تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو میں ان پے در پے آ رہی عظیم عیدوں کی جن میں ہر ایک اہل تشیع کے قلوب کے لئے درخشندہ آفتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کی ولادت، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت اور حضرت ابو الفضل العباس کی ولادت کی عید۔ آپ سب کے لئے یہ عیدیں برکتوں کی نوید ثابت ہوں۔ ان کی برکت سے مراد یہ ہے کہ ان کے باعث آپ کے دل شاد ہوں گے، آپ کے ذہن و جذبات کو خاص الہی طمانیت حاصل ہوگی، آپ کا پورا وجود اعتماد بر خدا اور توکل الہی سے سرشار ہوگا۔ اگر یہ چیزیں پیش آئیں تو آپ کی عید واقعی آپ کے لئے مبارک ہوگی۔ ہمیں اپنے اندر یہ چیزیں پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے قلوب کو شاد کرنا چاہئے، اپنے ذہن و دل کو الہی طمانیت سے بہرہ مند کرنا چاہئے اور اپنے اندر اعتماد بر خدا کا جذبہ روز بروز قوی سے قوی تر کرنا چاہئے۔
ہم تو ایسے آدمی کی معمولی بات پر بھی اعتماد کرنے لگتے ہیں جس سے ہم نے کبھی کوئی برائی نہ دیکھی ہو۔ ایسے شخص سے ہمیں قرض واپس لینا ہے یا اس سے کوئی کام کروانا ہے، وہ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ ٹھیک ہے میں آپ کا یہ کام کر دوں گا۔ ہم اس کی بات پر یقین کر لیتے ہیں اور دیگر ضروری تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایک معمولی انسان ہے، یہ نا ممکن نہیں ہے کہ اس کا ارادہ بدل جائے، کوئی آکر اس کا نظریہ بدل دے، ممکن ہے وہ بھول جائے، ممکن ہے جس ذریعے سے وہ ہمارا کام انجام دینے والا ہے وہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اس کے وعدے کے پورا نہ ہونے کے دسیوں امکانات ہیں لیکن ہم پھر بھی اس کی بات پر اعتماد کرتے ہیں۔ اب آپ غور کیجئے کہ اللہ تعالی نے مومنین سے کتنے وعدے کئے ہیں، نصرت کا وعدہ، ہدایت کا وعدہ، تعلیم کا وعدہ، و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ (1) حفاظت و دفاع کا وعدہ دنیوی امور میں مدد کا وعدہ، اللہ نے ہم سے کتنے وعدے کئے ہیں؟! البتہ یہ وعدے بلا قید و شرط نہیں ہیں۔ ان کی کچھ شرطیں ہیں۔ لیکن یہ شرطیں بھی بہت دشوار نہیں ہیں۔ ہم یہ شرطیں پوری کر سکتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب جب ہم نے یہ شرطیں پوری کی ہیں اللہ تعالی نے ہماری مدد فرمائی ہے۔ اس کی مثال مسلط کردہ جنگ ہے۔ آپ نوجوانوں کو جنہوں نے مسلط کردہ جنگ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے، معلوم ہونا چاہئے کہ جب مسلط کردہ جنگ شروع ہوئی تو تمام ماہرین، تمام تجزیہ نگار اور ساری شخصیات سب پورے وثوق سے کہہ رہے تھے کہ صدام کو اس جنگ میں فتح ملنا طے ہے اور ایران کو شکست ہوگی، سوائے ان معدودے چند افراد کے جو امام (خمینی رہ) کے اسلامی اور ایمانی نقطہ نگاہ پر یقین رکھتے تھے، ان کے دلوں میں امید کی ایک کرن تھی، بعض کو موہوم سی تو بعض دیگر کو قوی امید تھی۔
