رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات میں گزشتہ 26 فروری کو پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت اور ان کی جانب سے اسلامی نظام سے وفاداری کے اعلان کی قدردانی کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس بار کے انتخابات کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور نئی پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے فرائض اور ترجیحات کو بیان کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے موجودہ دور میں ملک کی تین اہم ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے اغیار کی دراندازی کے مسئلے کو حد درجہ اہمیت کا حامل قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ حقیقی پیشرفت کا واحد راستہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں ملک کے داخلی ڈھانچے کو مستحکم بنانا، انقلابی خصوصیات کی حفاظت، مجاہدانہ انداز میں کام، ملی و اسلامی تشخص و وقار کی حفاظت اور خطرناک عالمی ہاضمے میں خود کو ہضم ہونے سے بچانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتخابات میں تین کروڑ چالیس لاکھ رائے دہندگان کی شرکت کو بہت بامعنی اور اہم الیکشن کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اس بار انتخابات میں واقعی عوام نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 62 فیصدی ووٹنگ بہت سے ملکوں حتی امریکا کے مقابلے میں کافی بڑی شرح ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اتنے بڑے پیمانے پر شرکت کرکے عوام نے اسلامی نظام پر اپنے اعتماد کا عملی اظہار کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کچھ لوگوں کا منتخب ہونا اور کچھ کا منتخب نہ ہونا فطری بات ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے موجودہ ماہرین اسمبلی کے ان ارکان کی خدمات کی قدردانی کی جو نئی اسمبلی کے لئے منتخب نہیں ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا: البتہ بعض بزرگان بھی ہیں جنھیں اکثریت ملے یا نہ ملے ان کی شخصیت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، جناب يزدی اور مصباح صاحب ایسی ہی ہستیوں میں شامل ہیں، ان افراد کے وجود سے ماہرین اسمبلی کا اعتبار بڑھتا ہے اور ان کی عدم موجودگی اسمبلی کے لئے خسارہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اسلامی نظام میں انتخابات اور خاص طور پر 26 فروری کو ہونے والے انتخابات کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کا پوری آزادی کے ساتھ شرکت کرنا انتخابات کی ایک اہم خصوصیت ہے کیونکہ اسلامی نظام میں انتخابات میں شرکت اجباری نہیں ہے بلکہ عوام الناس اپنی رغبت اور خواہش کے مطابق فکر و تدبر کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسلامی نظام میں انتخابات کا حقیقی مسابقتی مقابلہ ہونا بھی ایک اہم خصوصیت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ 26 فروری کو ہونے والے انتخابات حقیقی مقابلہ جاتی انتخابات تھے، کیونکہ مختلف افراد اور دھڑوں نے الگ الگ نعروں کے ساتھ انتخابات میں شرکت کی اور قومی نشریاتی ادارہ بھی ماہرین اسمبلی کے کینڈیڈیٹس کو پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لئے موجود تھا اور سب نے حقیقت میں سعی و کوشش کی اور مقابلے میں حصہ لیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق حالیہ انتخابات میں امن و سلامتی کا ماحول بھی ایک اہم خصوصیت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے گرد و پیش کے ممالک میں عوام کی زندگی بدامنی اور دہشت گردی سے متاثر ہے، لیکن ہمارے ملک میں عوام نے اس بڑے الیکشن میں اتنے وسیع پیمانے پر شرکت کی اور کہیں کوئی ناگوار واقعہ رونما نہیں ہوا، یہاں تک کہ شہر تہران میں لوگوں نے صبح آٹھ بجے سے لیکر آدھی رات تک پرسکون ماحول میں ووٹ ڈالے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے محکمہ پولیس، وزارت انٹیلیجنس، وزارت داخلہ، پاسداران انقلاب فورس اور رضاکار فورس کی جانب سے انتخابات کے موقع پر سیکورٹی کے بہترین انتظامات کئے جانے کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ دیانت داری اور صحتمندی بھی ایران میں ہونے والے انتخابات کی اہم خصوصیت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دشمنوں کے پروپیگنڈوں کے برخلاف اور ملک کے اندر کچھ لوگوں کی طرف سے کئے کئے دعوؤں کے برعکس اسلامی نظام میں انتخابات ہمیشہ سالم اور شفاف رہے ہیں اور کبھی بھی الیکشن کے نتائج کو متاثر کر دینے والی کوئی مصنوبہ بند بدعنوانی نہیں ہوئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ 26 فروری کے انتخابات نے