تین خرداد تیرہ سو اکسٹھ ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی انیس سو بیاسی کا دن ایران اور اس ملک کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا بے حد اہم دن ہے۔ یہ روحانیت و معنویت کی کرشمائی تاثیر کا آئينہ ہے۔ اس دن خرم شہر کو جارح عراقی فوج کے قبضے سے آزاد کرایا گیا۔ اس علاقے کو اپنے غاصبانہ قبضے میں رکھنے کے لئے عراق کی صدام حکومت ہی نہیں بلکہ اس کی پشتپناہی کرنے والی مشرقی و مغربی طاقتیں اور علاقائی ممالک بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے لیکن ایرانی نوجوانوں نے قوت ایمانی اور توفیق الہی سے اس علاقے کو آزاد کرا لیا۔ اسی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے تین خرداد تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق چوبیس مئی دو ہزار دس کو شمال مشرقی تہران میں واقع امام حسین علیہ السلام کیڈت یونیورسٹی میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے خرم شہر کی آزادی کے لئے ایرانی جیالوں کے بیت المقدس نامی فوجی آپریشن کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

میں آت تمام عزیز نوجوانوں اور مستقبل کی امیدوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی شروعات اور تعلیم کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی مناسبت سے بھی اور تین خرداد (چوبیس مئی) کے عظیم دن کی مناسبت سے بھی جو انقلاب کی تاریخ ہی نہیں ہمارے ملک کی تاریخ کا بھی ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ آج کی یہ تقریب بہت اچھی اور مناسب نیز سپاہ پاسداران انقلاب کی مانند روحانیت اور ذہنی و جسمانی توانائیوں اور فکری و عملی آمادگي کا آمیزہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کی پیشرفت و ترقی کا آئینہ معلوم ہوئی۔
میرے عزیزو! خرم شہر کی آزادی کا دن جو در حقیقت سن انیس سو بیاسی کے اپریل اور مئی مہینے میں بیت المقدس آپریشن کے نقطہ اوج پر پہنچ جانے کا دن ہے، ہم سب کے لئے، ہماری تاریخ کے لئے اور ہمارے مستقبل کے لئے سبق آموز اور عبرت آموز دن ہے۔ کیونکہ فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے اس دن جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک حیرت انگیز اور قابل تعریف ہم آہنگی اور ناقابل بیان شجاعت و فداکاری کے ذریعے بڑی کاری ضرب لگائی۔ عراقی فوج کے پیکر پر ہی نہیں بلکہ عالمی سامراجی نظام کے پیکر پر جو اپنے لمبے لمبے وعدوں کے ساتھ بعثی حکومت کی جنگی مشینری کی پشت پر کھڑا ہوا تھا۔ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ یہ چیز (خرم شہر کی آزادی) ممکن ہو سکے گی۔ لیکن ایسا ہوا۔ اس کی اصلی وجہ کیا تھی؟ اس کے لئے چند عوامل کو موثر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سب سے بنیادی ترین عامل تھا اللہ تعالی پر توکل اور اپنی قوت بازو پر بھروسہ۔ اگر ہم اس دن عام اور رائج اندازوں کے مطابق عمل کرتے اور سوچتے تو کسی بھی صورت میں کوئی یہ نہیں سوچ پاتا کہ یہ چیز بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے با ایمان عوام نے، ہمت و شجاعت کے ساتھ، ایمان و ایقان کے ساتھ، اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے، جان ہتھیلی پر اور موت کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان میں قدم رکھے اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ خرم شہر کی آزادی افتخارات کا نقطہ کمال ہے، افتخارات کا ثمرہ ہے۔ تقریبا ایک مہینے تک چلنے والے بیت المقدس آپریشن کی پوری مدت میں فداکاری و جاں نثاری کی سیکڑوں حیرت انگیز نشانیاں اور مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
