بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں تمام بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو قرب و جوار اور دور دراز سے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں اس محفل کو رونق بخشی ہے۔
میں ماہ ربیع الاول کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور عالم انسانیت کے لئے اہم ترین تاریخی موڑ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے پہلے دن، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت فرمائي، مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے، اسی دن سے مسلم معاشرے میں ہجری سال کا آغاز ہوا۔ اس طرح اس مہینے میں ولادت اور ہجرت کی دو بہاریں ہیں۔
یہ تاریخی حقائق امت مسلمہ کے لئے بہت اہم اور با ارزش ہیں۔ آج کی نام نہاد ماڈرن دنیا میں اقوام کی جو صورت حال ہے اس کی ماضی میں کوئي اور مثال نہیں ملتی۔ ان حالات میں مسلم قومیں ان تاریخی حقائق سے درس لے رہی ہیں۔ دنیا کے جس گوشے میں بھی کوئی کلمہ گو مسلمان رہتا ہے وہ اللہ تعالی کے منتخب پیغمبر کی ولادت کو یاد کرکے خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ پیغمبر اسلام کا عشق ہر ایک مسلمان کے دل میں رچا بسا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ مشاہدہ فرما رہیں ہیں کہ اگر عالمی سامراج اسلام کو کمزور کر دینے کے در پے ہے تو پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صیہونی اور ان کے زیر نگیں حکومتیں، سامراجی نظام اور سب سے بڑھ کر جرائم پیشہ امریکہ جب مسلم امہ اور اسلام سے ٹکراؤ کا ارادہ کرتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم شخصیت کا نام اور آپ کا تذکرہ، آپ کی ولادت، مکہ سے مدینہ ہجرت، مدینہ منورہ میں آپ کی دس سالہ حکومت،القصہ آپ کے ایک ایک اقدامات اور تعلیمات مسلمانوں کے لئے بڑے اہم سبق ہیں، بس شرط یہ ہےکہ ان پر غور کیا جائے۔اس طرح حقیقی زندکی جانب دریچہ وا ہو سکتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی ذات گرامی مسلم امہ کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے۔ چونکہ وہ (دشمن) اس سے آگا ہیں، چونکہ انہیں اسلامی بیداری کا خوف ستا رہا ہے، چونکہ دنیا بھر میں آباد ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے طاقتور اسلامی معاشرے کی قوت سے وہ دہشت زدہ ہیں اس لئے پیغمبر اسلام کے مقابلے میں صف آرا ہو رہے ہیں۔ جرائد و اخبارات، کتابوں اور سیاستدانوں کے بیانوں میں سارے عالم کے لئے رحمت پروردگار کا درجہ رکھنے والے اور نیکی و نیکوکاری کے سرچشمہ پیغمبر اسلام کی توہین کی جا رہی ہے۔ اس پر ہم مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وجود پیغمبر، آپ کی شخصیت، آپ کی سیرت طیبہ، آپ کا جہاد، آپ کی ہجرت آپ کی زندگی، اقوال و افعال کی شکل میں آپ کی تعلیمات، مسلمانوں کے لئے کیسا بیش بہا اور عظیم خزانہ ہے۔ اگر ہم اس سرمائے سے استفادہ کریں تو مسلم امہ ایسے مقام پر پہنچ جائے گی کہ پھر سامراجی طاقتیں زور و زبردستی نہیں کر سکتیں، دھمکیاں نہیں دے سکتیں، دباؤ نہیں ڈال سکتیں۔ یہ ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے۔
