قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں تمام علمائے کرام ، مختلف اداروں میں خدمت میں مصروف علمائے دین، خطباء اور طلبا کو جو ملک کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ۔ دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم آپ تمام بھائیوں اور محترم حضرات کو آپ کے مقدس اہداف میں کامیابی اور پائیداری عنایت فرمائے ۔
اگرچہ اس جلسے میں عالیقدر علمائے کرام کی ایک جماعت بھی موجود ہے مگر ماہ محرم کے نزدیک آنے کی مناسبت سے منعقد ہونے والا یہ جلسہ دینی خطیبوں اور مبلغین سے تعلق رکھتا ہے۔ چند جملے دینی تبلیغ کے بارے میں عرض کروں گا اور آخر میں علماء کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
تمہید کے طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ ہر فن کی عظمت اس کے مقصد اور ہدف کی عظمت پر منحصر ہوتی ہے، تو کہنا چاہئے کہ باشرف ترین فن دینی تبلیغ اور اسلامی و دینی تعلیمات پر مبنی خطابت ہے۔ وہی جو ہماری زبان میں وعظ اور خطابت کے نام سے مشہور ہے۔ کیونکہ دینی خطابت اور تبلیغ کا ہدف لوگوں کی طہارت اور پاکیزگی کے لئے موعظہ ہے، لوگوں کی دینی معلومات بڑھانے کے لئے دینی اصولوں اور تعلیمات نیز حضرت ابوعبداللہ الحسین ( علیہ السلام ) کے مصائب کا بیان یعنی لوگوں کو عظیم اہداف کی راہ میں تحریک کی کیفیت کی سطح بلند کرنے کے لئے نمونہ عمل پیش کرنا ہے اور یہ عظیم ترین اہداف میں سے ایک ہے۔ پاکیزگی و طہارت، لوگوں کی اطلاعات اور معلومات بڑھانا، جہاد فی سبیل اللہ اور سعی و کوشش کے لئے لوگوں کے سامنے نمونہ عمل پیش کرنا، یہ سب بہترین اہداف ہیں۔
اس فن کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔ منبر پر جانا اور دین کی باتیں کرنا معززترین کاموں میں سے ہے۔ باشرف ترین انسانوں، عالم ترین اور اسلامی مسائل سے آگاہ ترین افراد اور شرعی احکام پر سب سے زیادہ عمل کرنے والوں کو اس راہ میں قدم بڑھانا چاہئے اور اس کام کو اپنے لئے افتخار سمجھنا چاہئے۔ چنانچہ ماضی میں ایسا ہی تھا۔ شیخ جعفر شوشتری جو ایک بڑے عالم اور خطیب تھے، یا صاحب کتاب ہدیۃ النملۃ حاج آقا رضا ہمدانی واعظ مرحوم، خطیب اور واعظ تھے، یا ان کے فرزند آقا میرزا محمد ہمدانی مرحوم جن کا شمار جید علماء میں ہوتا تھا، ماضی میں ایسی علمی اور ممتاز دینی ہستیاں اہل منبر اور فن خطابت کی مالک تھیں۔ اس دور میں بھی الحمد للہ ہم نے تبلیغ اور خطابت کے میدان میں ممتاز ہستیوں کو دیکھا ہے اور اب بھی ہیں۔
جو چیز اہل منبر حضرات کے درمیان، چاہے ان کا اصل کام یہی ہو یا اصلی کام کچھ اور ہو اور اس کے ساتھ ہی یہ کام بھی کرتے ہوں، ظاہر ہونی چاہئے، یہ ہے کہ اگر ہم عوام کے درمیان موعظہ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے ہم خود اپنے نفس کو موعظہ کریں۔ جو شخص منبر پر جاکے دین کی باتیں کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نفس کو پاکیزہ بنائے تاکہ اس کی باتیں دل سے نکلیں اور دل میں اتر جائيں۔ اس کا عمل اس کی باتوں کی تائید کرے اور اس پر گواہ ہو۔
