بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں تمام حضرات کا بالخصوص ان حضرات کا جو دور سے تشریف لائے ہیں، شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واقعی یہ جلسہ بہت پرشکوہ اور عظیم ہے۔ انسان کا دل چاہتا ہے کہ کاش وقت ہوتا اور ایسے جلسے میں، اس طرح کے لوگوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھتا اور استفادہ کرتا۔ جو اجتماع میں اس وقت دیکھ رہا ہوں (1)، حق یہ ہے کہ ایسا کوئی اور اجتماع نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگ جن میں سے ہر ایک عظیم کاموں کے لئے مرکز امید ہے، اس کام کے لئے جمع ہوئے ہیں، واقعی بہت اہم کام ہے۔ جتنا ممکن ہو ، اس کام میں حضرات سے استفادہ کیا جائے۔
یہ کام بہت اہم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان اہم ترین کاموں میں سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ ٹیم، سیاستدانوں اور علمائے کرام کو اس کام کے بارے میں سوچنا اور اس کو انجام دینا چاہئے تھا۔ یہ بہت اعلی ہدف ہے۔
اہلبیت ( علیہم السلام ) کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا سوائے اس کے کہ یہ ہستیاں ہمیشہ مظلوم رہیں۔ ولم یزل اہل البیت مظلومین (2) اور اسی طرح مظلوم ہیں۔ اس لئے کہ بہت سے مسلمان ان ہستیوں کی تعلیمات کی معرفت نہیں رکھتے اور ان کے بتائے ہوئے راستے سے واقف نہیں ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اہلبیت (علیہم السلام) کو متعارف کرانے، آپ کے بتائے ہوئے راستے کو پہچنوانے، آپ کی پیروی کرنے والوں کو منظم کرنے اور شیعہ بچوں کو اہلبیت علیہم السلام کے اہداف کے راستے پر ڈالنے کے لئے، ہر ممکن کوشش کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی اہلبیت کونسل، اس کام کا مرکز رہے۔
ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں جو کام ہونے ہیں وہ سب، کوئی ایک مرکز تنہا انجام نہیں دے سکتا، لیکن یہ مرکز بہت سے بنیادی کام انجام دے سکتا ہے اور بہت سے دوسرے کاموں کے سلسلے میں رہنمائی کر سکتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے لئے ، دنیا کے دوسرے علاقوں کے لئے شیعوں کے لئے اور ہمارے عوام کے لئے جو اس قضیے سے آگاہ ہیں، خود اس مسئلے کا اعلان امید افزا ہے۔ اس اعلان نے ( کہ اہلبیت عالمی کونسل نے محبان اہلبیت کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی مہم شروع کی ہے) ان کے اندر توقعات پیدا کر دی ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔
میرے خیال میں اس کونسل کے دو بنیادی کام ہیں۔ اگر ہم نے کسی اور چیز کا انتظار نہ کیا اور یہ دونوں کام شروع کر دیئے تو بقیہ کام تدریجی طور پر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔
ایک کام تنظیمی ہے، تنطیمی کام دفتری نظم کے معنی میں نہیں، یہ تمہیدی کام ہیں جو تدریجی طور پر بھی انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم پوری دنیا میں، تمام شیعیان اہلبیت میں اس رابطے کے احساس کو زندہ رکھیں۔ یعنی وہ محسوس کریں کہ یہ رابطہ قائم ہو چکا ہے۔ تمام جماعتیں اسی طرح کی ہیں، یہ کوئی جماعت نہیں ہے لیکن جو مرکز بھی کسی وسیع مجموعے سے سروکار رکھنا چاہے، اس کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ اندرونی سطح پر رابطے کے احساس کو باقی رکھے۔ یعنی ہندوستان کے شیعہ، پاکستان کے شیعہ، افریقا کے شیعہ، لاطینی امریکا کے شیعہ، یورپ کے شیعہ اور مشرق وسطی کے شیعہ یہ احساس کریں کہ اس شیعہ مرکز اور اس عالمی کونسل کے ذریعے ان سے رابطہ برقرار ہے۔ کم سے کم سال میں دو تین بار، کوئی رسالہ، کوئی جریدہ اور کوئی تحریر ان تک پہنچے تاکہ وہ اس رابطے کے وجود کو محسوس کریں۔ جس طرح بجلی کے تاروں میں الیکٹرون مستقل دوڑتے رہتے ہیں اور رابطہ برقرار رکھتے ہیں، یہ رابطہ مستقل برقرار رہنا چاہئے۔ یہاں مرکز ہو، کام ہو، جو تمام شیعوں تک پہنچے۔ بٹن دبایا گیا اور رابطہ کٹ گیا تو وہ خلاء کا احساس کریں گے، ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور الگ ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہو تو کام نہیں ہو پائے گا۔ ہمیں اس کو اپنا ہدف قرار دینا چاہئے۔ البتہ کام سخت ہے اور میرے خیال میں اہلبیت کونسل کے یہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگے گا۔
