تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:
بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم

امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر الحمد اللہ ہماری یہ نشست بھی با برکت ہو گئ ۔ شہداء کی یاد، جانبازوں(ملک کے دفاع میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والوں) کی موجودگی، شہداء کے والدین کی موجودگی اور ان کے دلوں سے نکلنے والے الفاظ نے اس نشست کو معطر کر دیا ہے ۔ انشاء اللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت، یوم پاسداران انقلاب اسلامی اور ہفتہ رضاکار آپ سب فوجیوں اور رضاکار دستوں اور قوم کے فرد فرد خاص طور پر شہداء کے گھرانوں کو مبارک ہو۔ اسلام، قرآن اور اہل بیت کی برکت سے امت اسلام کو جو دسیوں اور سیکڑوں برکتیں حاصل ہوئی ہيں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری قوم کی نظروں کے سامنے بڑے عظیم نمونہ عمل موجود ہيں۔ قوموں کے لئے نمونہ عمل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے آپ غور کریں؛ مختلف قوموں کے پاس اگر کوئی ایسی شخصیت ہوتی ہے جس میں عظمت کی تھوڑی سی بھی جھلک ہوتی ہے تو قوم کے لوگ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہيں اور اس کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھتے ہيں تاکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اسی سمت بڑھا سکیں جدھر ان کا منشا ہو۔ کبھی کبھی تو ان کے پاس کوئی حقیقی شخصیت بھی نہيں ہوتی لیکن اس کے باوجود وہ مختلف قصے کہانیوں، افسانوں اور اشعار میں ایک تصوراتی شخصیت کو پیش کرتے ہيں۔ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ اقوام کو اپنے اندر عظیم مثالوں اور عظیم شخصیتوں کو دیکھنے کی چاہ ہوتی ہے۔ اسلام میں ایسی شخصیات بہت زیادہ ہيں۔ کچھ تو ایسی ہیں کہ ان کی مثال کہيں اور نہيں ملتی۔ انہی شخصیتوں میں سے ایک جو سب سے عظیم شخصیت ہے وہ امام المسلمین، فرزند رسول تاریخ بشریت کے سب سے عظیم شہید امام حسین علیہ السلام کی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کی عظمت کے کئ پہلو ہيں کہ جن میں سے ہر پہلو پر تفصیل سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر میں ان کی عظیم خصوصیات میں سے دو تین کا نام لینا چاہوں تو ان میں سے ایک اخلاص ہے۔ یعنی الہی فریضے پر توجہ اور اپنی ذمہ داری پر عمل در آمد کے سلسلے میں ذاتی اور جماعتی مفادات اور دیگر مادی امور پر توجہ نہ دینا ہے۔ ان کی دوسری اہم خصوصیت خدا پر اعتماد اور توکل ہے۔ ظاہر یہ ہو رہا تھا کہ یہ شعلہ کربلا کے صحراء میں ہی خاموش ہو جائے گا۔ اس چیز کو معروف شاعر فرزدق نے محسوس کیا لیکن امام حسین علیہ السلام کو ایسا کیوں نہيں لگا؟! کوفے سے سمجھانے بجھانے کے لئے آنے والوں کو یہ چيز نظر آ رہی تھی؛ لیکن امام حسین علیہ السلاام کہ جو عین اللہ تھے، انہيں یہ چيز نظر نہيں آرہی تھی اور محسوس نہيں ہو رہی تھی؟ ظاہری طور پر تو یہی محسوس ہو رہا تھا ؛ لیکن خدا پر بھروسے کا تقاضا تھا کہ اس ظاہری صورت حال کے باوجود وہ اس بات پر یقین کریں کہ ان کی حق بات ہی غالب رہے گی۔ یوں بھی اصل بات یہ ہوتی ہے کہ انسان کا ہدف اور ارادہ عملی شکل میں ظاہر ہو۔ اگر ہدف اور ارادہ پورا ہو گیا تو با اخلاص شخص کے لئے خود اپنی ذات کی کوئی اہمیت نہيں ہوتی۔