چونکہ مبلغ، اسلامی مسائل میں لوگوں کی معلومات بڑھانا چاہتا ہے اس لئے، اس کی معلومات اور دینی بینش کا وسیع تر ہونا ضروری ہے۔ اسے قرآن سے مانوس ہونا چاہئے، احادیث پر غور و فکر کرنے والا ہونا چاہئے، دین اور مذہب کے تعلق سے نئے افکار سے آگاہ ہونا چاہئے اور دینی مسائل اوردینی افکار کے سلسلے میں اہل تحقیق ہونا چاہئے۔ صرف دین سے ہی واقفیت ضروری نہیں ہے بلکہ دینی مسائل کے ساتھ ہی، فلسفیانہ افکار اور سماجی بینش سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ چونکہ لوگوں کو جہاد اور جدوجہد کے نمونے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، اس لئے اس سلسلے میں بہت زیادہ دقت نظر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حسین ابن علی (علیہ السلام) کی زندگی اور کربلا میں آپ کا قربانی کا چند روزہ واقعہ، ہماری تاریخ کا عظیم باب ہے۔ اس کا حجم کم لیکن اس میں مضمر مفاہیم بہت وسیع اور عمیق ہیں۔
حسین ابن علی (علیہ السلام) کا ماجرا، درحقیقت اسلامی قرون میں صحیح اسلامی افکار کی سمت حرکت کی قوت محرکہ ہے۔ ہر حریت پسند، ہر مجاہد فی سبیل اللہ اور ہر اس فرد نے جو جدوجہد کرنا چاہتا تھا، اس واقعے سے سبق لیا اور اس کو اپنی روحانی اور معنوی بنیاد قرار دیا ہے۔ ہمارے انقلاب میں یہ بات بہت واضح ہے۔ پتہ نہیں اگر ہمارے پاس یہ واقعہ نہ ہوتا تو ہم اس معرکے میں کیا کرتے۔ یہ خود ایک قابل غور اور وسیع باب ہے کہ ہمارے انقلاب میں، واقعہ عاشورا اور مجاہدت سید الشہداء ( علیہ الصلوات والسلام) سے تمسک نے کیا اثرات مرتب کئے ہیں۔ انسان جب اس پر غور کرتا ہے تو اس واقعے کی تاثیر کی عظمت سے مبہوت ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ جو لوگ اس سے محروم ہیں وہ اس خلاء کو کیسے پر کر سکتے ہیں۔
یہ تین باتیں خطابت کے تعلق سے، یعنی موعظہ، اسلامی تعلیمات کا بیان اور اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل پیش کرنا۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک لازمہ اور خطیب کے نفس سے ایک تقاضہ ہے۔ بنابریں اس کام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ماضی میں ہم میں سے بعض کے ذہنوں میں غلط تصور تھا جو بعد میں الحمد للہ دور ہو گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اگر کوئی اہل علم اور مجتہد ہے تو اہل منبر اور مجلس پڑھنے والا نہیں ہو سکتا۔ ہم ان دونوں کو الگ الگ سطح پر دیکھتے تھے۔ جو ان تین فرائض کو انجام دینا چاہے، کتنا بہتر ہو کہ دینی تعلیمات، فقہ اور دینی تعلیم کے مراکز میں رائج علوم و فنون میں جو احکام سمجھنے کا معیار ہیں، اونچی اور اعلی سطح پر فائز ہو۔ خطابت کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
ہمارے معاشرے میں منبر کی تاثیر کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ آپ ہمارے معاشرے پر ایک نظر ڈالیں، دیکھیں کہ کہاں وہ جگہ ہے جہاں ابو عبداللہ ( علیہ السلام ) کے نام کا منبر نہ ہو؟ بڑے شہروں اور زیادہ آبادی والے مراکز سے لیکر دور دراز کے دیہی علاقوں، حتی دور افتادہ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں، یونیورسٹیوں میں، سائنسدانوں کے درمیان، جدید علوم سے آراستہ لوگوں کی انجمنوں میں اور ملک کے تمام علاقوں میں زمانہ حاضر کے علوم و تعلیمات سے دور عوام کے درمیان، ابو عبداللہ ( علیہ السلام ) کا منبر کہاں نہیں ہے؟ کون سی ایسی جگہ ہے جہاں موقع پر خطیب منبر پر نہ جاتا ہو اور مجلس نہ پڑھتا ہو؟ بنابریں ہمارا پورا شیعہ معاشرہ، امام حسین علیہ السلام کے زیر سايہ ہے۔ البتہ مجلس امام حسین شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے، دنیا کے بہت سے علاقوں میں غیر شیعہ بلکہ غیر مسلم افراد بھی اس فیض سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔
گذشتہ چند صدیوں سے ہمارے ملک میں دین کے بارے میں یہ بینش اور تبلیغ حسین ابن علی (علیہ السلام ) کے نام سے منسوب ہے اور اس چیز نے عوام کے درمیان دین کی تبلیغ کو باقی رکھا ہے۔ یہ سلسلہ ہمارے انقلاب میں بہت کار آمد ثابت ہوا۔ ملک کی سطح پر موجود اس منظم سلسلے سے انقلابی فکر، جو واقعہ عاشورا سے ماخوذ تھی ، ہر جگہ پھیل گئی اور لوگوں کو میدان میں لائی۔ اگر اس سلسلے میں ہمارے ملک کا دوسرے اسلامی ملکوں سے موازنہ کریں ، جہاں امام حسین علیہ السلام کا نام نہیں لیا جاتا، تو دونوں کے درمیان آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔ یہ خصوصیت ہمارے معاشرے کو عطا ہوئی ہے۔
بنابریں ہمارے معاشرے کے فکری، دینی اور سماجی تانے بانے کی یہ ایک موثر بنیاد ہے۔ یہ مرکز اور یہ ادارہ ماضی میں بھی موثر رہا ہے لیکن کسی قاعدے، قانون اور ضابطے کے تحت نہیں تھا۔ ملک میں دینی افکار کو پیش کرنے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، ملک کے ذرائع ابلاغ عامہ میں، صرف ایام عاشورا میں وہ بھی بہت معمولی سطح پر سینہ زنی وغیرہ کی شکل میں ان مسائل کو پیش کرتے تھے۔ سنتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اکثر غلط اور انحرافی باتیں ہیں۔
آج یہ پلیٹ فارم تفسیر قرآن، اسلامی تعلیمات، فلسفیانہ و عرفانی مسائل اور تعلیمات آل محمد (علیہم الصلوات و السلام ) کو پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ بنابریں یہ ایک طرف تو خطبائے دین کے لئے ایک نیا وسیلہ ہے دوسری طرف علمائے کرام اور خطیبوں کو یہ موقع ملا ہے کہ ایک فریضے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کی اس کے تمام پہلووں کے ساتھ عوام کے سامنے آزادی سے تشریح کریں۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ کچھ باتیں کہی جا سکتی تھیں اور کچھ باتیں نہیں کہی جا سکتی تھیں۔ نہیں کہنے دیتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ آج منبر کی نسبت ہمارے اوپر ایک نیا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ آج اس کے لئے قواعد و ضوابط تیار کرنا ضروری ہے۔ یہ قواعد و ضوابط زمانے کے حالات سے باخبر فضلائے کرام اور عرصہ دراز سے اس میدان اور فن کی خدمت کرنے والوں کو جنہوں نے اس کے تمام جوانب کا جائزہ لیا ہے، تیار کرنا چاہئے۔ کوئی بھی کمزور بات نہ کہی جائے۔ فوائد سے پر باتوں کی جگہ کوئی بھی بے فائدہ یا کم فائدے والی بات بیان نہ کی جائے۔ زمانے کے تقاضے اور عوام کی دینی تعلیمات کی ضرورت کو مد نظر رکھا جائے۔ عاشورا کا واقعہ جو اللہ کی راہ میں جہاد اور مجاہدت کے تعلق سے تمام تعلیمات کا سرچشمہ اور ہمارے انقلاب کی بنیاد ہے، بہت اچھے انداز میں بیان کیا جائے۔ اس میں حقائق کی تجلی ہو اور ان باتوں کو جو زبان و قلم نے اس میں اپنی طرف سے بڑھائی ہیں، بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔ عاشورا کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اتنے عظیم واقعے میں خرافات کو شامل کرنے کے بعد اس سے مکمل تاثیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
آپ کے پاس آج جو سہولتیں ہیں وہ مداحان اہلیبت اور ان کے فضائل و مصائب بیان کرنے والے خطیبوں کو کب حاصل تھیں؟ علمائے کرام کو آج اس کام پر نگرانی کا جو موقع ملا ہے وہ اس سے پہلے کب حاصل تھا؟ البتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان باتوں سے خوش نہیں ہوں گے۔ نہ ہوں، کوئی حرج نہیں ہے۔ جو رضائے خدا کا باعث ہے، عوام کی ضرورت اور ہماری آئندہ نسلوں کی توقع کے مطابق ہے، اس پر توجہ ہونی چاہئے۔