ایک بار پھر ان لوگوں کے بیانوں کی عدم صداقت کو ثابت کر دیا جنھوں نے سنہ 2009 میں انتخابات کے غیر معتبر ہونے کے دعوے کئے تھے اور جنھوں نے ملک کو نقصان پہنچانے والا فتنہ کھڑا کر دیا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس طرح یہ حالیہ الیکشن شفاف اور صحیح تھا، اسی طرح ماضی کے دیگر انتخابات منجملہ 2009 کے صدارتی انتخابات بھی شفاف اور صحیح انتخابات تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ 26 فروری کے انتخابات کی ایک اور بڑی خصوصیت الیکشن ہار جانے والے امیدواروں کا شریفانہ اور متانت آمیز رد عمل ہے، آپ نے فرمایا کہ سنہ 2009 کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والے امیدواروں کی غیر شرافت مندانہ کارروائی کے برخلاف جنھوں نے ایسا فتنہ برپا کر دیا کہ ملک کو اس سے شدید نقصان پہنچا اور دشمن کی ہمت بڑھی، اس دفعہ کے انتخابات میں فتح نہ پانے والے امیدواروں نے الیکشن جیتنے والے حریف کو مبارکباد پیش کی جو بہت قابل قدر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ 26 فروری کے انتخابات میں عوام کی جانب سے اسلامی نظام سے وفاداری کا اعلان اسلامی نظام اور عوام کے درمیان خلیج ظاہر کرنے اور انتخابات کو غیر معتبر ثابت کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کے بالکل برعکس اقدام تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نگراں کونسل پر حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نگراں کونسل نے اپنا کام پوری تندہی سے انجام دیا اور اگر کہیں کوئی خامی رہ گئی تو اس کا تعلق قانون سے ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ 20 دن کے اندر 12 ہزار افراد کی صلاحیت و لیاقت کا جائزہ لینے کی ذمہ داری ایک قانونی نقص ہے جسے برطرف کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اس قانونی نقص کی وجہ سے نگراں کونسل کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امیدواروں کی صلاحیت اور لیاقت کا جائزہ لئے جانے کے مسئلے میں فرمایا کہ لیاقت و اہلیت کا جائزہ لئے بغیر کیا کسی امیدوار کی موافقت کی جا سکتی ہے، ایسا کرکے کیا انسان اللہ تعالی کے سامنے جواب دے سکتا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر نگراں کونسل اپنے جائزے میں ایک شخص کے اندر قانونی شرائط نہیں تلاش کر پاتی اور اس کی صلاحیت کی تائید نہیں کرتی ہے تو یہ کوئی قابل گرفت بات نہیں، بلکہ قانونی فریضے پر عمل آوری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ نگراں کونسل اسلامی جمہوری نظام کے ان بنیادی اداروں میں سے ایک ہے کہ استکبار نے اوائل انقلاب سے ہی جن کی تصویر مسخ کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نگراں کونسل کے خلاف کسی بھی طرح کی کردار کشی کی کوشش غیر اسلامی، غیر قانونی، غیر شرعی اور غیر انقلابی اقدام ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ جائزے کے عمل میں جن امیدواروں کی لیاقت و اہلیت ثابت نہ ہو پائے فطری بات ہے کہ وہ ناراض ہوں گے لیکن ایسی صورت میں نگراں کونسل کی کردار کشی نہیں کی جانی چاہئے، بلکہ قانونی راستے سے اس پر اعتراض کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 26 فروری کو ہونے والے انتخابات کی خصوصیات اور اس کے پیغامات کی تشریح کرنے کے بعد فرمایا کہ عوام نے میدان میں آکر اپنی ذمہ داری پوری کر دی اب حکام کی باری ہے کہ اپنے فرائض پورے کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پہلے اسلامی جمہوری نظام میں ایک ستون کا درجہ رکھنے والی ماہرین اسمبلی کے نو منتخب ارکان کے فرائض پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ ماہرین اسمبلی کی ذمہ داری ہے؛ انقلابی بنے رہنا، انقلابی انداز میں سوچنا اور انقلابی انداز میں عمل کرنا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ملک کے آئندہ رہبر کے انتخاب میں بھی ان تینوں خصوصیات کو مد نظر رکھنا ماہرین اسمبلی کی بنیادی ترین ذمہ داری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ رہبر کے انتخاب میں ضروری ہے کہ ہر طرح کے تکلف، رواداری اور مصلحت کوشی کو کنارے رکھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات، ملک کی ضرورتوں اور عین حقیقت کو مد نظر رکھا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں اگر کوتاہی ہوئی تو یقینی طور پر ملک اور نظام کے امور کی بنیاد میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ماہرین اسمبلی میں بزرگ علمی ہستیوں اور علمائے کرام کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اسمبلی کے ارکان کی ایک ذمہ داری حکام کے سامنے عوام کی مشکلات و مسائل