ان دونوں مایہ ناز انقلابی شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ملک میں دو شہریور سے آٹھ شہریور تک ہفتہ حکومت منایا جاتا ہے جس میں حکومت اپنی گزشتہ کارکردگی اور آئندہ حکمت عملی کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے تیئيس اگست سن دو ہزار آٹھ کو صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے اراکین نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی اور صدر مملکت نے مختلف شعبوں میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی تفصیلات پیش کیں۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے کابینہ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی خصوصیات پر روشنی ڈالی اور متعدد امور میں گراں قدر ہدایات دیں۔ تفصیلی خطاب درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی کی بارگاہ میں میری التجا ہے کہ ہماری رفتار و گفتار اور تمام اعمال کو اپنے لطف و کرم سے ایسا بنا دے جو اس کی رضا و خوشنودی کا باعث بنیں۔
سب سے پہلے تو ہم تمام عزیز بھائی بہنوں اور مختلف انتظامی سطح پر مصروف کار زحمت کش حکام و عہدہ داروں کو ہفتہ حکومت کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور درود و سلام بھیجتے ہیں ان شہدا پر جن کے ناموں سے ہفتہ حکومت آراستہ و مزین ہے۔ ہفتہ حکومت میں شہید رجائی اور شہید با ہنر کو جو علم و عمل کے حقیقی مظہر تھے، یاد کرنا بڑی قابل قدر چیز ہے۔ یہ ایک علامتی اور نہایت اہم عمل ہے۔ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ہم اگر آج ملک کے مختلف شعبوں میں الگ الگ عہدوں پر فائز ہیں تو سماجی زندگی میں بھی ہماری نظر ان صفات اور اقدار پر مرکوز رہنی چاہئیں جن کی وجہ سے یہ دونوں شخصیتیں لا فانی بن گئیں۔
میں حکومت سے وابستہ تمام افراد، صدر محترم، وزرا، اعلی عہدہ داروں اور مختلف سطح کے عملی سربراہوں کی قدردانی کرتا ہوں۔ اس لئے کہ آپ سعی و کوشش میں مصروف ہیں، صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، ہمدردانہ انداز میں کام اور عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ خدا وند عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آپ کو اخروی اجر و ثواب بھی حاصل ہو اور آپ دنوی اجر و ثواب سے بھی بہرہ مند ہوں۔ آپ کا دنیوی اجر و ثواب آپ کی محنتوں کے وہ نتائج ہیں جو عوام کی زندگی میں منعکس ہوتے ہیں اور جسے عوام محسوس بھی کرتے ہیں۔ خدمت کی اس فضا میں انشاء اللہ عوام کی زندگی خوشیوں سے سرشار ہوگی۔
میں آپ عزیزوں سے گذارش کروں گا کہ عوام کی خدمت کے لئے ملنے والے موقع کی قدر کیجئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ کسی انسان کو عوام کی خدمت کا موقع ملے اور اس کے لئے اسے آزادی عمل حاصل ہو۔ کسی بھی شعبے میں عوام کی خدمت اور قوم کے اعلی اہداف کے لئے سعی و کوشش کا موقع بہت بڑی نعمت ہے۔ صدیوں سے ہم بہت سے ایسے اچھے کام تھے جنہیں انجام دینا چاہتے تھے لیکن اس کے لئے ہمارے ہاتھ کھلے نہیں تھے۔ لیکن آج آپ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں لہذا آپ کو چاہئے کہ اس کی قدر کریں اور اللہ تعالی کا شکر بجا لائیں۔ اپنی توفیقات میں اضافے کی دعا کریں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کریں کہ وہ آپ کو عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کا موقع دے اور آپ اس کے لئے اپنے اختیارات کا بخوبی استعمال کریں۔ خوشی کا مقام ہے کہ اس وقت مبارک ایام چل رہے ہیں، ماہ شعبان کے با برکت ایام ہیں اور رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، ضیافت الہی کا دسترخوان بچھنے کو ہے۔ ہمیں اس مہمانی سے بھرپور استفاد کرنا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ خود سازی کریں اور روحانیت و معنویت پر اپنی توجہ بڑھائیں اس سے ہمیں بڑی مدد ملے گی۔
