قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں تمام بہنوں اور بھائیوں کا جنہوں نے زحمت کی اور اس اجتماع میں شرکت کے لئے تشریف لائے، خیر مقدم کرتا ہوں اور آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بالخصوص ان نوجوانوں کا شکر گزار ہوں جو درود سے یہاں تک طویل راستہ پیدل طے کرکے آئے ہیں۔ انشاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔ انشاء اللہ یہ دوستانہ ملاقات، اسلام ومسلمین کے لئے خیر و برکت کا باعث ہو۔
یہ ایک ثقافتی جلسہ ہے۔ ملک کے مختلف ثقافتی اداروں، اخبارات، ریڈیو ٹیلیویژن، تعلیم و تربیت، فن و ہنر اور اسلامی جمہوریہ کے تبلیغی اداروں کے ذمہ دار عہدیدار اور کارکن یہاں موجود ہیں۔ میں اس موقع کو ملک کے ثقافتی مسائل اور ان میں سرفہرست، جنگ کے بعد سے آج تک تین چار سال کے عرصے میں جاری رہنے والے ملک کے اہم ترین مسئلے یعنی دشمن کے ثقافتی محاذ کے قیام اور دشمن کے نئے نئے منظم حملوں کے بیان کے لئے غنیمت سمجھتا ہوں۔
پہلے یہ نکتہ عرض کر دوں کہ ثقافتی یلغار ثقافتی تعلقات اور ثقافتی لین دین سے مختلف ہے۔ ثقافتی لین دین ضروری ہے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو تمام شعبوں میں، منجملہ ثقافتی مسائل میں، ان مسائل میں جنہیں ثقافت کا نام دیا جاتا ہے، دیگر اقوام سے بالکل بے نیاز ہو۔ ہمیشہ تاریخ میں یہی ہوا ہے۔ اقوام نے ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے میں، آداب زندگی، عادات و اطوار، علم و دانش، لباس و پوشاک پہننا، آداب معاشرت، زبان، اصول اور علم سیکھا ہے۔ یہ اقوام کے ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی تعلقات کے اہم ترین امور ہیں جو اقتصادی لین دین اور اشیاء کے تبادلے سے زیادہ اہم ہیں۔ بسا اوقات یہ ثقافتی لین دین کسی ملک کے مذہب کی تبدیلی پر بھی منتج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مشرقی ایشیا کے ملکوں میں منجملہ انڈونیشیا، ملیشیا اور بر صغیر کے اہم حصے میں اسلام پھیلنے کا اہم ترین عامل، مبلغین کی تبلیغ نہیں تھی بلکہ ایرانیوں کی آمد و رفت تھی۔ ایرانی تجار اور سیاح ان ممالک میں گئے آئے اور اسی آنے جانے میں ایک بڑی قوم مسلمان ہو گئی اور آج انڈونیشیا شاید آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ یہاں اسلام پہلی بار نہ دینی مبلغین کے ذریعے پہنچا ہے، نہ ہی جنگ اور تلوار کے ذریعے بلکہ یہی آمد و رفت تھی جو وہاں اسلام لے گئی۔ خود ہماری قوم نے بھی بہت سی چیزیں دوسری اقوام سے سیکھی ہیں۔ یہ پوری دنیا میں ثقافت کے تروتازہ رہنے اور ثقافتی حیات کے دوام کے لئے ضروری ہے۔ یہ ثقافتی لین دین ہے جو اچھی چیز ہے۔
ثقافتی یلغار یہ ہے کہ کوئی ثقافتی یا اقتصادی گروہ اپنے سیاسی مقاصد کے تحت اور کسی قوم کو اپنے زیر تسلط لانے کے لئے، اس کی ثقافتی بنیادوں پر حملہ کر دے۔ یہ گروہ بھی اس ملک میں اور اس قوم میں کچھ نئی چیزیں لاتا ہے مگر زبردستی اور ان چیزوں کو اس قوم کی اپنی قومی ثقافت اور اعتقادات کی جگہ رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ثقافتی یلغار ہے۔ ثقافتی تبادلے میں مقصد قومی ثقافت کی تکمیل اور اس کا یقین ہوتا ہے۔ مگر ثقافتی یلغار میں مقصد قوم کی ملی ثقافت کو جڑ سے ختم کرنا ہوتا ہے۔ ثقافتی تبادلے میں جو قوم دیگر اقوام سے کچھ لیتی ہے، وہ اچھی اور اپنی پسند کی چیزوں کا انتخاب کرتی ہے۔ فرض کریں کہ دیگر اقوام سے علم حاصل کرتی ہے۔ فرض کریں ایرانی یورپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یورپ والے محنتی لوگ ہیں اور پیشرفت کے لئے خطرات مول لیتے ہیں جوکھم اٹھاتے ہیں۔ اگر ان سے یہ باتیں سیکھیں تو بہت اچھا ہے۔ مشرقی ایشیا میں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اپنے کام کے لئے وفادار ہیں۔ کام لگن سے کرتے ہیں۔ ان کے اندر کام کا شوق پایا جاتا ہے۔ اگر یہ باتیں ان سے سیکھیں تو بہت اچھا ہے۔ کسی ملک میں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں، ان کے اندر نظم اور اصول پسندی پائی جاتی ہے، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، با ادب ہیں۔ اگر یہ چیزیں سیکھیں تو بہت اچھا ہے۔