میں نے یہ واقعہ بارہا نقل کیا ہے: جنگ کا تیسرا یا چوتھا دن تھا۔ جوائنٹ اسٹاف کے آپریشن روم میں سارے لوگ جمع تھے، میں بھی موجود تھا، ملک کے حکام، صدر مملکت، وزیر اعظم، اس وقت صدر، بنی صدر تھا اور وزیر اعظم رجائی مرحوم، کچھ اراکین پارلیمنٹ اور دیگر افراد سب وہاں جمع تھے۔ بحث مباحثہ اور تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری تھا۔ فوجی حکام بھی تھے۔ اسی اثنا میں ایک کمانڈر میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ دوسرے کمرے میں ہمارے کچھ احباب آپ سے کچھ خاص بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا۔ وہاں فکوری مرحوم تھے، فلاحی مرحوم موجود تھے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، دو تین لوگ اور بھی تھے۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دریافت کیا کہ کیا کام ہے؟ وہ کہنے لگے کہ دیکھئے - انہوں نے ایک کاغذ لاکر رکھا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جس میں ان احباب کا بنایا خاکہ ہے- ہمارے طیارے اس جگہ ہیں، مثال کے طور پر ایف پانچ، ایف چار، سی 130، مختلف قسم کے جنگی، فوجی اور ٹرانسپورٹ کے طیارے وغیرہ وغیرہ سات، آٹھ، دس قسم کے طیارے تھے۔ ان طیارں کے پرزے بہت جلدی جلدی تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔ ان طیاروں کے بعض پرزے ایسے ہیں جو ہر پرواز کے بعد یا ہر دوسری پرواز کے بعد تبدیل کرنے پڑتے ہیں، وہ کہنے لگے کہ یہ پرزے ہمارے پاس نہیں ہیں۔ بنابریں پانچ دن یا دس دن بعد گویا یہ طیارے ہمارے پاس ختم ہو جائیں گے، ناقابل استعمال ہو جائیں گے۔ بارہ دن بعد کسی اور قسم کے طیارے استعمال کے لائق نہیں رہ جائیں گے، چودہ پندرہ دن بعد فلاں قسم کے طیارے بھی استعمال کے قابل نہیں رہیں گے۔ سب سے زیادہ قابل استعمال یہی سی 130 طیارے تھے جو آج بھی استعمال ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں بتایا گيا کہ تیس یا اکتیس دنوں تک پرواز کر سکیں گے۔ یعنی اکتیس دن بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس کوئی فوجی فضائی ذریعہ باقی نہیں رہ جائے گا۔ کہنے لگے کہ جنگ میں ہماری پوزیشن یہ ہے۔ آپ جاکر امام (خمینی رہ) کو مطلع کر دیجئے۔ اب آپ سے کیا چھپانا، میرے ذہن میں خلا کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ میں نے سوچا اب کیا ہوگا، طیارے نہ ہوں گے تو ہم کیا کریں گے؟! وہ (صدام) تو مسلسل روسی طیارے استعمال کر رہا ہے، اب یہ اور بات تھی کہ اس کے پائلٹوں میں ہمارے پائلٹوں والی قابلیت و صلاحیت نہیں تھی لیکن ان کی تعداد بہت تھی۔ ایک کے بعد ایک طیارے مسلسل آتے تھے، ان کے پاس مختلف اقسام کے مگ طیارے تھے۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے وہ کاغذ لیا اور جماران جاکر امام (خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے بتایا کہ یہ ہمارے کمانڈر ہے اور ہمارا سب کچھ فوجی ساز و سامان ان کے پاس ہے۔ یہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمارے جنگی طیارے پندرہ سولہ دن سے زیادہ پرواز نہیں کر سکیں گے اور آخری طیارہ یعنی سی 130 بھی جو ٹرانسپورٹ طیارہ ہے تیس بتیس دن کے بعد پرواز نہیں کر سکے گا۔ امام نے ایک نظر ڈالی اور فرمایا -مجھے ان کے الفاظ من و عن یاد نہیں ہیں میں بس مفہوم بیان کر رہا ہوں، شائد کہیں ان کے الفاظ بھی میں نے لکھ کر رکھے ہیں- یہ کیا بات ہوئی؟! آپ کہئے کہ جائیں جنگ کریں، اللہ تعالی فراہم کر دے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا، کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ منطقی طور پر تو امام (خمینی رہ) کی بات میرے لئے اطمینان بخش نہ تھی کیونکہ امام (خمینی رہ) طیاروں کے ماہر تو تھے نہیں لیکن مجھے امام کی حقانیت، ان کے دل کی نورانیت اور ان کو حاصل غیبی تائید الہی پر میرا ایمان و ایقان تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالی نے اس عظیم انسان کو ایک عظیم کارنامے کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس کا مجھے یقین تھا۔ بنابریں میرا دل مضبوط ہو گیا۔ اسی دن یا ایک دن بعد، یہ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے، میں ان لوگوں کے پاس گیا اور میں نے ان کو بتایا کہ امام (خمینی رہ) نے یہ فرمایا ہے کہ جائیے انہی طیاروں کی جہاں تک ممکن ہے مرمت کیجئے، ٹھیک کیجئے اور اقدام کیجئے۔
وہ ایف 5 ایف 4 اور ایف 14 طیارے جو پانچ، چھے دن بعد پوری طرح ناکارہ ہوجانے والے تھے آج بھی ہماری فضائیہ میں کام کر رہے ہیں۔ اس وقت سے لیکر اب تک انتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی یہ پرواز کر رہے ہیں۔ البتہ ان میں کچھ کو جنگ کے دوران نقصان پہنچا، کچھ گرے، گولی لگی، بعض کو پرانا ہو جانے کی بنا پر خارج کر دیا گيا لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری جانب پیشرفت بھی ہوئی۔ ہمارے انجینئروں نے مخصوص مشینوں کے استعمال سے ضروری پرزے تیار کئے۔ کمی پوری کر دی۔ بعض پرزے تو پابندیوں کے باوجود پابندیاں لگانے والوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے مخصوص راستوں سے امپورٹ کر لئے گئے اور ان طیاروں کو قابل استعمال بنائے رکھا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو قسم کے طیارے بنانے میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ہماری فضائیہ میں دو طرح کے جنگی طیارے ہمارے انجینئروں نے دوسرے طیاروں کو دیکھ کر اور تجربہ حاصل کرکے تیار کر لئے ہیں۔ ایک طیارہ دو کاکپٹ والا تربیتی طیارہ ہے جبکہ دوسرا طیارہ ایک کاکپٹ پالا جنگی طیارہ ہے۔ جو طیارے پہلے سے ہمارے پاس تھے وہ تو ہیں ہی۔
اسے کہتے ہیں توکل بر خدا، یہ وعدہ الہی کا پورا ہوناہے۔ جب اللہ تعالی نے پوری تاکید کے ساتھ کئی طرح سے فرمایا ہے: ولینصرن اللہ من ینصرہ(2) بے شک یقینا اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا۔ وہ ان کا یاور و مددگار ہے جو اس کی یعنی اس کے دین کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالی نے یہ کہہ دیا ہے اور ہم بھی آگاہ ہیں کہ ہم اللہ تعالی کے دین کی مدد کر رہے ہیں اس کی طرفداری کر رہے ہیں تو ہمیں مطمئن رہنا چاہئے کہ اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا۔
مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے بعد بھی دسیوں بار بلکہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی حساب کیا جائے تو بہت زیادہ ہیں شائد ہزاروں بار، ہم بڑے بڑے واقعات کو ہی شمار کریں تب بھی دسیوں بار ایسا ہوا کہ ہم نے نصرت الہی کا اپنی آنکھ سے مشاہدہ کیا ہے، اللہ تعالی کی نصرت کا نظارہ کیا ہے۔
