آپ نے قرآن کے سلسلے میں تحقیقاتی کام انجام دینے کے لئے پاکیزگی دل اور صفائے باطن کو لازمی قرار دیا۔ علم و دانش کے شعبے میں ایرانی خواتین کی پیشرفت و ترقی کو اسلامی انقلاب کا ثمرہ قرار دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب سے قبل خواتین کی علمی پسماندگی کی صورت حال بیان کی۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم خواتین! عزیز بہنو! آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، یقینا آج اتنی بڑی تعداد میں قرآن سے دلبستہ فرزانہ خواتین کودیکھنا میرے لیے عید کے دن کے برابر ہے اور میں اسے اپنے لیے کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی جانب سے ایک لطف سمجھتا ہوں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا دن بھی آيا جب ملک کی خواتین کا یہ خیل عظیم گہرے، منطقی اور عالمانہ محرک کے ساتھ قرآن، ادراک قرآن، ترویج قرآن اور قرآن میں تحقیق کے لیے کوشاں ہے اور اس طرح سے ملک میں قرآنی فضا کو رونق عطا کر رہا ہے۔ یقینی طور پر یہ ہمارے ملک کے لیے پروردگار عالم کی جانب سے ایک عظیم تحفہ ہے۔
وہ تمام تجاویز جو محترم خواتین نے یہاں پیش کی ہیں، قابل توجہ ہیں۔ ان شاء اللہ ہم خود ان تمام تجاویز کو لیں گے، ان کا جائزہ لیا جائے گا، ان پر توجہ دی جائے گی اور اگر کچھ عہدیدار ان امور کے نگراں ہوئے تو یہ ان کے حوالے کر دی جائيں گی۔ ہمیں امید ہے کہ ان تجاویز میں سے جو بھی تجویز عملی جامہ پہننے کے لائق ہوگی، منطقی ہوگي اور قابل قبول ہوگی، ان شاء اللہ اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
میں دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں: پہلی بات یہ کہ ہمارے ملک اور اسلامی جمہوریہ میں خواتین کی یہ تحریک انتہائي پرشکوہ اور لائق تحسین ہے۔ دوسری بات قرآنی مسائل سے متعلق ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی خواتین کی جانب سے قرآن پر توجہ اور قرآن سے متعلق امور میں ان کی موجودگی، ایسی بات ہے جسے سبھی کو اسلامی جمہوری نظام کی ایک بہت بڑی توفیق کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے کہ جو تمام دیکھنے والوں، جستجو کرنے والوں، تنقید کرنے والوں، چاہنے والوں اور مخالفوں کے سامنے ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ علمی اور تحقیقی مسائل میں خواتین کی آمد ہی، کہ جو قرآنی مسائل سے مختص نہیں ہے، قابل توجہ ہے۔ ملک میں جو جرائد شائع ہوتے ہیں، چاہے علمی اور سائنسی جرائد ہوں، علمی اور تحقیقی جرائد ہوں یا علمی اور تبلیغی جرائد ہوں، جب میں ان پر نظر ڈالتا ہوں، ان کا مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارے جرائد میں تمام موضوعات پر نئے نئے مضامین لکھے جا رہے ہیں اور ان میں خاتون مصنفین اور محققین کی تعداد قابل توجہ ہے۔ دینی علوم میں، ف‍قہ میں، فلسفے میں، یونیورسٹی کے مسائل کے میدان میں، انسانی علوم کےمیدان میں، سائنس کے میدان میں ہمارے ملک کی خواتین کی موجودگی بہت ہی واضح اور تمام علمی شعبوں میں مکمل طور پر عیاں ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہماری طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے؛ علمی میدانوں کو خواتین کی موجودگی نے حیرت انگیز طریقے سے واضح اور آشکار کر دیا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ کون سا مسئلہ ہے؟ یہ کون سی حقیقت ہے؟ کب ہمارے ملک میں خواتین میں اتنی محققین، عالم، پڑھی لکھی اور دین کی مبلغ و مروج عورتیں تھیں؟ ہماری تاریخ میں کبھی بھی اس طرح کی کوئي چیز نہیں تھی۔ جی ہاں! خال خال، کبھی کبھار دانشور اور اہم شخصیت کی حامل خواتین رہی ہیں لیکن پورے معاشرے میں قابل توجہ اور بہت بڑی تعداد میں موجودگی کے معنی میں نہیں۔یہ اسلامی جمہوریہ کے دور سے مختص ہے؛ یہ اس ملک میں اسلام کی حکمرانی کی برکت کے سبب ہے کہ علمی میدانوں میں خواتین اس طرح سے اپنے آپ کو منوا رہی ہیں اور اتنی اہمیت کی حامل بنتی جا رہی ہیں۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کے قابل فخر کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہ جو میں نے طلباء اور جوانوں کے اجتماع میں بار بار یہ بات کہی ہے کہ خواتین کے مسئلے میں ہم مغرب والوں کے دعوؤں کے مقابل دفاعی پوزیشن میں نہیں بلکہ حملے کی پوزیشن میں ہیں اور خواتین کے معاملے میں اسلام کو نہیں بلکہ مغرب کو اپنا دفاع کرنا چاہیے، وہ اسی وجہ سے ہے۔
طاغوتی نظاموں میں جس طرح سے عورت کو ایک دوسری نظر سے دیکھا جاتا تھا اسلام اس کے بالکل برخلاف عورت کو ایک شخصیت عطا کرتا ہے۔ اسلام میں جب مومن کے لیے کوئي نمونہ اور آئيڈیل معین کیا جاتا ہے تو عورت کا نمونہ معین کیا جاتا ہے۔ ((و ضرب اللَّہ مثلا للّذين امنوا امراۃ فرعون))1 یہ پہلی شخصیت، ((و مريم ابنت عمران))2 یہ دوسری شخصیت، ان لوگوں کے لیے نمونہ جو ایمان لائے ہیں۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کے لیے بھی دو عورتوں کی مثالیں ہیں: ((امراۃ نوح و امراۃ لوط كانتا تحت عبدين من عبادنا ۔۔۔ فخانتاھما))3 یعنی عورت کو قرآن نہ صرف یہ کہ خواتین کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے محور، عبرت اور آئینہ قرار دیتا ہے۔ کسی مرد کا بھی انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ نہیں، یہ اس منحرف اور غلط نظریے سے مقابلے کے لیے ہے جو خواتین کے سلسلے میں موجود تھا۔ یہ نظریہ ہمیشہ تحقیر آمیز نہیں تھا تاہم ہمیشہ غلط تھا۔
طاغوتی نظام میں ہمیشہ غلط طریقے سے عورت کو دیکھا گيا ہے؛ آج بھی مغرب میں ایسا ہی ہے۔ اب ممکن ہے کہ مغرب کے انہی نظاموں میں بہت سے مردوں کی طرح کچھ خواتین بھی اہم، محترم اور پاکیزہ شخصیت کی مالک ہوں لیکن مغرب کی رائج ثقافت میں عورت کے بارے میں عمومی نظریہ، غلط نظریہ ہے، اسے ایک استعمال کی چیز کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، یہ ایک اہانت آمیز نظریہ ہے۔ مغرب کی نظر میں اس بات کی وجہ کہ آپ چادر نہ اوڑھیں اور حجاب نہ کریں، یہ نہیں ہے کہ آپ آزاد رہیں۔ آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے حجاب کے ساتھ بھی آزادی حاصل ہے۔ بنابریں بات کچھ اور ہے؛ مردوں کی حریص نگاہوں کی تسکین کے لیے، مرد کی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ عورت ایک خاص انداز میں معاشرے میں سامنے آئے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے؛ اب چاہے وہ اس بات پر کتنے ہی پردے ڈالتے رہیں اور اسے دوسرے نام دیتے رہیں۔
