رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علی اوف سے ملاقات میں ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے دوستانہ سیاسی تعلقات اور متعدد اشتراکات کا حوالہ دیا اور خاص طور پر دونوں اقوام کے دینی اشتراکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کی ترویج اور دینی شعائر کا احترام عوامی مقبولیت اور خطرات کے وقت عوامی پشت پناہی کا باعث بنے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، جمہوریہ آذربائیجان کے عوام کو دوستی اور پڑوس سے بالاتر ہوکر برادرانہ روابط کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آذربائیجان کے عوام کا امن و چین، سیاسی استحکام اور سلامتی ہمارے لئے بہت اہم ہے اور دونوں قوموں کی قلبی وابستگی کی بنیاد پر مختلف میدانوں میں تعاون اور اقتصادی لین دین بڑھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور آذربائیجان کے عوام کے مسلکی اشتراکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آذربائیجان کے عوام کے شیعہ و اسلامی عقائد گراں بہا سرمایہ ہے، حکومت عوام کے دینی عقائد اور رسومات کا جتنا زیادہ احترام کریگی اور ان میں دلچسپی کا مظاہرہ کریگی حکومت کی عوامی مقبولیت اور بعض بڑی طاقتوں کے معاندانہ اقدامات کے خطرہ پیدا ہونے پر نظر آنے والے عوام کے جذبہ استقامت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق قوموں کے درمیان فتنے کی آگ بھڑکانے کی تکفیری گروہوں کوششوں کا مقابلہ کئے جانے کا راستہ اسلامی سرگرمیوں کی تقویت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آذربائیجان کا خطہ دینی اعتبار سے بعض بزرگ اسلامی علمائے کرام کی سرزمین رہی ہے اور آذربائیجان کے عوام بھی بڑے ہوشیار اور آگاہ ہیں، اگر حکومت دینی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس سلسلے میں مددگار واقع ہوتی ہے تو عوام کا رجحان حکومت کی جانب بڑھے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو لاحق خطرات کی جڑ ایک ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر اسلام اور تشیع کی ترویج کی جائے تو مشکلات و مسائل کا مقابلہ کرنے میں اللہ تعالی کی نصرت اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی نظر عنایت حاصل ہوگی۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علی اوف نے تہران اور باکو کے درمیان قریبی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے ایران کے حکام سے اپنے مذاکرات کو انتہائی اہم اور تعمیری قرار دیا اور کہا کہ ثقافت، دین اور تاریخ کے اشتراکات نے ایران اور آذربائیجان کے مابین گہرے روابط پیدا کر دئے ہیں۔
الہام علی اوف نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے دس مفاہمتی نوٹس پر دستخط کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے باہمی روابط کو بہت مناسب اور برادرانہ قرار دیا اور کہا کہ تجارتی تعاون، نقل و حمل، انرجی اور صنعت کے میدانوں میں بڑے اچھے قدم اٹھائے گئے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ تمام میدانوں میں دونوں ملکوں کے رشتے پرواں چڑھیں۔
آذربائیجان کے صدر نے کہا کہ بین الاقوامی مسائل میں تہران اور باکو یکساں نظریات رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران عالمی امن و ثبات کے میدان میں اہم رول ادا کر رہا ہے اور ہم ایران کی سلامتی کو اپنی سلامتی مانتے ہیں۔
الہام علی اوف نے کہا کہ دونوں ملکوں کو لاحق خطرات کی جڑ ایک ہی ہے اور اس سفر میں اتفاق رائے ہوا ہے کہ ایران کے تعاون سے ہم دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے تاکہ علاقے میں امن و استحکام قائم ہو۔
آذربائیجان کے صدر نے اسلامی اقدار کا احترام کئے جانے پر زور دیتے ہوئے اپنی حکومت کی دینی خدمات کا ذکر کیا اور کہا کہ خود مختاری حاصل ہونے کے بعد سے آذربائیجان میں دو ہزار مساجد تعمیر کی گئیں جن میں نصف تعداد ان مساجد کی ہے جو ان کے دور اقتدار میں تعمیر ہوئیں۔
الہام علی اوف نے اسلام مخالف سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آذربائیجان کے عوام سے دشمنی ان کے دینی عقائد کی وجہ سے برتی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام اور تشیع آذربائیجان میں عوام کا پسندیدہ دین و مسلک ہے اور آپ جیسی عظیم شخصیات کے وجود سے ہمیں بڑا حوصلہ ملتا ہے۔