آج سامراج آشکارہ اسلام کےمقابلے پر آ گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر یوں تو سیاسی اور تشہیراتی میں حملے کئے جا رہے ہیں تاہم اسلامی جمہوریہ سے ان کی دشمنی اس لئے ہے کہ اس نے پرچم اسلام بلند کیا ہے، مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کو دوبارہ بسایا ہے، اسلام کو رونق بخشی ہے، مسلمانوں کو سربلندی عطا کی ہے اور اسلام کے ذریعے اس ملک نے خود بھی عزت و سربلندی پائی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے سامراج کی دشمنی کی وجہ یہ ہے۔ یہ طاقتیں در حقیقت اسلام دشمن طاقتیں ہیں وہ ہر مسلمان قوم کی دشمن ہیں۔ یہ بات مسلم امہ کی ہر فرد کے ذہن نشین ہونا چاہئے اس کا ہر مسلمان کو صحیح طور پر ادراک ہونا چاہئے۔
انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، جمہوریت کا نام لیا جاتا ہے اور کبھی ایٹمی توانائی کو اشو بنایا جاتا ہے، انہیں امور کو مخاصمانہ پالیسیوں کا بہانہ قرار دیا جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ دین اسلام، مسلم امہ کو ایک عظیم طاقت میں تبدیل کر سکتا ہے اور وہ یہی نہیں چاہتے۔ انہیں علم ہے کہ پیغمبر کا اسم مبارک، آپ کا تذکرہ، آپ کی حیات طیبہ، آپ کی سیرت اور تعلیمات مسلم امہ کو پژمردگی سے نجات دےکر نشاط و تازگی کی نوید دے سکتی ہیں، اسے عالمی میدان میں ایک موثر طاقت بنا سکتی ہیں، اسے عزت و وقار عطا کر سکتی ہیں۔ دشمن اسی سے ہراساں ہیں اسی لئے مخالفت کی جا رہی ہے ورنہ کس کو نہیں معلوم کہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے دشمن اور مخالف خود امریکی ہیں۔ البتہ امریکیوں سے میری مراد امریکی عوام نہیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کی حکومتوں کو چلانے والے سیاستداں اور وہ عناصر ہیں جو انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ذرا غور کیجئے، یہ لوگ غزہ میں کیا کر رہے ہیں۔ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ مسلم اقوام کے ساتھ ان کا کیا سلوک ہے۔ عراق و افغانستان میں مظلوم عوام کے ساتھ کس سنگدلی اور بربریت کا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ ذرا دیکھئے تو صحیح، امریکی صدر ایذا رسانی کے مخالف قانون کو رسمی طور پر مسترد کر دیتے ہیں، یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایذارسانی اور شکنجے کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اس طرح امریکیوں کو یہ اختیار ہے کہ اپنے قیدیوں اور ان بے گناہ افراد کو جو افغانستان، عراق یا کسی اور جگہ سے پکڑ کر لائے جاتے ہیں، جس طرح چاہیں ایذائيں دیں۔ ایذارسانی کے علمبردار ہیں اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں!
امریکا کے سیاستدانوں اور حکام کے اس روئے کا نتیجہ یہ ہے کہ یہی امریکہ مردہ باد کا نعرہ آپ کے پورے وجود سے باہر آتا ہے۔ ایک وقت ایسا تھا جب صرف ایرانی قوم کہ جو بیدار ہو چکی تھی، امریکا مردہ باد کا نعرہ بلند کر رہی تھی لیکن آج پوری دنیا میں، مسلم اقوام اور حتی غیر مسلم قومیں جہاں بھی اس بد بخت امریکی صدر کو دیکھتی ہیں مظاہرے کرتی ہیں امریکا کے پرچم کو نذر آتش کرتی ہیں اور امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتی ہیں۔ ان (امریکی صدر) کے پتلے بناتی اور جلاتی ہیں، اور یہ ہیں کہ انسانی حقوق کا دم بھرتے نہیں تھکتے!