عورت کی شان یہ ہے کہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ ان تمام عظیم اور اہم صلاحیتوں اور استعدادوں کو جنہیں خداوند متعال نے عورت سمیت ہر انسان کے اندر رکھا ہے اور ان صلاحیتوں کو جو صرف خواتین کے اندر ہی ہوتی ہیں، مختلف سطحوں پر پوری طرح سے ظاہر کر سکے؛ خاندان کی سطح پر، معاشرے کی سطح پر، عالمی سطح پر، علم و دانش کے لیے، معرفت اور تحقیق کے لیے، تربیت، پرورش اور تعمیر کے لیے۔ عورت کے احترام کا مطلب یہ ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ خداوند عالم کی توفیق سے اور اس کے فضل و کرم سے ہمارے معاشرے میں یہ بات پوری طرح سے واضح ہو گئی ہے۔تو بحمداللہ ہمارے ملک میں خواتین کی بنیادی صورتحال بہت ہی گرانقدر ہے اور وہ تمام علمی میدانوں میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی انتہائی سرگرم اور قابل تحسین ہے، خاص طور پر قرآن کے میدان میں کہ جو بہت زیادہ گرانقدر ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ عالم اسلام میں کہیں بھی اتنی بڑی تعداد میں خواتین، ایسے جذبے اور اتنے شوق کے ساتھ قرآن کے امور میں سرگرم ہوں۔البتہ میں نے اس سلسلے میں گہرائي سے جائزہ نہیں لیا ہے تاہم جس طرح سے انسان عام طور پر عمومی معلومات رکھتا ہے، اس سے ایسا ہی لگتا ہے کہ ایسا کہیں اور نہیں ہے کیونکہ لو کان لبان اگر ہوتا تو پتہ چل ہی جاتا، ہمیں معلوم ہو ہی جاتا۔ بہرحال میرا خیال یہی ہے کہ عالم اسلام میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے، یہ صرف آپ لوگوں کا کمال ہے۔ قرآن مجید کے گوناگوں موضوعات کے بارے میں تحقیق کرنے والی اتنی خواتین؛ پوری طرح سے علمی مسائل سے لے کر تبلیغی و تربیتی مسائل تک اور فن و ہنر سے متعلق امور تک۔ میری نظر میں یہ سب بہت زیادہ گرانقدر ہے۔ البتہ جس طرح سے تجویز دی گئي ہے، اس کا جائزہ لیا جائے، اس کے تمام پہلوؤں پر گہرائی سے نظر ڈالی جائے اور اگر بین الاقوامی مقابلوں کا مسئلہ قابل عمل ہو اور اس کو عملی جامہ پہنایا جائے تو اس وقت قرآن کے سلسلے میں ایرانی عورت کے کام کی اہمیت واضح ہو جائے گی اور یہ ایک قابل فخر بات ہے؛ ایرانی خاتون کے لیے بھی اور اسلامی جمہوریہ کے لیے بھی جو قرآن کے مسئلے میں اس طرح سے بڑے پیمانے پر کام کر سکتا ہے۔
قرآن کے باب میں ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ برسوں تک ہمارے معاشرے اور قرآن کے درمیان فاصلہ آ گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ میں ہم اس فاصلے کو کم کر رہے ہیں؛ پچھڑے پن کی تلافی کر رہے ہیں، تاہم یہ پچھڑا پن بہت زیادہ تھا۔ طاغوت کی حکمرانی کے دوران، باضابطہ طور پر معاشرے میں قرآن مجید کی موجودگی نہیں تھی؛ ممکن ہے کہیں کہیں پر لوگ قرآن سے آشنا ہوں، دیندار لوگ گھروں میں قرآن پڑھتے تھے لیکن یہ صرف قرآن کی تلاوت ہوتی تھی، قرآن مجید پر غور و فکر، بالخصوص پورے معاشرے کی سطح پر اور عمومی طور پر بہت کم تھا، بہت ہی کم تھا۔ نتیجہ یہ ہوا تھا کہ ہمارا روشن فکراور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والا طبقہ مکمل طور پر قرآن مجید سے دور ہوگیا تھا؛ یعنی واقعا اس زمانے کے تعلیم یافتہ افراد کے درمیان ایسے لوگ دکھائي نہیں دیتے تھے جو قرآن مجید سے انس اور آشنائی رکھتے ہوں اور وہ بھی بہت وسیع اور عمیق نہیں بلکہ محدود سی آشنائی بھی نہیں رکھتے تھے، حقیقت میں ایسے لوگ نہیں تھے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تھوڑی بہت دینی تعلیم حاصل کی تھی یا کچھ آیتیں حفظ کر لی تھی تاہم دوسرے اسلامی ممالک میں خصوصا عرب ملکوں میں