ہمیں یہ فکر کرنی چاہئے کہ کیا کام کرنے ہیں۔ آیا خاص قسم کے رسالے ارسال کرنے چاہئیں؟ آیا ان جگہوں پر دفاتر قائم کرنے چاہئیں؟ آیا ان کے موجودہ مسائل میں واضح اور صریحی حل ان کے سامنے پیش کئے جائیں؟
فرض کریں کہ اس وقت اگر کشمیر کے شیعہ جو مسلمانان کشمیر کا حصہ ہیں اور اقلیت میں ہیں، ہم سے سوال کریں کہ فلاں مسئلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے، تو اس عالمی کونسل کو مطالعہ کرکے، غور و فکر کرکے، ان کا جواب تیار رکھنا چاہئے اور انہیں دینا چاہئے۔ اسی طرح دیگر علاقوں، یورپ اور دوسری جگہوں کے شیعوں کو بھی، جو اقلیت میں ہیں، بعض مسائل در پیش ہوتے ہیں، ہمیں ہمیشہ ان کے سوالوں کا جواب اور مسائل کا حل تیار رکھنا چاہئے۔ ان کے سوال سیاسی ہوں یا فقہی ہوں یا دیگر مسائل سے متعلق ہوں، جو انہیں پیش آتے ہیں۔ یہ اعلا ترین رابطہ ہے۔ اس سے زیادہ ارتباط نہیں ہو سکتا۔ ان سے آخری حد تک ارتباط ہونا چاہئے تاکہ اس مرکز کے پاس یہ مجموعہ رہے۔ یہ تنظیمی کام ہے۔ اس ارتباط کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنا ضروری ہے۔ وہ ارتباط جو اعتماد کے ساتھ ہو، وہ جسمانی، مادی اور ظاہری ارتباط نہیں ہے۔ اس سرچشمہ اعتماد سے مستقل طور پر رابطے کی صورت میں فیض جاری رہنا چاہئے۔ اگر فیض منقطع ہو گیا، تو رابطہ کمزور اور منقطع ہو جائے گا۔
دوسری بات معنی اور مفہوم سے تعلق رکھتی ہے۔ ہمیں اہلبیت کی تعلیمات کی سربلندی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے ہمیں خود اہلبیت کو متعارف کرانا چاہئے اور پھر ان کے افکار کی ترویج کرنی چاہئے۔ آیا آج اسلامی دنیا میں اہلبیت ( علیہم السلام) کے بارے میں ایسی کتابیں ہیں جو اس زمانے کے لئے مناسب ہوں اور مناسب زبان میں لکھی گئی ہوں یا نہیں؟ میرا تو خیال یہ ہے کہ مکمل طور پر ایسی کتابیں ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض گوشہ و کنار میں کچھ چیزیں ہوں۔ اگر ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ہم ان کتابوں کو شائع کریں اور یونیورسٹی طلبا، نوجوانوں، علمائے کرام، عام لوگوں اور ان لوگوں تک پہنچائیں جو تشہیرات سے متاثر ہوئے ہیں۔ اہلبیت (علیہم السلام) کو متعارف کرانے کے لئے بھی کتابیں اور تحریر شائع کرنی چاہئیں۔ وسیع پیمانے پر ثقافتی کام کرنے کی ضرورت ہے اور اسلامی مسائل یعنی اسلامی اصول، اسلامی معقولات، اور دیگر علوم میں اہلبیت کے افکار و نظریات اور تعلیمات کی ترویج کے لئے بھی وسیع سطح پر کام کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اہلبیت (علیہم السلام) سے بہت سی چیزیں پہنچی ہیں۔ ایسی چیزیں پہنچی ہیں کہ اگر آج انہیں پیش کیا جائے تو دنیا کو حیرت میں ڈال دیں گی۔ جیسے یہ نہج البلاغہ ہے۔ نہج البلاغہ پر کام ہونا چاہئے۔ اس کے اہم نکات نکالنے کی ضرورت ہے۔ اس کے مضامین کو الگ (اور درجہ بندی ) کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے مفاہیم کی تشریح و تجزیئے کی ضرورت ہے۔ روایات کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ ہمارے پاس ایسی وافر اعلا تعلیمات ہیں کہ جن کی آج بشریت کو ضرورت ہے۔ یہ اہلبیت کی زبان سے جاری ہونے والے کلمات، اہلبیت کے ارشادات اور وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اہلبیت نے دی ہیں۔ بنابریں افکار اہلبیت کی ترویج بھی ایک اہم فریضہ ہے۔