ثقافتی تبادلے میں یہ ہوتا ہے۔ سیکھنے والی قوم گھومتی ہے، صحیح نقاط کو تلاش کرتی ہے اور وہ چیزیں دوسروں سے سیکھتی ہے جن سے اس کی ثقافت کی تکمیل ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی کمزور انسان مناسب غذا تلاش کرتا ہے۔ مناسب غذا اور مناسب دوا استعمال کرتا ہے تاکہ تندرست ہو جائے اور اس کی کمزوری دور ہو جائے۔ ثقافتی یلغار میں یلغار کا ہدف بننے والی قوم کو جو چیزیں دی جاتی ہیں وہ اچھی نہیں بلکہ بری ہوتی ہیں۔ فرض کریں جب یورپ والوں نے ہمارے ملک میں ثقافتی یلغار شروع کی تو وقت کی قدر کرنا، شجاعت کا جذبہ، پیشرفت کے لئے خطرہ مول لینا، سائنسی تجسس اور تحقیق کا جذبہ سکھانے یا اس کی تشہیر کی کوشش نہیں کی، انہوں نے ایرانی قوم کو اپنے کام میں دلچسپی لینے والی اور سائنسی پشرفت کا جذبہ رکھنے والی قوم بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمارے ملک میں جنسی بے راہروی اور لاابالی پن پھیلانے کی کوشش کی۔ ہزاروں سال ہماری قوم جنسی معقولیت کی مالک رہی ہے۔ یعنی عورتوں اور مردوں سے متعلق اخلاقی اصول وضوابط کی پابند رہی ہے۔ تمام اسلامی ادوار میں ایسا ہی رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی سے خطا نہیں ہوتی تھی اور کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی تھی۔ غلطی اور خطا ہمیشہ ہو سکتی ہے۔ تمام ادوار میں اور تمام شعبوں میں ہو سکتی ہے۔ انسان سے خطا سرزد ہوتی ہے۔ خطا ہونا اور بات ہے اور کوئی بات معاشرے میں رائج ہو جانا اور بات ہے۔
ہماری قوم جنسی بے راہروی، عیاشی، عیش و طرب کی مجلسوں اور اس جیسی دیگر لغویات سے دور رہی ہے۔ یہ کام رئیسوں، بادشاہوں، شاہزادوں اور زمینداروں، جاگیرداروں وغیرہ سے مخصوص رہے ہیں کہ شام سے صبح تک عیاشی میں مصروف رہیں۔ یورپ والوں کے میخانے، پورے سال، شب و روز کھلے رہتے تھے۔ یہ یورپ کی تاریخ ہے۔ جو چاہے جائے اور پڑھ لے۔ انہیں یہی ہمارے ملک میں بھی رائج کرنا چاہا اور جہاں تک ان سے ہو سکا کیا۔
ثقافتی یلغار میں دشمن اپنی ثقافت کا وہ حصہ یلغار کا ہدف بننے والی قوم میں پھیلاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمن کیا چاہتا ہے۔ اگر ثقافتی تبادلے میں اس قوم کو جو دوسروں کی ثقافت سے کچھ لیتی ہے، ایسے انسان سے تشبیہ دیتے ہیں جو کوچہ و بازار سے اپنے لئے مناسب دوا اور مناسب غذا خریدتا ہے تو ثقافتی یلغار میں یلغار کا ہدف بننے والی قوم کو اس بیمار سے تشبیہ دینا چاہئے جس نے چارپائی پکڑ لی ہے اور خود سے کچھ نہیں کر سکتا اور پھر دشمن اس کو انجکشن دیتا ہے۔ معلوم ہے کہ دشمن کیسا انجیکشن لگائے گا۔ اس میں اور اس دوا میں فرق ہے جو آپ خود سے اپنی مرضی سے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے جسم کو پہنچاتے ہیں۔ ثقافتی یلغار یہ ہے۔
معلوم ہوا کہ ثقافتی تبادلہ ہمارے انتخاب سے ہوتا ہے اور ثقافتی یلغار دشمن کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ ثقافتی تبادلہ ہم اپنی ثقافت کی تکمیل کے لئے انجام دیتے ہیں اور ثقافتی یلغار، ہدف بننے والی قوم کی اپنی ثقافت کے خاتمے کے لئے ہوتی ہے۔ ثقافتی تبادلہ اچھی چیزوں میں ہے اور ثقافتی یلغار بری چیزوں میں سے ہے۔ ثقافتی تبادلہ قوم کی توانائی اور طاقت کے وقت انجام پاتا ہے اور ثقافتی یلغار قوم پر اس کی کمزوری کے دور میں ہوتی ہے۔ بنابریں آپ نے دیکھا کہ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں سامراجی طاقتوں نے داخل ہونا چاہا تو سیاستدانوں، فوجیوں اور لٹیروں سے پہلے عیسائی مشنریز اور عیسائی تبلیغی جماعتیں ان علاقوں میں داخل ہوئیں۔ سرخ فاموں اور سیاہ فاموں کو پہلے عیسائی بنایا پھر سامراجی پھندا ان کے گلے میں ڈالا اور اس کے بعد انہیں ان کے گھر بار سے بے دخل کرکے، ان پر ستم ڈھائے۔
