں اور دشواریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں؟
قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں کے سلسلے میں اسلام کا انسان دوستانہ نقطہ نگاہ اپنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ روحانی منزلوں کا سفر طے کرنے جیسے بہت سے مسائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے مگر اس کے پیرائے الگ الگ ہیں اور یہی حقیقت اس بات کی متقاضی ہے کہ جہاں کچھ مشترکہ میدان ہیں وہیں ایک دوسرے سے مختلف کچھ شعبے بھی موجود ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بہت سے عالمی کنوینشنوں کی فکری بنیادوں پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: مغرب والوں کا ان غلط بنیادوں پر اصرار، انسانی معاشرے کو تباہ کئے دے رہا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ صحیح اور متوازن نظر قائم کرنے کے لئے ان بنیادوں سے اجتناب کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورت کے مسئلے میں صحیح حکمت عملی کی تدوین کا دوسرا اہم تقاضہ اور لازمہ بیان کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا: عورت کے مسئلے کا جائزہ لیتے وقت ہر اس چیز کو جو دین کے نام پر لوگوں کی زبانوں پر ہے، قبول نہیں کر لینا چاہئے بلکہ اس اصول کو قبول کرنا چاہئے جسے صاحبان علم قرآن، سنت اور حدیث کی روشنی میں صحیح روش استنباط کے ذریعے وضع کریں۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق عورتوں کے مسئلے میں صحیح حکمت عملی تیار کرنے کا ایک اہم تقاضا فروعی مسائل میں نہ الجھتے ہوئے اصلی اور کلیدی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا: خاندان کے اندر عورت کا سکون، سلامتی اور تحفظ کلیدی مسئلہ ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ آپ نے زور دیا کہ خاندان کے اندر عورت کا ذہنی سکون و طمانیت چھن جانے کے اسباب و عوامل تلاش کرنا اور مختلف روشوں منجملہ صحیح قانون اور تبلیغ کے ذریعے ان اسباب کو برطرف کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ قدیمی اور جدید ماحول میں عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق اور خدمت پر مامور سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تصور عورت کے بارے میں اسلام کے اعلی فقہی نقطہ نگاہ کے بالکل برخلاف ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اسلام سے کچھ چیزیں لیتے ہیں اور مغرب والوں کو برا نہ لگے اس لئے کچھ مغربی باتیں بھی اس میں شامل کر دیتے ہیں جو ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عورت کو تعلیم و ترقی کا بھرپور موقعہ دیا جانا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ جو اظہار رائے کرتے ہیں اس کے بالکل برخلاف روزگار عورتوں کا اساسی اور کلیدی مسئلہ نہیں ہے، البتہ روزگار اور عہدہ اگر اصلی مسئلے یعنی خاندان کے مسئلے سے متصادم نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اگر کچھ خاص قسم کے پیشے عورتیں نہ اختیار کریں تو اس میں کوئی عار اور عیب نہیں ہے، عیب عورت کو وہ کام دینا ہے جو اس کی خداداد فطرت اور مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