ان کی خاص صورتحال کی وجہ سے حالات ایسے نہیں تھے اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ انسان جب ان کے روشن فکر افراد سے، تعلیم یافتہ افراد سے، یونیورسٹی سے متعلق افراد سے، جو مختلف سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں، ملاقات کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اپنی گفتگو میں قرآن مجید کی آیتوں کو تمثیل کے طور پر، اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے شاہد کے طور پر، اپنی بات کی تائید میں اور دلیل کے طور پراستعمال کرتے ہیں؛ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے پرانے روشن فکر طبقے میں موجود نہیں تھی لیکن ہماری جوان نسل میں یہ بات ہے۔ یہ قرآن مجید سے دور رہنے کے سبب تھا اور ہم اس سے دور ہو چکے تھے۔ اب ان ممالک میں تعلیم اور تربیت کا معیار کیسا تھا؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ تو خاص طور پر عرب ممالک میں یہ بات رائج تھی اور اب بھی ہے۔ ہم نے اسلامی انقلاب کے اوائل سے ہی اس چیز کا مقابلہ کرنا شروع کیا۔ یہ عرب ممالک کے سیاستداں اور حکام جن پر ہم نے ہمیشہ ہی عمل میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات سے دوری پر اعتراض کیا اور اب بھی کرتے ہیں اور یہ اعتراض بھی بالکل بجا تھا تاہم ان کے ذہن میں اور زبان پر قرآن مجید موجود تھا۔ ہمیں ہمیشہ افسوس ہوتا تھا کہ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔مثال کے طور پر اگر میں تشبیہ دینا چاہوں تو باذوق ایرانی افراد اپنی گفتگو میں ممکنہ طور پر گلستان سعدی کے جملوں، حافظ کے اشعار یا کسی معروف ایرانی مصنف کے جملوں کا استعمال کر سکتے ہیں، وہ لوگ اسی طرح سے قرآن مجید سے استفادہ کرتے تھے؛ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں تھا۔ ہم اسلامی انقلاب سے قبل، تربیت اور پرورش کی روش کے سبب قرآن مجید سے دور ہو گئے تھے۔
اب ہم اس کی تلافی کرنا چاہتے ہیں اور انصاف سے کہا جائے تو اس کے لیے اسلامی انقلاب کے اوائل سے بہت زیادہ کام ہوا ہے اور اس کا نتیجہ بھی ہم دیکھ ہی رہے ہیں؛ تاہم یہ کام کی شروعات ہے، راہ کا آغاز ہے۔ قرآن کے میں ضم ہو جانا چاہئے، پوری طرح سے جڑ جانا چاہیے؛ قرآن کے مفاہیم اور ایسے مفاہیم ہیں جو زندگی کے لیے صرف معلومات نہیں ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے پاس قرآن کی اچھی معلومات ہوتی ہیں تاہم اس کی زندگي میں قرآن کا کوئي اثر نہیں ہوتا! یہاں بعض محترم خواتین نے اشارہ کیا اور کہا۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہماری زندگي میں قرآن مجسم ہو جائے۔ جس طرح سے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجۂ مکرمہ سے پیغمبر کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گيا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ((کان خلقہ القرآن))4 ان کا اخلاق قرآن تھا۔ یعنی قرآن مجسم تھا۔ اس بات کو ہمارے معاشرے میں بھی عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔
اب ایک بہت ہی واضح حيقیقت ہے جو اپنے زیادہ واضح ہونے کی وجہ سے زیادہ تر نظر انداز کر دی جاتی ہے؛ اس حقیقت کے بارے میں بھی بات کریں۔ یہ حقیقت خود اسلامی جمہوریہ کا عملی جامہ پہننا ہے؛ یہ قرآن مجید کی عملی شکل ہے۔ اسلامی جمہوری نظام، دینی نظام، قرآن مجید پر عمل کا ایک بہت بڑا مظہر ہے جسے اسلامی انقلاب نے ہمارے لیے ممکن بنایا ہے۔ ہمیں اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ ہاں، اس بڑے دائرے کے اندر بہت خالی جگہیں ہیں، جنہیں ہمیں پُر کرنا ہے، بہت سارے کام ہیں جنہیں انجام پانا ہے، تاہم اصل کام، بنیادی کام یہ تھا کہ یہ نظام وجود میں آ جائے۔ دین پر مبنی ایک ایسے نظام کا قیام کہ جس کے عہدیداروں کی ماہیت، اہداف، خصوصیات، کارکردگی، لوگوں کے ساتھ ان کا رابطہ اور لوگوں کے لیے ان کی کارکردگی، دین کی بنیاد پر ہو، دینی احکام کی بنیاد پر ہو، اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ہو، یہ قرآن مجید پر عمل کے مظاہر میں سے سب سے بڑا مظہر ہے؛ یعنی وہی کام جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینے آ کر اور مدینے ہجرت کرکے انجام دیا تھا۔جب تک کوئي معاشرہ نہ ہو، کوئي نظام نہ ہو، اقتدار کا مرکز نہ ہو جو تمام سماجی سرگرمیوں کو اپنے ہاتھ میں لے سکے تب تک اجراء کی کوئي ضمانت نہیں ہو سکتی۔ اسلامی انقلاب سے قبل بہت تھوڑی تعداد میں ایسے خیر خواہ اور ناصح تھے جنہیں اس سلسلے میں ہمدردی تھی، انہیں دلی تکلیف ہوتی تھی، وہ لوگوں کو مسلسل نصیحت کرتے تھے، عمومی ذرائع ابلاغ میں یا زیادہ محدود سطح پر، بہر حال نصیحت کرتے تھے، وعظ و نصیحت بے اثر نہیں ہوتی، اس کا دل پر اثر پڑتا ہے، لیکن جامۂ عمل پہنائے جانے کے قابل نہیں ہوتی؛ کیوں؟ کیونکہ نظام، غلط نظام ہے، کیونکہ معاشرے کا ماحول، عدل کے خلاف، انصاف کے خلاف، مروت کے خلاف اور اخلاق کے خلاف ماحول ہے۔ اب ایسے ماحول میں آپ کسی سے اصرار کرتے رہیے کہ کہ انصاف کرو، رحم سے کام لو، عدل سے کام لو؛ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ معاشرے کا بنیادی ماحول بہت اہم ہے۔ یہ ماحول، ایک نظام کی تشکیل سے ہی ممکن ہے؛ ایک ایسا نظام جس میں صحیح ماحول اور دین ہو۔ یہ کام انقلاب نے انجام دیا اور اس نظام کو وجود عطا کیا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے قرآن کے محققین اور مشتاق نوجوانوں کو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے؛ یہ بہت واضح اور روشن حقیقت ہے، تاہم اکثر اس سے غفلت برتی جاتی ہے! یہ بہت ہی اہم حقیقت ہے۔اس تناظر میں قرآن مجید کی تعمیر کے میدان میں اترنا چاہیے اور بنیادی کام انجام دینا چاہیے۔ مفاہیم، قرآنی کلمات کے حقیقی معنی کے مطابق ہو جائیں اس کے لیے ہمارا انفرادی رویہ، انتظامی رویہ، تنظیمی رویہ، تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ہمارا رویہ؛ تعلیم و تربیت کے اداروں سے مراد تمام یونیورسٹیاں، تحقیقی مراکز اور تمام دینی تعلیمی مراکز ہیں؛ خاندان کے اندر ہمارا رویہ، ہمارا سیاسی رویہ، ہمارا بین الاقوامی رویہ، یہ سب اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے؛ یہ کب ہوگا؟ یہ تب ہوگا جب ہم قرآن مجید کے مفاہیم سے صحیح طریقے سے اور بخوبی واقف ہوں گے۔ یہ وہی کام ہے جو قرآن پر تحقیق کی اس عظیم تحریک سے، چاہے وہ خواتین کے شعبے سے متعلق ہو یا مردوں کے شعبے سے، عملی جامہ پہنے گا۔ سمت یہ ہونی چاہیے؛ اسی سمت میں تحقیقات کو آگے بڑھنا چاہیے۔