اس کے بعد فقہ اہلبیت کا مسئلہ ہے۔ فقہ اہلبیت ایک طرف تو بحث و مباحثے کا سرچشمہ ہے، یعنی ہم اس بارے میں بحث کریں کہ اگر کوئی صحیح اسلامی فقہ تک دسترسی چاہتا ہے تو زیادہ صحیح اور زیادہ یقینی راستہ کیا ہے؟ یہاں تک کہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ راہ اہلبیت کیا ہے۔ یہ ایک فکر اور ایک نظریہ ہے۔ اس نظریئے کو اسلامی دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف فقہ اہلبیت کا متن بھی قابل بحث ہے۔ اہلسنت کی دنیا میں ہماری جو کتابیں شائع ہوئی ہیں، مثلا محقق مرحوم کی کتاب مختصرالنافع ہے (3) یہ ایک مختصر اور غیر استدلالی رسالہ ہے اور بعض دیگر مختصر کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں جن کے نام مجھے یاد نہیں ہیں،اس لئے کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ اجمالی طورپر میں یہ جانتا ہوں کہ ہماری کچھ کتابیں اہلسنت میں شائع ہوئی ہیں۔ ہمیں اس پیشرفتہ، ترقی یافتہ اور عمیق فروعات پر مشتمل فقہ کو متعارف کرانا چاہئے۔
دیگر مذاہب کی فقہ کی جو کتابیں ہمارے پاس آتی ہیں، کبھی کبھی ان میں بعض بہت سطحی اور علمی لحاظ سے بہت کم اہمیت چیزیں نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ کتابیں تحقیق شدہ اور تصحیح شدہ ہیں، ان پر کام ہوا ہے اور باقاعدہ فہرست بندی انجام دی گئ‏۔ جبکہ ہماری فقہ اس طرح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شیخ طوسی کی مبسوط اتنی عظیم کتاب ہے، تہران سے شائع ہوئی ہے۔ البتہ بظاہر اس کی دوسری اشاعتیں بھی ہیں، لیکن میں نے نہیں دیکھا، نہ کوئی غلطنامہ ہے اور نہ ہی دقیق فہرست ہے۔ یہ کتاب ہم کس کو دیں؟ یہ اپنے سرمائے کو ارزاں فروخت کرنا ہے۔ اگر ہم اس کتاب کو اسی شکل میں کسی سنی فقیہ یا سنی قانون داں کو جو فقہی مسائل سے بھی وافقیت رکھتا ہے، پیش کریں تو گویا ہم اپنی کتاب کی اہمیت کم کر رہے ہیں۔ اس کتاب کی تصحیح ہونی چاہئے۔ اس کی فہرست تیار ہونی چاہئے۔ فنی لحاظ سے اس پر کام ہونا چاہئے۔ فقہ اہلبیت کو پیش کرنے کے لئے یہ کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔
وہ موضوعی فقہ (5) کا مسئلہ جس پر جناب ہاشمی ( 6) کام کر رہے ہیں، میری نظر میں اس کام کا ایک مصداق ہے۔ یہ بہت اہم اور عظیم کام ہے جو انجام دیا جا رہا ہے، اس طرح کے کام ہونے چاہئیں۔
میں نے کتب خانہ آستانہ قدس رضوی سے درخواست کی ہے کہ ان فقہی کتابوں کی فہرست جو شائع نہ ہوئی ہوں ہمارے پاس بھیج دیں۔ تقریبا تین سو کچھ کتابوں کے نام میرے پاس روانہ کئے گئے۔ ان میں بعض کتابیں ایسی ہیں جن سے ہم واقف نہیں ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہم کتابیں ہوں گی۔ فرض کریں شیخ جعفر کاشف الغطاء (7) جیسے معروف عالم دین نے کسی مسئلے پر تحقیق کی ہے، اصولی طور پر یہ بہت اہم ہوگی۔ ان کتابوں میں قدماء کی کتابیں بھی موجود ہیں اور متاخرین کی کتابیں نظر آتی ہیں۔ ایسی کتابیں ہیں جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ہے اور انہیں نہیں پہچانتا ہے، بس یوں ہی وہاں رکھی ہوئی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان کتابوں کو تلاش کریں اور ان پر کام کریں اور جو کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں، ہمارے درمیان رائج ہیں، جو شائع تو ہوئی ہیں لیکن اشاعت اچھی نہیں ہے، ان پر بھی کام کیا جائے۔ یہ بھی ایک ضروری کام ہے، جس کا تعلق فقہ اہلبیت کے تعارف سے ہے۔ یہ کام ہونے چاہئیں اور یہ عالمی کونسل ان کاموں پر نظر رکھے۔
ایک اور مسئلہ اہلبیت (علیہم السلام) کی حجت اور ولایت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ کام ہے جو سید شرف الدین مرحوم (رضوان اللہ تعالی علیہ) (8) نے اتنی وسعت نظر اور صلاحیت و توانائی کے ساتھ انجام دیا اور ان سے پہلے میر حامد حسین مرحوم اور دوسروں نے یہ اہم کام انجام دیئے۔ یہ کام آج کی زبان میں اور آج کے زمانے کی مناسبت سے، کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال اہل تشیع کی بات پیش ہونی چاہئے۔ دوسرے لوگ اپنے لئے یہ کام کر رہے ہیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ حال ہی میں ایک عرب ملک میں، کتاب تحفۂ اثنا عشریۃ (9) کی جو ایک تفرقہ انگیز اور اختلافات کو بھڑکانے والی کتاب ہے اور درحقیقت شیعوں کی مذمت میں اور ان کے خلاف لکھی گئی ہے، تلخیص کرکے، اس دور کی زبان میں، بہترین طباعت میں فہرست اور تصحیح کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ یہ کتاب شاید ڈیڑھ سو سال قبل، یعنی شاہ ولی اللہ دہلوی کے زمانے میں لکھی گئي ہے اور میر حامد حسین مرحوم نے عبقات میں اس کا جواب لکھا ہے۔ ابھی ہم شیعوں کے پاس اتنی عظیم کتاب عبقات مطبوعہ حالت میں نہیں ہے۔ اب اگر یہ کتاب شائع بھی ہو تو آیا فارسی اور عربی کی مخلوط زبان میں، اتنی بڑی اور ضخیم کتاب کو علمی حلقوں میں پش کیا جاسکتا ہے؟ یہ بات خود قابل بحث ہے۔