صدر محترم نے جو رپورٹ پیش کی وہ بہت اچھی اور اطمینان بخش تھی۔ میں چاہوں گا کہ یہ رپورٹ من و عن عوام کے سامنے آئے تاکہ عوام بھی اور دانشور طبقہ بھی اس سے بخوبی آگاہ ہو سکیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو ہماری زندگی میں موجود ہیں لیکن عوام ان سے بخوبی آگاہ نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جو کام کرتے ہیں اس لئے مرضی پروردگار ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے لیکن عوام کو جملہ امور اور کوششوں سے با خبر رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا ہدف ہے۔ میں پہلے بھی سفارش کر چکا ہوں اور اب ایک بار پھر اس پر تاکید کرتا ہوں۔
موجودہ حکومت کی چند برجستہ خصوصیات ہیں جن کی جانب میں اشارہ کرنا چاہوں گا۔ البتہ یہ چیزیں اس سے قبل بھی بیان کی جا چکی ہیں لیکن بہتر ہوگا کہ آپ خود بھی اپنی ان خصوصیات کے بارے میں سن لیں۔ عہدہ و مقام اور شہرت سے انسان کو تشخص نہیں ملتا، حقیقی تشخص اور شرف تو کچھ اور ہے جیسا کی روایتوں میں بھی ہے کہ اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل اسلامی نظام میں با شرف افراد وہ ہیں جو اللہ تعالی کے لئے راتوں کو جاگتے ہیں اور رات کی تاریکیوں میں عوام کے لئے دشوار اور طاقت فرسا کام انجام دیتے ہیں۔ با شرف افراد وہ ہیں جو قرآنی زیور سے آراستہ ہیں، قرآن سے مانوس ہیں اور جو قرآن کی روشنی میں راستہ طے کرتے ہیں۔ اسلامی نظام کے رؤسا یہ ہیں۔ جن کے پاس دولت و ثروت ہے، جنہیں بڑی شہرت حاصل ہے وہ اسلامی نظام میں رؤسا کی صف میں شامل نہیں ہیں۔ اعلی حکام کی خصوصیات بھی یہی ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو واقعی اہمیت کی حامل ہیں اور اعلی صفات میں شمار کی جاتی ہیں ان پر توجہ دی جانی چاہئے۔
موجودہ حکومت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ حقیقی معنی میں زحمت کش عہدہ داروں پر استوار ہے۔ یہ کام کرنے اور جرئت عمل کا مظاہرہ کرنے والی حکومت ہے۔ اس حکومت میں کام کی انجام دہی کا جو جوش و خروش ہے وہ بالکل نمایاں ہیں۔ آپ لوگوں نے حکومت کی تشکیل کے پہلے سال سے اسی انداز سے اپنا سفر شروع کیا اور اب تین سال گزر جانے کے بعد بھی اس حکومت کی محنت و تندہی اور سعی و کوشش با قاعدہ نمایاں ہے۔ اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ عوام کی خدمت کی لگن بالکل واضح ہے۔ شہروں اور قصبوں میں جانا ملک کے گوشے گوشے کا سفر کرنا اور کسی بھی علاقے کو نظر انداز نہ ہونے دینا، یہ سب بڑی خصوصیات ہیں۔ یہ قابل قدر خصوصیات ہیں۔ انشاء اللہ خدا وند عالم کی توفیقات بھی آپ کے شامل حال ہوں گی اور وہ آپ کو جزائے نیک عطا کرے گا۔
اس حکومت کی دوسری بڑی خصوصیت، اس کا ایجنڈا اور بنیادی اصول ہیں جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور اسلامی انقلاب کے نعروں اور اصولوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ یہ بہت با ارزش چیز ہے۔ اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انقلاب سے قلبی لگاؤ رکھنے والا ہر شخص اس کی قدر کرتا ہے۔ جو شخص بھی اسلامی انقلاب کے زیر سایہ ملک کی ترقی میں یقین رکھتا ہے اسے اس کی قدر کرنا چاہئے۔ اس حکومت میں عدل و مساوات کا جذبہ بہت نمایاں ہے۔ حکومت کے عہدہ داروں اور ان کے منصوبوں میں عدل و مساوات کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ سامراج کی مخالفت کا جذبہ، خاص انقلابی انداز میں اس حکومت میں نمایاں ہے۔ سامراج کی مخالفت کا مطلب حکومتوں سے دشمنی مول لینا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب سامراج کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ کسی بھی ملک اور حکومت کی جانب سے سامنے آنے والا سامراجی رویہ اور طرز عمل پوری انسانیت کے لئے بہت بڑی بلا و مصیبت ہے۔ اس وقت امریکہ اور صیہونی حکومت سامراج کے مظہر ہیں لیکن کہیں کوئی اور حکومت بھی اگر کسی قوم کے سلسلے میں سامراجی رویہ اختیار کرتی ہے تو وہ بھی انسانی معاشرے کے لئے ایک بڑی افتاد اور مصیبت ثابت ہوگی۔ اس لعنت کا مقابلہ کرنا پسندیدہ اسلامی اقدام ہے، موجودہ حکومت میں یہ صفت بھی موجود ہے جو صاف طور پر نظر بھی آتی ہے۔