قرآن مجید کے سلسلے میں تحقیقی کاموں کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جو بھی شخص قرآن مجید پر کام کے راستے میں آگے بڑھنا چاہتا ہے اسے اپنے دل کو قرآن کی خالص حقیقت سے روبرو ہونے کے لیے تیار کرنا چاہیے؛ یعنی دل کی پاکیزگی۔ اگر دل پاکیزہ نہ ہو، قرآن کی زبان سے حق اور حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو، غیر اسلامی اور غیر خدائی معیارات پر فریفتہ ہو تو قرآن سے روبرو ہونے کے باوجود وہ اس سے استفادہ نہیں کرے گا۔ یہ جو قرآن مجید فرما رہا ہے کہ ((يضلّ بہ كثيرا و يھدى بہ كثيرا))5 تو قرآن کے ذریعے اضلال اورگمراہی کیوں؟ قرآن کے ذریعے ہدایت تو خیر واضح ہے لیکن قرآن کے ذریعے اضلال اور گمراہی کیونکر ممکن ہے؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ ((و امّا الّذين فى قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الى رجسھم))6 جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے، وہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو ان کی اندرونی گندگی اور برائی میں اضافہ ہی ہوگا۔ قرآن مجید کی یہ آیت یا کوئي دوسرا سورہ ان کی گندگی میں اضافہ ہی کرے گا۔ یہ گندگي کیا ہے؟ یہ ((فی قلوبھم مرض)) کون سا مرض ہے؟ یہ مرض، اخلاقی بیماریوں سے عبارت ہے۔ جب ہم حسد میں مبتلا ہیں، جب دوسروں کی برائي چاہتے ہیں جب حرص و طمع میں پھنسے ہوئے ہیں، جب دنیا پرستی میں گرفتار ہیں، جب نفسانی خواہشات ہم پر غالب آ چکی ہیں، جب اقتدار پرستی کا ہم پر غلبہ ہو چکا ہے، جب حق تلفی، حق کو نہ دیکھنا اور حق کو چھپانا ہماری روح اور ہمارے دل پر غالب آ چکا ہے تو ہم قرآن مجید سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ جو چیز قرآن سے ہمیں ملنی چاہیے ہم اس کی ضد اور برخلاف چیز کو قرآن سے حاصل کرتے ہیں۔ خدا سے پناہ مانگنی چاہیے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ بعض لوگ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی سرکوبی اور اسلامی جمہوریہ نے ہمیں جو فضائل عطا کیے ہیں انہیں تباہ کرنے کے لیے کبھی کبھی قرآن کی کوئي آيت پڑھتے ہیں! پاکیزگی کے ساتھ قرآن مجید سے روبرو ہونا چاہیے تاکہ نور قرآن اور نصیحت قرآن ہمارے دل میں سما سکے اور ہم اس سے استفادہ کر سکیں، ان شاء اللہ۔
قرآنی تحقیقات کے سلسلے میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآنی تحقیقات میں بنیادی اور اصولی، علمی کاموں پر توجہ بہت زیادہ ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جسے بھی عربی آتی ہو وہ قرآن مجید کی تمام باتوں کو صحیح طریقے سے سمجھ لے گا اور قرآن کے سلسلے میں تحقیق کر سکے گا، نہیں۔ سب سے پہلے تو خود قرآن مجید سے انس بہت ضروری ہے؛ یعنی قرآن مجید کے سلسلے میں تحقیق کرنے والے کو پورے قرآن سے مانوس ہونا چاہیے؛ قرآن کی تلاوت، قرآن کو دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنا اور قرآن مجید میں بذات خود غور کرنا اس بات میں مدد کرتا ہے کہ جب ہم قرآن مجید میں کسی ایک خاص موضوع کے بارے میں حقائق تلاش کریں تو اس موضوع کے بارے میں ہم کسی نتیجے تک پہنچ جائيں، بنابریں خود قرآن مجید سے انس بہت زیادہ ضروری ہے۔