ایک واقعہ تو یہی جنگی قیدیوں کی واپسی کا تھا۔ ہمارے تقریبا پچاس ہزار افراد عراقی جیلوں میں تھے۔ عراق کے بھی تقریبا اتنے ہی قیدی، شائد تھوڑے کم رہے ہوں، ہمارے پاس تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جو عراقی قیدی ہمارے پاس تھے سب کے سب فوجی تھے جبکہ ہمارے جو افراد عراق میں قید تھے ان میں بہت سے عام شہری تھے۔ صحراؤں سے عام لوگوں کو جمع کرکے وہ اٹھا لے گئے تھے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو مجھے تو یہی لگ رہا تھا کہ ان قیدیوں کو صدام سے واپس لینے میں شائد تیس سال لگ جائیں۔ وہ اس لئے کہ میں معروف جنگوں میں جنگی قیدیوں کے تبادلے کے عمل سے واقف تھا۔ عالمی جنگ میں، جاپان کی جنگ میں، بیس تیس سال بعد بھی ایک فریق کا یہ کہنا تھا کہ ہمارے کچھ قیدی دوسرے فریق کے پاس اب بھی موجود ہیں۔ دوسرا فریق کہتا تھا کہ کوئی قیدی نہیں ہے۔ پھر سودے بازی اور طویل مذاکرات کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتے تھے۔ سو عدد کانفرنسیں ہوتیں، مذاکرات ہوتے، تب ثابت ہو پاتا کہ ہاں اتنے قیدی اب بھی باقی رہ گئے ہیں۔ صدام تو ایسا ہی شخص تھا، بد اخلاق، خثیب، موذی، جب بھی اسے اپنی طاقت کا احساس ہوتا فورا اس کی نمائش کرتا تھا، ایسا تو شخص تھا وہ۔ صدام بڑا ہی پست فطرت تھا۔ جب بھی پست فطرت آدمی کو محسوس ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے ایسا اکڑنے لگتا ہے کہ اس سے کوئی لین دین ناممکن ہوتا ہے۔ جب اسے اپنی کمزوری کا احساس ہونے لگتا ہے، کسی طاقتور سے واسطہ پڑ جاتا ہے تو چیونٹی سے بھی زیادہ حقیر بن جاتا ہے۔ آپ نے تو خود دیکھا کہ صدام امریکیوں سے منت سماجت کر رہا تھا۔ آخری دفعہ جب امریکی عراق پر حملہ کرنے والے تھے تو صدام گڑگڑانے لگا تھا کہ آئيے ہم سب مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہیں۔ لیکن اس کی شومئی قسمت کہ امریکیوں نے اس کی ایک نہ سنی۔
تو میں سوچ رہا تھا کہ قیدیوں کو آزاد کروانے میں تیس سال لگ جائيں گے۔ لیکن اللہ تعالی کا کرشمہ کچھ ایسا ہوا کہ کویت پر اس احمق (صدام) کے حملے کا معاملہ پیش آيا۔ اسے محسوس ہوا کہ اگر کویت سے اسے جنگ کرنا ہے، البتہ اس کا ارادہ کویت پر مکمل قبضہ کر لینے کا تھا، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایران کی جانب سے اسے کوئی اندیشہ نہ ہو اور جب تک جنگی قیدی تھے تب تک یہ چیز ممکن نہ تھی۔ پہلے اس نے ملک کے صدر کو یعنی ایک طرح سے مجھے خطا لکھا، لیکن جب اسے میری جانب سے ٹھیک جواب نہیں ملا تو اس نے یکطرفہ طور پر قیدیوں کو ازاد کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ لوگوں کو اب بھی یاد ہوگا کہ یکبارگی یہ اطلاع ملی کہ جنگی قیدی سرحدوں سے داخل ہو رہے ہیں، جوق در جوق آنے لگے یہاں تک کہ سب آ گئے۔ یہ واقعی کار خدا تھا، یہ نصرت الہی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ برقرار ہے۔