خود اپنے ایران میں قاجاری دور کے اواخر پر نگاہ ڈالیں ! یورپ سے کتنے عیسائی علماء عوام کو عیسائی بنانے کے لئے، یہاں آئے۔ البتہ جس طرح اناڑی چور گھاس اور بھوسے کے ڈھیر پر ٹوٹتا ہے اسی طرح یہ عیسائی مبلغین بھی یہ نہ سمجھ سکے کہ انہیں عیسائیت کی ترویج کے لئے کہاں جانا چاہئے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے مگر ان کا ارادہ یہی تھا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سرمایہ دار، بڑی کمپنیاں اور بین الاقوامی لٹیرے ، حضرت عیسی علیہ السلام پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ حضرت عیسی کون ہیں؟ کسی قوم میں اگر اس کی ملی ثقافت، رکاوٹ ہو تو پہلا کام یہ ہے کہ اس سے اس کی ثقافت سلب کر لی جائے۔ جیسے کچھ فوجی اگر کسی محکم قلعے پر حملہ کرنا چاہیں تو پہلا کام یہ ہے کہ قلعے کے ستونوں میں پانی ڈالیں کہ شاید اس کی دیواریں گر جائیں۔ قلعے کی دیواروں کو جس طرح بھی ممکن ہو کمزور کرتے ہیں۔ یہ پہلا کام ہوتا ہے۔ یا قلعے والوں کی غفلت کی نیند سلا دیں۔ شیخ سعدی گلستان کی ایک داستان میں کہتے ہیں کہ پہلا دشمن جس نے ان پر یلغار کی، نیند تھی ان کا پہلا دشمن ان کی نیند تھی۔ ان کی آنکھوں کو آسودگی ملی اور وہ سو گئیں۔ اس اندرونی دشمن نے جو ان کی نیند تھی، جب ان کی آنکھیں بند کر دیں اور ان کے ہاتھ سن ہو گئے تو دشمن نے آکے ان کے ہاتھوں کو باندھ دیا۔ جو چاہا اٹھایا اور لے گیا۔ ثقافتی یلغار میں یہی ہوتا ہے۔
یہ ثقافتی یلغار کب شروع ہوئی؟ آشکارا طور پر رضا خان کے زمانے سے شروع ہوئی۔ البتہ اس سے پہلے اس کے لئے حالات سازگار کئے گئے تھے۔ اس کے لئے بہت زیادہ کام کیا گیا تھا۔ ہمارے ملک کے اندر زرخرید روشنفکر پیدا کئے گئے۔ پتہ نہیں ہماری نوجوان نسل نے، ہماری انقلابی نسل نے گذشتہ ڈیڑھ دو سو سال کی تاریخ صحیح پڑھی ہے یا نہیں۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے انقلابی نوجوانوں کو معلوم ہی نہ ہو کہ کیسے دور کے بعد آج ہم اتنی عظیم تحریک چلا رہے ہیں۔ قاجاری دور کے اواسط سے، روس اور ایران کی جنگوں سے، ڈیڑھ دو سو سال کی تاریخ کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس ملک میں کیسے کیسے حوادث رونما ہوئے ہیں۔
انہی حوادث میں سے ایک زرخرید روشنفکری کی تحریک ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایران میں روشنفکر نہیں تھے۔ ہمیشہ، ہر دور میں، ہر زمانے میں روشنفکر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے زمانے سے آگے دیکھتے تھے اور اسی بنیاد پر فکر کرتے تھے اور آگے بڑھتے تھے۔ لیکن مغرب کہ سائنس و ٹکنالوجی پر جس کا قبضہ تھا، جب اس نے ایران میں اپنا تسلط محکم کرنا چاہا تو روشنفکری کے راستے سے آیا۔ میرزا ملکم خان (1) جیسے لوگوں سے لیکر تقی زادہ (2) جیسے لوگوں تک ، قاجاری دور کی روشنفکری ہے جو بیمار پیدا ہوئی تھی۔
ایران میں روشنفکری پیدائشی بیمار اورغیروں سے وابستہ تھی۔ چند افراد جو صحیح اور سالم تھےع وہ گم ہوکر رہ گئے۔ بقیہ غیروں سے وابستہ تھے۔ بعض اس زمانے کے روس سے وابستہ تھے جیسے فتح علی آخوند زادہ (3) اور کچھ یورپ اور مغرب سے وابستہ تھے جیسے میرزا ملکم خان وغیرہ۔ یہ کام ایران کے اندر کیا گیا تھا لیکن کارگر نہیں ہو سکا۔ مغربی ثقافت اور درحقیقت ایران پر مغربی تسلط اوربرطانوی سامراج کے لئے جس نے ان دنوں بڑے قدم اٹھائے، وہ رضاخان تھا۔ آپ دیکھیں کہ یہ کام، آج کے ماحول میں، کتنا پست ہے کہ ایک بادشاہ یکبارگی ملک کا قومی لباس تبدیل کر دے۔ مثلا آپ ہندوستان تشریف لے جائیں یا دنیا میں کہیں بھی جائیں، اقوام کے اپنے لباس ہیں اور وہ اپنے لباس پر فخر بھی کرتی ہیں۔ کمتری کا احساس نہیں کرتیں۔ لیکن یہاں، یہ لوگ آئے اور ایک بار کہا کہ اس لباس پر پابندی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس لباس کے ساتھ کوئی دانشور نہیں ہو سکتا ہے۔ حیرت ہے۔ عظیم ترین ایرانی دانشور اور سائنسداں جن کی کتابیں آج بھی یورپ میں پڑھائی جاتی ہیں، اسی ثقافت اور اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ لباس سے کا کیا اثر پڑتا ہے؟ یہ کیا بات ہے؟ یہ مضحکہ خیز دلیل پیش کی۔ قوم کا لباس تبدیل کر دیا۔ مستورات کی چادریں چھین لیں اور کہا کہ چادر کے ساتھ کوئی عورت دانشور اور سائنسداں نہیں بن سکتی ہے اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی ہے۔ میرا سوال ہے کہ چادریں چھینے جانے کے بعد ہمارے ملک میں خواتین نے سماجی سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیا؟ کیا رضا خان اور اس کے بیٹے کے دور میں ہماری خواتین کو سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا؟ مردوں کو بھی یہ موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ عورتوں کو بھی موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایران کی جن خواتین نے سماجی میدان میں قدم رکھا، اپنے توانا ہاتھوں سے ملک کو بلند کیا اور اس ملک کے مردوں کو بھی اپنے ساتھ جد و جہد کے میدان میں اتارا، وہ اپنی چادروں کے ساتھ جد و جہد کے میدان میں آئیں۔ چادر کا منفی اثر کیا ہے؟ لباس میں کیا ہے جو کسی مرد یا کسی عورت کی فعالیت میں رکاوٹ بن جائے گا۔ اہم یہ ہے کہ اس مرد کا دل کیسا ہے؟ اس کی فکر کیسی ہے؟ اس کا ایمان کتنا گہرا ہے؟ اس کا جذبہ کیسا ہے؟ اس کے اندر سماجی یا علمی فعالیت کا محرک کیا ہے؟ یہ غنڈہ صفت، جاہل نادان رضاخان آیا اور اس نے خود کو پوری طرح دشمن کے اختیار میں دے دیا۔ یکبارگی ملک کا لباس تبدیل کر دیا۔ بہت سے طور طریقوں کو بدل دیا۔ دین پر پابندی لگا دی۔ اس نے جو کام کئے اور پہلوی دور میں زور زبردستی سے جو کام ہوئے ان کے بارے میں آپ سب نے سن رکھا ہے۔ اس طرح وہ مغرب یعنی سامراجیوں کا پسندیدہ حاکم بن گیا۔
اس کا تعلق مغرب کے عوام سے نہیں ہے۔ مغرب کے عوام ان تمام باتوں سے بے خبر ہیں۔ یہ سیاستدانوں کا کام تھا۔ یلغار وہاں سے شروع ہوئی اور جدید پہلوی دور میں اس نے مختلف شکلیں اختیار کیں۔ یعنی پہلوی حکومت کے آخری بیس تیس سال کے دوران اس یلغار نے زیادہ خطرناک شکلیں اختیار کیں جن کے بیان کا اس وقت موقع نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب آیا تو اس نے یلغار کرنے والوں پر وار لگایا، انہیں پیچھے دھکیل دیا اور ان کی یلغار روک دی۔ آپ نے دیکھا کہ انقلاب کے اوائل میں، بہت تھوڑے عرصے میں ہمارے عوام کے آداب و رسومات میں بنیادی تبدیلی آئی۔ عوام میں عفو و درگذر کا جذبہ بڑھ گیا۔ طمع اور لالچ کم ہو گئی۔ باہمی تعاون بڑھ گیا۔ دین کی طرف جھکاؤ بڑھ گیا۔ اسراف کم ہو گیا۔ قناعت بڑھ گئی۔ یہی باتیں ثقافت ہیں۔ اسلامی ثقافت یہ ہے۔ نوجوانوں میں کام اور محنت کی فکر پیدا ہو گئی۔ وہ سعی و کوشش میں لگ گئے۔ بہت سے لوگ جو شہروں میں رہنے کے عادی ہو گئے تھے، دیہی علاقوں میں گئے اور کہا کام کرنے دیجئے، پیداوار کرنے دیجئے جعلی کام جو بیکار خس و خاشاک کی طرح عوام کی اقتصادی زندگی میں بڑھ گیا تھا، کم ہو گیا۔ یہ انقلاب کے ابتدائی ایک دو سال کے اندر ہوا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب منفی آداب و رسوم کا بیج بونے کی دشمن کی کوششیں رک گئی تھیں اور اسلام کی طرف رجحان اور جھکاؤ بڑھ گیا تھا۔ وہ اسلامی ثقافت، اخلاق، آداب و رسوم اور اسلامی طورطریقے جو ہمارے عوام کے خمیر میں شامل تھے، دوبارہ زندہ ہو گئے۔ البتہ اس میں استحکام نہیں پیدا ہوا تھا۔ استحکام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کئی سال اس پر کام کیا جائے۔ یہ موقع نہیں ملا اور وہ یلغار تدریجی طور پر دوبارہ شروع ہو گئی۔ یلغار جنگ کے اواسط میں پروپیگنڈہ وسائل کے ذریعے، غلط باتوں اور کج فکریوں کے ساتھ شروع ہوئی اور ہمارے عوام کے اذہان و افکار میں بیٹھی ہوئی پرانی گرد و خاک اس کے اثر انداز ہونے میں موثر واقع ہوئی لیکن ابھی جنگ کی گرمی مانع راہ تھی۔ یہاں تک کہ جنگ ختم ہوئی۔ جنگ کے بعد اس نئے محاذ نے سنجیدگی سے اپنا کام شروع کر دیا۔ دشمن نے سمجھ لیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو فوجی حملے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا پہلے کا اندازہ غلط ثابت ہوا تھا۔ دیکھ لیا کہ اقتصادی ناکہ بندی بھی کارگر نہیں ہے۔ جب کسی قوم کی اقتصادی ناکہ بندی کی جائے، اگر وہ قوم صابر و قناعت پسند اور خود اعتمادی و توکل بر خدا کی دولت سے مالامال ہو تو کیا اس کو شکست دی جا سکتی ہے؟ وہ قوم ہرگز شکست نہیں کھاتی۔ اس کو ہم نے بھی ماضی میں، تاریخ کے ادوار میں آزمایا ہے اور دوسری اقوام نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ یہ ہم سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ دیکھا کہ اقتصادی ناکہ بندی سے بھی کچھ نہیں کیا جا سکتا تو انہوں نے سوچا کہ ہمارے عقبہ پر بمباری کرنی چاہئے۔ اگر اس کی مثال دینا چاہیں تو اس طرح ہے کہ کوئی فوجی دستہ جب دشمن سے جنگ کر رہا ہوتا ہے تو اس کی خوراک عقبہ سے آتی ہے۔ تازہ دم فوجی عقبہ سے آتے ہیں۔ ضروری وسائل عقبہ سے آتے ہیں۔ ماں باپ اور دوستوں کے دوستانہ خطوط عقبہ سے آتے ہیں۔جب تک عقبہ محفوظ ہے یہ فوج اگلی صف میں جنگ کر سکتی ہے۔ اگر دشمن نے عقبہ پر بمباری کر دی۔ تو خوراک برباد ہو گئی۔ ضروری وسائل ختم ہو گئے۔ تازہ دم فوجی ختم ہو گئے۔ حوصلہ بڑھانے والے خطوط ختم ہو گئے۔ عالمی سامراج کی غنڈہ گردی کے خلاف ہماری قوم کی جدوجہد میں ہماری ثقافت عقبہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے عقبہ کا علاقہ، اسلامی اخلاق، خدا پر توکل، ایمان، اسلام سے محبت، وہ ماں ہے جس کے چار بیٹے شہید ہوئے، جو کہتی ہے میں نے انہیں راہ اسلام میں دے دیا اور اس پر خوش ہے۔ میں نے ان گھرانوں کو نزدیک سے دیکھا ہے۔ یعنی میں ان کے گھر گیا ہوں اور والدین سے گفتگو کر چکا ہوں۔ یہ کسی کی نقل کی ہوئی بات نہیں ہے۔ میں نے خود نزدیک سے دیکھا ہے۔ وہ کنبہ جس میں دو بیٹے تھے اور دونوں شہید ہو گئے، تین بیٹے تھے اور تینوں شہید ہو گئے، یہ کوئی معمولی بات ہے؟ یہ مصیبت قابل برداشت ہے؟ ان والدین کو غم سے دیوانہ ہو جانا چاہئے۔ ایسی حالت میں ماں جس میں مامتا زیادہ ہوتی ہے، محکم انداز میں کہتی ہے کہ انہیں اسلام کی راہ میں دے دیا، مجھے کچھ نہیں کہنا ہے، واقعی یہ حیرت کا مقام ہے۔
یہ اسلام کی تاثیر ہے۔ خدا پر ایمان کی تاثیر ہے۔ دشمن نے اس کو سمجھ لیا ہے۔ ماں باپ اپنے بیٹے سے کہتے ہیں تم ابھی سولہ سال کے ہو، سترہ سال کے ہو، جاؤ پڑھائی کرو، جاؤ کھیلو کودو، زندگی کے مزے لو، تیرا بھائی گیا شہید ہو گیا لڑکا کہتا ہے نہیں مجھے راہ اسلام میں اپنا فریضہ ادا کرنا ہے یہ وہ عبارت ہے جو ہم نے شہیدوں کی وصیتوں میں دیکھی ہے اور شہیدوں کے والدین سے اور ان کے گھروالوں سے سنی ہے۔ اسلام کی تاثیر یہ ہے۔
ایک دن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا آج اسلام کو آپ نوجوانوں کی ضرورت ہے دوپہر کے بعد میں سڑکوں پر آیا، ایک کام تھا، میں نے دیکھا کہ اوائل انقلاب کے دنوں کی طرح ماحول ہے۔ لوگ پاوہ کی طرف جا رہے ہیں (4) یہ منظر اور یہ واقعہ بارہا جنگ کے آخر تک تکرار ہوا ہے۔ جب بھی اسلام کا نام اور امام کا فرمان لوگوں کے کانوں تک پہنچتا تھا اور چونکہ فرمان امام ، فرمان اسلام تھا، لوگ امام کو اسلام کی خاطر اہمیت دیتے تھےاس لئے لوگوں میں جوش وخروش پیدا ہو جاتا تھا۔ نوجوان، شہر، گاؤں، بازار، کاروبار، کھیل، سب چھوڑ کے چل پڑتے تھے۔ کس لئے ؟ اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لئے۔ یہ معمولی بات نہیں تھی۔ دشمن اندھا نہیں تھا۔ ان باتوں کو اس نے دیکھا۔ ان حقائق کا تجزیہ کیا اور سمجھ گیا کہ اس قوم کا ایک عقبہ ہے اور وہ عقبہ یہ ہے۔ سمجھ گیا کہ اس قوم کو اقتصادی ناکہ بندی اور فوجی محاصرے وغیرہ سے نہیں جھکایا جا سکتا۔ اس کے عقبہ پر بمباری کرنی چاہئے۔ اس کی ثقافت، اس کے اخلاق، اس کے ایمان، اس کے جذبہ ایثار، اس کے اعتقاد، اس کے دین، اعلی قیادت پر اس کے بھروسے، ‍قرآن ، جہاد اور شہادت پر اس کے اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے۔ پھرانہوں نے ثقافتی یلغار شروع کر دی۔