قومی وقار کا احیا، سامراجی و تسلط پسندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں دفاعی پوزیشن سے باہر نجات حاصل کرنا، مغرب کے رعب میں نہ آنا اور مغرب نوازی سے دوری بھی اس حکومت کی اہم خصوصیت ہے۔ قومی وقار اور حقیقی خود مختاری اسی راستے پر چل کرحاصل ہو سکتی ہے۔ خود مختاری یہ نہیں ہے کہ انسان اس کے بلند بانگ نعرے لگائے اور اقتصادی شعبے میں ایک حد تک ترقی کر لے جائے۔ یہ حقیقی خود مختاری نہیں ہے۔ حقیقی خود مختاری یہ ہےکہ قوم اپنے تشخص اور قومی وقار پر یقین کامل رکھے اور اس کی حفاظت کے لئے جی توڑ محنت کرے اور اس سلسلے میں دوسروں کے استہزا و تمسخر سے قطعی متاثر نہ ہو۔
قومی وقار کے دفاع کا ایک ثبوت ایٹمی توانائی کا مسئلہ بھی ہے۔ ایٹمی توانائی کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم ایٹمی توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اغیار اس کےخلاف ہیں۔ یہ تو اس مسئلے کا ظاہری پہلو ہے۔ مسئلے کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ دریدہ دہن، جارح اور تسلط پسند طاقتیں اور ان کے فرومایہ حاشیہ بردار اس میدان میں ملت ایران پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے تھے لیکن ملت ایران، صدر محترم اور حکومت نے پائیداری و استقامت کا ثبوت دیا اور اللہ تعالی نے بھی ان کی مدد کی۔ یہ اس حکومت کی وہ خصوصیات ہیں جو میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔
اس حکومت نے مغرب نوازی کے جذبے کو لگام لگائی جو واقعی قابل ستائش اقدام ہے۔ ممکن ہے معاشرے میں بعض افراد کسی ملک اور کسی تہذیب کے دلدادہ ہوں لیکن اگر یہ جذبہ ارباب انقلاب اور اعلی عہدہ داروں میں سرایت کر جائے تو بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔
انقلابی نظام، دین اسلام اور قرآن کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور اسی ماہیت کی وجہ سے اسے قوم کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی اور عوام نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پر خطر راستوں پر قدم بڑھائے۔
اس حکومت میں اسی طرح بڑی تبدیلیاں لانے کی جرئت و ہمت ہے، یہ حکومت اصلاحات کے لئے جرئتمندانہ انداز میں اقدام کرتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت کے سارے اقدامات سو فیصد درست ہیں۔ ممکن ہے ان میں کہیں کوئی کمی بھی ہو لیکن مشکلات اور دشواریوں کے سامنے دلیرانہ انداز میں اقدام کرنا بجائے خود بہت اہم ہے۔
بد عنوانیوں سے مقابلے کی جرئت اور اس سلسلے میں اقدام بہت دشوار کام ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بد عنوانی کے اس عفریت کا قلع قمع کرنا آسان نہیں ہے، یہ بہت دشوار کام ہے۔ ہمارا یہ دعوی نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ ہو چکا ہے، جی نہیں یہ عفریت اب بھی موجود ہے لیکن بہرحال اس کے خلاف اقدام کی جرئت تو سامنے آئی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ جب حکومت میں شامل افراد کا دامن پاک ہوگا تو ان میں اقدام کی بھرپور جرئت ہوگی۔
عالمی تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں جارحانہ انداز (بھی موجودہ حکومت کی خصوصیات میں شامل ہے) ایک صورت یہ ہے کہ بڑی طاقتیں پیشانی پر بل لاکر ہم سے کوئی سوال کرتی ہیں اور ہم صفائی دیتے ہیں جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ عالمی طاقتیں جارحانہ انداز اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسی صورت میں جواب بھی جارحانہ ہونا چاہئے۔ عالمی طاقتوں کی کمزوریاں کم نہیں ہیں۔ وہ جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں، بد عنوانیوں میں ملوث ہیں، انسانی حقوق کی پائمالی ان کا شیوہ ہے، قوموں کے حقوق ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ وہ ہر برا کام کر رہی ہیں اور اوپر سے سینہ زوری بھی کرتی ہیں۔ ایسے میں ان سے انہیں کی زبان میں بات کرنا اور ان کے عیوب سے انہیں آگاہ کرنا چاہئے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ تو چڑھی چلی آئیں اور ہم صفائی ہی دیتے رہیں۔ ایک دفعہ ایسے ہی کسی مسئلے میں مجھ سے سوال کیا گيا کہ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ میں نے کہا ہمیں جواب نہیں دینا ہے ہم تو خود مدعی ہیں۔ خواتین کے مسئلے میں ہمیں ان پر اعتراض ہے۔ انسانی حقوق کے سلسلے میں ہم ان سے شاکی ہیں۔ انسانوں کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں ہم مدعی ہیں۔ تو جواب ہمیں نہیں انہیں دینا ہے۔ ان کو سوال کا حق کہاں سے مل گیا؟! یہ تو زیادتی ہوگی کہ وہ سوال بھی کریں۔ عالمی طاقتوں کے مقابلے میں یہی طرز عمل مناسب ہے، یہ انقلابی جذبہ اور طرز عمل ہے۔ اس سے بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں۔