ایک عارف کا خط میں نے پڑھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر ہم یہ فرض کر لیں، البتہ یه فرض محال ہے ، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کام بھی کئے اور جو بھی ان کا مقصد تھا سب بخوبی وقوع پذير ہوا ہوتا لیکن کسی اور کے نام سے تو کیا اس صورت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سلم ناخوش رہتے؟ کیا وہ یہ کہتے کہ چونکہ نام کسی اور کا ہوگا اس لئے میں یہ کام انجام نہیں دو ں گا ؟ کیا یہ صحیح ہے؟ یا نہیں؛ مقصد یہ تھا کہ یہ کام انجام دئے جائيں؛ چاہے جس کے نام سے۔ اس طرح سے واضح ہوتا ہے کہ ہدف اہم ہوتا ہے۔ ذات، شخصیت اور « میں » کی با اخلاص شخص کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کے پاس اخلاص ہوتا ہے اس لئے خدا پر بھروسہ بھی ہوتا ہے۔ ‎‎ اسے علم ہوتا ہے کہ خداوند عالم ہر صورت میں اسے اس مقصد میں کامیاب کرے گا کیونکہ اس کا قول ہے: «و انّ جندنا لهم الغالبون» اس طرح کی فتح حاصل کرنے والی بہت سی فوجیں، جہاد کے میدان میں خاک و خون میں غلطاں ہوتی ہيں اور ختم ہو جاتی ہيں لیکن خداوند عالم کا فرمان ہے: «و انّ جندنا لهم الغالبون»؛ اس کے باوجود غالب وہی لوگ ہوتے ہيں۔
تیسری خصوصیت، موقع کی شناخت ہے۔ امام حسین علیہ االسلام نے موقع و محل کو سمجھنے میں ذرہ برابر غلطی نہيں کی۔ کربلا کے واقعے سے قبل، دس برسوں تک امامت کی ذمہ داری انہوں نے سنبھالی تھی۔ مدینے میں ان کی مصروفیات کچھ اور تھیں اور وہ کربلا جیسا کوئی کام نہيں کر رہے تھے؛ لیکن جیسے ہی انہیں موقع ملا اس اہم کام کو کرنے کا، فورا انہوں نے اقدام کیا، موقع کو سمجھا اور اسے گنوایا نہیں۔ یہ تین خصوصیات فیصلہ کن ہيں۔ تمام مراحل میں یہی صورت حل ہے؛ انقلاب میں بھی یہی صورت حال تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جن کا خداوند عالم نے اتنا جو مقام بلند کیا ہے «و رفعناه مکانا عليّا» اور پوری مادی و سامراجی دنیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود جو انہيں محو کر دینا اور بھلا دینا چاہتی تھی، ان کی حفاظت کی، انہيں عظمت عطا کی اور ان کی ذات کو لا زوال کر دیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان میں یہ تینوں خصوصیات پائی جاتی تھیں؛ سب سے پہلے تو وہ با اخلاص تھے اور اپنے لئے کسی بھی چیز کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ انہيں اپنے خدا پر بھروسہ تھا اور انہيں علم تھا کہ ان کا مقصد پورا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہيں خدا کے بندوں پر بھی بھروسہ تھا اور تیسری بات یہ کہ انہوں نے موقع کو ضائع نہيں کیا۔ ضرورت پڑنے پر ضروری کام ، ضروری بات، ضروری اشارہ اور ضروری اقدام کیا۔ ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ آج بھی اس انقلاب کے دشمن اس کی پیچیدگیوں میں گم ہيں اور اس انقلاب کو صحیح طرح سے پہچاننے سے قاصر ہيں۔ یہ میرا دعوی ہے اور میں اپنے اس دعوے کو ثابت کر سکتا ہوں۔ ان کے بیانات سے اور بزعم خویش انقلاب کو تباہ کرنے کے لئے ان کی سازشوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس انقلاب کو پہچانا نہيں ہے۔ یہ انقلاب انتہائی پیچیدہ اور کئ پرتوں میں ہے لیکن یہ کوتاہ فکر لوگ سمجھتے ہيں کہ ایک بیان سے ایک مسکراہٹ سے یا ایک اشارہ سے سارے مسائل حل ہو جائيں گے۔ ان سے زیادہ احمق ان کے پیروکار اور مرید ہیں جو کبھی کبھی یہاں بھی انہی کی کہی ہوئی باتیں دہراتے ہيں۔ ان کی مسکراہٹ پر یہ بیچارے بھی مسکراتے ہيں۔ یہ ایک عظیم انقلاب ہے۔ یہ انقلاب دلوں میں بسا ہے اور تاریخ و مادی دنیا کے گوشے گوشے سے جڑا ہوا ہے۔ آج ہم خبروں میں مسلسل پڑھتے ہيں۔ یہ اوائل انقلاب کی بات نہیں ہے؛ آج بھی ہم خبروں میں پڑھتے ہيں کہ مغربی دنیا، عیسائی اور مادیت کے دلدادہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہيں۔ اسلام اسی مرکز سے انہيں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ یہ مرکز اپنی سرگرمیوں کے اوج پر ہے تاہم کچھ لوگ سمجھتے ہيں کہ یہ مرکز بند ہو گیا ہے۔ ایسی باتیں کرتے ہيں جو در اصل احمقانہ اور مضحکہ خیز تصورات کا نتیجہ ہوتی ہيں۔ آج وہ کچھ باتیں کہہ رہے ہيں تاہم انہيں جلدی ہی پتہ چل جائے گا کہ وہ غلط کہہ رہے تھے۔ اس بنا پر امام خمینی کی تحریک اخلاص، خدا پر اعتماد اور موقع کی شناخت جیسی تین خصوصیات کی وجہ سے اس طرح لوگوں کے دلوں پر حاکم ہوئی اور اتنی گہری و مضبوط تحریک قرار پائی ۔ آپ پاسداران انقلاب اسلامی کو بھی ایسا ہی عمل کرنا چاہئے اور آپ لوگوں نے اب تک ایسا ہی کیا ہے۔
پاسداروں کے بارے میں، میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے آج کی مادی دنیا میں نوجوانوں کے لئے موجود اتنی ڈھیر ساری کششوں کے باوجود، تقوے و پرہیزگاری کو اپنا وطیرہ بنایا، معنویت کی سمت بڑھے، خدا کے لئے قدم بڑھائے اور جہاں بھی جس طرح کی بھی قربانی کی ضرورت ہوئی، اپنی جان، اپنے گھرانے کے ساتھ اپنی زندگی کو جو خدا کی ایک نعمت ہے، قربان کر دیا ۔ ہمارے ان نوجوان سپاہیوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو الحمد للہ صحیح و سالم ہيں۔ نہ شہید ہوئے اور نہ ہی ان کے بدن کا کوئی عضو ضائع ہوا لیکن اس کے باوجود ان کا درجہ شہیدوں کی طرح ہے کیونکہ محاذ پر جس جگہ ان کی موجودگی ضروری تھی، وہاں اس انقلاب کے لئے اور خدا کے لئے موجود رہے۔ اپنا وقت اپنی قوم اور ملک کے لئے قربان کر دیا ۔ یہ وہی کام ہے جو ان لوگوں نے کیا ہے یعنی ان لوگوں نے موقع و محل کو پہچانا ، خدا پر اعتماد کیا اور با اخلاص بھی رہے۔
یہ ہمارے عظیم شہداء، یہی معروف شہداء زين الدین جن کی والدہ کی گفتگو آپ نے سنی اور باقی تمام شہید جنرل جب اس میدان میں آئے تھے تو ان کی نیت یہ نہیں تھی کہ کسی دن ان کا نام ہمارے ملک اور پوری دنیا میں مشہور ہوگا؛ نہيں۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح میدان جنگ میں گئے تاکہ اپنا فرض ادا کر سکیں۔ جس جگہ کے بارے میں بھی انہيں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا وہ وہاں گئے، اسے اخلاص کہتے ہيں۔ آج ہماری قوم میں یہی اخلاص دکھائی دیتا ہے اور اس کا مکمل مظہر وہ با ایمان نوجوان ہيں جن کی ایک بہترین مثال سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ہيں۔