جنگ کے بعد ماحول بھی سازگار پا رہے تھے۔ کیونکہ جنگ نے نوجوانوں کو بہت مصروف کر رکھا تھا۔ اپنی طرف ان کی پوری توجہ مرکوز رکھی تھی۔ ان کے کان ایسی ویسی باتیں سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ جب جنگ کی گرمی ختم ہو گئی تو مناسب ماحول پیدا ہوا اور انہوں نے وسیع منصوبہ بندی شروع کر دی اور اس کے لئے متعدد وسائل سے کام لیا۔
میں جب دشمن کے وسائل کے تنوع کو دیکھتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مسئلہ اس کے لئے کتنی اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی ایک کوشش یہ تھی کہ ملک میں انقلابی ادب و ہنر کی تحقیر کی جائے اور اسے کنارے لگا دیا جائے۔ یہ ان کی ایک کوشش تھی۔ انقلاب نے جو اہم کارنامے انجام دیئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے ثقافتی اہمیت کے حامل ادیب اور فنکار تیار کئے جن کی تعداد الحمد للہ کم نہیں ہے۔ شاعر، کہانیاں لکھنے والے، قلمکار، بہت ہی اچھی اور صحیح فارسی لکھنے والے الحمد للہ بڑی تعداد میں وجود میں آئے۔ انقلاب آئے تیرہ سال ہو رہے ہیں۔ آپ دیکھیں، نظر دوڑائیں، ہمارے ثقافتی اور تاریخی دور کے کون سے تیرہ سال ایسے ہیں جن میں درجہ ایک کی ہستیاں وجود میں آئی ہوں؟ البتہ ان کے درجہ ایک کے زمرے میں پہنچے میں ابھی وقت لگے گا، لیکن انقلاب نے جو ادیب اور فنکار پیدا کئے ہیں ان میں درجہ ایک کے زمرے میں داخل ہونے والے کافی ہیں۔ شاہی استبداد کے اواخرمیں، اس میدان میں ہمارا وطن بانجھ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑے قلمکار، بڑے فنکار، آرٹ اور فن کے بعض شعبوں میں بڑی ہستیاں پیدا ہی نہیں ہو رہی تھیں لیکن آج دیکھیں! ہمارے نوجوانوں میں، اچھے فلمساز، اچھے ڈرامے لکھنے والے، اچھے ہدایت کار، اچھے شاعر اور اچھے کہانیاں لکھنے والے قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ یہ انقلاب کی دین ہے۔
دشمن کی ایک کوشش یہ ہے کہ مومنین کے اس گروہ کو الگ تھلگ کر دیں۔ نوجوان تجربہ نہیں رکھتا۔ جب دیکھتا ہے کہ کسی سرکاری ادارے میں، مثلا کسی ثقافتی مرکز میں دو لوگوں نے اسے دیکھ کے منہ بنایا، اس سے بے رخی کی، اس کی تحقیر کی، تو اس پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس کا کام متاثر ہوتا ہے اور اس میں سستی آتی ہے۔ یا جب وہ دیکھتا ہے کہ ملک کے نام نہاد ادبی رسائل و جرائد میں، اس جہت اور روش کے مخالفین کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، نمایاں کیا جا رہا ہے، ان کی تعریف کی جا رہی ہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ حوصلہ ہار جاتا ہے۔ جب کوئی نوجوان فلمساز اپنی فلم ، کسی مرکز میں لے جاتا ہے جو اس سے استفادہ کر سکتا ہے اور ایسا کام کر سکتا ہے کہ وہ نوجوان فلمساز اپنا کام جاری رکھ سکے لیکن وہاں بے رخی کے ساتھ اس سے کہا جاتا ہے کہ نہیں جناب! یہ ہمارے کام کی نہیں ہے۔ اس طرح کی فلموں کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ اور پھر وہ دیکھتا ہے کہ بہت سی ایسی فلمیں جو فنی لحاظ سے اس سے بہت کمتر ہیں لیکن چونکہ ان کی اساس اسلامی نہیں ہے اس لئے قبول کر لی جاتی ہیں تو لامحالہ وہ مایوس ہوجائے گا۔ بارہا ان مومن اور انقلابی نوجوانوں کے لئے دل کی گہرائیوں سے میں نے درد محسوس کیا ہے۔ بارہا مجھے دلی صدمہ پہنچا ہے کہ اتنے اچھے نوجوانوں کے ساتھ بے رخی سے کام کیوں لیا جاتا ہے؟ یہ ان سے کسی بھی چیز میں کم نہیں ہیں جو فنکار کی حیثیت سے مشہور ہوئے ہیں۔ بہت سی چیزوں میں ان سے بہت بہتر ہیں۔ مگر ان سے بے رخی برتی جاتی ہے۔ اگر صحیح طور پر اس کا جائزہ لیا جائے تو اس کے رشتے اس خباثت آمیز ارادے سے جاکے ملتے ہیں جس کی طرف حکام کی بھی توجہ نہیں ہے۔ ہمارے ثقافتی شعبوں کے عہدیدار، بہت اچھے لوگ ہیں مگر اوپری درجے کے عہدیدار ان کاموں سے بے خبر ہیں جو بیچ میں ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان نوجوانوں میں مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوتی ہے۔
