قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کی صبح رضاکار فورس 'بسیج' کی جنرل اسمبلی کے ارکان نیز بسیج کے مختلف طبقات کے نمائندوں سے ملاقات میں الوہی و انسانی فرائض کے ادراک اور بصیرت کو 'بسیج کی فکری عمارت کے دو بنیادی ستون قرار دیا اور ایران کی مذاکراتی ٹیم کی استقامت و پائیداری اور محنت و لگن کی تعریف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ملت ایران کو امریکا کا اعتماد حاصل کرنے کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: جس وجہ سے ہم نے خود مذاکرات کی مخالفت نہیں کی اسی وجہ سے مذاکرات کی مدت میں توسیع کی بھی ہم نے مخالفت نہیں کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم ہر منطقی اور منصفانہ معاہدے کو قبول کریں گے، البتہ ہمیں یہ یقین ہے کہ معاہدے کی ضرورت امریکی حکومت کو ہے اور معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، جبکہ مذاکرات کے کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فکر و علم و منطق کے ساتھ عشق و جذبات کی آمیزش کو گوناگوں شعبوں اور میدانوں میں رضاکار فورس 'بسیج' کی کامیاب فعالیت اور وسیع خدمات کا راز قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: بسیجی فکر جو مستحکم دینی اصولوں سے ماخوذ ہے، اس کا اولیں اور سب سے بنیادی ستون اپنی ذات، اپنے کنبے، اپنے معاشرے اور بشریت کے تعلق سے الوہی و انسانی فرائض کا ادراک ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: بسیجی نظرئے کا دوسرا ستون جو پہلے ستون کا تکملہ اور لازمی شرط ہے، بصیرت و روشن فکری یعنی وقت کے تقاضوں اور ترجیحات کی شناخت، دوست اور دشمن کی پہچان اور دشمن سے مقابلے کے وسائل کا علم ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بصیرت کے فقدان کو شبہات، نادانی اور کج فکری کے جال میں الجھ جانے کی اصلی وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: جن کے پاس بصیرت نہیں ہے، سنہ 2009 (میں صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے) والے فتنے کے شکار افراد کی مانند، غبار آلود فضا میں آگے بڑھتے اور اقدام کرتے ہیں، چنانچہ عین ممکن ہے کہ وہ دشمن کی مدد کرنے لگیں اور دوست پر حملہ آور ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ بصیرت نہ ہونے کی صورت میں فریضے کا احساس بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب سے قبل کی جدوجہد کے دوران اور گزشتہ تین عشروں کے اس عرصے میں بعض افراد نے بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے احساس ذمہ داری کے تحت ایسے اقدامات کئے کہ جن کا انجام امام خمینی کی تحریک، اسلامی انقلاب اور وطن عزیز کے لئے ضرر رساں ثابت ہوا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنہ 2009 کے فتنے کے دوران بار بار بصیرت پر اپنی تاکید کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انہی ایام میں کچھ لوگ بصیرت کے مکرر ذکر سے ناراض بھی ہوئے مگر میں نے اس کے باوجود بصیرت پر بار بار تاکید کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ انسان کے اندر اگر بصیرت نہ ہو تو جتنا زیادہ احساس ذمہ داری ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ خطرناک بن جائے گا اور ایسے افراد پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی دور اندیشی اور تیز بینی کا ذکر کیا جو گوناگوں مراحل اور حالات میں فوری طور پر مسائل کی تشریح اور موقف کا تعین کر لیتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے رضاکار فورس 'بسیج' کی تشکیل کا فرمان بھی جاری کیا اور ساتھ ہی اس کی سمت و جہت کا بھی تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کچھ غم و غصہ ہے وہ امریکا پر نکالئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے اس معروف جملے کو بھی دہرایا کہ اسلامی نظام کی حفاظت اوجب الواجبات ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ جو لوگ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بات کا صحیح ادراک نہیں کر سکے انہوں نے بعض مواقع پر بڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ رضاکار فورس 'بسیج' کے اصلی ستون یعنی احساس ذمہ داری اور اس کی لازمی شرط یعنی بصیرت سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی زور دیکر کہا کہ اسی نقطہ نگاہ کی مدد سے 'بسیج' کی صحیح تعریف ہو سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص بھی احساس ذمہ داری اور بصیرت کے ساتھ مصروف عمل ہے، وہ کہیں بھی ہو 'بسیجی' ہے۔ بنابریں ملت ایران کی واضح اکثریت بسیجیوں کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا البتہ اس عظیم ادارے کا اصلی مرکز بسیج مزاحمتی فورس ہے جسے نظم و ضبط، تعلیم و تربیت اور خدمت و شراکت کا سرچشمہ ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے رضاکارانہ خدمات کے میدان کو بہت وسیع اور لا متناہی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دفاع، تعمیرات، سیاست، معیشت، فن و ہنر، سائنس و ٹکنالوجی، دینی ادارے بلکہ سارے ہی میدان رضاکاروں کی سرگرمیوں اور خدمات کی انجام دہی کے میدان ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان تمام میدانوں میں نمایاں اور معیاری آئیڈیل موجود ہیں، فرمایا: ان ممتاز ہستیوں نے علم و تحقیق کے میدان میں 'بسیجی' انداز میں کام کیا اور ایسے وقت میں جب دشمن نے انتہائي خبیثانہ انداز میں یہ کوشش کی کہ ملت ایران پر تمام دروازے بند کر دے اور بیماروں کی نیوکلیئر میڈیسن تک رسائی کو ناممکن بنا دے، شہید شہریاری اور ان کے رفقائے کار نے بسیجی (رضاکارانہ خدمت کی) روش پر چلتے ہوئے بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینم اور فیول پلیٹس تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک اور اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ بسیجی طرز فکر جس کی بنیاد قائد عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ڈالی، اب پھیلتی جا رہی ہے اور موسم بہاراں کے پھولوں کی خوشبو بن گئی ہے جسے کوئی محصور نہیں کر سکتا۔
آپ نے فرمایا: بسیجی طرز فکر کی روح بخش اور حوصلہ افزا نسیم بہاری کا آج عراق، شام، لبنان اور غزہ میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور لطف پروردگار سے اب وہ دن دور نہیں جب بیت المقدس میں اور مسجد الاقصی کی آزادی کے لئے بھی ہم اسی منظر کے شاہد ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انہیں حقائق کی بنیاد پر اور رضاکارانہ خدمت کی برکت سے اسلامی جمہوریہ ایران ناقابل شکست طاقت بن گیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایرانی عوام کی واضح اکثریت کا بسیجی بن جانا اسلامی نظام کے ناقابل شکست طاقت بن جانے کا راز ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ امتحانوں اور آگے بڑھنے کے لئے صحیح سمت کے تعین کے سلسلے میں غفلت برتی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام کی پیش قدمی کی اصلی سمت و جہت، استکبار اور امریکا کی استکباری حکومت سے مقابلہ آرائی پر استوار ہے اور اس رخ اور انداز میں کوئی تساہلی یا غلطی نہیں ہونی چاہئے، البتہ ہم کو امریکا کے عوام اور اس ملک سے کوئی مشکل نہیں ہے، ہماری ساری مشکل امریکی حکومت کی توسیع پسندی اور زور زبردستی کی پالیسیاں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی پر مبنی گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے ایٹمی مذاکرات کی مدت میں انجام پانے والی توسیع کے بارے میں کہا کہ جس وجہ سے ہم نے خود مذاکرات کی مخالفت نہیں کی، اسی وجہ سے مذاکرات کی مدت میں توسیع کی بھی ہم مخالفت نہیں کر رہے ہیں، تاہم چند نکات پر توجہ رکھنا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم کو محنتی، پختہ، دردمندی کے ساتھ، لگن سے کام کرنے والی ٹیم قرار دیا اور فرمایا: ایرانی وفد نے واقعی توسیع پسندانہ مطالبات کی بھرپور مزاحمت کی اور مد مقابل فریق کے برخلاف ہر دن اپنا موقف نہیں بدلا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے دوہرے روئے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات اور اپنے خطوط میں کسی اور انداز سے بات کرتے ہیں اور عوامی سطح پر کسی اور لہجے میں بیان دیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے مد مقابل فریقوں کے متعدد سیاسی، سفارتی اور ابلاغیاتی محاذوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ہم سے مذاکرات کرنے والے ہر فرد کی پشت پر پورا ایک لشکر ہوتا ہے، اور ان میں امریکی سب سے زیادہ بداخلاق اور برطانوی سب سے زیادہ موذی ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے عوام بھی جان لیں اور مذاکرات میں شامل مد مقابل فریق بھی سن لیں کہ اگر مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہم نہیں، امریکی ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم پورے یقین کے ساتھ اور محکم دلائل کی بنیاد پر یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ استکبار کا اصلی ہدف ملت ایران کے روز افزوں نمو، وقار اور اقتدار کا سد باب کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایٹمی مسئلہ تو محض ایک بہانہ ہے۔ آپ نے فرمایا: البتہ ان کے پاس دوسرے بھی بہانے موجود ہیں اور سب سے اہم حربے کے طور پر پابندیاں عائد کرنے اور اقتصادی دباؤ ڈالنے سے ان کا اصلی مقصد ایران کی پیشرفت و ترقی کو روکنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ذرائع کی جانب سے امریکی صدر کی مقبولیت میں شدید کمی، امریکا کے حالیہ انتخابات میں عوام کی بہت محدود شرکت کے اعترافات اور فرگوسن کے حالیہ واقعات کو امریکی حکومت اور عوام کے درمیان پائی جانے والی گہری خلیج کی متعدد علامات میں سے چند علامتیں قرار دیا اور ایران سے ایٹمی مذاکرات کرنے کی امریکی حکومت کی مجبوری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: انہیں روز افزوں مشکلات کے مد نظر امریکی حکام کو ایک بڑی کامیابی اور فتح کی شدید احتیاج ہے۔ تاہم اگر مذاکرات کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچتے تو امریکا کے برخلاف ہمارے لئے کوئی بہت بڑی آفت نہیں آ جائے گی، کیونکہ خود کفیل معیشت کے نام سے ہمارے پاس ایک حل موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ کوتاہ مدت میں خود کفیل معیشت دشمن کے حملوں کے اثرات کو کم کریگی اور جیسا کہ ماہرین کا خیال ہے، میانہ مدت اور دراز مدت میں یہ معیشت ملت ایران کی عظیم پیش قدمی کو نقطہ اوج پر پہنچا دیگی۔
مذاکرات کی مدت میں توسیع کے بعد بعض امریکی حکام کی طرف سے دئے جانے والے بیانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہ کہتے ہیں کہ ایران کو چاہئے کہ عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرے، اس جملے میں دو نکتے سراسر غلط ہیں۔ ایک نکتہ تو یہ کہ ان مٹھی بھر ملکوں نے خود کو عالمی برادری کا نام دے دیا ہے اور اپنی اس بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ناوابستہ تحریک کے تقریبا ڈیڑھ سو رکن ممالک اور انسانی معاشرے کے اربوں افراد کو عملی طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے بقول امریکی حکام کے اس جملے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں امریکا کا اعتماد حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہی نہیں کہ اس کا اعتماد حاصل کریں کیونکہ ہمارے لئے اس کی کوئي اہمیت ہی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر فرمایا: یہ استکباری خو رکھنے والے لوگ ہیں اور ایسے لوگوں سے ہماری کبھی نہیں بن سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے بیانوں میں نظر آنے والے اس نکتے کا بھی حوالہ دیا کہ وہ ایٹمی مذاکرات کے تحت اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ جان لیجئے کہ ایٹمی معاہدہ ہو یا نہ ہو، اسرائیل روز بروز زیادہ غیر محفوظ ہوتا جائے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ امریکیوں کے خود اس بیان میں بھی سچائی نہیں ہے کیونکہ امریکی حکام در حقیقت اپنی ذاتی سلامتی کی فکر میں ہیں، اسرائیل کے تحفظ کی فکر میں نہیں۔ اس اہم نکتے کی تشریح کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی حکام کا اصلی مقصد صیہونی سرمایہ داروں کے عالمی نیٹ ورک کو خوش رکھنا ہے، کیونکہ یہ نیٹ ورک انہیں رشوت، پیسہ اور عہدہ بھی دیتا ہے اور مخالفت کرنے کی صورت میں انہیں دھمکیاں دیتا ہے، ذلیل کرتا ہے یا پھر راستے سے ہی ہٹا دیتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں عوام کے سامنے حکام کی صداقت پسندی اور زور زبردستی کے مطالبات کے سامنے ملت ایران کی مزاحمت و استقامت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر مذاکرات میں منطقی بات کی گئی اور عاقلانہ و عادلانہ معاہدہ ہوا تب تو ہم قبول کریں گے لیکن ایران، اعلی حکام سے لیکر عوام الناس اور جملہ حکام تک ہر سطح پر توسیع پسندی کا مقابلہ کرے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں رضاکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے چند نکات بیان کئے۔ آپ نے حلم و بردباری، صدق و صفا و پاکدامنی، شجاعت و قربانی، تکبر اور غرور سے دوری، گوناگوں بہکاوے اور وسوسوں کے مقابلے میں عقیدہ و ایمان و عمل میں کسی طرح کی بھی کمزوی کے سد باب کی سفارش کی اور بسیج کے اندر تمام طبقات میں نظم و ترتیب اور ان طبقات کے باہمی رابطے پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بسیج کے مزید رشد و نمو میں حکومت کی بھرپور مدد کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ خود کفیل معیشت کی بنیاد داخلی پیداوار کا فروغ ہے اور حکومتی عہدیداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں 'بسیج' کی خدمات حاصل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر انچیف جنرل محمد علی جعفری نے فرائض اور ذمہ داریوں پر عمل کے لئے رضاکار فورس کی بھرپور آمادگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بسیج نے اپنی تنظیمی جدیدکاری اور معاشرے میں اسلامی انقلاب کے طرز فکر کی ترویج و تقویت کے لئے معاشرے کے با صلاحیت افراد کے لئے گنجائش میں توسیع کے مقصد سے نيا سسٹم شروع کیا ہے اور اس کی سب سے اعلی سطح بسیج کی جنرل اسمبلی ہے۔
ادارہ بسیج کے سربراہ محمد رضا نقدی نے اپنے خطاب میں بسیج کی جنرل اسمبلی کی تشکیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی موقف اور نظریات کی تشریح اور فکری ہم آہنگی قائم کرکے اسلامی انقلاب کی تیز پیشرفت کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