تقریبا سو سال قبل الحاج میرزا حسین نوری مرحوم نے لولو و مرجان کے نام سے مجلس حسین کے منبر کے پہلے اور دوسرے زینے کی شرائط کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔ اس زمانے میں ایک مخلص، روشن فکر اور صاحب علم محدث کو یہ فکر تھی کہ منبر کے پہلے اور دوسرے زینے میں سے ہر ایک کے لئے بعض آداب ہیں۔ اس میدان میں بغیر آداب کی پابندی کے نہیں آیا جا سکتا۔ شاید اس زمانے میں مرثیہ خوان منبر کے پہلے زینے پر اور واعظین دوسرے زینے پر بیٹھتے تھے۔
اس زمانے میں حاج میرزا حسین نوری مرحوم نے یہ کتاب لکھی۔ ان کے پیش نظر اس زمانے کا محدود منظرنامہ تھا لیکن آج آپ کے سامنے وسیع ترمنظر ہے اور آپ ان شرائط پر عمل کر سکتے ہیں۔ کون منبر پر جانے کا مجاز اور اس کام پر نگرانی رکھنے والے مرکز کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ اسے کیا کہنا چاہئے؟ کب اور کہاں کہنا چاہئے؟ یہ مسودہ تیار کرنے اور لوگوں کو دینے کے مترادف نہیں ہے۔ اسلامی ملکوں میں یہ ہوتا ہے کہ سرکاری کارندے، مسودہ لکھ کے امام جمعہ کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے پڑھو۔ نہیں، فکر، مطالعہ، جائزہ اور اساتید فن اور اسلاف سے استفادہ ضروری ہے جو معیاروں کے ساتھ، مناسب انداز میں، صحیح طریقے سے مجلس پڑھنے کی غرض سے انجام پانا چاہئے۔
آج بہت سے شعبوں میں ضابطہ پایا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے دینی تعلیم کے مراکز خاص طور پر قم کے دینی تعلیم کے مرکز میں نظم لانے اور درجہ بندی کا کام ہو رہا ہے۔ یہ بہت مبارک کام ہے جو اگرچہ دیر میں شروع ہوا مگر سرانجام شروع تو ہوا۔ اس میدان میں بھی یہ کام ہونا چاہئے۔ البتہ مشکل کام ہے۔ اس کے لئے کافی غور و فکر محنت اور لگاتار کام کی ضرورت ہے لیکن یہ کام ہونا چاہئے۔ جو نسل ہماری دینی باتوں سے بہرہ مند ہونا چاہتی ہے اگر ہم نے اس کو اس کا موقع نہ دیا تو ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
آج دنیا عوام کی ضرورت کے جدیدترین مسائل اور علوم میں لمحہ بہ لمحہ نئی روشیں بروئے کار لاتی ہے۔ بہت سے علوم میں جن پر تبادلہ خیال اور اظہار رائے ہوتا ہے، ایک نظریہ جو آپ نے آج پڑھا ہے، ایک مہینے کے بعد آخری نظرئے کے عنوان سے اس کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ روشیں مستقل بدل رہی ہیں اور نئی نئی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
ہم اس روش سے جو پچاس سال اور سو سال پہلے رائج تھی، عوام سے اپنی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ حتی انقلاب سے پہلے کے زمانے اور آج میں فرق ہے۔ انقلاب سے پہلے سن چھہتر، ستتر اور اٹھہتر، اناسی عیسوی میں جو خطابت مفید اور موثر ہو سکتی تھی، ممکن ہے کہ آج ہر جگہ اتنی مفید اور موثر نہ ہو۔ البتہ بعض باتیں ایسی ہیں کہ جو جس زبان میں بھی اور جن حالات میں بھی بیان کی جائیں اثر رکھتی ہیں لیکن ہر بات کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو میں خطابت اور اہل منبر حضرات کے سلسلے میں عرض کرنا چاہتا تھا۔ جس کا خلاصہ، مطالب، مفاہیم، انداز، روش اور اسلوب کے لحاظ سے اس باشرف فن کا ارتقاء ہے۔
علمائے دین کے بارے میں یہ ایک جملہ کافی ہے کہ آج اسلام، دشمنی کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے۔ دنیا میں اسلام شیطانوں کی دشمنی کا ہدف ہے لیکن اسی کے ساتھ محروم عوام کی سطح پر سب سے زیادہ محبت اور لگاؤ اسلام سے ہے۔ دنیا کے تسلط پسند اسلام سے زیادہ کسی چیز کے دشمن نہیں ہیں اور علمائے کرام منادی اسلام ہیں۔