کو رکھنا، عوام کے سامنے حقائق بیان کرنا اور انھیں حالات سے آگاہ رکھنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح پارلیمنٹ کے نو منتخب ارکان کے فرائض بیان کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ، حکومت سے تعاون کرے اور اس کا ساتھ دے لیکن اس تعاون کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پارلیمنٹ اپنے آئینی فرائض کے سلسلے میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام لے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حکومتی عہدیداروں کے فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں تین بنیادی فرائض اور ترجیحات پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ایک ہے مستحکم مزاحمتی معیشت، دوسرے ملک کی تیز رفتار علمی پیشرفت کا سلسلہ قائم رکھنا اور تیسرے ملکی ثقافت، قوم اور نوجوانوں کی حفاطت کرنا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پہلی ترجیح کے بارے میں اس بات پر خاص طور سے زور دیا کہ ملک کی اقتصادی مشکلات مستحکم مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ کے بغیر حل نہیں ہوں گی اور اقتصادی نمو بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ طے پایا ہے کہ حکومت مزاحمتی معیشت کے لئے ایک مرکز قائم کرے اور اس مرکز کی ایک کمانڈ ہو، اس سلسلے میں کچھ اقدامات انجام پائے ہیں، لیکن اقدامات ایسے ہونے چاہئے کہ محسوس ہوں اور نظر آئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکومتی عہدیداران مزاحمتی معیشت سے اپنی اقتصادی سرگرمیوں اور کوششوں کی نسبت واضح کریں اور ہر طرح کی اقتصادی منصوبہ بندی اور اقتصادی تعاون کی بنیاد مزاحمتی معیشت کی پالیسیاں ہوں جو اجتماعی تدبر کے بعد تیار کی گئی ہیں اور اکثر اقتصادی ماہرین کا ان پر اجماع ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دوسری ترجیح یعنی تیز رفتار علمی پیشرفت کا سلسلہ قائم رکھے جانے کے تعلق سے فرمایا کہ اگر ہم دنیا میں طاقت، عزت اور مرکزیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و دانش کے شعبے کو تقویت پہنچانی ہوگی اور علمی پیشرفت کی رفتار قائم رکھنی ہوگی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علمی پیشرفت پر سنجیدگی سے توجہ رکھنی چاہئے کیونکہ اس کا ایک نتیجہ نالج بیسڈ اکانومی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حکومتی عہدیداران کی تیسری ترجیح یعنی ملک کو ثقافتی اعتبار سے تحفظ فراہم کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ثقافتی تحفظ کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہمیں ہدف پر پورا یقین ہو اور اس کے بعد اس کے لئے منصوبہ بندی اور سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ تینوں ترجیحات حکومتی عہدیداران کے ایجنڈے میں سنجیدگی کے ساتھ شامل کر لی جائیں تو اس کا نتیجہ ملک کی حقیقی پیشرفت کی صورت میں نکلے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ظاہری رونق اور اشیاء کی درآمد کے ذریعے نمائشی پیشرفت اور معاشرے کی وقتی خوشحالی کو عوام کے لئے ضرررساں قرار دیا اور فرمایا کہ پیشرفت عمیق، مستحکم اور داخلی ستونوں پر استوار ہونی چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلابی خصوصیات کی حفاظت، مجاہدانہ انداز میں عمل، ملی و اسلامی شناخت و وقار کی حفاظت اور دنیا کے خطرناک ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی ہاضمے میں خود کو ہضم ہو جانے سے بچانے کو ترقی کے اہم لوازمات میں شمار کیا اور دشمن کی دراندازی کی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ صحیح اطلاعات کے مطابق امریکا اور استکباری محاذ کا منصوبہ ملک میں اپنی جڑیں پھیلانا ہے، تاہم اس کے لئے بغاوت کا منصوبہ نہیں ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے ڈھانچے کے اندر اس طرح کی سازش کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے، بنابریں دوسرے راستوں سے دراندازی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام اور حکام پر حملے کرنا دشمن کی دراندازی کے دو بنیادی ہدف ہیں اور حکام کی سطح پر دراندازی کا مقصد ملک کے حکام کے اندازوں اور تخمینوں کو بدلنا ہے جس کے نتیجے حکام کی فکر اور قوت ارادی دشمن کی مٹھی میں چلی جاتی ہے اور ایسی حالت میں دشمن کو براہ راست مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ عہدیدار نادانستہ طور پر وہی فیصلہ کرتا ہے جو دشمن کو پسند ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق دراندازی کی دوسری سطح میں عوام کے نظریات اور افکار اور اسلام و انقلاب سے ان کے لگاؤ، ان کی اسلام شناسی