قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی صبح صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں گزشتہ دو سال کے دوران صدر مملکت اور کابینہ کی خدمات و مساعی کی قدردانی کی اور اس ملاقات میں بعص وزرا کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو رپورٹیں آج پیش کی گئیں، اچھی اور مناسب تھیں، انھیں عوام کے سامنے بھی پیش کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس نکتے کی یاددہانی کرائی کہ حکام کی رپورٹیں ایسی ہونی چاہئیں کہ عوام اپنی زندگی کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی تصدیق کر سکیں۔ آپ نے حکومت کے بعض مثبت اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ افراط زر کی شرح میں کمی، اقتصادی میدان میں نسبتا استحکام اور تیز اتار چڑھاؤ پر قابو حکومت کے اچھے اقدامات اقدامات ہیں جنھیں آئندہ بھی جاری رکھنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم دو ہندسوں والے افراط زر پر مطمئن نہیں ہیں بلکہ سالانہ افراط زر دس فیصدی سے نیچے آنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمود سے نکلنے کی حکومت کی کوششوں، 'طرح تحول سلامت'، سے موسوم صحت عامہ سے متعلق منصوبے، ملک کی علمی تحریک کے تسلسل کے لئے منصوبہ بندی، پانی کو سنبھالنے کے اقدامات، زرعی شعبے میں پانی کے استعمال کو منظم بنانے کی کوششوں اور آبپاشی کے منصوبوں کو حکومت کے دوسرے مثبت اقدامات قرار دیا اور ایٹمی مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی مذاکرات کو اختتام تک پہنچانا بہت اہم اور بنیادی کام ہے جو انجام پایا اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں اگر بعض مسائل و مشکلات ہیں تو وہ بھی دور ہو جائیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے ساتھ ہی ایٹمی مسئلے میں دشمن کے مقاصد کی طرف سے غفلت کے احتمال پر اپنی تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ آغاز انقلاب سے اب تک اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ سے امریکیوں اور صیہونیوں کی دشمنی کم نہیں ہوئی ہے، چنانچہ یہ حقیقت کسی بھی صورت میں حکام کے اذہان میں کم رنگ نہیں ہونی چاہئے۔ آپ نے مزید فرمایا: البتہ دشمنی نکالنے اور وار کرنے کی روش ممکن ہے نئی اور جدید قسم کی ہو مگر تمام سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حکام کو توجہ رکھنا چاہئے کہ دشمن کی جانب سے بچھائے گئے جال میں نہ پھنسیں اور ان کے فیصلے دانستہ یا نادانستہ طور پر اغیار کے مد نظر پروگراموں پر عملدرآمد میں مددگار نہ بننے پائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمنوں کے بیانوں اور تحریروں میں ان کے صریحی معاندانہ اہداف کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور کوئی بھی یہ فراموش نہ کرے کہ کیل کانٹے سے لیس دشمن محاذ وطن عزیز اور قوم کے مقابل کھڑا ہوا ہے، چنانچہ ہمیں بھی چاہئے کہ باریکی سے محاذ سجائیں اور مختلف مواقع اور حالات کے تقاضوں کے مطابق دشمن کے مد مقابل فیصلہ اور اقدام کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ صیہونیوں اور امریکیوں کی کـبھی ختم نہ ہونے والی دشمنی کا ادراک صرف حکام کے لئے ضروری نہیں بلکہ عوام الناس اور خاص طور پر اسلامی انقلاب کا درد رکھنے والے افراد کے لئے بھی اس حقیقت پر توجہ رکھنا ضروری ہے، تاہم اس سلسلے میں حکام کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اثر و رسوخ قائم کرنے کی دشمن کی پیچیدہ تدریجی کوششوں کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ تمام حالات میں انقلاب کا موقف پوری صراحت کے ساتھ اختیار کیا جانا چاہئے اور دشمن کے سامنے بغیر کسی تکلف کے صریحی طور پر اور نڈر ہوکر انقلاب کے موقف اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے اصولوں کو بیان کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر غفلت ہوئی تو یکبارگی ہم دیکھیں گے کہ دشمن نے کئی جگہوں سے دراندازی کر لی ہے اور خطرناک ثقافتی، اقتصادی و سیاسی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے، لہذا ہمیں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کو بھی بہت ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ 11 فروی کو (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے دن) نکلنے والی ریلیوں میں شامل افراد بھی ایک ہی دھڑے اور گروہ کے نہیں ہوتے لیکن سب کی سمت ایک ہوتی ہے، بنابریں سماج کے اندر موجود اس اتحاد و یکجہتی کا پوری طرح خیال رکھا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ سماج کے اتحاد کی حفاظت کے لئے فروعی مسائل اور انتشار پیدا کرنے والی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے اور اتحاد کو نقصان پہنچانے والی کوئی بات زبان پر نہیں لانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد موجودہ دور کی ترجیحات کو بیان کرتے ہوئے ملک کی علمی پیشرفت کی سرعت کو قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ علم و سائنس ملک کی ترقی کی بنیاد ہے، چنانچہ اس میدان میں جو بھی بجٹ صرف کیا جائے گا وہ ایران کے مستقبل کے لئے سرمایہ کاری کے زمرے میں آئےگا۔