انقلاب کے شروع سے ہی صیہونی اور سامراجی ذرائع ابلاغ عامہ مختلف شکلوں میں مستقل طور پر علمائے کرام کے خلاف بولتے آئے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں، جھوٹی باتیں ان سے منسوب کرتے ہیں، ان پر بہتان لگاتے ہیں اور جن باتوں کے وہ خود، ان کے پٹھو اور زرخرید مستحق ہیں، ان کی نسبت وہ دینی دانشوروں ، مفکرین اور بڑے علمائے کرام سے دیتے ہیں۔ ہم اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو ہمارے اوپر اثر انداز ہو سکے۔ بلکہ ان باتوں سے ہم خوش ہوتے ہیں کیونکہ پتہ چلتا ہے کہ علمائے کرام کا وار موثر واقع ہوا ہے۔
اس وقت آپ دیکھیں کہ یہی مشرق وسطی میں ترک اسلحہ کا مسئلہ جس کے امریکی پرچم دار ہیں، کس مقصد سے اٹھایا گیا ہے؟ یہ کس کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں؟ مشرق وسطی میں کس کے پاس سب سے زیادہ اسلحہ ہے؟ سب سے زیادہ خطرہ کس کی طرف سے ہے؟ صیہونیوں کے علاوہ کوئی اور ہے؟ یہ صیہونیوں کی جعلی اور کٹھ پتلی حکومت ہے جو سب سے زیادہ اسلحے تیار کرتی ہے، منگاتی ہے اور فروخت کرتی ہے۔ اس علاقے میں یہ خطرناک ترین جراثیم ہے۔ یہ حکومت مستقل کشیدگی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ کیا اس کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں؟ ہرگزنہیں ۔ اس کی تو اور زیادہ تقویت کر رہے ہیں۔ جب عمل کا موقع آئے گا تو دیکھئے گا کہ علاقے میں اپنے زرخریدوں اور پٹھوؤں کو زیادہ سے زیادہ مسلح کریں گے۔ تو ان کا ہدف کون ہے؟
ان کا ہدف عراق بھی نہیں ہے۔ آج عراق کے اس حقیر طاغوت نے ان کے مقابلے میں جو کمزوری اور ذلت دکھائی ہے، اس کی وجہ سے وہ (عراق میں) آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں۔ اگر مزاحمت کرے تو ایک تھپڑ مارتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں۔ بنابریں یہاں بھی ان کو کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔ ان کا ہدف صرف اور صرف اسلام ، اسلامی جمہوریہ اور ہر وہ نقطہ ہے جہاں اسلامی تحریک سر اٹھائے۔ یہ ہنگامہ جو کھڑا کیا ہے وہ، اسلام سے مقابلےکے لئے ہے۔ وہ اس طرح اسلام سے دشمنی نکال رہے ہیں۔ اسلام کا نام زبان پر نہیں لاتے۔ لیکن ان کی منصوبہ بندی اور ہر کام ، اسلامی دنیا، مسلمین، اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب پر دباؤ ڈالنے پر منتج ہوتا ہے۔ دشمنی کرتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ہر روز نئی فکر بروئے کار لاتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے۔ البتہ وہ غلطی کر رہے ہیں کیونکہ یہ مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اقوام ان کو قبول نہیں کرتی ہیں۔
یہ ترک اسلحہ جس شکل میں بھی پیش کیا جائے، اقوام کو قبول نہیں ہے۔ اگر وہ کہیں کہ مشرق وسطی کے تیل کے مالک کسی بھی ملک کے پاس اسلحہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دولت و ثروت کا علاقہ تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں بالکل نہتا ہوجائے۔ اوپک پر اثر انداز ہوں، تیل کی قیمت اوپر لے جائیں، نیچے لائیں اور جب بھی وہ چاہیں کوئی ایک قطرہ تیل دینے سے بھی انکار کی جرائت نہ کر سکے۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر اس پر عمل کرنا چاہیں تو جس (حکومت) کو بھی وہ اس سلسلے میں اپناوسیلہ بنائیں گے اقوام اس سے دور ہو جائيں گی، اقوام ہرگز قبول نہیں کریں گی۔ یہ پالیسی کامیاب نہ ہوگی۔ دوسری طرف اگر اسی کو جو حقیقت امر اور انجام کار ہے، یعنی اسلامی جمہوریہ کے محاصرے کو عملی جامہ پہنانا چاہیں تو اس پر بھی وہ قادر نہیں ہوں گے۔