آپ میرے عزیز بھائی بہن ہیں۔ وہ لوگ بھی جو یہاں کے حفاظتی یا دفتری امور میں مشغول کار ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی، ان کے بیٹے بیٹیاں سبھی۔ واقعی آپ خدمت انجام دے رہے ہیں اور بہت حساس جگہ پر خدمت کر رہے ہیں۔ آپ کے لئے میری سفارش یہی ہو سکتی ہے کہ اپنی بصیرت میں اضافہ کیجئے۔ قوموں پر جو افتاد پڑتی ہے وہ اکثر و بیشتر بے بصیرتی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جو غلطیاں لوگوں سے ہوتی ہیں، آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے اپنے معاشرے میں بعض عام افراد اور بہت سی اہم شخصیات سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، اہم شخصیات سے توقع یہ ہوتی ہے کہ بہت کم غلطیاں کریں، لیکن ان کی غلطیاں اگر تعداد میں زیادہ نہ ہوں تب بھی عام لوگوں کی غلطیوں سے بہت بڑی ہوتی ہیں، یہ ساری غلطیاں بے بصیرتی کی وجہ سے سرزد ہوتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ساری غلطیاں لیکن بیشتر غلطیاں اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔
آپ اپنی بصیرت بڑھائیے۔ اپنی معلومات میں اضافہ کیجئے۔ میں نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا غالبا جنگ صفین کا جملہ کئی بار نقل کیا ہے کہ الا و لا یحمل ھذا العلم الا اھل البصر و الصبر (3) آپ جانتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی مشکلات بعض پہلوؤں سے پیغمبر اسلام سے زیادہ تھیں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دوست و دشمن عیاں تھے لیکن حضرت امیرالمومنین کے پرچم تلے دوست و دشمن واضح اور عیاں نہ تھے۔ دشمن بھی وہی باتیں کرتا تھا جو دوست کرتے ہیں۔ جنگ جمل، صفین اور نہروان میں جو نماز حضرت امیر المومین کے پرچم تلے جمع ہونے والے افراد پڑھتے تھے وہی نماز دشمن خیمے میں بھی ادا کی جا رہی تھی۔ اگر آپ ان حالات سے دوچار ہو جائیں تو کیا کریں گے؟ آپ سے کہا جائے کہ یہ فریق باطل پر ہے تو آپ پلٹ کر سوال کریں گے کہ اس نماز اور اس عبادت کے بعد بھی؟! ان میں بعض لوگ مثلا خوارج تو قابل دید عبادت کرتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں امیر المومنین علیہ السلام خوارج کے خیمے کے قریب سے گزرے تو سنا کہ کوئی بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھ رہا ہے امّن ھو قانت آناء اللیل (4) آدھی رات کو قرآن کی آیت کی تلاوت کی جا رہی تھی اور وہ بھی اتنے خوبصورت انداز میں۔ ایک شخص امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ تھا اس نے کہا واہ سبحان اللہ کتنے اچھے انداز میں اس آیت کی تلاوت کی جا رہی ہے۔ کاش میں اس کے وجود کا کوئی جز ہوتا کیونکہ اس کا تو جنت میں جانا طے ہے، میں بھی اس کے ساتھ جنت میں چلا جاتا۔ یہ واقعہ ہو گیا اور پھر جنگ نہروان شروع ہو گئی۔ دشمن کو شکست کا سامنا ہوا اور وہ قتل ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام دشمن کے مقتولین کے پاس گئے۔ مولا لاشوں کے بیچ سے گزر رہے تھے۔ آپ بعض لاشوں کو اٹھواتے اور ان سے بات کرتے تھے۔ حالانکہ وہ قتل ہو چکے تھے لیکن آپ اپنے اصحاب کو یہ سنانا چاہتے تھے۔ ایک لاش کو آپ نے اسی شخص سے اٹھوایا جو اس رات آپ کے ہمراہ تھا اور سوال کیا کہ کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں تم تمنا کر رہے تھے کہ کاش اس کے جسم کا جز ہوتے۔ جو اس رات نہایت دردناک لہجے میں محو تلاوت قرآن تھا۔ یہاں وہ قرآن ناطق کے مقابل کھڑا ہوا اور اس نے تلوار کھینچی۔! چونکہ اس کے پاس بصیرت نہیں تھی لہذا حالات کو سمجھ نہ سکا۔