شروع سے ہی جو لوگ ، ہمارے ملک کی خودمختاری کے مخالف تھے، اس انقلاب کے مخالف تھے، سامراج کے تسلط کے خاتمے کے مخالف تھے، اسلام کو اپنائے جانے کے مخالف تھے، مردوں اور عورتوں کی پاکیزگی کے مخالف تھے، نوجوانوں میں اخلاقیات کے تحفظ کے مخالف تھے، جن کے دلوں میں غیر ملکی ثقافتوں کی چاہ تھی وہ، سپاہ پاسداران کے بھی مخالف تھے۔ یہ مخالفت کوئی نئ بات نہيں ہے کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ اب کچھ لوگ سپاہ پاسداران کے مخالف ہو گئے ہيں۔ جی نہيں، جن لوگوں میں یہ صفتیں تھیں وہ شروع سے ہی مخالف رہے ہيں۔ آج بھی زمانے میں تبدیلی اور حالات بدلنے کے ساتھ ہی جن میں یہ خصلتیں پائی جاتی ہیں وہ آج بھی سپاہ پاسداران، اس کے وجود، اس کے تدین اور مختلف شعبوں میں سپاہ پاسداران کی کامیابیوں کے مخالف ہيں۔ یہ ظاہر سی بات ہے اور توقع کے خلاف بھی نہیں ہے؛ لیکن اہم بات یہ ہے کہ جب بات خدا کی ہو، دین کی ہو تو پھر مخالفت و موافقت کا کوئی اثر نہيں ہوتا۔ اگر بنیاد صحیح ہو کہ الحمد للہ صحیح ہے، جب راستہ واضح ہو، جو واضح ہے، جب لوگوں میں اخلاص اور ایمان ہو ، جو الحمد للہ آپ سب میں موجود ہے، تو پھر اس بات کی کوئی اہمیت نہيں ہوتی کہ لوگ کیا کہہ رہے ہيں اور کیا سوچ رہے ہيں۔ مسافر جب لمبی شاہراہ میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر اسے صرف عزم و ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنی منزل کی سمت بڑھتا رہے۔ اب اس صورت میں اگر کوئی کہے؛ یہ بات ہے، کوئي کہے؛ وہ بات نہيں ہے، کوئی کہے غلطی کر رہے ہو تو اگر راستہ چلنے والے کا عزم پختہ ہے تو اس کے قدم منزل کی سمت بڑھتے رہيں گے اور وہ یقینا اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ الحمد للہ ہماری صورت حال یہی ہے۔
یہاں پر میں ایک جملہ، رضاکار فورس (بسیج) کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں۔ کچھ لوگ تصور کرتے ہيں کہ رضاکار دستے دوسرے فوجی اداروں کی طرح ایک فوجی ادارہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی یہ بھی ایک فوج ہے، یہ غلط تصور ہے۔ رضاکار دستے یعنی ملک کی مفید افرادی قوت جو تمام شعبوں میں کارآمد ہے۔ جب جنگ تھی تو رضاکار دستوں نے اپنی افادیت ثابت کی۔ دوسرے حالات بھی جب پیش آئيں گے جو اب تک کئ بار پیش آ چکے ہيں، تو بھی رضاکار دستے اپنی افادیت ثابت کریں گے۔ جو نوجوان میدان جنگ میں اپنے کمانڈر کے حکم کی تعمیل کے لئے اس کے حکم کا انتظار کرتے رہتے تھے اور اپنی قربانیوں سے لوگوں کو متحیر کر دیا کرتے تھے وہی نوجوان جب یونیوسٹی میں جاتے ہيں تو اپنے اساتذہ کو بھی اسی طرح متحیر کر دیتے ہيں؛ جب سائنسی تجربہ گاہوں میں جاتے ہیں تب بھی یہی صورت حال ہوتی ہے اور جب سیاسی-تجزیاتی شعبے میں قدم رکھتے ہيں تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
یہ آپ جان لیں کہ ہر ملک میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں تاہم اتنی زیادہ نہيں۔ جن ملکوں کی قومیں زندہ ہوتی ہیں، مجھے ان ملکوں سے کوئی مطلب نہيں ہے جہاں غلط پالیسیاں رائج ہیں اور قوم کو کوئی موقع نہيں دیا جاتا ، قوم کے عزم و ارادے کی کوئی حیثیت نہيں ہے اور قوم سرگرم عمل نہيں ہے، جن ملکوں کے حکام کی نظر میں عوام کا کردار اہم ہوتا ہے ان تمام ملکوں میں رضاکار فوجی دستوں کی طرح کوئی نہ کوئی تنظیم ہوتی ہے؛ لیکن اس طرح سے نہيں، اتنے وسیع پیمانے پر نہيں، اتنی زیادہ قربانیاں نہيں دیتیں۔ کم سے کم مجھے اس کی اطلاع نہيں ہے۔ مجھے مختلف ملکوں کے بارے میں، ان کی گزشتہ سو دو سو سالہ تاریخ کے بارے میں جو معلومات ہے ان کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنے ملک کے رضاکار دستے کی مانند کسی بھی تنظیم کے وجود کے بارے میں علم نہيں ہے۔ رضاکار دستہ، نوجوانوں سے مخصوص نہيں تھا ؛ بوڑھے، جوان ایک ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتے تھے، باپ بیٹے ساتھ میں آتے تھے، کبھی کبھی دادا اپنے پوتے کے ساتھ آتے تھے اور آج بھی وہ ساتھ ہيں۔ رضاکار دستہ، مردوں سے ہی مخصوص نہيں تھا ؛ مرد و عورت ساتھ ساتھ تھے۔ نام و شہرت کی اس میں کوئی گنجائش نہيں تھی، ذمہ داریوں کی اہمیت تھی ۔ جب بھی ملک میں کوئی مسئلہ پیش آیا تو جو طاقت سب سے پہلے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آگے بڑھی، وہ عظیم عوامی طاقت پر مشتمل رضاکار فوجی دستوں کی طاقت تھی۔ یہ رضاکار دستے ہر طبقے میں موجود ہيں؛ نوجوانوں میں، بوڑھوں میں، تعلیم یافتہ لوگوں میں، طلبہ میں، مزدوروں میں، تاجروں میں اور اسی طرح علماء میں۔ رضاکار دستے کسی ایک جغرافیائی علاقے سے مخصوص نہيں ہیں نہ ہی کسی خاص طبقے سے جڑے ہيں۔ وہ ہر جگہ موجود ہيں۔
ہمارے ملک میں رضاکار دستے جو اس طرح سے فعال اور سرگرم ہوئے اس کی وجہ کیا ہے ؟ عشق الہی میں ڈوبا ایمان، گہرا ایمان، جذبات سے معمور ایمان جو ہماری قوم کی خصوصیت ہے، اس کی اصل وجہ ہے ۔ دوسری بہت سی قوموں کی طرح ہماری قوم بھی جذبات سے معمور ہے، جو در اصل بہت سے مسائل کی کنجی ہے۔ یہ ایمان، ان جذبات کے ساتھ مل گیا تو یہ لہراتی ندی، عظیم سمندر میں بدل گئ اور راستے میں آنے والے تمام مسائل کو اپنی متلاطم لہروں میں بہا لے گئی۔ آج بھی ایسا ہی ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے اور ایسا ہی ہمیشہ رہے گا اور رہنا بھی چاہئے۔ ملک کے موجودہ حالات میں، کچھ لوگ اس خیال خام کے تحت کہ رضاکار دستے ایک فوجی تنظیم ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ فوج کی افادیت صرف جنگ کی حالت میں ہوتی ہے اور اس کے بعد انہيں مکمل طور پر بھلا دیا جاتا ہے اور الگ کر دیا جاتا ہے اس غلط تصور کے ساتھ ان کا یہ خیال ہے کہ رضاکار دستوں کے تمام اقدار، تمام الہی اقدار جس کا مظہر رضاکار دستے ہیں، سماج سے ختم ہو جانے چاہئے۔ یقینی طور پر یہ دشمن کی تشہیراتی مہم کا حصہ ہے۔ اس قوم کا بہت برا حال ہوتا ہے جو دشمن کی تشہیراتی مہم سے متاثر ہوتی ہے۔ دشمن کبھی انسان کی بھلائی نہيں چاہتا۔ دشمن اگر آپ کی تعریف بھی کرے تو بھی اس کی اس تعریف کے بارے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اگر وہ برائی کریں تو ان کی برائیوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ لبوں پر ہونی چاہئے، اگر دشمن کہے تمہاری حالت خراب ہے تو آپ یقین کریں کہ آپ کی حالت اچھی ہے۔ اگر دشمن کہے کہ آپ جس راستے پر چل رہے ہيں وہ غلط ہے تو یہ جان لیں کہ اسے آپ کے اس راستے سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر وہ آپ کی تعریف کرے تو خود پر غور کریں کہ آپ سے کہاں غلطی ہوئی جو دشمن خوش ہے؛ البتہ اگر اس کی تعریف حقیقی ہو اور دھوکا نہ ہو تو ۔