آج ایک سازش یہ بھی ہو رہی ہے کہ شیعوں کو اہلبیت سے الگ کر دیا جائے۔ در اصل وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ شیعوں کا اہلبیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے خود کو اہلبیت سے وابستہ کر لیا ہے۔ تحفۂ اثناعشریۃ میں یہی لکھا گيا ہے۔ مولف نے اس کتاب کا نام آئمۂ اثنا عشر کے نام پر رکھا ہے اور کہتا ہے کہ سمیتہ تحفۃ اثنی عشریۃ تمسکا بالائمۃ اثنی عشر امیر المومنین (علیہ السلام ) سے لیکر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) تک تمام آئمہ کا نام لکھتا ہے لیکن کہتا ہے کہ ہمیں ان سے جو ہمارے آئمہ ہیں، کوئی واسطہ نہیں ہے، ہمارا سروکار ان شیعوں سے ہے جنہوں نے خود کو ان سے نتھی کر رکھا ہے اور اہلبیت کی باتوں کو شیعوں کی بات کے عنوان سے پیش کرتے ہیں اور پھر رد کرتے ہیں۔
یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ شیعہ بھی منظم کام انجام دیں۔ شیعوں میں حق ہے کہ اسی انصاف اور احساس ذمہ داری کی بنیاد پر بہت کام ہوا ہے۔ تاریخ میں قاضی نوراللہ (10) اور ان جیسے دیگر علماء نے مظلومیت کے عالم میں کتابیں لکھی ہیں۔ خدا وند عالم نے اسی مظلومیت کے سبب برکت عطا کی اور ان کی کتابیں شائع ہوئیں اور پھیلیں لیکن ہمارا ذخیرہ اس سے کہیں زیادہ مالامال اور قوی ہے۔
نظم اور تنظیم کے سلسلے میں جیسا کہ جناب امینی (11) نے اشارہ فرمایا ہے، فطری بات ہے کہ بنیاد تنطیم اور ادارہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جب تک تنظیم اور ادارہ نہ ہو اس وقت تک اس کی بنیاد پر کسی چیز کی عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی ہے لیکن تنظیم اور ادارہ وجود میں لانے میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
جب سے یہ کام شروع ہوا ہے اس وقت سے اب تک ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے۔ حقیقتا تنظیم اور ادارے کے قیام کے لئے ایک سال کا وقت زیادہ ہے۔ یہ امور جلد انجام پانے چاہئیں۔ چاہے بہت زیادہ کامل نہ ہوں۔ مثلا فرض کریں کہ ہم پندرہ سولہ افراد یہاں بیٹھے ہیں اور کوئی چیز پیش کی گئي ہے اور اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ سو سطریں ہیں لیکن اس میں دس سطروں میں غلطیاں ہیں، یعنی سطور کے دسویں حصے میں غلطیاں ہیں۔ اگر اس جلسے میں ان غلطیوں کو دور کیا جا سکے تو بہت بہتر ہے اور اگر نہ ہو، تو کہیں گے کہ بہت اچھا! نوے سطریں تو اچھی ہیں، ان کو پاس کر دیتے ہیں اور تدریجی طور پر اصلاح کریں گے الا یہ کہ کوئی اصولی غلطی ہو۔ یعنی اس قسم کے مواقع پر خوب اور خوبتر کے درمیان معاملہ ہو تو بہت زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے، ہوا تو ہوا نہ ہوا تو کام میں تاخیر نہ کریں تاکہ نقطہ آغاز تک پہنچ جائیں۔ نقطہ آغاز کیا ہے؟ ایک سیکریٹریئیٹ کا قیام ۔
جناب امینی صاحب نے فرمایا ہے کہ حضرات وقت بہت دیتے ہیں۔ حضرات جو وقت دیتے ہیں وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وقت وہ ہے جو منصوبہ بندی، پالیسی تیار کرنے اور راہ و روش کی نشاندہی میں لگتا ہے؛ جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ ممکن ہے کہ مہینے میں ایک بار یا پندرہ دن میں ایک بار یہ ضرورت پیش آئے کہ یہ حضرات میٹنگ کریں لیکن آگے چل کر اس کی ضرورت چھے مہینے میں ایک بار پیش آئے گی۔ اگر ہمارے پاس ایک منظم اور فعال ادارہ ہو جو کام کرے اور ہم مطمئن رہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اس اجتماع کے لوگ بیٹھیں، منصوبہ بندی کریں یا نہ کریں۔ اس اجتماع کو منصوبہ بندی کے لئے رکھیں۔ اگر اجرائی کاموں کے لئے اجتماع کی شرط رکھی تو اجرا رک جائے گا۔ ہمیں اس انجن کو اجرائیہ کی ٹرین سے الگ رکھنا ہے، تاکہ وہ اپنا کام خود کر سکے۔ اس کو صرف منصوبہ بندی کے کام پر لگائیں۔ اب کافی ہے کہ پندرہ دن میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار ایک جگہ جمع ہوں اور کلی منصوبہ بندی کریں۔ کام کا حد اکثر لوڈ اجرائیہ کے شعبے یعنی سیکریٹریئیٹ پر ڈالیں۔