میں بسا اوقات ان سیاسی محاذوں اور سیاسی میدانوں کی محاذ جنگ سے تشبیہ دیتا ہوں۔ اگر جنگ میں میدان کی مکمل شناخت آپ کے پاس نہ ہو تو غلطی کا اندیشہ بہت زیادہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے شناسائی اور شناخت کے لئے جاتے ہیں۔ فوجی اقدامات میں ایک اہم ترین عمل شناخت اور اطلاعات حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ زمین کو جاکر نزدیک سے دیکھتے ہیں۔ دشمن کہاں ہے، کس حالت میں ہے، اس کے ٹھکانوں کی کیا صورت ہے تاکہ آئندہ کاروائی کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اگر کسی کے پاس یہ شناخت نہ ہو، میدان کی واقفیت نہ ہو، دشمن کو گم کر دے تو ممکن ہے کہ یکبارگی اسے یہ نظر آئے کہ اس کے توپخانے اور مارٹر گولوں کا رخ دشمن کے بجائے دوستوں کی سمت ہے۔ چونکہ وہ واقف ہی نہیں ہے۔ سیاسی میدان بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر بصیرت، نہ ہو سوجھ بوجھ نہ ہو، آپ اپنے دوست کو نہ پہچانتے ہوں اور دشمن سے واقف نہ ہوں تو کسی وقت آپ کو یہ نظر آئے گا کہ آپ کے تشہیراتی توپخانے، آپ کی گفتگو اور آپ کے اقدامات کا رخ اس مقام کی جانب ہے جہاں آپ کے دوست اکٹھا ہیں نہ کہ دشمن۔ انسان کو چاہئے کہ اپنے دشمن کو پہچانے اور اس کی شناخت میں غلطی نہ کرے۔ اس کے لئے بصیرت ضروری ہے، وضاحت ضروری ہے۔
اہم شخصیات کا ایک اہم کام وضاحت و تشریح ہے۔ حقائق کو بغیر کسی تعصب کے بیان کریں، جماعتی اور گروہی جذبے سے متاثر ہوئے بغیر۔ کیونکہ یہ چیزیں ضرر رساں ہیں۔ حلقے اور جماعت کو درکنار کر دینا چاہئے۔ حقیقت پر نظریں گاڑنا چاہئے۔ جنگ صفین میں حضرت عمار یاسر کا ایک اہم کام حقائق کو بیان کرنا تھا۔ کیونکہ حریف دھڑا جو معاویہ کا دھڑا تھا مختلف انداز سے پروپیگنڈا کر رہا تھا جسے آج کی زبان میں نفسیاتی جنگ کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی ایجاد نہیں ہے۔ اس کی بس روش بدل گئی ہے ورنہ یہ روز اول سے تھی۔ کچھ کو بڑی مہارت تھی نفسیاتی جنگ میں۔ ان کی کارکردگی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی جنگ میں ماہر تھے۔ ذہنوں کی تعمیر سے کہیں زیادہ ان کی تخریب آسان ہے۔ ایک بات سن کر بڑی آسانی سے انسان بد ظن ہو جاتا ہے۔ ذہن میں بد گمانی بڑی آسانی سے داخل ہو جاتی ہے لیکن اسے ذہن سے نکالنا بڑا دشوار کام ہوتا ہے۔ وہ لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے تھے، بد گمانی پھیلاتے تھے۔ یہ کام آسان بھی تھا۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی جانب سے جس شخص نے اس نفسیاتی جنگ کے مقابلے کی ذمہ داری اٹھائی وہ جناب عمار یاسر تھے۔ وہ محاذ کے ایک طرف سے دوسری طرف جاتے مجاہدین کے ہر گروہ کے پاس جاتے اس سے بات کرتے، حقائق بیان کرتے تھے اور اس کا بہت زیادہ اثر بھی ہوا۔ کہیں دیکھتے کہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور کچھ لوگ شک میں پڑ گئے ہیں تو فورا وہاں پہنچتے، ان سے بات کرتے، چیزیں بیان کرتے اور ان کو سمجھاتے تھے۔