میرے عزیز نوجوانو! میرے فرزندو! میں گزارش کروں گا کہ آپ اس آپریشن کی تفصیلات کو جس کا ایک حصہ، صرف ایک گوشہ، ضبط تحریر میں آ چکا ہے بغور پڑھئے اور دیکھئے کہ کیا واقعات رونما ہوئے۔ دیکھئے کہ ہمارے جوانوں نے، ہمارے جیالوں نے، جن کے ناموں کا ذکر کرنے کے لئے ایک کتاب درکار ہوگی، کیا کارنامہ انجام دیا؟ اگر ہم نمونے کے طور کچھ نام لینا چاہیں تو شجاع و فداکار کمانڈر احمد متوسلیان جیسے افراد کا نام لے سکتے ہیں جنہوں نے اس انتہائی اہم اور بڑی لڑائی میں کیسا کارنامہ انجام دیا اور کون سی توانائی استعمال کی؟! یہ جو جملہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور آپ نے اسے بارہا سنا ہوگا کہ خرم شہر را خدا آزاد کرد اس سلسلے میں کہا جانے والا سب سے حکیمانہ اور سب سے حقیقت پسندانہ جملہ ہے۔ وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی (1) کی عملی تصویر ہے۔ اللہ تعالی کی قدرت جانبازوں کے دلوں میں، ان کے آہنی عزم و ارادے میں، ان کے صبر و ضبط میں، ان کے توانا بازوؤں میں، ان کی خلاقی توانائیوں میں جلوہ گر ہوئی۔ دشمن مادی طاقتوں پر تکیہ کئے بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے کہ مادی طاقت پختہ روحانیت و انسانیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ چیز ہمیشہ رہے گی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ میرے عزیزو! آج بھی مادی طاقتیں اپنی پوری توانائی کے ساتھ، اپنی دولت، اپنی صنعت، اپنی جدید ٹکنالوجی اور سائنسی ترقی کی مدد سے بھی ان انسانوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں جو ایمان و ایقان کو، عزم و ارادے کو، ہمت و شجاعت کو اور فداکاری و جاں نثاری کو اپنے فعل و عمل کا معیار قرار دیں۔
جو لوگ اس زمانے میں ملت ایران اور اس قوم کے سپاہیوں کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے یہ وہی لوگ ہیں جو آج ملت ایران کے مقابلے پر آئے ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں بھی امریکا، نیٹو، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تھے۔ صدام کو کیمیاوی اسلحہ دیتے تھے، فوجی ساز و سامان فراہم کرتے تھے، طیارے دیتے تھے، جنگی نقشے دیتے تھے، جنگ کے میدان کی تازہ اطلاعات دیتے تھے، اس کی پشت پر کھڑے ہوئےتھے تاکہ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو، توحید و روحانیت کے عظیم نظام کو، وحدانیت و انسانیت کے لہراتے اس پرچم ہو اور قوموں کی آزادی اور خود مختاری کی آواز کو شکست دے دیں۔ صدام کی پشت پر یہی لوگ کھڑے ہوئے تھے اور آج بھی یہی لوگ (مقابلے کے لئے) سامنے ہیں۔ آج بھی جو لوگ اپنی تشہیراتی مہم کے ذریعے حقائق کو برعکس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خود دنیا کے بیشتر علاقوں کی بد امنی کے ذمہ دار ہیں لیکن ایران کو خطرہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، وہ لوگ جو پاکستان میں روزانہ مجرمانہ کارروائیاں کرتے ہیں، افغانستان میں برسوں سے قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، عراق میں کسی اور صورت میں اور فلسطین میں کسی اور انداز سے، وہ لوگ جو قدس کی غاصب حکومت کی شیطانی طاقت کی پشت پر کھڑے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں۔ انیس سو بیاسی میں یہی لوگ صدام کی حمایت و مدد کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہیں شکست ہوئی تھی اور آپ یقین رکھئے کہ اس دفعہ بھی انہیں شکست ہوگی۔