اب اگر کسی میں کام کا حوصلہ اور فکر ہے تو بہت اچھا ہے، سیکریٹریئیٹ میں آکے مدد کرے۔ کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔ فرض کریں کوئی یہاں اعلی کونسل کا رکن ہے اور کسی مسئلے میں سیکریٹری جنرل کا معاون ہو یا رضاکارانہ طور پر سیکریٹریئیٹ میں بھی کام کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ یہ کام کرسکتا ہے ۔
وہ چیز جو میری نظر میں اہم ہے، جناب آقائے تسخیری ( 12) کا شعبہ ہے۔ یہ واقعی بہت ہی پر برکت اور پر فیض ہستی ہیں۔ خدا وند عالم نے جناب تسخیری کو بہت زیادہ برکات سے نوازا ہے۔ میرے خیال میں جیسا کہ آپ نے فرمایا ( 13) برا نہیں ہے کہ یہ اپنے اوقات کو تقسیم کریں۔ مثلا ایک تہائی وقت عالمی اہلبیت کونسل کے لئے، ایک تہائی ان امور کے لئے جو دفتر میں انجام دیتے ہیں اور بہت سے دوسرے کام بھی اسی دو تہائی میں رکھے جا سکتے ہیں اور ایک تہائی تمام دیگر امور کے لئے مخصوص کریں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ بجٹ میں ایک حصہ تمام دیگر امور کا ہوتا ہے۔ اگر ہو سکے تو وقت کو اس طرح تقسیم کریں اور معلوم ہو جائے کہ سیکریٹری جنرل کا ایک تہائی وقت اس ادارے کے لئے ہے تو امور جلدی ثمر بخش ہوں گے۔
یورپ اور دوسری جگہوں کے شعبوں کے لئے جو اشارہ آپ نے کیا ہے، بہت اچھا ہے لیکن مجھے تامل ہے اس بات میں کہ وہاں یہ کام ہو۔ اس لئے کہ کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ بات شور و غل کے لئے اچھی ہے۔ اگر پروگرام شور مچانا ہو اور تشہیراتی ماحول وجود میں لانا ہو تو بہت اچھا ہے کہ وہاں کوئی شعبہ قائم کیا جائے۔ لیکن فی الحال پتہ نہیں ہے کہ یہ شور و غل ضروری ہے یا نہیں، حتی بعض لحاظ سے اس کا جائز ہونا بھی معلوم نہیں ہے۔ کیونکہ اہلبیت سے متعلق مسائل میں حساسیت بہت زیادہ ہے۔ صرف اہلسنت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ سامراج کو بھی معلوم ہے کہ اس کو کہاں سے ڈرنا چاہئے۔ درحقیت المومن لا یلدغ من جحر مرتین (14) لیکن بعض اوقات کفار بھی لایلدغ من جحر مرتین آخر کار وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ جہاں مکتب اہلبیت ہے وہاں حالت کیا ہے۔ وہ لبنان کو دیکھ رہے ہیں۔ عراق کو دیکھ رہے ہیں۔ ہر جگہ کو دیکھ رہے ہیں۔ ایران کو بھی دیکھا ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں حساسیت نہ ہو۔ شاید اس وقت بہت ضروری نہ ہو۔ لیکن سرانجام یہ کام ہونا چاہئے کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
اس وقت ہمیں اس سلسلے میں مشکل کا سامنا ہے کہ ہر ملک میں کم سے کم ایک باصلاحیت عالم دین ہو جو وہاں کچھ کام کرے۔ خود آپ اس مشکل کو کتنا محسوس کر رہے ہیں؟ اگر دفتر کھولنا چاہیں، جہاں کوئی آپ کے لئے کام کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال مشکل ہوگا۔ ابھی جائیں اور مقامی افراد اور وسائل سے کام لیں۔ بعض اوقات لوگ باہر جاتے ہیں، اس معاملے میں ان سے واسطے کے عنوان سے استفادہ کریں۔ مثال کے طور پر ہمارے علماء و فضلاء اور شخصیات میں سے کچھ لوگ مختلف مواقع پر جیسے یوم آزادی بائیس بہمن (گیارہ فروری) کی تقریبات کے لئے یہاں وہاں جاتے ہیں، اگر آپ کے پاس کام تیار ہو تو اس قسم کے سفروں میں ان حضرات کی ایک ذمہ داری اس کونسل کا کام بھی ہوگا۔ مثلا ان سے کہا جا سکتا ہے کہ اس سفر میں اس ادارے سے رابطہ کریں یا یہ موضوع پیش کریں۔