ان کی انہی حرکتوں نے دنیا بھر کے عوام اور مظلوم لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے نفرت بھر دی ہے۔ ایذا رسانی کا حامی، ممالک پر فوجی قبضے کا حامی، قوموں پر بموں کی بارش کئے جانے کا حامی شخص جمہوریت کا دم بھرتا ہے، انسانی حقوق کا دم بھرتا ہے! یہ ایسی باتیں ہیں جنہوں نے قوموں کو بد عنوانی، فتنہ و فساد کے جراثیم یعنی سامراج سے آگاہ کر دیا ہے لوگوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان (سامراجی) پالیسیوں کا ہدف کیا ہے۔
آپ ایرانی عوام آج دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔ یہ نعرہ جو آپ بلند کرتے ہیں وہ تمام مسلم اقوام حتی بہت سی غیر مسلم قوموں کے دلوں کا نعرہ ہے۔ یہ آپ کی پائمردی و استقامت اور ہمت و شجاعت کا نتیجہ ہے۔ دنیا کے عوام حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کے چہروں سے نفاق کا پردہ ہٹ چکا ہے۔ انہیں (سامراجی طاقتوں کو) بخوبی اندازہ ہے کہ ایرانی قوم اس عظیم اسلامی تحریک کی معمار ہے، انہیں اس کا علم ہے اسی لئے ایرانی قوم کو کینہ توزی و دشمنی کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔
جو کچھ بھی ایران اور ایرانیوں کے لئے مایہ عزت و سربلندی، قوت و طاقت، اور آسائش و راحت کا سبب ہے وہ (سامراجی طاقتیں) اس کے خلاف ہیں۔ ایک چیز تو یہی انتخابات ہیں جس کا تجربہ ہماری قوم عنقریب کرنے والی ہے۔ یہ آپ کے انتخابات کی دشمن ہیں، انہیں سرے سے انتخابات سے ہی دشمنی ہے، انتخابات میں آپ کی شرکت پر اعتراض ہے۔صلاحیت مند، عوامی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے، دیندار اور اسلامی اصولوں اور اقدار کے پابند افراد کو نمائندہ بنائے جانے سے انہیں خلش ہے۔ کیوں؟ انہیں اندازہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد، ان میں عوام کی بھرپور شرکت، پارلیمنٹ میں صلاحیت مند افراد کا داخلہ ان کے حق میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ طاقتیں مخالفت کر رہیں اور اس کے لئے ہر ممکن حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ریڈیو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف ریڈیو پروگراموں کے ذریعےوہ اپنے خیال خام میں عوام کو انتخابات سے بیزار کر رہی ہیں۔ انشاء اللہ نتیجہ اس کے بالکل بر عکس ہوگا۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہی امریکہ نے کہا ہےکہ ہم چاہتےہیں کہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف قرارداد منظور ہو تاکہ ایرانی عوام کو ووٹنگ سے دور رکھا جا سکے۔ ذرا غور کیجئے یہ وہی ہیں جو جمہوریت اور ڈیموکریسی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر علاقے میں ووٹنگ میں عوام کی شرکت کو جمہوری عمل قرار دیا جاتاہے۔ کیا اس کے علاوہ بھی جمہوریت کے کوئي اور معنی ہیں؟ چونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ ایرانی قوم انتخابات میں بھرپور شرکت کرکے ایک بار پھر تاریخ رقم کرے گي اور ان کے لئے یہ برداشت کر پانا مشکل ہو رہا ہے۔ البتہ اس وقت بھی روز روشن کی مانند یہ بات واضح ہے اور گزشتہ تیس برسوں کے دوران ہرموقع پر یہ ثابت ہوا ہے کہ جب بھی دشمنوں نے عوام کو انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے، پروپگنڈہ کیا ہے، عوام نے پہلے سے زیاد بڑھ چڑھ کر انتخابات میں شرکت کی ہے۔ اللہ تعالی کے لطف و کرم سے اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