موجودہ حکومت کی ایک اور خصوصیت جذبہ انکسار اور عوام دوستی ہے۔ یہ بھی بہت اہم اور قابل قدر خصوصیت ہے۔ آپ کی بڑائی آپ کی ظاہری شکل و صورت سے نہیں بلکہ اس سے ہے کہ آپ خود کو عوام الناس کی سطح پر رکھیں۔ عوام کے درمیان اور انہیں کے مانند زندگی بسر کریں۔ عوام سے آپ کا رابطہ برقرار رہے اور آپ ان کا جز بن کر رہ جائيں۔ یہ بہت بڑی خصوصیت ہے جو آپ میں موجود ہے اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
قناعت پسندانہ زندگی بالخصوص صدرمحترم کے یہاں بہت نمایاں ہے۔ یہ صفت دیگر حکام میں بھی کم و بیش موجود ہے۔ سادہ زندگی گزارنا بہت با ارزش صفت ہے۔ اگر ہم معاشرے سے اسراف و فضول خرچی اور رئيسانہ تعیش کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو زبانی جمع خرچ سے یہ ہدف حاصل ہونے والا نہیں ہے کہ ایک طرف تو ہم بڑی بڑی باتیں کریں اور دوسری طرف عوام مشاہدہ کریں کہ ہمارا عمل تو کچھ اور ہی ہے۔ تو ہمیں عملی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارا فعل ہمارے قول کی تصدیق کرنے والا ہونا چاہئے تب جاکر کہیں ہماری بات میں اثر پیدا ہوگا۔ خوش قسمتی سے یہ چیزیں آج نظر آ رہی ہیں۔ آپ نے معاشرے کے کمزور طبقوں سے اپنا فاصلہ بہت کم کر لیا ہے اور اسے ختم کرنے کی آپ کی کوششیں جاری ہیں۔ تو یہ تین صفتیں اور خصوصیتیں آپ میں موجود ہیں۔
من لم يشكر المخلوق لم يشكر الخالق (جو مخلوق کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر گزار بندہ نہیں ہوسکتا) یہ میرا اور تمام لوگوں کا فرض ہے۔ اگر ہم موجودہ حکومت کی ان خصوصیات کی نا قدری کریں گے تو اللہ تعالی ہمارے عمل سے خوش نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ لوگوں کے اچھے کاموں کا شکریہ ادا کیا جائے ان کی قدر کی جائے۔ میرا بھی فرض ہے کہ قدردانی کروں اور یہی وجہ ہے کہ ان خصوصیات کی بنا پر میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ البتہ یہ حمایت صرف اسی حکومت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ میں ہمیشہ حکومتوں کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ امام (خمینی رہ) بھی متعدد مواقع پر حکومت اور اعلی حکومتی عہدہ داروں کی حمایت کرتے تھے۔ اس کی وجہ بھی معقول ہے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے کی بنیادی ذمہ داری مجریہ کے دوش پرہوتی ہے۔ اس لئے نظام کی جانب سے صدر محترم، حکام اور وزرا کی حمایت لازمی ہے۔ امام (خمینی رہ) بھی حمایت کرتے تھے اور میں بھی حمایت کرتا رہا ہوں لیکن اگر حکومت میں یہ خصوصیات موجود ہوں جن کا میں نے ذکر کیا تو حمایت زیادہ گرمجوشی سے ہوتی ہے۔ البتہ اس کا مطلب حکومت کے عیوب و نقائص اور کمیوں سے چشم پوشی کر لینا نہیں ہے۔ بہرحال آپ بھی انسان ہی ہیں آپ میں کچھ کمیاں بھی ہیں، بہت سے کام ایسے بھی ہوں گے جنہیں انجام دینے کی کوشش آپ نے کی ہوگی لیکن آپ کامیاب نہیں ہوئے ہوں گے۔ بہت سے ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں جن کی جانب آپ کی توجہ ہونی چاہئے تھی لیکن آپ توجہ نہیں دے سکے۔ ان امور کی جانب صدر محترم اور دیگر عہدہ داروں سے خصوصی ملاقاتوں اور اسی طرح عمومی پروگراموں میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک حکومت کی حمایت کا تعلق ہے تو یہ حمایت جاری ہے۔