آپ نے مزید فرمایا: اس طرح منصوبہ بندی اور کوشش ہونی چاہئے کہ علمی پیشرفت کی رفتار قائم رہے اور ہم دنیا میں بلند ترین علمی و سائنسی مرتبہ رکھنے والے دس ملکوں کے زمرے میں شامل ہو جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران علمی تحریک کو عمومی نعرے میں تبدیل کر دئے جانے کو علمی و سائنسی پیشرفت کا ضامن قرار دیا اور فرمایا کہ جوش و جذبہ اور جر‏ئت عمل پیدا کرنے والے اس نعرے کی حفاظت اور تقویت ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نالج بیسڈ کمپنیوں اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکوں کی ضرورت پر زور دیا اور انھیں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا اہم ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس طرح منصوبہ بندی کیجئے کہ طلبہ تعلیم کے مختلف مراحل کے دوران کام اور روزگار کے بازار میں بھی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت کو موجودہ دور کی انتہائی اہم ترجیحات کا جز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اقتصادی مشکلات سے فکری و ذہنی انتشار نہیں ہوتا لیکن ثقافتی مشکلات انسان کی آنکھوں سے نیند چھین لیتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ صحتمند ثقافتی چیزیں تیار کرنا اور ضرر رساں ثقافتی چیزوں کی روک تھام حکام کے دو بنیادی فرائض ہیں۔ آپ نے فرمایا: دنیا کے تمام ممالک میں ثقافتی چیزوں پر نظر رکھی جاتی ہے، بنابریں اگر کچھ ثقافتی سرگرمیاں اصولوں اور بنیادوں سے متصادم ہیں تو بلا کسی رواداری کے ان کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافتی امور کو ان کے حال پر چھوڑ دئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی اور اسلامی انقلاب کے نعروں کے مطابق ثقافتی میدان کے انتظامات درست کئے جائیں اور معاشرے کے لئے صحتمند ثقافتی خوراک کا بندوبست کیا جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے معیشت کو ملک کی سب سے اہم ترجیح قرار دیا اور اس سلسلے میں کئی نکات بیان کئے، پہلہ نکتہ یہ تھا کہ مساوات کے ساتھ پیشرفت ہونی چاہئے۔ آپ نے فرمایا: اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ طبقاتی فاصلہ نہ بڑھے اور غرباء کو کچل نہ دیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ معاشرے کے عام ماحول میں محنت اور کام کو عمومی نعرے اور تساہلی اور بے عملی کو قابل مذمت چیز میں تبدیل کر دینا منصوبوں اور اقدامات کے اہم نکات میں شامل ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا: ملک کے اندر سرمائے اور روزگار کے مواقع میں اضافے کی ترغیب و تبلیغ کے ساتھ ہی کام کے درست راستوں کے تعین کو دستور العمل میں شامل کیا جانا چاہئے اور کام کی تلاش کے طریقوں کو میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور بعض ٹی وی پروگراموں میں اس سلسلے میں بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔
اقتصادی نمو کی بلند شرح تک رسائی کے وسیع امکانات کی فراہمی کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: دیگر ملکوں سے تجارت کے نظم و ترتیب کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ آپ نے اس کے ساتھ ہی یہ تاکید بھی فرمائی کہ ایران کو غیر ملکی مصنوعات اور اشیاء کا بازار نہیں بننے دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مزاحمتی معیشت کا مسئلہ بہت اہم ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کی منصوبہ بندی پر حکومت کی پوری توجہ ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس میدان میں متعلقہ اداروں کی رپورٹیں پیش کئے جانے کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ بعض کام جو انجام پائے ہیں مقدماتی مرحلے کے ہیں اور بعض اقدامات ایسے انجام دئے گئے ہیں جن کا تعلق مزاحمتی معیشت سے نہیں ہے اور بعض کام کچھ اداروں کے معمول کے امور ہیں جنھیں مزاحمتی معیشت سے متعلق سرگرمیوں کا جز قرار دے دیا گیا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ مزاحمتی معیشت ایک جامع اور منظم پیکیج ہے جو اجتماعی عقلی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اس پر عملدرآمد کے لئے منظم اجرائی اور قابل عمل پروگراموں کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس پروگرام میں ہر ادارے کی اجرائی ذمہ داری کا تعین اور اس کے لئے نظام الاوقات کی نشاندہی کی جائے اور مشکلات کو برطرف کرنے کے ساتھ ہی ساتھ اداروں کی سرگرمیوں اور اقدامات کی نگرانی بھی کی جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتصادی مندی اور تین فیصدی کی شرح سے اقتصادی نمو سے متعلق صدر مملکت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ نمو مندی میں تھوڑے تغیر و تبدل کی علامت ہے تاہم اگر مندی کا سنجیدگی سے مقابلہ نہ کیا گيا تو موجودہ اقتصادی شرح نمو بھی خطرے میں پڑ جائے گی اور افراط زر کی شرح پھر اوپر جانے لگے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان اقتصادی و مالیاتی اداروں کا بھی ذکر کیا جو مندی کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہیں۔ آپ نے فرمایا: بعض پیداواری مراکز کے یہاں نقدی کی مشکل ہے جسے دور کرنے کے لئے بینکوں کے آگے آنے کی ضرورت ہے، لیکن بعض مراکز کو نقدی کی مشکل نہیں بلکہ انھیں بجٹ فراہم کیا جا چکا ہے، تاہم انھوں نے ان اس بجٹ کو دوسری جگہوں پر صرف کر دیا ہے، ایسے مراکز کے خلاف مناسب کارروائی کی جانی چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ مندی کی مشکل کو حل کرنے کے لئے کچھ پروجیکٹوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زرعی شعبے پر پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور بنیادی ضرورت کی اشیاء میں خود کفائی کی منزل تک پہنچنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا چاہئے اور مختلف صوبوں میں زرعی شعبے کے نوجوان انجینیئروں کی خدمات حاصل کی جانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ معدنیات کا شعبہ بھی ملک کی اہم توانائیوں کا جز ہے۔ آپ نے فرمایا: تیل کا بازار جو بڑی طاقتوں کے ایک اشارے اور اس کے نتیجے میں علاقے کے خبیث عناصر کے اقدامات کی وجہ سے سو ڈالر سے چالیس ڈالر تک گر جاتا ہے، ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے اور ہمیں اس کا متبادل تلاش کرنا چاہئے اور معدنیات، تیل کا بہترین متبادل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ معدنیات کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہئے اور خام مال کی فروخت کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے۔
اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے شہید رجائی اور شہید باہنر کے ایام شہادت کو ہفتہ حکومت کا نام دئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا فلسفہ ان دو عظیم شہیدوں کی فکری، اخلاقی اور ذاتی خصوصیات کو زندہ رکھنا ہے۔ آپ نے افراط زر کی شرح کم کرنے، اقتصادی ثبات و استحکام پیدا کرنے، ایٹمی مذاکرات کے اختتام اور طبی شعبے میں انجام پانے والے کاموں پر حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی کلی پیشرفت کے عمل میں، دشمنوں کی معاندانہ کارروائیوں پر توجہ، اغیار کی دراندازی کی کوششوں کی طرف سے ہوشیار رہنا، فروعی مسائل میں نہ الجھنا، علمی پیشرفت کی رفتار کو قائم رکھنا، امام خمینی اور انقلاب کے اصولوں اور نعروں کے دائرے میں ثقافتی شعبے کو نظم و ترتیب دینا، پیشرفت کے عمل میں مساوات کو مد نظر رکھنا، غیر ملکی تجارت کا مینیجمنٹ اور مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے درست اور نظام الاوقات کے تحت پروگراموں کی تدوین کا حکام کو ہمیشہ خیال رہنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی اور ہفتہ حکومت کے موقع پر اس یوم ولادت کی آمد کو بابرکت اتفاق قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں آٹھویں امام علیہ السلام کے روضہ اقدس کا وجود ملک کے افتخارات میں شامل ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے گزشتہ دو سال کے دوران مختلف میدانوں میں حکومت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔ صدر مملکت نے اقصادی اور سماجی میدانوں میں استحکام و ثبات کی فضا کو حکومت کی گزشتہ دو سال کی سب سے بڑی کامیابی اور بہت اہم سرمایہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت افراط زر کی شرح کو کم کرنے سمیت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کے لئے تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔
صدر روحانی کا کہنا تھا کہ اقصادی جمود کی کیفیت سے ملک کا باہر نکلنا بھی اپنے وعدوں کے ایفاء کی سمت حکومت کا اہم قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ زیرو سے نیچے پہنچ جانے والے اقتصادی نمو کو سالانہ تین فیصدی کی شرح تک پہنچانا جمود سے باہر آنے کی واضح علامت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس سال اقتصادی ترقی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔
صدر مملکت نے مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ، غیر پیٹرولیم برآمدات میں انیس فیصدی کے اضافے، اور برآمدات و درآمدات میں نسبتا تناسب قائم ہونے کو مزاحمتی معیشت کی منزل کی طرف پیش قدمی کی علامتوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران حکومت کو گوناگوں رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا رہا۔
کابینہ کے ارکان نے بھی اپنے اپنے شعبوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