میری نظر میں اس قسم کے اداروں کو جو خطرات لاحق ہوتے ہیں ان میں سے ایک ان کا ظاہری باتوں میں پڑ جانا ہے کہ باطن میں کوئی کام نہیں ہے ( لیکن دکھاوا بہت ہے)۔ مثلا بعض اجتماعات، بعض مواقف، بعض دفاتر کا قیام ، کبھی کوئی جائے اور کسی سے رابطہ برقرار کرے، جب تک منصوبہ بندی نہ ہو اس وقت تک بہت کام نہیں ہے۔ اگر منصوبہ بندی اور پروگرام کے ساتھ ہو تو کیوں نہیں۔ ممکن ہے کہیں آپ مہینے میں وہاں پانچ یا دس شخصیات سے رابطہ قائم کریں اور خود بھی اس کے لئے تیار رہیں کہ لوگ آپ کے پاس آئیں۔ اس کے لئے منصوبہ ضروری ہے اور پہلے سے معلوم ہونا چاہئے کہ ان ملاقاتوں میں کن باتوں کا تبادلہ ہو۔ ہم کیا ان کے حوالے کریں اور ان سے کیا طلب کریں۔ غرض کہ ہر چیز اسی اجرائی شعبے یعنی سیکریٹریئیٹ کی طرف پلٹتی ہے۔ حضرات میں سے جو بھی اس شعبے میں تعاون کر سکے بہت اچھا ہے۔
میری نظر میں جو حضرات باہر ہیں ان پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے کہ ضرور آئیں۔ جیسا کہ آپ نے جناب طبسی (15) کی طرف اشارہ کیا، مثلا جناب فضل اللہ (16) جناب سید ساجد(17) وغیرہ کی بھی اپنے ملکوں میں اسی قدر اور شاید بعض اوقات اس سے زیادہ مصروفیات ہیں۔ میرے خیال میں ان حضرات کو سالانہ اجلاسوں میں بلایا جائے، زیادہ سے زیادہ سال میں دوبار۔ باقی ایام میں ان کے جانشینوں سے استفادہ کیا جائے۔ جناب فضل اللہ عام طور پر سال میں ایک بار، دوبار اور بعض اوقات کئی بار ایران تشریف لاتے ہیں۔ جناب ساجد صاحب بھی سال میں ایک دو بار ایران آتے ہیں، آپ اپنا سالانہ اجلاس اس زمانے میں رکھیں جب مثلا اسلامی انقلاب کی سالگرہ میں یا کسی اور موقع پر یہ حضرات ایران آنے والے ہوں۔ آپ سالانہ جلسہ ان کے لئے روکے رکھئے اور تمام امور انجام دیتے رہئے۔ یا مثلا اگر جناب سید جعفر مرتضی (18) یہاں تشریف لائیں تو بہت اچھا ہے اور اگر نہ آ سکیں تو بالفرض جناب فضل اللہ جلسہ ہونے سے دس دن قبل انہیں بتائیں کہ جلسہ کا پروگرام یہ ہے میں جارہا ہوں آپ کیا کہتےہیں؟ جناب سید جعفر مرتضی دس دن غور و فکر کریں اور اپنے نظریات انہیں بتائیں۔ نتیجے میں جناب سید جعفر مرتضی کے نظریات بھی ان کے نظریات کے ساتھ بیان ہو جائیں گے اور درحقیقت دو نظریات پیش کئے جائیں گے۔ میرے خیال میں اس طرف سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
میری اصلی تاکید اجرائی شعبے پر ہے۔ وہ اجرائیہ کی جماعت جو سیکریٹریئیٹ میں سرگرم ہے، یہی مینجمنٹ جو آپ نے (19) فرمایا؛ اب اس کا نام معاون ہو یا مدیر ہو، یا آپ کس طرح اس کو منظم کرنا چاہتے ہیں کہ اس پر معاونت یا مدیریت کی اصطلاح کا اطلاق ہو، میں نہیں جانتا۔
مختلف شعبے ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کریں، عالمی رابطہ عامہ کا شعبہ، ایک شعبہ ہے جس کے لئے ایک مستقل مدیر کی ضرورت ہے۔ اس شعبے کو مستقل طور پر رابطے کی فکر میں رہنا چاہئے۔ دوسرے شعبوں سے رجوع کرے اور ان سے وہ تمام چیزیں حاصل کرے جن کا تعلق رابطے اور ابلاغیات سے ہو۔ اگر ان کے پاس نہ ہو تو خود رابطے کی بنیاد رکھے۔ کوئی پیغام دے، کوئی پیغام حاصل کرے۔ ان سے کہے کہ مثلا فلاں مسئلے میں اجتماع کریں۔ فلاں مسئلے میں اپنا نظریہ بیان کریں۔ شخصیات جمع ہوں۔ بنابریں بین الاقوامی رابطہ عامہ کا شعبہ بہت اہم ہے۔
ثقافتی شعبہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ، انہیں امور یعنی اہلبیت علیہم السلام کے تعارف پر مشتمل ہے، وہ بہت اہم ہے اور اس کے لئے عظیم ادارے کی ضرورت ہے اور پھر اسی کے ساتھ فقہی شعبے بھی ضروری ہیں۔ اس وقت الحمد للہ شیعہ فقہ کے احیاء کے لئے واقعی ایک تحریک شروع ہو چکی ہے۔ جو کچھ قم کے دینی تعلیم کے مرکز میں انجام پا رہا ہے وہ تو اپنی جگہ بہترین ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بعض دوسری جگہوں پر کیا جا رہا ہے، جیسے اصفہان، قم اور مشہد میں الگ الگ جو کام ہو رہا ہے، بہت اچھا ہے۔ لیکن میرے خیال میں اگر حضرات ان مسائل پر ایک طرح کی نگرانی رکھیں، مداخلت والی نگرانی نہیں بلکہ نگرانی اس معنی میں کہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور مدد کریں، تو بہت اچھا ہے۔ یہ ان جملہ کاموں میں سے ہے جو آپ کو کرنا چاہئے ۔