میرے دوستو! آج عالمی سامراج دنیا کے جس حصے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے وہاں تین وسائل سے اپنا کام شروع کرتا ہے۔ جہاں آپ بیٹھے ہيں وہاں یہ تینوں وسائل موثر نہيں ہوئے۔ ایک طریقے مالی طریقہ ہے؛ ایک فوجی ہے اور ایک تشہیراتی طریقہ کار ہے۔ دشمن مالی طریقوں سے انسانوں کو خریدتا ہے۔ مالی طریقہ کار سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ دشمن دیگر ملکوں کی معیشت میں مداخلت کرتا ہے۔ کوئی بھی ملک کسی بھی دوسرے ملک کی معیشت میں مداخلت اور طویل مدت تک اسے متاثر نہیں کر سکتا البتہ اگر اس ملک کے عوام بیدار ہوں تب۔ ہاں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے، بدعنوانیاں کرتا ہے، تیل کی قیمت پر اثر انداز ہوتا ہے، کسی ملک کی آمدنی کو نصف کر دیتا ہے؛ جیسا کہ موجودہ حالات میں ہمارے ملک کے ساتھ دشمنوں نے یہی کام کیا ہے۔ یہ بات بھی یہیں عرض کر دوں کہ کچھ لوگ ملک کی موجودہ معیشت کے بارے ميں بہت ہنگامہ کر رہے ہيں، کوئی خاص بات نہيں ہے، کوئی خاص مسئلہ نہيں ہے۔ کیا ہماری قوم ایسی ہے جس نے کبھی اقتصادی مسائل کا سامنا نہيں کیا ہے؟ کیا ہم ایسے ملک کے شہری ہيں جس نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران تیل کی اور دیگر ذخائر کی کم آمدنی کا تجربہ نہيں کیا ہے؟ ماضی میں بھی ایسا ہی تھا؛ آمدنی کم ہو جاتی تھی، زيادہ ہو جاتی تھی، ملکی حکام اور ملک و قوم کا درد رکھنے والے، عوامی حمایت کے ساتھ اور مختلف عوامی طبقوں کی مدد سے اور با ایمان عوام کے تعاون سے مسائل حل کر لیا کرتے تھے اور آج بھی حل کر لیتے ہيں ۔ یہ دشمن کا پروپیگنڈہ ہے کہ چونکہ تیل کی آمدنی کم ہو گئی ہے اس لئے ایرانی قوم کو گھٹنوں میں منہ ڈال کر بیٹھ جانا چاہئے، جی نہيں؛ ایسا نہيں ہے ۔
اسی لئے اگر کوئی قوم بیدار ہوگی، زندہ ہوگی، پائیدار ہوگی اور عزم و ارادے سے کام لے گی، متحد رہے گی، خاص طور پر متحد شکل میں اپنے حکام کے ساتھ رہے گی، ملک کے ذمہ داروں پر اعتماد کرے گی تو یہ پروپیگنڈے بے اثر رہیں گے، آپ لوگوں کو ان لوگوں پر اعتماد کرنا چاہئے جنہيں آپ نے ذمہ دار بنایا ہے، جو بھی سرکاری عہدے دار ہوتا ہے وہ جو بھی کام کرتا ہے اس کے سلسلے میں اس عہدے دار پر اعتماد کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنا کام آسانی سے کر سکے۔ اگر یہ صورت حال رہی تو دشمن ملک کی معیشت پر طویل مدتی اثر نہيں ڈال سکتا اور نہ ہی اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایک زندہ قوم ، اقتصادی حملے کو بھی، تلوار سے کئے جانے والے حملے کی طرح ، بندوق سے کئے گئے حملے کی طرح ، ناکام بنا دیتی ہے اور اسے پوری طرح سے بے اثر کر دیتی ہے۔ مالی طریقہ کار کی جو میں نے بات کی ہے اس سے مراد رشوت ہے، دشمن رشوت کے ذریعے کمزور لوگوں کو خرید لیتے ہيں۔ دولت کے ذریعے، عالمی سامراج لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ آج پوری دنیا میں یہ کام ہو رہا ہے وہ اپنی شیطانی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہيں اور جن لوگوں کے منہ، دنیا کے مال و متاع کے لئے کھلے ہوتے ہيں ان کی شناخت کرتے ہيں اور پھر انہيں دولت سے خرید لیتے ہيں اور اپنا غلام بنا لیتے ہيں! دنیا کے بہت سے ملکوں میں انہوں نے اس طرح سے قوموں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان لوگوں نے لالچی و شکم پرست و دولت چاہنے والے افراد کو اس بے اہمیت چيز یعنی پیسے سے خریدا اور اپنا غلام بنا لیا ۔