دشمن نے عالمی اداروں میں جن روشوں سے کام لیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ میں واقعی اس کو محسوس کرتا ہوں۔ یہ وہ درد ہے جو نظر نہیں آتا۔ میں چاہتا ہوں کہ سبھی لوگ ان باتوں کو اچھی طرح سمجھیں کہ جب ایران کی کوئی فلم اور کوئی اور ادبی کام پیش کیا جاتا ہے، جس میں انقلابی جذبہ ہوتا ہے تو اس سے بے اعتنائی کی جاتی ہے۔ بظاہر یہ عالمی ادارہ ، غیر سیاسی ادارہ ہے۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ عالمی ادارے کیا کرتے ہیں؟ آپ نے دیکھا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بوسنیا ہرزے گووینا کے ساتھ کیا کیا؟ آپ نے دیکھا کہ International Civil Aviation Organization ای سی اے او نے ہمارے اس مسافر طیارے کے سلسلے میں کیا کیا جس کو امریکا نے مارگرایا تھا؟ (5) امریکیوں نے خود رپورٹ دی کہ ای سی اے او کی رپورٹ امریکی فوج کے تعاون سے تیار ہوئی ہے۔ بظاہر ای سی اے او ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اگر اس دن ہم کہتے کہ ای سی اے او کی یہ رپورٹ جانبدارانہ ہے تو کچھ لوگ کہتے کہ تم لوگ بڑی بد گمانی رکھتے ہو، تم نے بھی حد کر دی ہے، ایکاؤ ایک غیرجانبدار تنظیم ہے۔ اسے تم سے یا امریکا سے کیا غرض۔ لیجئے! اب تین چار سال گذرنے کے بعد خود امریکیوں نے اعتراف کیا کہ ای سی اے او کی رپورٹ امریکی فوج نے تیار کی ہے کہ ایرانی ایئربس کو گرانے میں امریکا ‍قصور وار نہیں ہے۔ عالمی ادارے ایسے ہوتے ہیں۔
انہی اداروں میں سے ایک ایمنسٹی انٹرنیشنل ہے۔ بظاہر اس کا کوئی سیاسی رجحان نہیں ہے۔ کسی کی مخالف نہیں ہے لیکن اب اس کی آواز نہیں نکل رہی ہے۔ بوسنیا ہرزے گووینا میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، خزاں رسیدہ پتوں کی طرح مر رہے ہیں، مگر ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ کہاں ہے؟ لیکن جب ہم کسی بد طینت جاسوس کو پکڑتے ہیں اور اس کو سزائے موت سناتے ہیں تو جو اس قوم کے حق میں اس کے جرم سے بہت چھوٹی ‎سزا ہے، تو اس کی حمایت میں آواز بلند ہو جاتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل پوری دنیا سر پر اٹھا لیتی ہے کہ ایران میں یہ کر دیا وہ کر دیا۔ یہ غیرجانبدارہیں؟ یہ غیر سیاسی ہیں؟
بالکل یہی سلوک ، یہ عالمی ادبی اور فنی ادارے ہماری فلموں، ہمارے ڈراموں، اور ہمارے بچوں کے کاموں کے سلسلے میں کرتے ہیں۔ کیسے کوئی اپنی آنکھیں بند کر سکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہیہ غیر سیاسی ہیں جتنی بھی فلموں کو انہوں نے انعام دیئے ہیں ان میں ایک بھی انقلابی کیوں نہیں ہے؟ کیا ہم نے انقلابی فلمیں نہیں بنائی ہیں؟ کیا ہم نے انقلابی شاعری نہیں کی ہے؟ کیا ہم نے انقلابی ڈرامے نہیں لکھے ہیں؟ اتنے زیادہ انقلابی ادبی اور اور فنی کام ہمارے نوجوانوں نے انجام دیئے ہیں۔ کیا ان میں سے کسی کی بھی فنی قدر منزلت نہیں ہے؟ میں سجھتا میں کہ اگر ان سے ہو سکے تو انہیں انقلاب اور اسلام کے مخالفین میں سے ایک کو نوبل انعام بھی دے دیں تاکہ دنیا میں انہیں بڑا بنا کے پیش کر سکیں تاکہ انقلابی فنکاروں کو الگ تھلگ کر سکیں۔ یہ ثقافتی یلغار نہیں ہے؟