اس وقت یہی کتابیں جو انجمن مدرسین شائع کرتی ہے، اگر چہ یہ بہت اہم اور قابل قدر کتابیں ہیں اور ظاہری طور پر طباعت بھی بہت اچھی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کتابوں کی اشاعت بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اسی ابن ادریس کی سرائر (20) دس بار تو طباعت نہیں کریں گے۔ ایک بار سو سال پہلے شائع ہوئی تھی اور ایک بار اب شائع ہوئی ہے۔ سرائر ابن ادریس میں اتنے اہم مضامین اور اتنی لطافت ہے کہ حق یہ ہے کہ اس کی محکم اور کامل فہرست تیار کریں تاکہ اس میں جو لفظ بھی چاہیں آسانی سے اس تک دسترسی حاصل کرلیں۔ دوسری کتابیں اور قدماء کی کتابیں، اسی طرح ہونی چاہئیں۔
یہ کتاب الینابیع الفقیہ جس کو جناب مروارید نے شائع کیا ہے، دس پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ جب یہ کام ہوا تو میں بہت خوش ہوا۔ لیکن جتنی بار بھی اس کتاب کو دیکھا، طباعت کی اتنی غلطیاں ہیں کہ طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اتنی اچھی اشاعت، اتنا اچھا کاغذ لیکن طباعت کی اتنی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ بعض جگہوں پر پوری سطر چھپنے سے رہ گئی ہے۔ فنی کام نہیں ہوا ہے۔ ان باتوں سے انسان متاثر ہوتا ہے۔
کوئی کتاب شائع ہو تو حضرات ان باتوں پر نظر رکھیں۔ کتابوں کی اشاعت کے تعلق سے ایک مشاورتی شعبہ ہونا چاہئے۔ آج کتاب سازی اور یہ بات کہ کوئی کتاب شروع سے آخر تک کیسی ہونی چاہئے، ایک فن ہے۔ اس کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس پر لوگوں نے ڈاکٹریٹ کی ہے اور اس کے بارے میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ خود میرے کتب خانے میں فن کتاب سازی کے بارے میں ایک دو کتابیں ہیں۔ ان کتابوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ کتاب سازی کیسی ہونی چاہئے اور کس طرح کوئی کتاب شائع کرنی چاہئے۔ اس کام میں مہارت رکھنے والے لوگ ہیں۔ آپ کے پاس اس طرح کے لوگ ہونے چاہیئں۔ ان سے مشورہ کریں، تبادلہ خیال کریں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ براداران اہلسنت ہم سے بہت آگے ہیں۔ جو کتابیں انہوں نے شائع کی ہیں، واقعی ہر چیز بہت اچھی ہے۔ البتہ افسوس کہ وہ بھی غلطیوں سے محفوظ نہیں ہیں لیکن ان کی کتابوں میں اشاعت کی غلطیاں کم ہیں۔ تصحیح اور تحقیق اچھی طرح کی گئی ہے۔
بہرحال ثقافتی شعبہ بھی بہت اہم ہے جو قائم کیا جانا چاہئے۔ البتہ دیگر مختلف شعبے بھی ہیں۔ جیسے سیاسی شعبہ وغیرہ، فطری طور پر ان پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن میری نظر میں یہ دو بنیادی شعبے ہیں اور جلد از جلد انہیں نتیجہ بخش ہونا چاہئے۔
میں یقین اور صداقت کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر میرے پاس وقت ہوتا تو واقعی میں آپ کی اس کونسل کا رکن بن جاتا اور خود کام کرتا۔ کیونکہ یہ وہ کام ہے جو ایسی نیکی ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ انسان جو کام بھی کرتا ہے، مثلا اس کا ایک گوشہ خراب ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کام لب لباب ہے۔ اہلبیت کے لئے، اہلبیت کے افکار کے لئے کام کرنا اور اہلبیت کو مظلومیت کی حالت سے نکالنا، واقعی اس سے بہتر کام اور کیا ہو سکتا ہے؟ شیریں ترین کام یہ ہے۔ اس کام پر جتنا بھی خرچ ہو کم اور مناسب ہے۔
بجٹ کے مسئلے کو بہت اہم مسئلہ نہ سمجھیں۔ میں اس کام کے جو منظم ہو، پسندیدہ ہو، قابل قبول ہو اور مفید ہو بجٹ کے لئے کسی حد کا قائل نہیں ہوں الا اس چیز کے جس کا حساب کتاب اور اہداف قابل بحث ہوں، لیکن وہ کام جس کا ہدف اتنا واضح ہو اور کام اتنا اچھا ہو، بجٹ کی فکر نہیں کرنا چاہئے ۔
یہ ظاہری کام بھی جو رائج ہیں، بے فائدہ سمینار، بیکار کے سفر، بلاوجہ کی آمد و رفت، جھوٹے اخراجات ، ان باتوں کو میں اس کونسل کی شان کے خلاف سمجھتا ہوں۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی باتیں یہاں نہیں ہیں، اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس طرف نہ لے جایا جائے۔
