قائد انقلاب اسلامي نے علاقائی اور عالمی مسائل ميں حکومت کے ٹھوس اور دوٹوک موقف کي تعريف کي-
ہفتہ حکومت کي مناسبت سے صدر ڈاکٹر حسن روحاني اور ان کي کابينہ کے ارکان اور ديگر اعلي عہديداروں نے بدھ کو قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی صبح صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں معاشرے میں فکری و ذہنی آسودگی کا ماحول قائم کرنے، افراط زر پر کنٹرول، زر مبادلہ کی قیمتوں میں استحکام اور معالجاتی پروگرام کے اجراء کو گزشتہ ایک سال کے دوران گیارہویں حکومت کے باارزش اقدامات سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تمام عہدیداروں کو انقلابی جذبے کی حفاظت و تقویت، داخلی توانائیوں اور پیداوار پر تکیہ کرنے، مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں پر باریکی کے ساتھ عملدرآمد، دیہی علاقوں میں زراعت اور ذیلی صنعتوں پر خاص توجہ دینے، علمی و سائنسی پیشرفت کا تسلسل قائم رکھنے پر خصوصی توجہ، نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت، علاقائی و عالمی مسائل خاص طور پر امریکا کی دخل اندازی پر صریحی اور دو ٹوک موقف، حکومت کے اندرونی اتحاد و یکجہتی کی تقویت، ریڈ لائنوں کا پاس و لحاظ اور منصفانہ تنقیدوں پر تحمل اور شرح صدر کی سفارش کی۔
اس ملاقات ميں قائد انقلاب اسلامي نے اپنے خطاب ميں فرمايا کہ اسلامي جمہوري نظام کے عہديداروں کو چاہئے کہ وہ خداوندعالم کي رضا اور خوشنودي حاصل کرنے کے لئے اپنے انقلابي جذبوں اور نظريات کي ہمہ وقت حفاظت کريں-
قائد انقلاب اسلامي نے ايران کے شہيد صدر محمد علي رجائي اور شہيد وزيراعظم جواد باہنر کي شہادت کي برسي کے موقع پر ان شہدا کو خراج عقيدت پيش کرتے ہوئے کہا کہ انقلابي نظريات کي حفاظت اور اللہ تعالي کي رضا و خوشنودي کا حصول ان دونوں والا مقام شہيدوں کي اہم ترين خصوصيات تھيں -
قائد انقلاب اسلامي نے حکومت کی گذشتہ ايک سال کی کارکردگي کی رپورٹ کي تعريف کرتے ہوئے کہا کہ يہ رپورٹ عوام کے سامنے بھی پيش کی جانی چاہئے تاکہ عوام بھي حکومت کے ذريعے انجام پانے والے کاموں اور آئندہ کے منصوبوں سے باخبر ہو سکيں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس کے ساتھ ہی زور دیکر کہا کہ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ اعداد و شمار بالکل صحیح ہوں اور ان میں کوئی مبالغہ آرائی نہ کی جائے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ جب ملک میں نئی حکومت نئے نعروں کے ساتھ تشکیل پاتی ہے تو عوام میں ایک نئي امید پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا: عوام الناس کے اندر یہ جذبہ امید قائم رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا ایک طریقہ انجام پانے والے کاموں سے عوام کو باخبر رکھنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ البتہ عوام کی امیدیں صرف رپورٹوں سے نہیں بڑھیں گی بلکہ لوگ کام اور عملی نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں حکومت کو کئی اہم سفارشات کیں۔ پہلی سفارش عمل، فعالیت اور عوام کی مسلسل خدمت اور حاشیئے کی باتوں سے اجتناب سے متعلق تھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے یہ سفارش بھی کی کہ حکومت کے اندر داخلی یکجہتی ہونا چاہئے اور حکومت کی طرف سے ہمیشہ ایک ہی آواز سنائی دینی چاہئے۔ آپ نے فرمایا: اس بات کا خیال رہے کہ حکومتی عہدیداروں کے بیانوں میں کوئی تضاد نہ ہو اور ترجمان منصوب کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مختلف موضوعات اور مسائل کے بارے میں حکومت کی طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے۔
قائد انقلاب اسلامی کی تیسری اہم سفارش یہ تھی کہ حکومت سے وابستہ افراد اپنی نعرے بازی اور سیاسی تنازعات سے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے اجتناب کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: سیاسی گروہ بندی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح عوام میں مایوسی اور لا تعلقی کی کیفیت پیدا ہوگی اور معاشرے کی فضا کا استحکام ختم ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کی چوتھی سفارش یہ تھی کہ حکومت سیاسی مسائل میں خود کو محاذ بندی کی سطح سے بالاتر رکھے۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا: حکومتی عہدیداروں کے کسی ایک سیاسی محاذ کی طرف رجحان میں کوئی حرج نہیں لیکن حکومت اور عمائدین حکومت کو محاذ بندی کا اسیر نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سیاسی گروہ بندی کی حالت میں بھی ہمیشہ باہمی دوستی اور انس پر تاکید کی جانی چاہئے، تاہم بعض مسائل میں ضروری ہے کہ ریڈ لائنوں کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ فتنے اور اس میں ملوث عناصر کا مسئلہ ریڈ لائن شمار ہوتا ہے اور وزرا کو چاہئے کہ جس طرح انہوں نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیتے وقت خود کو فتنے میں ملوث افراد سے دور رکھنے کا عہد کیا تھا، عملی طور پر بھی وہ اس کے پابند رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کی پانچویں سفارش منصفانہ تنقیدوں پر پرسکون رہنے اور شرح صدر کا مظاہرہ کرنے سے متعلق تھی۔ آپ نےفرمایا: صدر محترم بعض تنقیدوں پر ناراض ہیں، ویسے ان میں بعض تنقیدوں پر آپ کی ناراضگی بجا بھی ہے اور کچھ تنقیدیں بہت تند اور بسا اوقات غیر منصفانہ بھی رہی ہیں۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ انسان ہر بات یا ہر تنقید کا جواب دینے کی کوشش کرے، کیونکہ بعض مواقع پر سکوت سب سے بہتر ہوتا ہے، دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے خلاف کہی جانے والی ہر بات کا یقینی طور پر معاشرے کے افراد کے ذہن پر اثر پڑے گا اور لوگ اسے تسلیم بھی کر لیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ تنقید ہونا چاہئے لیکن تنقید اچھے لہجے اور منصفانہ انداز میں ہونی چاہئے اور اس کا مقصد کسی کی توہین اور تحقیر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ بالکل غلط ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ تنقید کا جواب بھی منطقی انداز میں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ دیا جانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ منصفانہ تنقید دشمنی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومت کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس وقت ایک اور نہایت اہم چیز معاشرے میں پھیلا نفسیاتی و ذہنی آسودگی کا ماحول ہے جسے قائم رکھنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کی چھٹی سفارش یہ تھی کہ سابقہ حکومت پر تنقید کے وقت انصاف کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ آپ نے فرمایا: ہمیشہ حکومت سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتی آئی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس تنقید میں مبالغہ آرائی اور کردار کشی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس سے عوام کے ذہنوں پر برا اثر پڑتا ہے اور مستقبل کے تعلق سے عوام میں عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ حکومتوں کے بارے میں بعض غیر منصفانہ اور مبالغہ آمیز بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر اس طرح تبصروں میں ناانصافی کی جائے گی تو آگے چل کر ہماری آج کی کارکردگی کے بارے میں بھی لوگ غیر منصفانہ تبصرہ کریں گے۔ چنانچہ اگر ہمیں ماضی کے ادوار کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف ہے تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ عمل میں اس کی اصلاح کی جائے اور یہ روش اظہار خیال اور رایزنی سے بہتر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کی ساتویں سفارش یہ تھی کہ علاقائی اور عالمی مسائل کے بارے میں ہمیشہ صریحی اور دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے پچھلے ايک سال کے دوران علاقائي اور عالمي مسائل کے بارے ميں حکومت کے واضح اور دو ٹوک موقف کي تعريف کي اور فرمايا: فلسطين، صيہوني حکومت، غزہ، شام، عراق، تکفيري گروہوں اور امريکي مداخلتوں کے بارے ميں حکومت کا دو ٹوک اور صريحي موقف اسلامی جمہوری نظام کے حق ميں ہے اور يہ موقف سفارتکاري کي زبان اور مذاکراتي عمل سے تضاد بھي نہيں رکھتا ۔ آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے فرمايا کہ اس طرح کے مسائل کے بارے ميں واضح اور صريحي موقف دنيا کي قوموں کے درميان ايران کے اسلامي نظام اور اس کي اسٹريٹیجک حيثيت کو اور زيادہ تقويت پہنچائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کی آٹھویں اہم سفارش یہ تھی کہ ملک کی علمی پیشرفت کی موجودہ سرعت کو قائم رکھا جائے، نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت کی جائے اور ضرورت کے مطابق انجام پانے والی بامقصد سائنسی تحقیقات پر خاص توجہ دی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عمومی معالجاتی منصوبے کو حکومت کا بہت اہم اقدام قرار دیا اور اپنی نویں سفارش میں فرمایا: اس منصوبے کی حمایت کی جانی چاہئے اور اسے جاری رکھا جانا چاہئے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ نہ کیا جائے جو اس منصوبے سے متصادم ہو۔
اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کو جو سفارشات کیں ان کا تعلق بنیادی طور پر اقتصادیات سے تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنی دسویں سفارش میں داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں پر توجہ دینے اور داخلی پیداوار کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اقتصادی رونق جس پر صدر مملکت کی خاص تاکید ہے اس کی کنجی، داخلی پیداوار ہے، لہذا داخلی توانائیوں کو بنحو احسن بروئے کار لاتے ہوئے پیداواری شعبے کو حرکت میں لانا چاہئے تاکہ اقتصادی رونق اور غیر پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات کا ہدف رو بہ عمل آ سکے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مزاحمتی یا خود کفیل معیشت سے متعلق پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے داخلی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر داخلی پیداوار کو حرکت میں لانا بیحد اہم ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اپنی اقتصادی پالیسیوں کے پیکج کو مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں سے ہم آہنگ کرے اور جو چیزیں ان پالیسیوں سے ہم آہنگ نہ ہوں انہیں حذف کر دے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق زر مبادلہ کی قیمتوں میں استحکام اور افراط زر پر کنٹرل گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی قابل تحسین کارکردگی رہی تاہم اتنی ہی کوششوں پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ یہ چیزیں ابتدائی اقدامات شمار ہوتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بینکوں کو پیداوری شعبے کو خدمات فراہم کرنے کے لئے استعمال کئے جانے کی سفارش کی اور فرمایا کہ اگر بینک پیداواری شعبے کو خدمات فراہم کریں تو بہت سی مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کی ایک اور اہم سفارش زراعت اور اس سے متعلق ذیلی صنعتوں کے بارے میں تھی۔ آپ نے فرمایا کہ زراعتی شعبے سے متعلق صنعتیں، خاص اہمیت کی حامل ہیں اور تمام ملکوں میں انہیں فروغ دیا جا رہا ہے، چنانچہ حکومت کو چاہئے کہ زراعتی شعبے کی خاص طور پر مدد کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دیہی علاقوں کی ترقی کا اہم راستہ گاؤوں میں ذیلی صنعتوں کو فروغ دینا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے معدنیات کے شعبے کی اہمیت اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع پر روشنی ڈالی اور بے روک ٹوک درآمدات کے نقصانات اور داخلی پیداوار پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ درآمدات کے مسئلے کو صرف ٹیکس کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ حکومت کو چاہئے کہ غیر ضروری اور محض آرائشی سامان اور مصنوعات کی امپورٹ پر روک لگانے کے لئے مزید سختی برتے اور اپنے اختیارات کا استعمال کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی سفارشات میں سنچائی کے پانی کے سلسلے میں وزارت توانائی کی پالیسیوں کی حمایت کی اور کہا کہ ملک کے اندر پانی کی مشکل کا ایک موثر حل آبپاشی کے پانی میں کفایت شعاری کے لئے آبپاشی کے جدید طریقوں کو بروئے کار لانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں مسکن مہر کے نام سے جاری پروجیکٹ کے سلسلے میں بھی کچھ ہدایات دیں۔ اس پروجیکٹ کے تحت مستحق افراد کو کم قیمت پر اور آسان شرطوں کے ساتھ رہائشی مکانات مہیا کرائے جاتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر مسکن مہر پروجیکٹ یا اس کے لئے بینک سے قرض لینے کی روش کے بارے میں کوئی ممکنہ اعتراض ہو تب بھی یہ بات ضرور مد نظر رہے کہ دسیوں لاکھ افراد مسکن مہر پروجیکٹ کی تکمیل کے انتظار میں ہیں، لہذ یہ کام پوری سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں حکومتی عہدیداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ اور اس پر توکل کیجئے، اگر آپ اللہ کی مدد کریں گے تو پوری امید رکھئے کہ یقینی طور پر اللہ بھی آپ کی نصرت فرمائے گا، اور یہ بھی جان لیجئے کہ آپ کی کامیابی در حقیقت اسلامی نظام کی سربلندی و کامیابی کی ضامن ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی حکومت کی ایک سالہ کارکردگي کی رپورٹ پیش کی۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی حکومت نے عراق، شام، لبنان بالخصوص فلسطین کے عوام کی ممکنہ حد تک حمایت کی ہے۔ صدر روحانی نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں علاقہ، صیہونی حکومت کے مقابلے میں علاقائی قوموں کی فتح کا مشاہدہ کرے گا۔
انہوں نے اسی طرح رائے عامہ میں ايرانوفوبيا سے متعلق پروپیگنڈوں کے غیر مؤثر ہو جانے کا حوالہ دیا اور یکطرفہ پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ان پابندیوں کو ہٹائے جانے کے لئے مناسب قدم اٹھائے گئے ہیں۔
صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے حکومت کی مذاکرات کی حکمت عملی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی فریق نے دلیل، شفافیت اور امن پسندی کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات کو اس طرح آگے بڑھایا کہ اگر کسی فریق کی توسیع پسندانہ پالیسیاں، مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ بنتی ہیں تو عالمی برادری سمجھ جائے گی کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