عوام کو علم ہے کہ انتخابات میں شرکت، عالمی سطح پر ان کی قوت و طاقت کی ضامن ہے، دشمن یہی نہیں چاہتے۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ عوام انتخابات سے دور رہیں اور یہ اسلامی نظام سے عوام کی روگردانی کا ثبوت بن جائے، اس طرح اسلامی نظام کمزور ہو جائے اور وہ ملک و قوم پر دباؤ ڈال سکیں۔
انہیں معلوم ہے کہ انتخابات میں بھرپور شرکت سے عوام کو طاقت حاصل ہوگی اور ایران کے سلسلے میں ان کی سازشیں ناکام ہو جائیں گی۔ وہ یہ نہیں چاہتے، انہوں نے اپنے تمام تشہیراتی وسائل کو بروی کار لاکر عوام کو انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ البتہ ان سے وابستہ کچھ عناصر بھی سرگرم عمل ہیں، ان کے ریڈیو اور دیگر تشہیراتی وسائل کے ساتھ ہی کبھی کبھی داخلی سطح پر بھی عوام کو انتخابات سے مایوس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کچھ عناصر ملک میں انجام دی جانے والی عظیم خدمات اور کارناموں کو دائرہ شک میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، حکومت اور پارلیمنٹ کی عظیم خدمات کا کون انکار کر سکتا ہے۔ جو عظیم کارنامے انجام پائے ہیں اور جو بڑے کام ہوئے ہیں ان کا ثمرہ انشاء اللہ رفتہ رفتہ عوام کے سامنے آئے گا۔ عوام کو مایوس کرنے کے لئے حکومت، پارلیمنٹ اور حکام کے خلاف پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح انتخابات کے آزاد اور شفاف ہونے کےبارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ آیا انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں گے یا نہیں؟ انتخابات میں دھاندلی ہوگی یا نہیں؟ میں پورے وثوق کے ساتھ آپ کی خدمت عرض کر رہا ہوں کہ اس دفعہ کے انتخابات ہوں جو دو تین دنوں میں منعقد ہونے والے ہیں یا پھر اس سے قبل منعقد ہونے والے انتخابات، بالکل آزادانہ اور شفاف رہے ہیں۔ اسی لئے ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ اور اب بھی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں شرکت عوام کا سیاسی فریضہ بھی ہے اور دینی ذمہ داری بھی۔ اس کی یہی مثال ہے کہ کوئي انسان اپنے جسم کو ویٹامن اور دیگر مقوی اشیا سے طاقتور بنا لے اس میں اتنی طاقت آ جائے کہ پھر کوئي میکروب اور وائرس اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ اگر کوئی دشمن حملہ آور ہو تب بھی وہ اپنا دفاع کرنے پر قادر ہو۔ انتخابات کے سلسلے میں عوام کی شرکت بہت اہم مسئلہ ہے۔ ایرانی قوم نے جس طرح گزشتہ تیس برسوں میں ثابت کیا ہے اور جب بھی قومی اقتدار کا مظاہرے کا موقع آیا ہے عوام پیچھے نہیں رہے ہیں۔ ریلی ہو، جلوس ہو مظاہرے ہوں، اتنخابات ہوں یا دفاع مقدس کے محاذ یا قومی اقتدار کے مظاہرے کا کوئي بھی موقع رہا ہو ملت ایران نے پوری ہوشیاری و دلیری کے ساتھ پیش قدمی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے ان تیس برسوں میں ہمارا ملک، ہماری قوم اور حکومت روز بروز طاقتور ہوتی گئي ہے اور روز بروز انقلاب کی امنگیں، انقلاب کے اصول اور انقلابی اقدار کو جلا ملی ہے۔
انقلاب کی اقدار کیا ہیں؟ سب سے پہلے مرحلے میں انقلابی اقدار ہیں، دلوں میں ایمان و دینداری کی تقویت کہ جو تمام کد و کاوش اور سرگرمیوں کا سرچشمہ ہے، سماجی مساوات، بد عنوانیوں کا مقابلہ، عوام کے لئے حق انتخاب، ان پر ذاتی، حکومتی، یا جماعتی نظریات کا مسلط نہ کیا جانا تاکہ عوام ازادانہ فکر کر سکیں اور اسلامی اصولوں کے تناظر میں پوری آزادی کے ساتھ عمل کر سکیں۔ دینی جمہوریت کے یہی معنی ہیں۔ انقلاب کے رہنما اصول اور اقدار یہی ہیں۔ لہذا اب آپ جو حق رای دہی کا استعمال کرنے جا رہے ہیں تو آپ کے پیش نظر ایسی پارلیمان کی تشکیل کا ہدف ہونا چاہئے جو انقلاب کی انہی قدروں اور اصولوں کی پابند ہو۔ دیندار، ایماندار، سماجی مساوات کے حامی ، ہر شعبے میں ہر سطح کے حکام کے درمیان بد عنوانیوں کے مخالف اسلامی جمہوریہ کی عزت و سربلندی پر یقین رکھنے والے نمائندوں پر پارلیمان استوار ہونی چاہئے۔ ہم نے سات پارلیمانی ادوار دیکھے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئي ایسا نمائندہ آيا ہو جو اس کے نام یعنی مجلس شورای اسلامی میں شامل لفظ اسلامی کا مخالف رہا ہو؟ پہلی پارلیمان میں مجلس شورای اسلامی کےنام پر بحث ہوئي تھی تو کیا کسی نے لفظ اسلامی کی مخالفت کی تھی ؟ ایسا شخص ایرانی قوم کا نمائندہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایرانی قوم نے اسلام کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ ایرانی قوم نے اپنے لئے عزت و وقار، قوت و اقتدار، آسائش و آرام اسلام کے سائے میں تلاش کیا ہے۔
میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن امیدواروں کے نام سامنے ہیں انہیں ووٹ دینا ثواب کا کام ہے خواہ انسان سے امیدوار کے انتخاب میں غلطی ہی کیوں نہ ہوجائے لیکن اگر اس نے صحیح انتخاب کیا ہے تو ثواب دگنا ہو جائےگا۔ ووٹ دینا، پولنگ میں شرکت کرنا، اس اہم امتحان میں حصہ لینا، اللہ تعالی کے نزدیک ثواب کا کام ہے۔ اللہ تعالی ہمارے اعمال و افعال کا نگراں ہے۔ وقل اعملوا فسیری اللہ و رسولہ و المومنون آپ عمل کیجئے، اقدام کیجئے، اللہ تعالی آپ کے اقدامات کو دیکھنے والا ہے۔ پیغمبر اعظم آپ کے افعال پر نظر رکھتے ہیں، مومنین کی نظریں آپ پر ہیں۔ پولنگ میں آپ کی شرکت سے دنیا بھر میں مومنین کو خوشی ہوگی۔ ہمارے نادان اور احمق دشمن، یہ امریکی سیاستداں اور حکام جو ان انتخابات کے سلسلے میں اتنی بے چینی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہ خود اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ دنیا بھر کی مسلم اقوام کی نگاہیں ان انتخابات پر مرکوز ہو جائيں۔ سب بغور جائزہ لیں کے ایرانی قوم انتخابات میں کیا کرتی ہے؟ کس طرح ووٹنگ میں شرکت کرتی ہے اور کیسے نمائندوں کا انتخاب کرتی ہے۔ امریکیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم فلاں قسم کے افراد چاہتے ہیں اور فلاں قسم کے افراد نہیں چاہتے۔ مسلم اقوام دیکھتی ہیں کہ ایران میں امریکی نسخے پر عمل کیا گیا یا قومی و اسلامی اصولوں کو اپنایا گیا؟ امریکیوں کی تمام خواہشات ایران کے مفادات کے منافی ہیں۔
اللہ تعالی اپنی رحمتیں نازل کرے ہمارے بزرگوار امام پر جو فرماتے تھے کہ دشمن کی دشمنی اور دشنام سے خوفزدہ نہ ہوئیے۔ جب وہ آپ کو برا بھلا کہے اور گالیاں دے تو سمجھ جائیے کہ آپ نے کوئي بڑا کارنامہ انجام دیا ہے یا انجام دے رہےہیں جس سے وہ چراغ پا ہو گیا ہے۔ آپ اس سے ڈرئے کہ دشمن آپ کی تعریف کرے۔ اگر دشمن نے آپ کی تعریف کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کے حق میں کوئی کام کیا ہے۔ جس قسم کے افراد کے سلسلے میں ہمارے دشمن کی، ایران کے دشمن کی خواہش ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور حکومت میں نہ رہیں ان افراد کو ضرور وہاں ہونا چاہئے کیوں کہ یہ ایران کے حق میں ہوگا۔ جس کے سلسلے میں ہمارے دشمن کی خواہش ہو کہ وہ مجریہ یا مقننہ کا حصہ بنے اسے ہرگز وہاں جگہ نہیں ملنی چاہئے کیونکہ وہ دشمن کی خواہش کے مطابق عمل کرے گا۔