مسلمان ایرانی قوم نے امریکی اسلحے کی کثرت کے مقابلے میں خالی ہاتھوں قیام کیا اور کامیاب حاصل کی۔ اس کے بعد اس حکومت کے مقابلے میں، جس کو مشرق و مغرب دونوں نے مسلح کیا تھا،اس قوم نے اپنی ہمت و محنت سے اسلحہ تیار کیا، پرانے اسلحے کی مرمت کی اور جہاں سے بھی مل سکا اسلحہ لائی، مزاحمت کی اور سرانجام دشمن کا سر کچل دیا۔ کیا ایرانی قوم سکون سے بیٹھے گی اگر اس کے بارے میں ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا؟
یہ نکتہ اس لئے عرض کیا گیا کہ دیکھئے دشمنان اسلام اس طرح اسلام کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ اس اسلام کے دفاع کے لئے جس کی یہ تاثیر ہے اور جس نے دنیا میں ایک نئی لہر شروع کر دی ہے اور تسلط پسندوں کو سراسیمہ کر دیا ہے، اس اسلام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے آج علمائے کرام کو بڑا قدم اٹھانا ہے اور علم و عمل میں ایک عظیم تحریک شروع کرنی ہے۔ ہمیں صرف اپنے علم و دانش کی بات ہی نہیں کرنی ہے بلکہ علم سے زیادہ اپنے عمل پر زور دینا ہے۔ اپنے عمل پر زور دیں، بنیاد اور اساس یہ ہے۔
آج علمائے کرام کی ذمہ داری بہت عظیم ہے۔ دسیوں سال میں بلکہ ایک دو صدی میں الحمد للہ علمائے کرام نے، بین الاقوامی معاملات، اس ملک اور بعض دیگر اسلامی ممالک سے متعلق مسائل کے تعلق سے صحیح موقف اختیار کیا ہے اور قابل فخر تجربہ کیا ہے۔ ایران میں آئینی حکومت کی تحریک کے پہلے سے لیکر پہلی عالمی جنگ کے واقعات، دوسری عالمی جنگ کے واقعات اور انقلاب سے پہلے اور بعد کے واقعات تک کو دیکھ لیں ہمیشہ علمائے کرام کا موقف آپ کو صحیح ملے گا اور ان مورچوں پر ان کا عمل قابل فخر رہا ہے۔
آج بھی ہمارے سامنے عظیم ذمہ داری ہے۔ یعنی اسلام کو ایسی شکل میں پیش کرنا کہ لوگوں کے قلوب اور اذہان کو سیراب کر سکے۔ ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کا صحیح جواب دے سکے۔ ان کے ایمان اور ان میدانوں میں ان کی موجودگی کو مخلصانہ اور خالصانہ شکل میں محفوظ رکھ سکے تاکہ انشاء اللہ ہمارے کام اور طرز عمل پر حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ) کی نظر عنایت ہو اور آپ کی تائید اور دعائیں ہمارے شامل حال ہوں۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں اس میدان کا ثابت قدم سپاہی قرار دے۔ پالنے والے! اپنی رضا اور فضل کو ہمارے شامل حال کر اور حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ ) کے قلب مقدس کو ہم سے خوشنود فرما۔ پالنے والے! ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح قدسی کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔ پالنے والے! اس محرم اور عزاداری کے ایام کو ہمارے لئے اسلامی تعلیمات و عمل میں پیشرفت کا میدان قرار دے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- مشرق وسطی میں ترک اسلحہ ، علاقے میں اپنا تسلط بڑھانے اور صیہونی حکومت کی تقویت کے لئے ، ایک امریکی منصوبہ تھا ۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر دنیا کےمختلف علاقوں منجملہ مشرق وسطی پر اپنا تسلط جمانے کے لئے امریکا کی نئی حکمت عملی ہے۔ یہ منصوبہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا تھا کہ جب امریکی ، عراق پر اپنی کامیابی کے نشے میں چور تھے اور کویت میں عراقی افواج کی شکست سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت سے منصوبے ان کے ذہنوں میں گشت کر رہے تھے۔