خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں اس ناقابل فراموش واقعے کی برسی پر پوری ایرانی قوم بالخصوص عالیقدر شہیدوں کے محترم و معظم خاندان والوں کو مبارکباد اورتعزیت پیش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ خداوند عالم خود ان عزیزوں کی خون کی برکت سے ان کے راستے کو اس ملک میں اور اس قوم کے درمیان ہمیشہ باقی رکھے۔
سات تیر مطابق اٹھائیس جون کے غم انگیز سانحے کے بارے میں دس سال سے ہم بول رہے ہیں۔ تمام تعبیریں، تجزیئے اور نتائج عین حقیقت یا کم سے کم حقیقت سے قریب ہیں۔ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے لیکر جنہوں نے اس واقعے ، اس واقعے کے شہداء اور مظلوم آیت اللہ بہشتی شہید کے بارے میں پہلی تقریر کی، دیگر شخصیات، حکام، خطیبوں اور قلمکاروں نے جو کچھ کہا ہے اور لکھا ہے اس کو جمع کیا جائے تو کئی کتابیں تیار ہو جائیں گی۔ بنابریں اس واقعے کے بارے میں کوئی نیا تجزیہ اور بات نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ دشمن اس حساس زمانے میں اس اقدام سے نظام کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ شہید بہشتی جیسی عظیم القدر شخصیت کو کسی انقلاب سے چھین لینا معمولی بات نہیں ہے۔ معروف، کارساز، نامور وزیروں ، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے اراکین، عدلیہ کے ذمہ دار عہدیداروں مجاہد، مخلص اور پاکباز شخصیات کو اس انقلاب سے جدا کر دینا معمولی کام نہیں تھا۔ کسی بھی دوسرے نظام میں اگر ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو یہ اتنا کاری وار تھا کہ شاید نظام ختم ہو جاتا، لیکن ایران میں ایسا نہیں ہوا۔
وہ خدا کا مخلص بے نظیر قائد، یہ عظیم القدر بے مثال قوم، وہ انقلابی جذبات، وہ انقلابی نعرے، وہ انقلاب سے پہلے اور بعد میں عوام کے درمیان رائج تعلیمات، ان سب چیزوں نے اس ملک اور انقلاب کو اتنا محکم کر دیا تھا کہ یہ وار اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ البتہ یہ بہت بڑا نقصان تھا۔ کسی ملک اور کسی قوم میں، شہید بہشتی جیسی مجاہد، مخلص اور پاکباز کتنی شخصیات سامنے آتی ہیں؟ یہ بہت سنگین وار تھا لیکن نظام اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ اس واقعے کو دس سال گزر گئے اور آپ نے دیکھا کہ اس مدت میں وہ تباہ کن جنگ بھی ختم ہو گئی، قوم اس سے سرخرو ہوکر باہر نکلی۔ بڑے واقعات ہوئے اور علاقائی و عالمی طوفان آئے لیکن یہ ملک اور یہ قوم پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر ثابت قدم رہی۔
پوری دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد، قوم کے دھڑکتے قلب کے چلے جانے کے بعد، یہ انقلاب اور یہ قوم مردہ اور بے حس ہوجائے گی اور پھر وہ جو چاہیں گے کر لیں گے۔ امام کی رحلت کا سانحہ رونما ہوا لیکن اس کے بعد بھی اس قوم نے پوری ہوشیاری اور دانشمندی کے ساتھ اپنا سفر آج تک جاری رکھا ہے۔
ان دس برسوں میں بہت سے حوادث رونما ہوئے۔ عام طور پر دس سال میں کسی بھی قوم کو دس سال میں اتنی تعداد میں، اس طرح کے حوادث پیش نہیں آتے۔ اس قوم کی استقامت اور استحکام کے کئی اسباب ہیں۔ پہلے درجے میں دست قدرت الہی اور تائید خدا تھی۔ یہ کوئی مذاق نہیں، حقیقت ہے۔ امام دل کی گہرائیوں سے اس پر اعتقاد رکھتے تھے اور ہم نے آپ سے بارہا سنا ہے۔ ایک بار آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ ابتدائے انقلاب سے اب تک دست قدرت خدا کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو ہمیں آگے لے جا رہا ہے اور تمام کاموں کو درست کرتا جا رہا ہے۔ آپ نے اسی مضمون کی عبارت استعمال کی تھی بعینہ آپ کا جملہ میں نے لکھ لیا ہے۔
خدوند عالم کسی بھی قوم کی بلا وجہ حمایت و اعانت نہیں کرتا۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ دیں کہ اب جبکہ خدا اور قدرت الہی ہماری پشت پناہ ہے تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور ہم اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں۔ جی نہیں دست قدرت الہی اور خدا کی نصرت و مدد آپ کی فداکاریوں، شہیدوں کے خون، لوگوں کے ایمان، مختلف مراحل میں قوم کے صبر و تحمل، اس کی صداقت، اسلام کی محبت اور اس لاثانی ہستی (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہدایت و رہنمائی نیز میدان میں عوام کی موجودگی کی وجہ سے رہی ہے۔ اگر ہم نے ان باتوں کو اسی طرح جاری رکھا تو خداوند عالم ہماری مدد و نصرت بھی جاری رکھے گا۔