قم سے استفادے کے بارے میں بھی ایک بات عرض کروں گا۔ یہ حوزہ علمیہ قم کا مسئلہ، اس معنی میں بہت بنیادی ہے۔ ہمیں واقعی قم کے اس گنجینے سے استفادہ کرنا چاہئے۔ البتہ قم سے دو طرح سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، ایک یہ ہے کہ ہم قم جائیں اور وہاں کے افاضل کی ایک جماعت کو جمع کریں اور ان سے کہیں کہ ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہاں طے کریں کہ ہمیں قم سے کیا چاہئے۔ اچھی طرح طے کرنے کے بعد قم منتقل کریں اور ان حضرات میں سے کوئی وہاں رہے اور کچھ علماء و فضلاء کو جیسا کہ فرمایا، یعنی پارٹ ٹائم کی صورت میں اس کام کے لئے تیار کریں۔
ایک دو سال قبل جناب آقائے امینی سے بات ہوئی کہ افاضل اور طلاب کی ایک جماعت کو کسی تحقیقی کام پر لگایا جائے۔ لیکن اس پر کام نہیں ہوا۔ خود آپ حضرات بھی جیسے جناب تسخیری، مصروف تھے۔ جناب آقائے امینی واقعی بہت عظیم کام کر رہے ہیں، ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ کوئی ایسا ہو جس کے پاس اس کام کے لئے وقت ہو اور یہ کام انجام پائے۔
کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ ایک مرکز عالمی اہلبیت کونسل سے وابستہ تحقیقاتی مرکز کے نام سے قائم کیا جائے اور ضرورت کے مطابق مختلف افراد کو اس میں جمع کیا جائے۔ ممکن ہے کہ کوئی تحقیقی کام انجام پا رہا ہو اور ہم اس سے بے خبر ہوں۔ واقعی اس وقت حوزہ علمیہ میں بہت سے محقیقین ہیں جو خود سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں خبر بھی نہیں ہے۔ بہت اچھا ہے، وہ آئیں اور اس مرکز میں کام کریں۔ میں نے حال ہی میں سنا ہے کہ قم کے ممتاز افاضل میں کوئی خاموشی کے ساتھ طبقات رجال پر کام کر رہا ہے۔ خود اس مرکز کا وجود سب کو جمع کر سکتا ہے ۔
شعرائے شیعیان اہلبیت کے کلام وغیرہ کو جمع کرنا بھی بہت اہم کام ہے۔ یہ وہ کام ہیں کہ واقعی ہماری تاریخ میں اس کی طرف سے غفلت برتی گئی ہے۔ البتہ اس کو غفلت بھی نہیں کہا جا سکتا۔ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اب کرسکتے ہیں۔ جن کتب خانوں تک ہماری رسائی ہے ہم ان کی مائیکرو فلم تیار کرکے یہاں لاتے ہیں، ان کے پاس یہ وسائل نہیں تھے۔
واقعی آپ حضرات کی تشریف آوری سے میں نے بہت استفادہ کیا۔ آپ حضرات کا دیدار اور آپ سے گفتگو سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ خداوند عالم انشاء اللہ آپ کو اجر عطا کرے۔ انشاء اللہ کامیاب رہیں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

• 1-آیت اللہ جنتی، آیت اللہ امینی، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ مومن، آیت اللہ مصباح یزدی، آیت اللہ سید محمود ہاشمی، حجت الاسلام والمسلمین تسخیری، حجت الاسلام والمسلمین دری نجف آبادی، حجت الاسلام والمسلمین مجتہد شبستری، حجت الاسلام والمسلمین تقوی، حجت الاسلام والمسلمین حکیم ، حجت الاسلام والمسلمین صمدی، ملا اصغر جعفر، حجت الاسلام والمسلمین رضوی، حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی، حجت الاسلام والمسلمین مرتضی عاملی، علامہ سید محمد حسین فضل اللہ، حجت الاسلام آل صاحب فصول( عالمی اہلبیت کونسل کے دفتر کے انچارج)
1- 2- بحارالانوار ، ج 44 ص 63
2- 3- 674- 602 ق
3- 4- 460- 385 ق
4- 5- دائرۃ المعارف فقہ اہلبیت کی تیاری ۔
5- 6- آیت اللہ سید محمود ہاشمی ، رکن عالمی اہلبیت کونسل اور انچارج ادارہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی اہلبیت ۔
6- 7- 1228-1154 ق
7- 8- 1958 1873 ع
8- 9- مصنفہ، حافظ غلام حلیم دہلوی ۔
9- 10- 1019-956 ق
10- 11-سربراہ عالمی اہلبیت کونسل۔
11- 12- سیکریٹری جنرل ،عالمی اہلبیت کونسل ۔
12- 13- آیت اللہ امینی
13- 14- بحار الانوار ج 19 ص 346
14- 15- نمائندہ ولی فقیہ اور متولی آستان قدس رضوی ۔
15- 16- لبنان کے ایک عالم دین ۔
16- 17- پاکستان کے عالم دین ۔
17- 18- لبنان کے عالم دین ۔
18- 19- آیت اللہ امینی ۔
19- 220- 598-543 ق ۔