یہاں پر میں چند نکات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک تو وہ مطالبات ہیں جو ہم نے کابینہ کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں ہمیشہ پیش کئے ہیں۔ میں ان مطالبات پر ایک بار پھر تاکید کروں گا۔ گزشتہ سالوں کے اجلاسوں میں ہم نے ان مطالبات کا ذکر کیا ہے، یہ بہت اہم ہیں اور ان پر مجریہ کے صف اول کے حکام کی توجہ ہونی چاہئے۔ ایک اہم مطالبہ قوانین کی پابندی اور پاسداری کا ہے۔ آپ قوانین کو اہمیت دیجئے۔ جب آئینی تناظر میں کوئی قانون اپنی منزلیں طے کر لے تو اسے حتمی شکل حاصل ہو جاتی ہے۔ اب ممکن ہے کہ اس قانون کو منظوری دینے والی ہی پارلیمنٹ یا حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات انجام پائیں جن سے وہ قانون بدل جائے، پارلیمنٹ میں جو بل آتے ہیں یا حکومت جو قراردادیں منظور کرتی ہے ان کے ذریعے ممکن ہے قانون میں تبدیلی آ جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اگر قانون میں کوئی کمی ہے تو اسے بدلنا ہی چاہئے لیکن جب تک قانون بدلا نہیں ہے اس کا احترام اور اس پر عمل ضروری ہے۔ میں اس پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا۔ مختلف شعبوں میں یہ چیز پیش آ سکتی ہے۔ ممکن ہے کسی چیز کے بارے میں آپ کو محسوس ہو کہ وہ مناسب طریقے سے قانونی مراحل سے نہیں گزری ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کہ پارلیمنٹ نے کوئی قانون منظور کرکے عمل آوری کے لئے حکومت کواس سے مطلع کر دیا ہے تو اب مجریہ کو چاہئے کہ اس قانون کا احترام کرے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اگر اس قانون میں کوئی نقص ہے تو اسے کیسے دور کیا یا متعلقہ ادارے اس قانون کو کس طرح ختم کریں، قانون جب تک قانون ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ما تحت عملے کی نگرانی بھی بہت ضروری ہے۔ آپ عزیزوں سے میری خواہش ہے کہ اعلی عہدہ دار کی حیثیت سے اپنے ما تحت عملے پر نگرانی کو خصوصی اہمیت دیجئے۔ آپ کی تیز بیں اور دور رس نگاہیں جب آپ کے محکمے میں چکراتی رہیں گی تو آپ متعلقہ امور اور کاموں کی صحیح انجام دہی کو یقینی بنا سکیں گے۔ اگر آپ سے ذرہ برابر غفلت ہوئی تو ممکن ہے کہ اسی لمحے کوئی بڑی غلطی رونما ہو جائے۔ انسانی عملہ خودکار مشین کے جیسا تو ہوتا نہیں کہ ایک بٹن دبایا اور اس نے خود بخود کام کرنا شروع کر دیا۔ انسانی عملہ میں ارادے، فکر و نظر، ذوق اور اچھی بری خواہشات کا دخل ہوتا ہے۔ آپ نے غور و فکر کے بعد کسی کام کے سلسلے میں فیصلہ کیا جو آپ کے عملے کے ذریعے انجام دیا جانا ہے۔ ممکن ہے کسی منزل پر پہنچ کر اس کام کے سلسلے میں فکر و نظر اور خواہش و ارادے کی شکل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے اور وہ کام متوقف ہو جائے۔ جیسے پانی کے بہاؤ کے سامنے کوئي جٹان آ جائے تو بہاؤ رک جاتا ہے۔ ایسی صورت میں رکاوٹ دور کی جانی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب نظارت و نگرانی ہو۔
خود صدر محترم بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں البتہ وزرا کے کام پر صدر محترم کی نگرانی میں یہ ضروری ہے کہ وزرا کی آزادی عمل اور ان کے اختیارات سے کوئی تضاد اور ٹکراؤ پیدا نہ ہونے پائے۔ چونکہ وزرا کے دوش پر آئینی فرائض ہیں اور انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے اس لئے ان کی آزادی عمل ضروری ہے لیکن اس کے باوجود وزرا کے کاموں پر بھی نگرانی ضروری ہے۔ صدر کو چاہئے کہ ان کی آزادی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ان کے کاموں کی نگرانی کرے۔
مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ بھرپور تعاون بھی مجریہ کے لئے میری اہم سفارشوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک لازمی امر ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ممکن ہے اس راہ میں دشواریاں بھی پیش آئيں لیکن صبرو ضبط کے ساتھ ان کا سامنا کرنا ہوگا۔
اسی طرح اہل نظر اور مفکرین سے رابطہ بھی ضروری ہے چاہے ان کا تعلق مخالفین کی صف سے ہی کیوں نہ ہو۔ معاشرے کی علمی شخصیات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق میرا کہنا ہے کہ اگر علمی شخصیات اور عوام الناس کے آرا میں تضاد پیدا ہو جائے تو عوام الناس کی رای اور مرضی کو ترجیح دینا چاہئے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے گورنر مالک اشتر کے نام اپنے خط میں اس نکتے کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہی نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی برجستہ شخصیات کے اصلاحی نظرئے سے استفادہ ضروری ہو جاتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ خبر رسانی کا ہے جس پر میں بارہا تاکید کر چکا ہوں۔(کابینہ کے صوبائی) سفر کے سلسلے میں خبر رسانی کا عمل بحسن و خوبی انجام پا رہا ہے لیکن اب بھی یہ اطمینان بخش سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ کاموں کی تفصیلات ماہرانہ انداز میں پیش کی جانی چاہئیں۔