اور عمومی احساس ذمہ داری کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ملک کی خود مختاری کی نفی بھی دشمن کا اہم ہدف ہے اور ملک کے اندر بھی بعض لوگ سادہ لوحی کی بنیاد پر وہی بات دہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خود مختاری کا نظریہ پرانا ہو چکا ہے، آج اس کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دشمن کی ایک سازش یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں سے مغرب کی خیانتوں کی یادیں مٹا دی جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ عالمی پروپیگنڈے میں یہ بات مشتہر کی جاتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس ملک کے حکام مغرب اور امریکا کے اتنے مخالف کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہمیں مغرب سے نقصان پہنچا ہے، ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مغرب نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے، میں مغرب سے روابط منقطع کر لئے جانے کا طرفدار نہیں ہوں، لیکن ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم کن لوگوں سے لین دین کر رہے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے قاجاریہ دور کے وسط سے لیکن تا حال ملت ایران کے خلاف مغرب کے معاندانہ اقدامات کی بعض واضح مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قاجار سلاطین کی کمزوری کے سبب مغرب نے مراعات حاصل کیں اور ملت ایران کی پیشرفت کو روک دیا، جس کے بعد رضاخان اور پھر اس کے بیٹے کو اقتدار دلایا اور اس کے بعد 19 اگست 1953 کو تیل کی صنعت قومیائے جانے کی تحریک کچل دی گئی اور جہنمی خفیہ تنظیم ساواک کی تشکیل عمل میں آئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زراعت کی نابودی، علمی پیشرفت کے سد باب، اچھے دماغوں کے اغوا، ملک کے نوجوانوں کو بدعنوانی اور نشے کی جانب گھسیٹنے کو پہلوی دور حکومت میں مغرب کے زیر نگرانی تیارے ہونے والی سازشیں قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہوتے ہیں مغربی حکومتوں نے مخالفت شروع کر دی، سرحدی علاقوں میں انقلاب مخالف عناصر کو پیسہ، اسلحہ اور سیاسی مدد دی گئی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، اسلامی انقلاب اور انقلابی عہدیداروں کے خلاف افواہیں پھیلائی گئيں، معاندانہ کارروائیاں کی گئیں اور جنگ میں بھی جہاں تک ممکن تھا مغرب نے صدام کی فوجی، سیاسی اور انٹیلیجنس مدد کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیاڈ بھی اسی دشمنی کی ایک مثال ہے، آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام مغرب سے دشمنی کا ارادہ نہیں رکھتا تھا، بلکہ ایران میں ایک خود مختار سسٹم کی بنیاد رکھے جانے کے بعد مغرب نے اس سے دشمنی کا برتاؤ شروع کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف معاملات منجملہ پابندیوں اور معاندانہ تشہیرات میں یورپ کی طرف سے امریکا کی پالیسیوں کی پیروی کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم ملک، قوم اور تاریخ کے ذمہ دار ہیں، اگر ہم دشمنوں کے معاندانہ اقدامات کے جواب میں استقامت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو وہ ملک و قوم کو ہضم کر جائیں گے اور اس کا موقع انھیں ہرگز نہیں دینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے بعض عہدیداران کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ ہمیں ساری دنیا سے تعاون کرنا چاہئے، آپ نے فرمایا کہ امریکا اور صیہونی حکومت کو چھوڑ کر ساری دنیا سے ہمارا رابطہ ہونا چاہئے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بس مغرب اور یورپ تک محدود نہیں ہے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس میں 130 سے زائد ملکوں کی شرکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج طاقتیں دنیا میں بکھر چکی ہیں اور مشرق اور ایشیا کا علاقہ بھی بہت بڑا خطہ ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ پہلے مغربی حکومتوں نے ملت ایران سے دشمنی کی بنیاد رکھی اور آج بھی وہ غلبہ حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق دشمن نے علمی، ثقافتی اور اقتصادی میدانوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے تقریبا 10 راستوں منجملہ یونیورسٹیوں اور دانشوروں سے رابطے، بظاہر علمی دکھائی دینے والی کانفرنسوں میں دراندازی کی نیت کے ساتھ شرکت اور ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ میں سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کا تعین کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ بیرونی تسلط کے سد باب کا طریقہ ملک کو اندرونی طور پر