بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين‌المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ حقیر کو حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے روضہ اقدس کی منور فضا میں آپ محترم زوار اور مجاوروں سے ایک بار پھر ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔ میں سال نو کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہاں تشریف فرما آپ حضرات اور پوری ملت ایران کی خدمت میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
اللہ تعالی اس دنیا میں ہم بندوں کو جو مہلت دیتا ہے وہ حالانکہ بہت عظیم نعمت ہے لیکن ساتھ ہی اسی مقدار میں ہماری ذمہ داریاں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہماوی جوابدہی بھی اتنی ہی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہماری زندگی کا گزرنے والا ہر سال اور اس دنیا میں بسر ہونے والا ہر دن ہمارے دوش پر ذمہ داریوں کے بوجھ میں اضافہ کرتا ہے۔ البتہ یہ نعمت ہے لیکن دیگر نعمتوں کی مانند اس نعمت کے ساتھ بھی کچھ ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔
سال نو کے آغاز پر سب کو اس نکتے کی جانب توجہ دینی چاہئے کہ ہماری زندگی کا ہر نیا سال، ہر نیا مہینہ اور ہر نیا دن ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے آشنائي اور آگاہی کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ نوروز کی مناسبت سے میں نے ملت ایران کے نام اپنے پیغام میں بھی عرض کیا کہ یہ سال ہماری نظر میں ملک کے حکام کے لئے عوام الناس کے سامنے جوابدہی کا سال ہے۔ در حقیقت اس کا شمار اللہ تعالی کے سامنے جوابدہی میں بھی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ چیزاپنے نفس اور ضمیر کے سامنے بھی جوابدہی کے معنی میں ہے۔ جوابدہی در حقیقت کارکردگی پر نظر ڈالنا ہے۔ جس طرح ایک طالب علم تعلیمی سال کے اختتام پر اپنی کارکردگي کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے والدین بھی اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ طالب علم اپنی اچھی اور خراب کارکردگي سے آگاہ ہوتا ہے، اچھے نمبر اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں جبکہ مایوس کن نمبر اسے کمیاں دور کرنے کے لئے اکساتے ہیں۔ اچھے اور خراب نمبروں کو ملاکر پرسنٹیج نکلتا ہے اور کلاس کے تمام طلبہ کے نتائج کو ایک ساتھ رکھ کر کلاس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کلاس چلانے والے افراد طلبہ کی علمی پیشرفت کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔ دوسری طرف تمام کلاسوں کی مجموعی کارکردگي مدرسے کی کارکردگي ہوتی ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مدرسہ اچھا ہے یا نہیں؟ مدرسے کے ذمہ داران کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ مدرسہ چلانے والے افراد اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں یا نہیں؟ اسی بنیاد پر وہ آگے کے فیصلے کرتے ہیں۔
سیاسی نظاموں منجملہ اسلامی جمہوری نظام میں ہر شعبے کی کاکردگي اس کے پرسنٹیج کو واضح کرتی ہے جبکہ تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کی مجموعی کاکردگي سے نظام کی کارکردگی کو پرکھا جاتا ہے۔ نظام کے ذمہ داران خود عوام ہیں۔ ایرانی قوم اسلامی جمہوری نظام کی مالک ہے۔ آپ ہیں جو اداروں کی کارکردگي کا جائزہ لے کر اور اس بات کا اندازہ کرکے کہ انتظامیہ کس حد تک اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوئي ہے، عہدہ داروں کے سلسلے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک صحت مند نظام ہے۔ خود آئین بھی اس سلسلے میں ہماری رہنمائی اور مدد کرتا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں وعدہ الہی ہے کہ اسلامی نظام انسان کو حیات طیبہ کی سمت لے جاتا ہے، ارشاد ہوتا ہے من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ حیات طیبہ یعنی خوشگوار زندگی ۔ کسی قوم کی زندگي اسی وقت خوشگوار ہو سکتی ہے جب وہ یہ محسوس کرے کہ اس کے دنیاوی اور اخروی امور سب کے سب اس کی مصلحت کے مطابق انجام پا رہے ہیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف کی جانب گامزن ہے۔ اسے کہتے ہیں خوشگوار زندگی۔ صرف دنیا یا صرف آخرت نہیں۔ جو قومیں دنیوی زندگی میں غرق ہوکر رہ گئي ہیں اور انہوں نے اپنی دنیوی زندگی کو بہت سجا اور سنوار لیا ہے ضروری نہیں ہے کہ ان کی یہ زندگي خوشگوار بھی ہو۔ خوشگوار زندگی تو وہ ہے جس میں مادی رفاہ و آسائش کے ساتھ ساتھ عدل و مساوات، روحانیت و معنویت اور اخلاق و کردار بھی ہو اور یہ ہدف، الہی ادیان کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح صرف اخروی امور تک محدود ہو جانا بھی خوشگوار زندگی کا ضامن نہیں ہے۔ اسلام یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ ہم صرف اخروی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کے لئے خود کو وقف کر دیں اور دنیوی زندگی کا جو بھی انجام ہو۔ اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتا۔ اسلام کا کہنا یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ الہی نعمتوں اور عنایات سے مالامال رہنا چاہئے، ہاں یہ ہے کہ انسان مادی وسائل سے بہرہ مند ہوکر روحانیت و معنویت کی راہ گم نہ کر دے بلکہ صحیح سمت میں حرکت کرے۔ جب انسانی زندگی اس نہج پر چل پڑے گی تو پھر سماج میں نہ ظلم و ستم ہوگا نہ تفریق و امتیاز، نہ بے انصافی ہوگی اور نہ عدم مساوات، نہ جنگیں ہوں گی نہ برادر کشی، انسانی معاشرے میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔ انبیاء نے اسی عظیم ہدف کے لئے زحمتیں اور صعبوبتیں برداشت کیں۔ تاریخ بشر میں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندوں نے اسی ہدف کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
ہماری نظریں بہت اونچی چوٹی پر ٹکی ہوئي ہیں جو در حقیقت اس زندگي سے عبارت ہے جو انبیا اور اولیائے الہی کا ہدف رہی ہے۔ ہمارا سارا ھم و غم یہ ہونا چاہئے کہ خود کو اس بلند چوٹی کے قریب پہنچائیں۔ البتہ ابھی منزل بہت دور ہے لیکن بلندی تک رسائي بہت لذت بخش بھی ہے۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ ہمارا اسلامی نظام یہ ہدف کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ اس کا راستہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کے عہدہ داران، جیسا کہ آيہ شریفہ میں کہا گیا ہے، ایمان اور عمل صالح کی نعمت سے بہرہ مند ہوں۔ ایمان اور عمل صالح صرف اللہ تعالی کے وجود پر یقین اور نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا نہیں ہے بلکہ ایمان کے معنی ہیں اللہ تعالی کی ذات پر یقین، وعدہ الہی پر یقین، انبیاء کے ذریعے اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں تک پہنچنے والے شرعی احکام پر یقین، اپنے راستے پر یقین۔ آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ و المومنون خود پیغمبر اکرم اپنے راستے کی حقانیت پر ایمان رکھتے تھے اسی طرح مومنین بھی پیغمبر اکرم کے اتباع میں اپنے راستے کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے۔ اللہ تعالی نے ہم سے کچھ وعدے کئے ہیں۔ ان وعدوں پر ہمیں یقین کامل ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی نے صریحی طور پر فرمایا ہے کہ اوفوا بعھدی اوف بعھدکم تم مجھے سے کئے وعدے پورے کرو میں تم سے کئے ہوئے وعدے پورے کرونگا۔ آپ نے اللہ تعالی سے جو معاہدہ کیا ہے اس پر عمل کیجئے تاکہ اللہ تعالی بھی اپنے وعدے پورے کرے۔ ایک ذمہ دار انسان کے اندر جب جذبہ ایمان پیدا ہوتا ہے تو اس کے راستے کو ہموار اور دشواریوں کو اس کی نظر میں حقیر بنا دیتا ہے۔ ایمان سے اس کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ایمان اسے معمولی دنیوی خواہشات سے دور رکھتا ہے۔ اسے عام انسانوں کا مددگار، خادم اور ہمدرد بنا دیتا ہے۔ یہی ایمان اسے دشمنوں کے مقابلے میں نا قابل شکست اور مشکلات سے نمٹنے اور فرائض کی ادائگی کے سلسلے میں قدرتمند و توانا بنا دیتا ہے۔ اسلام میں سیاسی نظام کے عہدہ داروں سے جس عمل صالح کا تقاضا کیا گيا ہے وہ دینی برتاؤ ہے۔ دینی برتاؤ یعنی معاشرے میں انصاف و مساوات کا قیام اور عوام کی خدمت ہے۔ اسلام میں انسانوں کی خدمت پر خواہ وہ غیر مومن ہی کیوں نہ ہوں خاص توجہ دی گئي ہے۔ اسلام میں بڑی وسیع النظری اور فراخدلی سے کام لیا گیا ہے۔ خدمت، امتیاز و تفریق سے پرہیز، قومی سرمائے کے ضیاع سے گریز، عوام کے حقوق کی پامالی سے اجتناب، اختیارات کے غلط استعمال سے دوری (دینی برتاؤ کے مصداق ہیں)۔ عہدے پر فائز ہونے سے اگر عزت و وقار اور اختیارات ملے ہیں تو یہ وقار و اختیارات در حقیقت عوام سے متعلق ہیں بالکل بیت المال کی طرح۔ جس طرح ایک عہدہ دار کے لئے جس کےپاس قومی خزانے کی چابھی ہے، قومی سرمائے کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں اسی طرح اسے ان اختیارات سے ذاتی مفاد اور اغراض کے لئے فائدہ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہے جو اسے عہدے کے ساتھ ملے ہیں۔ سخت کوشش اور مجاہدانہ سعی، یعنی علم و دانش، فہم و فراست، مہارت و تجربہ اور تمام وسائل کومنظم طریقے سے بروی کار لاکر اسلامی نظام کی امنگوں اور اہداف کی جانب پیش قدمی، دینی برتاؤ اور دینی روش ہے۔ اگر کوئي عہدہ دار ہے جو بہت مقدس بھی ہے، اپنے اختیارات اور صلاحیتوں کو بڑے کاموں اور اہداف کے لئے استعمال نہ کرے تو اس کی دینی زندگی مکمل نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں یہ چیزیں بڑی کثرت سے ملتی ہیں، قرآن و احادیث میں جگہ جگہ یہ چیزیں آپ کو نظر آئيں گی۔ دیندار عہدہ دار وہ ہے جو اپنی زندگی میں ان اصولوں اور ضوابط کی مکمل پابندی کرے۔ اگر اسلامی جمہوری نظام کے حکام ان ضوابط کے پابند رہیں تو یہ نظام روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔ میرا ذاتی طور پر یہ عقیدہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام اپنے پچیس سالہ تجربے کے سہارے پورے اطمینان اور ایقان کے ساتھ اپنے راستے پر رواں دواں رہ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہر سطح کے حکام اپنے فریم ورک کو منظم کریں، خوبیوں اور کمیوں کا جائزہ لیں اس کے بعد عوام کو جو اس انقلاب کے والی و مالک اور اسلامی نظام کے شیئر ہولڈر ہیں امور سے مطلع کیا جائے۔ مجریہ سے متعلق مختلف اداروں کو چاہئے کہ اپنی کارکردگی کو پوری تفصیلات کےساتھ عوام کے سامنے رکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس صورت میں عوام خوش ہوں گے کیونکہ کارکردگی بہت اچھی اور درخشاں ہے۔ عدلیہ بھی اپنی کارکردگی پیش کرے، اس کی صورتحال یقینا اچھی ہوگی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کارکردگي میں کچھ کمیاں بھی ہوں گی۔ خود عہدہ داروں کو چاہئے کہ اپنے اپنے ادارے کی کمیوں کا جائزہ لیں اور کمیاں دور کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ یہ انقلابی اصلاحات ہیں، میں نے دو تین سال قبل تہران کی نماز جمعہ میں قوم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ہر نظام کے لئے اصلاحات لازمی ہیں۔ اصلاحات ہر معاشرے کی بنیادی ترین ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کا مطلب یہ ہے کہ خوبیوں اور کمیوں کی فہرست تیار کی جائے اور کمیوں کو خوبیوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے انقلاب نے پہلا قدم اٹھایا اور کامیابی بھی ملی۔ ان پچیس برسوں میں انقلاب کے مخلص افراد نے مختلف اداروں میں اصلاحات کے لئے بھرپور کوششیں کی ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ انقلابی اصلاحات ہیں۔ یہ اسلامی اصلاحات ہیں۔ دشمن کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ اس نظام کے ڈھانچے کو ہی ختم کر دینا چاہتا ہے۔ دشمن کی نظر میں اصلاحات کے معنی نظام کی تبدیلی، اسلامی جمہوری نظام کو ایک ایسے نظام میں تبدیل کر دینا ہے جو سامراجی طاقتوں کے آگے سربسجود ہو۔ حقیقی اصلاحات ہر شعبے کے لئے ضروری ہیں۔ کوئي بھی شعبہ اور ادارہ خود کہ تنقید سے ما ورا اور عیوب و نقائص سے پاک نہ سمجھے۔ ملک کے تمار اداروں پر صحتمند اورمنصفانہ تنقید کی جائے اور سارے افراد نظام اسلامی کے اہداف کے تناظر میں اپنے اوپر اصلاحات کا نفاذ کریں۔ حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر اہم ادارے جن کے دوش پر بڑی ذمہ داریاں ہیں، سب پر یہ قاعدہ نافذ ہوتا ہے۔ تنقید، اصلاح اور جوابدہی یہ در حقیقت اسلام کے مد نظر نظام کی اصلاح کی حقیقی شکل ہے ان ارید الا الاصلاح ما استطعت یہ پیغمبروں نے فرمایا ہے۔ پیغمبران الہی کا سارا ھم و غم یہ تھا کہ اصلاح کریں یعنی ملک سے فساد اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کر دیں ۔ حقیقی اصلاح یہ ہے۔
جوابدہی حقیقی معنی میں انجام پاني چاہئے۔ ثقافتی ادارے خواہ وہ انتظامیہ سے مربوط ہوں یا انتظامیہ کے ما تحت نہ ہوں مثلا آئی آر آئي بی، یہ تفصیلات پیش کریں کہ دشمنوں کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں انہوں نے اسلامی و انقلاب ثقافت کی بارآوری و سربلندی اور ترویج کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ اقتصادی شعبے سے وابستہ ادارے بھی واضح کریں کہ انہوں نے ملک کے اقتصاد اور معیشت کو بارآور بنانے، طبقاتی فاصلہ کم کرنے، غربت و محرومی کے خاتمے اوراستعداد و وسائل سے مالامال ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے کیا کوششیں کی ہیں۔ علمی شعبے بھی جو یونیورسٹیوں کے چانسلروں اور دینی تعلیمی مراکز کے زعماء کی رہنمائي میں کام کر رہے ہیں، بتائیں کہ نئے نظریات اور علمی تحقیقات کے سلسلے میں کیا کامیابیاں حاصل ہوئي ہیں، کتنی پیشرفت ہوئي اور کیا کچھ کیا جانا باقی ہے۔ صنعتی اور زرعی شعبے بھی وضاحت کریں۔ عدلیہ بتائے کہ مظلوموں کو انصاف دلانے اور ان میں یہ احساس جگانے کے سلسلے میں کہ عدلیہ ان کی پناہ گاہ ہے کیا کوششیں ہوئی ہیں۔ مقننہ، جس کے دوش پر قانون سازی اور نگرانی کے دو اہم ترین فرائض ہیں واضح کرے کہ ملک کی حقیقی اصلاح کا راستہ ہموار کرنے والے قانون کی تدوین اور منظوری کے سلسلے میں اس نے کیا کوششیں کی ہیں۔ پارلیمنٹ میں جانے والے عوامی نمایندوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ عوام نے جس دانشمندی، اور احساس ذمہ داری کا حالیہ انتخابات میں ثبوت دیا ہے وہ نمایندوں سے عقد اخوت کے لئے نہیں تھا، عوام اپنے نمایندوں سے کام، اہم منصوبوں، بل اور قرارداد میں شرکت اور خلاقیت کے مظاہرے کی توقع رکھتے ہیں۔ حکومت، پارلیمنٹ یا دوسرے جس ادارے میں بھی عوام کے نمایندے ہیں، عوام کو ان سے توقع یہ ہے کہ اپنی بھرپور کوششوں سے عوام کو وہ چیزیں مہیا کرائیں جو ان کے مفاد میں اور ساتھ ہی اسلامی اہداف کے دائرے میں ہے۔