اس کے بعد قرآن مجید سے استفادے کی کیفیت ہے؛ قرآن مجید کی آيات اور معصومین کی روایات سے استفادے کے سلسلے میں ہمارے علمائے دین اور فقہاء کی جو روش ہے وہ ایک مجرب روش ہے، ایک مکمل طور پر آزمایا ہوا اور ثابت شدہ علمی طریقۂ کار ہے؛ انہیں حاصل کرنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ جو بھی قرآن کے سلسلے میں تحقیق کرنا چاہتا ہے وہ جا کر کئی برسوں تک دینی تعلیم حاصل کرے، میرا مطلب یہ نہیں ہے، تاہم قرآنی تحقیق، قرآن کے سلسلے میں بعض بنیادی اور تمہیدی چیزوں کے ادراک کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ ان میں زبان سے آگاہی، زبان کے نکات اور ظرافتوں سے آگاہی، اصول فقہ کی بعض بنیادی باتوں سے آگاہی، یہ سب ضروری چیزوں میں شامل ہیں، انہیں سیکھنا چاہیے، اسی طرح قرآن کے ذیل میں موجود روایات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ ساری باتیں قرآن کے سلسلے میں تحقیق کرنے میں بہت مؤثر ہیں۔
ایک اور نکتہ عرض کروں جو میری آج کی اس گفتگو کا آخری نکتہ ہے، وہ یہ کہ میں نے ہیومن سائنسز کے موضوعات کے بارے میں یونیوسٹیوں سے ایک گلہ کیا تھا، کئی بار اور ابھی حال میں بھی۔ گلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ موضوعات ایسے معیارات اور بنیادوں پر استوار ہیں جو قرآنی اور اسلامی بنیادوں کے منافی ہیں۔مغربی ہیومن سائنسز، ایک دوسری آئيڈیالوجی پر مبنی ہیں، خلقت کے بارے میں ان کے ایک دوسرے ادراک پر مبنی ہیں اور یہ ادراک اور نظریہ زیادہ تر مادی ہے۔ تو یہ نظریہ، ایک غلط نظریہ ہے؛ یہ بنیاد ایک غلط بنیاد ہے۔ ہم ان علوم کے بارے میں کسی بھی قسم کی اسلامی تحقیق کئے بغیر انہیں ترجمے کی صورت میں اپنی یونیورسٹیوں میں لے آتے ہیں اور مختلف شعبوں میں ان کی تعلیم دیتے ہیں؛ جبکہ انسانی علوم کی جڑ، اساس اور بنیاد کو قرآن مجید میں تلاش کرنا چاہیے۔ قرآن مجید میں تحقیق کا ایک اہم شعبہ یہ ہے۔ مختلف میدانوں میں قرآن مجید کے نکات اور ظریف باتوں پر توجہ دی جانی چاہیے اور انسانی علوم کے بنیادی معیارات کو قرآن کریم میں تلاش کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت ہی بنیادی اور اہم کام ہے۔ اگر یہ ہوگيا تو پھر مختلف انسانی علوم کے محققین اور صاحب نظر افراد ان بنیادوں پر عظیم عمارتیں تعمیر کر سکیں گے۔ اسی طرح وہ مغرب والوں اور جن لوگوں نے علوم کے میدان میں پیشرفت کی ہے، ان کی پیشرفت سے استفادہ بھی کر سکیں گے تاہم بنیاد، قرآنی بنیاد ہونی چاہیے۔
خداوند متعال آپ سب کو توفیق عطا فرمائے۔ میں ان تمام محترم خواتین کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو ملک کے مختلف شعبوں میں قرآن مجید کے سلسلے میں کام کر رہی ہیں۔ قرآن مجید پر کام کے میدان میں آپ کی موجودگی، ملک میں خواتین کے معاشرے کو ترغیب دلائے گی اور ہمارے ملک کی خواتین کو یعنی ملک کی آدھی آبادی کو ان شاء اللہ قرآن کی طرف راغب کرے گی۔ اگر خواتین قرآن سے مانوس ہو جائيں تو معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہو جائيں گے کیونکہ اگلی نسل کے انسان عورت کے دامن میں پرورش پاتے ہیں اور قرآن سے آگاہ اور مانوس نیز قرآنی مفاہیم کو سمجھنے والی خاتون، بچے کی تربیت میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ لوگوں کی اس عظیم تحریک کی برکت سے انشاء اللہ ہمارے معاشرے کا کل، آج کی بہ نسبت زیادہ قرآنی ہوگا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1) ) سورۂ مبارکۂ تحريم، آیت نمبر11
2) ) سورۂ مبارکۂ تحريم، آیت نمبر 12
3) ) سورۂ مبارکۂ تحريم، آیت نمبر 10
4) ) فضائل الخمسہ، جلد 1، صفحہ 117
5) ) سورۂ مبارکۂ بقرہ، آیت نمبر 26
6) ) سورۂ مبارکۂ توبہ، آیت نمبر 125