مستحکم بنانا ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر ایران اندر سے مستحکم اور بے نیاز ہو تو وہی لوگ جو آج دھمکیاں دے رہے ہیں، اسلامی نظام سے روابط قائم کرنے کے لئے صف بستہ کھڑے دکھائی دیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ مغربی وفود کی آمد و رفت تو انجام پا رہی ہے لیکن اب تک اس آمد و رفت کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملا ہے، لہذا ہمیں عملی میدان میں دیکھنا چاہئے کہ اس آمد و رفت کا کیا اثر ہوتا ہے، ورنہ صرف کاغذ پر اتفاق رائے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی حکام کی مساعی کی قدردانی کی اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے 37 سالہ تجربات سے ثابت ہو گیا ہے کہ فکری، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے ہمیں مضبوط ہونا چاہئے اور جب ہم اس منزل پر پہنچ جائیں گے تو پھر حقیقت میں وقار حاصل ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اپنی گفتگو کے آغاز میں چوتھی ماہرین اسمبلی کے رحلت پا جانے والے ارکان خاص طور پر آيت اللہ واعظ طبسی اور آیت اللہ خزعلی کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ہمارے ان دونوں برادران گرامی نے حقیقت میں ماہرین اسمبلی کے اندر مہارت کے معیار کو قائم رکھا اور امتحانوں سے کامیاب ہوکر نکلے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آیت اللہ واعظ طبسی کی مجاہدانہ انقلابی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور انقلاب کی تحریک کے دوران اور پھر آستانہ مقدس رضوی کے لئے ان کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مومن، پرعزم اور صریحی موقف رکھنے والے انسان نے حساس ترین مواقع پر اپنی انقلابی پوزیشن کو آشکارا طور پر پیش کیا اور 2009 کے فتنے کے دوران ہر طرح کی رواداری، دوستی اور تکلف کو نظرانداز کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آيت اللہ طبسی مرحوم کی پرشکوہ تشییع جنازہ میں عوام کی عظیم پیمانے پر شرکت کو مشہد کے عوام کی قدرشناسی کی نشانی قرار دیا اور فرمایا کہ فرائض منصبی ادا کرنے کے دوران اس عظیم انسان کے طرز زندگی میں کوئی بدلاؤ اور توسیع نہیں ہوئی، انھوں نے کبھی بھی اشرافیہ کلچر کو قریب نہیں آنے دیا اور اسی گھر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے جس میں انقلاب سے قبل زندگی بسر کرتے تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آیت اللہ خزعلی کے تعلق سے فرمایا کہ وہ مرحوم بھی بڑے سخت امتحانوں سے گزرے اور جب بھی قریبی لوگوں اور رشتہ داروں کی بات ہوئی انھوں نے شجاعت کے ساتھ خود کو ہمیشہ انقلاب سے وابستہ رکھا، یہ خصوصیات انسانوں کو ارزش اور ان کے انقلابی جذبے کو معنی عطا کرتی ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام شہادت کی مناسبت سے تعزیت پیش کی اور کہا کہ اس عظیم ہستی کے مناقب بیان کرتے وقت توجہ رکھی جانی چاہئے کہ اختلاف پیدا کرنے والے مسائل نہ اٹھائے جائیں، کیونکہ آج استکباری محاذ کی شیطانی پالیسی شیعہ سنی اختلاف کی آگ بھڑکانے پر مرکوز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ معیاروں اور آداب نیز مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اختلاف اور منافرت نہیں پیدا کی جانی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس وقت علاقے میں جاری جنگوں کے صرف اور صرف سیاسی محرکات ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ ان اختلافات کو مذہبی اور مسلکی تنازعے کا رنگ دیں تاکہ انھیں آسانی سے ختم نہ کیا جا سکے، چنانچہ ہمیں چاہئے کہ اس خطرناک سازش میں مددگار واقع نہ ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حرم اہل بیت اطہار علیہم السلام کی حفاظت میں برادران اہلسنت کی شرکت، ان کی شہادت اور پھر ان کے اہل خانہ کی جانب سے اس پر افتخار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علمائے کرام اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اہل سنت کو ناراض کرکے امریکیوں اور صیہونیوں کی تفرقہ انگیز سازشوں کی تکمیل کی جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے ماہرین اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ یزدی نے ایام شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے تعزیت پیش اور آيت اللہ واعظ طبسی اور آيت اللہ خزعلی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ماہرین اسمبلی کے انیسویں اجلاس کے بارے میں بریفنگ دی۔ اسمبلی کے نائب سربراہ آیت اللہ شاہرودی نے بھی اجلاس میں ارکان کے بیانوں، بحثو اور مہمان عہدیداران کی بریفنگ کی تفصیلات بیان کیں۔