آخر میں میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ در حقیقت میری نظر میں تو ایک اہم فریضہ ہے۔ عہدہ داروں کا بھی اور عوام کا بھی۔ میرے خیال میں دانشمندی اور ہوشیاری اور احساس کی بیداری اہم فریضہ ہے۔ تباہ کن مخاصمتوں کو چھوڑ کر منفی رقابت کو مثبت اور تعمیری رقابت میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ اسلامی نظام کے ثبات و استحکام کی قدر کریں۔ دوستو! ملک کا استحکام اور اسلامی نظام کا ثبات بہت سنہری موقع ہے جو ملت ایران اور حکام کو ملا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ملک میں استحکام نہ رہے کیونکہ عدم استحکام سے دوچار ملک میں ثقافتی،علمی یا اقتصادی کوئي بھی کام انجام نہیں دیا جا سکتا، قوم کا دفاع نہیں کیا جا سکتا، دنیا میں قوم کی عزت کی حفاظت نہیں کی جا سکتی۔ یہ استحکام جو اس وقت ہمارے ملک میں ہے ملت ایران کی توانائيوں کے طفیل میں گوناگوں مراحل پر استوار ہے۔ آپ جلوسوں میں جو شرکت کرتے ہیں، دشمن کی کوششوں اور اغیار کے تشہیراتی حربوں کو ناکام بناتے ہوئے انتخابات میں جو شرکت کرتے ہیں یہ قومی طاقت کا مظاہرہ ہے اور یہ قومی طاقت ملک کے ثبات اور اسلامی نظام کے استحکام کی بنیاد ہے۔ دنیا کی سامراجی طاقتیں ہرگز نہیں چاہتیں کہ ہمارے ملک میں استحکام رہے۔ وہ ملک میں خلفشار دیکھنا چاہتی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آشوب اور خلفشار پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جیسا کہ ماضی میں بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ سن دو ہزار تین میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے تمام انٹیلیجنس ادارے مل کر ایران میں آشوب اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن عوام کی دانشمندی اور خدمت گزار حکام کی کوششوں سے تمام سازشیں ناکام ہو گئیں۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ دشمن کبھی بھی اپنی دشمنی بند نہیں کرے گا۔ یہ کام وہ اسی وقت کرے گا جب اسے یقین ہو جائے کہ دشمنی کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں کی نظر میں آج ملت ایران وہ ملت ہے جو بر وقت اور بر محل ہر وہ اقدام کرتی ہے جو قومی قوت و اقتدار کا مظہر ہے۔ اس سے وہ واقف ہو چکی ہیں۔ آپ کی یہی ہوشیاری و آگاہی و آمادگی، دشمن کے منصوبوں اور سازشوں کو ناکام بناتی رہی ہے۔ دشمن نے کچھ خواب دیکھے تھے کچھ سازشیں رچی تھیں لیکن آپ کی دانشمندی نے سازشوں کو نقش بر آب کر دیا۔ ملت ایران کے دشمن، جو ملک میں فتنہ و فساد اور برادر کشی برپا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، عوام او حکام میں اختلافات پیدا کرنا چاہتے تھے، آچ بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں۔ عراق اور فلسطین میں بھی ان کا یہی انجام ہوا ہے۔ ملت فلسطین کی جد و جہد نے انہیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ پچھلے سال یہ لوگ اس خام خیالی میں تھے کہ عراق پر قبضہ کرلیں گے اور عراق ان کے لئے تر نوالہ ثابت ہوگا لیکن آج عراق کے مسائل نے انہیں دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ وہ بے بس و لاچار ہو گئے ہیں۔ دشمن ان مسائل میں پھنس جانے کی وجہ سے ممکن ہے احمقانہ فیصلے کرے لیکن حریت پسند ملت ایران کے خلاف ان کے ہر فیصلے اور سازش کا انجام شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ ہماری قوم بیدار ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہماری زندگی و موت پر اپنے لطف و کرم اور عنایتوں کا سایہ کر۔ حیات طیبہ کو ملت ایران کا مقدر کر دے۔ پروردگارا! ملت ایران کو روز بروز بلند اہداف سے نزیک کر۔ اسلامی نظام کے مخلص و دلسوز حکام پر اپنی مدد و ہدایت اور لطف و کرم کا سایہ رکھ۔ خدایا! ہمارے دلوں کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کر۔ پروردگارا! ملت ایران کے دشمنوں اور ان کی دشمنانہ حرکتوں کو ناکام بنا۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود و راضی رکھ۔ آپ کی پاکیزہ دعاؤں کو ہم سب کے شامل حال کر۔ خدایا ہمارے عزیز شہدا پر اپنے لطف و کرم کا سایہ کر۔ امام (خمینی رہ) کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