اسلامی جمہوری نظام دنیا کی دیگر جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کی مانند نہیں ہے۔ خاص پیغام کا حامل نظام ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کا پیغام وہ پیغام ہے کہ جس کے لئے دنیا کی قومیں بیتاب ہیں۔ یہ دنیا کے جغرافیا میں کسی نقطے پر واقع عام حکومت اور سیاسی نظام سے جس میں خواہشات نفسانی میں ڈوبے افراد شامل ہوتے ہیں، مختلف ہے۔ یہاں (اسلامی جمہوری نظام میں) قدروں کا معاملہ ہے، انسانیت کا موضوع ہے، مداخلت پسند اور تسلط پسند طاقتوں کے چنگل سے قوموں کو نجات دلانے کا مسئلہ ہے۔ انسانیت اور بشریت کے لئے ہمارے نظام کے پاس ایک پیغام ہے اور اسی پیغام کی وجہ سے دنیا کی حریص طاقتیں ملت ایران کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔ اگر یہ ٹکراؤ کا پہلا موقع ہوتا تو ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل دہل جاتے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ یہ ٹکراؤ تو اکتیس سال سے مختلف شکلوں میں چلا آ رہا ہے۔ سیاسی حملہ، فوجی لشکر کشی، اقتصادی ناکہ بندی اور مختلف دھمکیوں کی شکل میں۔ تسلط پسند ممالک میں مختلف حکام آئے اور چلے گئے لیکن ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ محکم عمارت روز بروز اور مضبوط ہوئی ہے اور پروقار بن گئی ہے۔ یہ ثمربخش خدائی پودا، اس سازگار اور آمادہ سرزمین پر اگنے والا یہ شجرہ طیبہ روز بروز اپنی جڑیں اور بھی گہرائی میں اتارتا جا رہا ہے۔ اگر روحانیت، اسلامی اقدار اور ایران کے دشمنوں کے اندر کبھی امید کی رمق تھی بھی تو آج یہ رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، وہ مایوسی کے عالم میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ راستے سے واقف نہیں ہیں، وہ ملت ایران کو نہیں پہچانتے۔ وہ آج کے اندازوں اور تخمینوں کا قیاس تیس سال، چالیس سال اور پچاس سال قبل کی صورت حال سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑی طاقتوں کے بلا شرکت غیرے غلبے کا دور تھا۔ یہ قیاس غلط ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ قومیں بھی بیدار ہو چکی ہیں۔ لہذا آج آپ ایرانی عوام، آپ نوجوان حضرات جو اس قوم کے چنندہ اور نمایاں نوجوانوں میں ہیں، آپ سپاہ پاسداران انقلاب کے نوجوان قوموں کے دلوں میں امید کی کرن جگانے والے ہیں۔ بہت سی حکومتوں کی نظریں آپ پر لگی ہوئي ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مداخلت اور جارحیت پسند ملک نہیں ہے۔ یہ استقامت، یہ پیغام اور تمام شعبوں میں نمایاں یہ روحانی طاقت ان کی امیدیں بڑھا دیتی ہے، ان میں استقامت و پائیداری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ آج بر اعظم ایشیا، بر اعظم افریقا، بر اعظم امریکا میں حتی خود یورپ میں ایسی قوموں کی کمی نہیں ہے جن کی تعریفی تحسین آمیز نگاہیں آپ پر مرکوز ہیں۔ وہ آپ کی مداح ہیں۔
میرے عزیزوں! آپ نوجوانی کے اس سنہری موقع کی، اس توانائی کی اور استعداد کی قدر جانئے۔ خود کو نکھارنے کا یہ موقع جو آپ کو فراہم کیا گیا ہے اس کی اہمیت کو سمجھئے۔ آپ بھی، فوج کے جوان بھی، پولیس فورس کے اہلکار بھی اور مقدس و پاکیزہ رضاکار فورس بھی۔ آج اس الہی ملک میں انہیں ایسے وسائل دستیاب ہیں جو کبھی بھی برگزیدہ، با ایمان اور صالح نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھائيے۔ ان مواقع کا بھرپو استعمال سب سے بڑا شکر ہے۔
پالنے والے! اس گروہ پر اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پروردگارا! ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر جنہوں نے یہ درخشاں راہ ہمارے لئے کھولی اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے عزیز شہداء کو جو تیرے فضل و کرم سے زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے بلندی درجات عطا فرما۔ ہمیں انہی عزیزوں کی صف میں شامل کر اور اس گروہ کا سلام امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی بارگاہ میں پہنچا۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) انفال، 17