صلاحیت مند نمائندہ وہ ہے جس کی اسلام دوستی، مساوات پسندی، قومی مفادات کے تئیں وفاداری اور دشمن سے بیزاری نمایاں ہو۔ اگر یہ صفات نہ ہوں تو وہ اچھا نمائندہ نہیں ہو سکتا۔ وہ ایرانی قوم کا حقیقی نمائندہ نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں جتنے بھی سیاسی حلقے ہیں معدودے چند افراد کے سوا سب کے سب اسلامی اصولوں کے پابند ہیں۔ البتہ فرق واضح ہونا ضروری ہے۔ بعض ہیں جو دشمن سے کچھ تکلفات رکھتےہیں، بعض دشمن کا خیال رکھتے ہیں، جبکہ قوم کا لحاظ و خیال سب سے ضروری ہے، اللہ تعالی کی مرضی کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے، دشمن کا خیال رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ دشمن تو دشمن ہوتا ہے، آپ جتنا اس کا خیال کریں گے اس کے سامنے پسپائی اختیار کریں گے وہ سینے پر سوار ہوتا جائے گا۔ اگر دشمن کے مقابلے میں آپ مستحکم نہیں ہیں تو وہ آپ پر حاوی ہو جائے گا۔ تو یہ بھی ایک معیار ہے ملک بھر میں عوام کو اس معیار پر توجہ رکھنی چاہئے۔
دشمن اور اس کے ایجنٹوں سے جن افراد کے فاصلے نمایاں نہیں ہیں، وہ پارلیمنٹ میں جانے کے لائق نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو دشمن سے نمایاں فاصلہ رکھتے ہوں۔ میں پہلے بھی یہ بات عرض کر چکا ہوں اور اس وقت پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ تلاش کیجئے، اللہ تعالی سے مدد مانگئے، سچے ، آگاہ اور ایماندار افراد سے مشورہ کیجئے تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ کیسے افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجنا چاہئے۔ ایسی صورت میں جو پارلیمنٹ تشکیل پائے گی وہ ایسی پارلیمنٹ ہوگی جو قوم کی امنگوں کو حقیقی معنی میں مجسم کرے گی قومی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے گی۔ الحمد للہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ تمام پارلیمانی نمائندے یا پھر کم از کم ان کی واضح کثریت ایسی ہی رہی ہے۔ انہوں نے اچھی قانونی سازی کی اور حکومت سے ان قوانین پر عملدرآمد کرایا۔ انشاء اللہ آٹھویں پارلیمان بھی ایسی پارلیمنٹ ہو نیک کاموں میں مدد کرے ایسے کام جن پر حکام، انتظامیہ اور حکومت کی توجہ مرکوز ہے۔ مدد کرے، راہیں کھولے، قوم کےمفادات میں قانون سازی کرے اور ان کی نگراں رہے۔
پارلیمنٹ کا کام قانون سازی اور نگرانی کرنا ہے۔ اچھے قوانین بنائے جانے چاہئیں تاکہ مجریہ کے ہاتھ کھلے رہیں اور وہ عوام کی خدمت کر سکے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری حکومتیں عوام کی خدمت گزار رہی ہیں، موجودہ حکومت بھی پوری تندہی سے کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف تمام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی بھی ضروری ہے، انسان کی نگرانی ضروری ہے، وہ اپنے ضمیر کی نگرانی میں بھی رہے اور قانونی نگراں اداروں کی بھی نگرانی میں رہے۔ اسے یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی نگرانی میں ہے۔ اس کو کہتے ہیں اچھا نمائندہ اور اچھی پارلیمنٹ۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ایرانی قوم کی مدد فرمائے، ہمارے عزیز عوام خواہ وہ تہران میں رہنے والے ہوں یا دیگر صوبوں سے تعلق رکھتے ہوں یا دور دراز کے گاؤں میں سکونت پذیر ہوں، انتخابات میں بھرپور جوش و خروش اور خوشنودی پروردگار کی نیت کے ساتھ شرکت کریں یہ شرکت، پہلے مرحلے میں ملت ایران کی عزت و سربلند، اور دشمنوں کی نظر میں اس قوم کی ہیبت و دبدبے کا باعث اور ساری فتنہ انگیزیوں کا راستہ مسدود ہوجائے، دوسرے مرحلے میں اس شرکت کر ذریعے قوم کے لئے مفید پارلیمنٹ کے تشکیل ہو جو انقلابی اقدار و امنگوں کے لئے ممد و معاون ہو۔ اللہ تعالی امام زمانہ علیہ السلام (ارواحنا فداہ) کی مدد ہمارے شامل حال کرے، ہمارے شہدا کی پاک ارواح اور بزرگوار امام کی روح مطہر کو جنہوں نے ملت ایران کےسامنے یہ باب وا کیا ہے پیغمبروں اور اولیائے الہی کے ساتھ محشور فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