بنابریں بصیرت بہت اہم ہے۔ ذمہ دار شخصیات کا فریضہ یہ ہے کہ صرف اپنے اندر بصیرت پیدا کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ دوسروں میں بھی بصیرت پیدا کریں۔ بد قسمتی سے کبھی کبھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض ذمہ دار شخصیات بھی بے بصیرتی کا شکار ہو گئی ہیں۔ کچھ سمجھ ہی نہیں رہی ہیں، بلکہ توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ اچانک ان کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جو دشمن کے مفاد میں ہے۔ اس محاذ کے حق میں جس کا سارا ہم وغم اسلامی جمہوریہ کی عمارت کو تہس نہس کر دینا ہے۔ ان میں چنندہ شخصیتیں بھی ہیں، یہ کوئی برے لوگ نہیں ہیں، نہ ان کی نیت میں کوئی برائی ہے، لیکن بہرحال یہ چیز ہے۔ یہی بے بصیرتی ہے۔ خاص طور پر آپ جوانوں کو چاہئے کہ اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں، جہاندیدہ اور معتمد علیہ افراد سے گفتگو کریں، تقلیدی گفتگو نہیں کہ وہ جو کچھ کہیں آپ من و عن قبول کر لیں، میں یہ نہیں چاہتا، آپ بے بصیرتی کو ختم کریں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی مدلل باتوں سے انسان کو قائل کر سکتے ہیں، ذہن کو مطمئن کر سکتے ہیں۔ حتی حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی تحریک کے آغاز میں اور اس کے دوران اس روش کو اختیار فرمایا۔ یہ ایام (ماہ شعبان کے ابتدائی ایام) چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے متعلق ہیں اس لئے یہ جملہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امام حسین علیہ السلام کو صرف جنگ عاشورا کے ذریعے پہچاننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، وہ امام حسین کے جہاد کا صرف ایک حصہ ہے۔ آپ کے بیان، آپ کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، منی و عرفات میں گوناگوں مسائل پر آپ کی گفتگو، علماء سے خطاب، بڑی شخصیات سے خطاب، حضرت کے بڑے عجیب و غریب بیانات ہیں جو کتابوں میں موجود ہیں، اس کے بعد کربلا کی سمت سفر کے دوران اور خود سرزمین کربلا پر اور میدان کربلا کی مدد سے حضرت کو پہچاننے کی کوشش کرنا چاہئے۔ کربلا کی سرزمین پر آپ نے حقائق بیان فرمائے ہیں۔ بار بار گفتگو فرماتے تھے۔ جنگ کا میدان آراستہ ہے، لوگ ایک دوسرے کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں لیکن آپ ہیں کہ ہر موقع سے استفادہ کرکے گفتگو فرماتے ہیں تاکہ دشمن کو بیدار کر سکیں۔ بعض سوئے ہوئے لوگ جاگے بھی لیکن بہت سے لوگ جو خود کو سوتا ہوا ظاہر کر رہے تھے، وہ آخر تک بیدار نہ ہوئے۔ جو شخص خود کو سویا ہوا ظاہر کرنا چاہتا ہے اسے بیدار کر پانا مشکل ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو ناممکن ہوتا ہے۔
انشاء اللہ یہ عید، یہ عیدیں آپ کے لئے بابرکت ثابت ہوں، اللہ تعالی آپ کو امیدوں سے سرشار نفس، طمانیت و سکون و اعتماد و فعالیت سے آراستہ وجود عنایت فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