میری ایک اور سفارش سائنس و ٹکنالوجی کے سلسلے میں ہے۔ اس میدان میں جو محکمہ قائم کیا گیا ہے وہ واقعی بہت اہم خدمات انجام دے رہا ہے تاہم اس شعبے پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ بڑا بنیادی شعبہ ہے۔ اگر ہم نے اس بنیاد اور اساس کو مضبوط کر لیا تو بہت سے دیگر امور کو اس کے سہارے بآسانی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
ثقافتی امور پر بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں بھی بہت سے اہم کام انجام پائے ہیں اور ان کی رپورٹ مجھے پیش کی گئی ہے جبکہ بہت سے اہم اقدامات سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں، لیکن ثقافت کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ یہ اس فضا کی مانند ہے جس میں انسان سانس لیتا ہے۔ ہر فرد، ہر عہدہ دار اور ہر عام انسان سانس لیتا ہے۔ فضا صاف و شفاف ہونی چاہئے تاکہ تنفس کا عمل بآسانی انجام پائے۔
اپنے اوپر ہونے والی تنقیدوں پر بھی توجہ کیجئے۔ البتہ تنقید اور تخریب میں فرق ہے۔ بد قسمتی سے بعض افراد غیر تعمیری رویہ اختیار کرتے ہیں اور اسے تنقید کا نام دے دیتے ہیں۔ لیکن جب جذبہ ہمدردی کے ساتھ کوئی مثبت باتوں کے ساتھ ساتھ نقائص کا ذکر کرے تو سعہ صدر کا ثبوت دیتے ہوئے اسے سننا چاہئے۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر تنقید کو من و عن قبول کر لیا کیونکہ ممکن ہے کہ خود نقاد سے بھی غلطی ہو جائے۔ ہاں اس کی بات غور سے سنئے اور جو تعمیری تنقید اور مشورہ ہے اسے نظر انداز نہ ہونے دیجئے۔ میں یہ باتیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ اس وقت یاد دہانی کے طور پر دہرا رہا ہوں۔
آپ کے دور حکومت کے اس آخری سال کے تعلق سے بھی میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک تو یہ کہ اس آخری سال میں بھی آپ سال اول کے جذبے کے ساتھ کام کیجئے۔ ویسے مجھے تو وہی جذبہ نظر آ رہا ہے تاہم اس کے باوجود میں اس پر تاکید کرنا چاہوں گا کہ آپ ہرگز یہ نہ سوچئے کہ اب تو موجودہ دور کا آخری سال ہے۔ بلکہ آپ اس انداز سے کام کیجئے کہ گویا مزید پانچ سال آپ کو کام کرنا ہے یعنی آپ اس آخری سال اور آئندہ چار سالہ دور حکومت کو بھی اپنی حکومت اور نظم و نسق کا دور تصور کرتے ہوئے کام کیجئے۔ اس نقطہ نظر کے ساتھ کام منصوبہ بندی اور اقدام کیجئے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان کاموں کو ترجیح دیجئے جو نا تمام رہ گئے ہیں۔ ہم نے اس سال کو خلاقیت و پیش رفت کے سال سے موسوم کیا ہے۔ خلاقیت سے مراد صرف نئے نئے منصوبے اور پروجیکٹ شروع کرنا نہیں ہے بلکہ خلاقیت سے مراد نئے راستے تلاش کرنا، نئی فکر و نظر پیش کرنا ہے تاکہ حکومت خواہ وہ موجودہ حکومت ہو یا آئندہ حکومت اس سے استفادہ کرے۔ خلاقیت سے مراد نئے راستے اور نئی روش متعارف کرانا ہے۔ پیش رفت کا بھی ایک مطلب یہ ہے کہ اب تک جو کارہائے نمایاں آپ نے انجام دئے ہیں اس کا ثمرہ عوام کو حاصل ہو۔ لہذا آپ ترجیج ادھورے کاموں کی تکمیل کو دیجئے۔ خواہ وہ ایسے ادھورے کام ہوں جو آپ کی حکومت نے شروع کئے ہیں یا وہ کام ہوں جو گزشتہ حکومتوں کے شروع کردہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اسی دورے میں آپ کی خدمات سے استفادہ کر سکیں۔
تیسرا نکتہ خبر رسانی اور عوام کو امور سے آگاہ رکھنے کا ہے جس کی جانب میں نے پہلے بھی اشارہ کیا۔ اس سلسلے میں اپنی سفارشات کے ذیل میں یہ عرض کرنا ہے کہ (اسلامی انقلاب کا) جو عشرہ اس وقت ہمارے سامنے ہے ترقی و مساوات کا عشرہ ہے اور آئندہ دہائي کے یہی دو اہم نعرے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب تک ہم نے ترقی نہیں کی اور مساوات کے مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ اس عشرے میں ہم برق رفتاری سے ترقی کریں اور وسیع و ہمہ گری مساوات قائم کریں۔ خوش قسمتی سے اس کے لئے راہ بھی ہموار ہے لہذا نئی دہائی میں حکام کا بنیادی ہدف ترقی اور مساوات ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ روحانیت و دانشمندی کے بغیر انصاف و مساوات ممکن نہیں ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر روحانیت و معنویت نہ ہو تو مساوات، ریاکاری میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر دانشمندی کا فقدان ہو تب تو مساوات وجود میں ہی نہیں آئے گی۔ ایسی صورت میں انسان اپنی خام خیالی میں جس چیز کو مساوات تصور کر رہا ہے، حقیقی مساوات کی جگہ وہی رائج ہو جائے گی۔ بنابریں مساوات کے لئے روحانیت اور دانشمندی لازمی شرطیں ہیں۔