دوسرا طریقہ کار ، فوجی طریقہ کار ہے، جو در اصل دھمکی دینے کا ذریعے ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں دو فریقوں میں جہاں جھگڑا ہوا ، امریکی بحری بیڑے اس علاقے کی سمت دوڑ پڑتے ہيں اور دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہيں! کئ برسوں سے امریکی بحری بیڑے خلیج فارس میں موجود ہيں؛ کتنے ایرانی ان بحری بیڑوں سے ڈرے؟ کتنے ایرانیوں نے خوف سے خود کو چھپا لیا ؟ کتنے ایرانی حکام نے امریکی بحری بیڑوں کے خوف سے اپنا بیان واپس لے لیا ؟ زندہ قومیں ڈرا نہیں کرتیں۔ با ایمان قومیں ڈرتی نہیں۔ جس دل میں ایمان ہوتا ہے اس پر ان چیزوں کا اثر نہيں ہوتا۔ ڈرپوک، ایمان سے دور، بزدل اور نا اہل لوگوں کو یہ بحری بیڑے اور یہ دھمکیاں ڈراتی ہیں اور وہ ڈرتے بھی ہيں ۔
تیسرا طریقہ کار اور حربہ، پروپیگنڈہ ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور حقا‏ئق کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سب سے پہلا کام جو دوسرے ملکوں میں کرتے ہیں یہ ہے کہ صداقت و اخوت کے مراکز کو نشانہ بناتے ہيں؛ سچے میڈیا کو نشانہ بناتے ہيں؛ با ایمان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں؛ الزامات لگاتے ہیں؛ لوگوں میں شک و شبہ پیدا کرتے ہيں؛ ذہنوں کو دھوکا دیتے ہيں اور حقائق کو بر عکس ظاہر کرتے ہیں۔ آج سامراج ان تین حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔
ان تینوں حربوں سے مقابلے کا کیا راستہ ہے؟ غور کریں، دیکھیں کہ انسانوں کو غلام بنانے والی دولت کے حربے سے کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ لوگوں کو خوف زدہ کرنے والے اسلحے سے اور اسی طرح لوگوں کو دھوکا دینے والے تشہیراتی پروپیگنڈوں سے کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ ان حربوں کو کون سی چیز بے اثر کر سکتی ہے؟ روشن ایمان، با بصیرت ایمان ۔ یہ وہی چیز ہے جو ہماری قوم کے پاس ہے اور انقلاب کی شروعات سے ہی اس کے پاس یہ چیز موجود تھی؛ یہ وہی چیز ہے جو رضاکار دستے کی خصوصیت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری قوم، اسلام کی برکت سے ایک نا قابل شکست طلسم کو توڑنے میں کامیاب ہو گئ ہے؛ غیر ملکیوں کے تسلط کا طلسم، امریکا کے تسلط کا طلسم۔ بہت سے ملک ہيں جو امریکی تسلط سے پریشان ہيں لیکن اسے ختم کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ جو ممالک امریکی تسلط میں ہیں وہاں کے تمام لوگ یہاں تک کہ حکومتیں خوش ہیں۔ ہاں کچھ حکومتیں ضروری ایسی ہیں کیونکہ ان کے مفادات اسی میں ہیں اور انہيں رشوت کی شکل میں دولت ملتی ہے لیکن اکثریت نالاں ہے۔ لیکن وہ اپنے گلے پڑی اس مصیبت سے اور امریکی تسلط کے عذاب سے اپنی جان چھڑانے پر قادر نہيں۔ ہماری قوم نے پوری طرح سے اس طلسم کو توڑنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور دشمن کے ہاتھ کاٹ دیئے۔
ایران بڑی حساس جگہ ہے؛ قدرتی ذخائر سے مالامال ہے؛ دولت سے بھرا ہوا ملک ہے؛ ثقافتی دولت سے معمور ہے اور فوجی و جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہم علاقہ ہے؛ اس لئے وہ اتنی آسانی سے ایران کا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ ایران واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دوبارا تسلط قائم کریں اور اپنے ناجائز مفادات اس ملک میں پورے کریں۔ دولت، فوجی حربے اور تشہیراتی حربے استعمال کر رہے ہيں۔ ہماری قوم بھی کھڑی ہے، رضاکار دستے بھی مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہيں۔ با ایمان قوتیں بھی ڈٹی ہوئی ہیں، حکومت بھی ڈٹی ہوئی ہے، حکام بھی ڈٹے ہوئے ہيں؛ سب لوگ ڈٹے ہيں۔ کیا آج کسی میں جرئت ہے کہ وہ ہماری قوم کی مرضی کے خلاف کہ جو اسلام کی خواہاں ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی مخالف ہے، کوئی کام انجام دے؟ آج ہمارے تمام نوجوان، تمام بوڑھے، طلبہ، علماء، اہم لوگ، چھوٹے بڑے یعنی قوم کی فرد فرد، سوائے کچھ معدودے چند لوگوں کے کہ جن کے دلوں پر مغربی تہذیب کا زنک لگ چکا ہے، یہ سمجھتی ہے کہ کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اسلام کو بصیرت، تفکر و عقلمندی کے ساتھ سمجھے اور اس پر عمل کرے تاکہ مخاصمت کم ہو اور دشمن دفع ہو۔ یہ رضاکار دستے بسیج کے نظریئے کی بنیاد ہے۔ بسیج کا مطلب یہ ہوتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے دو کروڑ کی جس فوج کی بات کی تھی وہ یہی ہے۔
یہ بھی آپ لوگ جان لیں کہ عالمی سامراج اور امریکا کے لئے اسلامی ایران آج بھی مسئلہ ہے اور ہمیشہ ان کے لئے مسئلہ بنا رہے گا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ جو پروپگنڈے کئے جاتے ہیں وہ معیار نہيں ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے، ان تینوں حربوں پر کام کیا جا رہا ہے؛ اسی لئے پروپگنڈے کا بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ایسے پروپگنڈے جس کے ذریعے کچھ لوگ ایک قوم کو اپنا غلام بننے پر تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ اس سے زیادہ احمقانہ کوئي بات ہو سکتی ہے؟ ایک قوم کو تسلط میں لانا، ایک بڑی طاقت اور ظالم و سامراجی طاقت کو اپنا آقا بنانا! کیا کوئی قوم ایسی بات کر سکتی ہے؟ یا ایک صحیح الدماغ انسان ایسی بات سوچ سکتا ہے؟ البتہ کچھ سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنے سیاسی اہداف کی تکمیل کے لئے کوشاں ہيں؛ اس لئے وہ کچھ بیانات دیتی ہيں اور کچھ لوگ طوطے کی طرح ان کی باتیں دہراتے ہیں۔ یہ بات صحیح و مضبوط لوگ زبان پر نہيں لا سکتے۔ آج کے حالات میں ہمارے ملک کی خودمختاری، اسلام سے تمسک، اس پر عمل در آمد، اتحاد اور دشمن کی شناخت سے جڑی ہوئی ہے اور آج ہمارے ملک کا دشمن عالمی سامراج ہے جس کا سرغنه امریکه ہے۔ یہی ہماری قوم کی سعادت کا راستہ ہے اور ہماری قوم سعادت کے اس راستے پر چلتی رہے گی اور سب کا یہ فرض ہے کہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان سے آشنائی پیدا کریں اور انہيں سیکھیں۔ تمام ثفافتی و نظریاتی شعبوں میں، علمی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اور اہل فن حضرات اور عوامی طاقت پر مشتمل رضاکار فورس، اس مقصد کی تکمیل کے راستے کا ہراول دستہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ لوگ نوجوان ہيں، جوشیلے ہيں اور عوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمان کے جزبے سے سرشار ہماری تمام مومن فورسسز کا فرض ہے کہ خدا پر توکل اور اعتماد کریں۔ جو واضح و روشن راستہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہماری قوم کو دکھایا ہے اس پر گامزن رہیں؛ خدا بھی انہيں نوازے گا، ان کی مدد کرے گا اور انہيں کامیابی سے ہمکنار کرے گا اور انشاء اللہ انہيں ان کے اعلی اہداف تک پہنچا دے گا جس پر امام زمانہ ارواحنا فداہ ان سے راضی ہوں گے۔

والسّلام عليکم و رحمةالله و برکا