اصل بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ سامراج جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن ہے، ہر دور میں اور ہر شکل میں المیئے رونما کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ ہمیشہ اس کو ایسے افراد مل جاتے ہیں جو المیئے رونما کرنے میں اس کا آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں منافقین ( ایم کے او نامی دہشت گرد تنظیم کے اراکین) اس کو مل گئے تھے جنہوں نے (سابق صدر) رجائی اور (سابق وزیر اعظم) باہنر کو شہید کیا اور بہت سے المناک واقعات انجام دیئے۔ ایک زمانے میں حکومت عراق اس کا آلۂ کار تھی اور اس نے آٹھ سالہ جنگ مسلط کی۔ بنابریں سامراج، امریکا اور بڑے بین الاقوامی سرمایہ داروں کو جن کے پورے وجود سے اسلام اور اسلامی انقلاب کی دشمنی بھری ہوئي ہے، آلۂ کار مل جاتے ہیں۔
دنیا میں برے اور پست انسان اور خود کو بیچنے والے گروہ کم نہیں ہیں۔ دشمن ہمیشہ دشمن ہے اور ہمیشہ وار لگانے کی فکر میں رہتا ہے اوراس کو ہمیشہ آلۂ کار بھی مل جاتے ہیں۔ وار لگانے کے لئے اس کو ضروری عناصر و وسائل دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس درمیان ہمارا فریضہ ہوشیاری سے کام لینا اور انقلاب کے اصول و قوانین کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ایک دور تھا جب وار لگاتے تھے، اب وہ دور ختم ہو گیا ہے۔ جی نہیں' اگر ہم نے پچاس سال کے بعد بھی غفلت سے کام لیا تو دشمن وار کر جائے گا۔
دشمن کو اسلام اور اس (ایرانی) قوم سے زک پہنچی ہے۔ اس ملک میں اس کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اسے اپنی بساط لپیٹ دیئے جانے کے خطرات نظر آرہے ہیں۔ اس وقت دیکھئے کہ الجزائر میں کیا ہو رہا ہے۔ الجزائر کے عوام اپنے گھروں کی چھت پر جاتے ہیں اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہیں۔ (1) یہ کس کا کام تھا؟ یہ کام پہلی بار کس نے دنیا کے لوگوں کو سکھایا؟ کیا امریکا اور سامراج اس کو نہیں سمجھتے؟ کیا وہ بھول سکتے ہیں؟ اس (ایرانی) قوم نے دنیا کی تمام اقوام بالخصوص مسلمانوں کو سکھایا ہے کہ انسانیت کے دشمن محاذ اور سامراج سے مقابلے کا راستہ کیا ہے۔ یہ بات وہ بھول نہیں سکتے۔
ہماری قوم نے جو تحریک شروع کی ہے، اس کا مقابلہ کرنا چاہیں تو اس کا راستہ یہ ہے کہ اس قوم کو میدان سے باہر کر دیں اور اس پر وار لگائیں۔ بنابریں پچاس سال کے بعد بھی دشمن وار لگانے سے منصرف نہیں ہوگا۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ ہمیں دشمن کے پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اسلامی نظام پر اپنا ایمان ختم نہیں ہونے دینا چاہئے کیونکہ دشمن جب وار لگانا چاہتا ہے تو پہلے لوگوں کے ایمان کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے تاکہ اچھی طرح وار لگا سکے۔
آپ کو یاد ہے کہ یہی لبرل عناصر، وہی روسیاہ اور پست فطرت منافقین ( ایم کے او تنظیم کے ارکان) اسی تہران میں ، چوراہوں اور سڑکوں پر ایک عرصے تک، نظام کے خلاف، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے خلاف، اس قوم کے خلاف اور اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں کے خلاف کیسا پروپیگنڈہ کرتے رہے؟ یہ اس لئے تھا کہ عوام کا ایمان کمزور کر دیں تاکہ وقت آنے پر وار لگا سکیں۔ وہ ہمیشہ یہ کام کرتے ہیں۔ خیال رکھیں کہ آپ کا ایمان کمزور نہ کر دیں۔
اس وقت منافقین ( ایم کے او کے دہشتگرد) بغداد اور دیگر عراقی شہروں میں صدام کے زرخرید کارندوں کا کام کر رہے ہیں۔ کرد آبادی کے شہروں میں جاتے ہیں اور لوگوں کی سرکوبی کرتے ہیں۔ جنوبی عراق کے شیعوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ یہ منافقین دس سال پہلے گیارہ سال پہلے، اسی تہران میں جنگ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ عراق سے جنگ کیوں کر رہے ہو اور آج وہ یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ ایک پالیسی ہے جو وہاں سے شروع ہوتی ہے اور یہاں ختم ہوتی ہے۔
ہماری قوم کو چاہئے کہ جو بات بھی کہی جاتی ہے گہرائی سے اس کا جائزہ لے تاکہ دھوکہ نہ کھائے۔ یہ قوم جب تک ہوشیار، باایمان، انقلاب کی چاہنے والی اور اسلامی نظام کی دلدادہ و شیدا ہے، جب تک اس نظام کے حکام سے اس کا رابطہ ہے، یہ زرخرید اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جیسا کہ امام نے فرمایا ہے امریکا اور دوسرے کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
امید ہے کہ خداوندعالم ان شہیدوں اور دوسرے عالیقدر شہداء کے خون کی برکت سے اس قوم کو روز بروز اپنے فضل سے زیادہ پائیدار و ثابت قدم بنائے گا، اپنی برکات اس کے شامل حال کرے گا اور ان عزیزوں کی ارواح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائےگا۔

 

والسلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ

1-الجزائر میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے دور میں، الجزائر اسلامی محاذ کی کامیابی کے بعد الجزائر کے مسلمان عوام نے اپنے ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہار کرنے کے لئے اللہ اکبر کے نعرے لگاکے اس کامیابی کا جشن منایا لیکن پھر بہت جلد الجزائر کی فوج کے جنرلوں نے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو منسوخ کرکے اسلام پسندوں کا قلع قمع کر دیا۔
2- ابوالحسن بنی صدر ۔