دوسری طرف اگر مساوات نہ ہو تو پیشرفت کا کوئی معنی و مفہوم نہیں رہ جاتا اور ترقی کےبغیر انصاف و مساوات ممکن نہیں۔ لہذا ترقی و پیش رفت بھی ضروری ہے اور انصاف و مساوات بھی لازمی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے اور دیگر مسلم ممالک کے لئے قابل تقلید نمونہ بن جائے تو ہم سب کا بنیادی ہدف یہی ہونا چاہئے اور اس کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔
ایک اور اہم مسئلہ تعمیری و تخریبی تنقید کا ہے۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ ممکن ہے تعمیری تنقید کے نام پر تخریبی تنقید کی جائے یا ہم تعمیری تنقید کو بھی تخریبی تنقید قرار دے کر اسے مسترد کر دیں۔ لہذا ضروری ہے کہ دونوں کا فرق واضح ہو جائے۔ تعمیری تنقید وہ ہے جو کوئی ماہر شخص منصفانہ انداز میں کرتا ہے۔ مثلا کسی سونار کے سامنے سونا پیش کیا جائے اور وہ کہے کہ بیس قیراط کا سونا ہے یعنی وہ اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ یہ دھات سونا ہی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ خالص سونے یعنی چوبیس قیراط سے اس کا معیار چار قیراط کم ہے۔ تعمیری تنقید اسی طرح ہوتی ہے۔ سونار سونے کی بخوبی پہچان رکھتا ہے اور اپنی اس صلاحیت کی بنیاد پر کوئی بات کہہ رہا ہے۔ لیکن اگر اس کے بر عکس آپ سونا لیکر لوہار کے پاس جائیں اور وہ اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر کہے کہ اس کی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے تو اسے تنقید نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ ایک تو اس نے یہی ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ سونا ہے۔ حالانکہ یہ ہے سونا۔ اب ممکن ہے چوبیس قیراط کا سونا نہ لیکن بیس قیراط کا تو کم از کم ہے ہی۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسرے یہ کہ آپ تو سونار کہاں ہیں جو سونے کے بارے میں اظہار نظر فرما رہے ہیں۔ آپ کو تو اس دھات کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج حکومت پر تنقید کے نام پر جو باتیں کی جاتی ہیں تخریبی پہلو کی حامل ہیں۔ یعنی خصوصیات کا یکسر انکار، قابل تعریف کاوشوں کو نظر انداز کر دینا، کمیوں اور کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یہ تخریبی تنقید ہے۔ بہرحال کمیاں ہیں، ہر حکومت میں ہوتی ہیں۔ انسانوں میں کمیاں ہوتی ہیں۔ اب اگر کمیاں بیان کرنا ہے تو کامیابیاں اور مثبت و مفید اقدامات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ اس کی کمزوریوں اور کامیاب کوششوں کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھا جائے۔ نہ یہ کہ ایک طرف سے برائیاں گنوانے کا سلسلہ شروع ہو اور تمام خصوصیات اور اہم اقدامات کا سرے سے انکار کر دیا جائے۔ میں تین بنیادی نکات کی جانب اشارہ کروں گا، حالانکہ ان نکات کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن میں صرف تین کے بارے میں بات کروں گا۔ ایک تو حکومت کے بنیادی موقف کا نکتہ ہے، دوسرے حکومت کی فعالیت و کارکردگی کا موضوع ہے اور تیسرے حکومتی عہدہ داروں کے برتاؤ کی بحث ہے۔ پہلے حکومت کی ان تین خصوصیات کا اعتراف کیا جائے پھر اس کے ساتھ اگر بعض کمیوں کی نشاندہی کی جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس مشورے کو دل و جان سے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا مناسب ہوگا۔ یہ تو انصاف کا تقاضا نہیں ہے کہ حکومت کی تمام خوبیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے اور حتی خوبیوں کو کمزوری ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس وقت عالمی سامراج کے مقابلے میں ہم دفاعی پوزیشن سے باہر آکر بات کر رہے ہیں ، ہمارا قومی وقار اور توانائی دنیا کے سامنے جلوہ گر ہے۔ اب اگر کوئی آکر کہنے لگے کہ جناب آپ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی کیونکہ فلاں حکومت آپ سے ناراض ہے تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ اس فلاں حکومت کی ناراضگی تو فطری ہے۔ وہ دوسرے ملکوں کو تملق و خوش آمد میں مصروف دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ حکومت انقلاب سے ایران کی پسپائی چاہتی ہے۔ اگر ہم اس کے لئے تیار ہو جائیں خود کو ان کے سامنے گرا دیں تب وہ حکومتیں ہم سے بہت خوش ہو جائیں گی۔
تنقید ایک اچھی چیز ہے لیکن عیب جوئی اور منفی تنقید کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ تعمیری تنقید خدمت کا درجہ رکھتی ہے لیکن منفی تنقید خیانت ہے۔ حکومت سے خیانت نہیں بلکہ نظام اور ملک سے خیانت ہے۔ لہذا عیب جوئی اور منفی تنقید نہیں مثبت تنقید کی جانی چاہئے۔
البتہ آپ اپنے اوپر ہونے والی تنقیدوں کو فراخدلی سے سنئے۔ یعنی اگر واقعی تعمیری تنقید کی جائے تو اسے کھلے دل سے قبول کیجئے۔ میں تو کہوں گا کہ تخریبی تنقید کو بھی برداشت کیجئے۔ کیونکہ اقتدار کے آخری سال میں عموما حکومتوں پر یہ تنقیدیں ہوتی ہی ہیں۔ موجودہ حکومت کے خلاف اس وقت دو محاذ ہیں۔ ایک داخلی اور دوسرا بیرونی۔ بیرونی محاذ زیادہ توجہ طلب ہے۔ اگر آج آپ عالمی ذرائع ابلاغ کو دیکھیں، سیاسی حلقوں پر نظر دوڑائیں تو جنگ احزاب کی مانند سب کے سب اس حکومت کے خلاف متحد نظر آئیں گے۔ ان کے نشانے پر ڈاکٹر احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے وزرا نہیں بلکہ اسلامی انقلاب ہے۔ بیرونی سطح پر اس وقت یہ فضا قائم ہے۔ ہم تو ہر حربہ استعمال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے حربے ایسے ہوتے ہیں جن سے عوام واقف ہیں لیکن بہت سے حربے ایسے ہوتے ہیں جن سے خواص اور اہل نظر بھی واقف نہیں ہیں۔ جو اطلاعات ہم تک پہنچتی ہیں ان سے ہم اندازہ کرتے ہیں کہ کس طرح اس حکومت کے خلاف محاذ آرائی جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کی روش اور طور طریقہ انقلاب سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہ حکومت انقلاب کی راہ پر گامزن ہے۔ تو یہ رہا بیرونی محاذ۔ داخلی سطح پر بھی محاذ آرائي نظر آتی ہے۔ البتہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو دانستہ کسی سازش میں شریک نہیں ہیں بلکہ محض اپنی لاعلمی اور عدم واقفیت کی وجہ سے بعض باتیں کہہ جاتے ہیں۔ بعض عناصر ایسے ہیں جو معمولی مفادات کے لئے بیجا تنقید کرتے ہیں جبکہ بعض عناصر ایسے بھی ہیں جو اسلامی نظام کے وجود پر معترض ہیں۔ جو انقلاب کو ہی نہیں مانتے۔ اسی بنا پر وہ فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور سفارش یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اعتراض کا موقع نہ دیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض اوقات آپ لوگوں سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں جن سے اعتراض کا موقع ملتا ہے تو آپ اس سے بچنے کی کوشش کیجیئے۔ کہا گیا ہے کہ اتقوا من مواضع التھم ایسی جگہوں سے دور رہو جن سے نزدیک ہونے کی صورت میں مورد الزام قرار پانے کا اندیشہ ہو۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سے اور آپ سے راضی و خوشنود رہے، ہماری مدد فرمائے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے خوش رکھے۔ ہمیں اس نظام کا حقیقی خدمت گزار بنائے، عوام کا خدمت گزار بنائے اور اپنی بارگاہ میں ہمیں سرخرو فرمائے۔ یہ چار دن کی زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے ساتھ پہلے اجلاس میں میں نے عرض کیا تھا کہ حکومت کے عہدہ داروں سے یہ میری پہلی ملاقات ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے آخری ملاقات کا وقت بھی آن پہنچےگا۔ ہماری نظروں کے سامنے زمانہ کتنی برق رفتاری سے گزر رہا ہے اور انسان کی زندگی ایک ایک دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ جب یوم قیامت ہمارے اعمال کا دفتر کھولا جائے تو ہم شرمندہ نہ ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