ثقافتی یلغار بہت ہی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی آواز کے اپنا کام کرتی ہے۔ اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ مومن نوجوانوں کو ایمان کی سخت پابندی سے، جو تمدن کو محفوظ رکھنے کے عوامل میں سے ہے ، منصرف کر دیں۔ وہی کام جو انہوں نے گذشتہ صدیوں میں اندلس میں کیا۔ یعنی وہاں کے نوجوانوں کو اخلاقی برائیوں، شہوت پرستی اور مے خواری میں مبتلا کر دیا۔ یہ کام آج بھی ہو رہا ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ جب کچھ لوگ سڑکوں پر دیکھتے ہیں کہ کچھ عورتیں ایسی ہیں جن کا حجاب صحیح نہیں ہے تو ان کا دل خون ہو جاتا ہے۔ جی ہاں، یہ کام برا ہے۔ مگر اصلی برا کام یہ نہیں ہے۔ اصلی برا کام وہ ہے جو آپ سڑکوں اور گلیوں میں نہیں دیکھتے۔ کسی نے کسی سے کہا کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا، ڈھول بجار رہا ہوں اس نے پھر سوال کیا کہ تمھارے ڈھول کی آواز کیوں نہیں آتی ؟ اس نے جواب دیا کہ کل اس کی آواز سنائی دے گی اگر قوم والے اور ثقافتی عناصر خدانخواستہ بیدار نہ ہوں تو دشمن کی چالاکی اور خفیہ ثقافتی یلغار سے ایمان اور اعتقاد کی دیواروں کے گرنے کی آواز اس وقت سنائی دیتی ہے جب کچھ کیا نہیں جا سکتا۔ ہمارے محاذوں پر جانے والے نوجوانوں کو اگر اس طرح گھیرا کہ پہلے انہیں ایک ویڈیو دیا، اس کے بعد انہیں بری اور جنسی فلمیں دیکھنے پر مجبور کیا، ان کی شہوت کو ابھارا اور پھرانہیں غلط محفلوں میں لے گئے تو کیا ہوگا؟ جب برائی پھیلانے کا منظم سسٹم ہو تو نوجوانوں کو عنفوان شباب میں غلط راستے پر ڈالتے ہیں اور دشمن اس وقت یہی کر رہا ہے۔
دوسرے شہروں سے، ملک کے مختلف شہروں سے مجھے اطلاع ملی ہے۔ غلط کاموں کی مجھے اطلاع مل رہی ہے۔ کوئی دن اور کوئی رات ایسی نہیں ہے جب مجھے اس قسم کی اطلاع نہ ملتی ہو۔ یہ کام کون کر رہا ہے؟ دشمن۔ نوجوان شہوت پرستی میں مبتلا ہوکے، ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ شروع میں وہی نوجوان روتا ہے مگر پھر تدریجی طور پر اس کو اپنے راستے پر لے جاتے ہیں۔ ہمارے اسکولوں کے بچوں کو، ہمارے کالجوں کے بچوں کو اسی طرح غلط راستے پر ڈال رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو منشیات اور غلط تصویریں کالجوں کے اندر پہنچاتے ہیں۔ میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کالج کے پرنسپل کو یہ فکر ہو کہ پانچ سو چھے سو بچے جو اس کے سپرد کئے گئے ہیں، غلط راستے پر نہ جائیں اور وہ اس شخص کو پکڑے جو دشمن کا آلہ کار بن کے منشیات کالج میں پہنچاتا ہے، تو ہمیں اس پرنسپل سے کیا کہنا چاہئے؟ کیا یہ کنہا چاہئے کہ جناب آپ آزادی عمل کے خلاف کام کر رہے ہیں؟ یہ کون سا طریقہ ہے؟ آپ آزادی کے خلاف ہیں؟ کیا یہ بات صحیح ہوگی؟ کیا یہ صحیح ہے کہ کالج کے پرنسپل سے جس کے ذمے ہزار نوجوان کئے گئے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں نہیں چاہتا ہوں کہ ان نوجوانوں کو ایسی حالت میں ان کے والدین کو واپس کروں کہ یہ ہیروئن کے نشے کے عادی بن چکے ہوں، یہ کہا جائے کہ نہیں انہیں اس بات کی اجازت ہونی چاہئے کہ خود انتخاب کریں۔ جو نہیں چاہے گا استعمال نہیں کرے گا، آپ بس جاکے ہیروئن کے نقصانات بتائیں یہ ثقافتی یلغار کا ایک حصہ ہے۔ اسلامی نظام پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ فوجی طریقہ ہے جو آزادی نہیں دیتا کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ہم آزادی نہیں دیتے؟ کس ملک میں اتنے اخبارات، اتنے رسائل اور جرائد نکلتے ہیں؟ کیا یہ سب حکومتی ہیں؟ یہ سرکاری اخبارات ہیں جو کھلے عام حکومت کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ اس پر کھلی تنقید کرتے ہیں اور حکومت بھی بردباری کے ساتھ سنتی ہے اور ان کا جواب دیتی ہے۔ اس وقت ایران میں ایسے جرائد نکل رہے ہیں کہ اگر کوئی ماضی کے ثقافتی حلقوں سے معمولی سی بھی واقفیت رکھتا ہو اور جانتا ہو کہ شاہی دور کے فنکار کون ہیں، شاہی قلمکار کون ہیں، شاہی دربار کے مخلصین اور ان کے زرخرید کون ہیں، دشمن سے مرعوب عناصر کون ہیں، امریکا کے دوست کون ہیں؟ تو وہ جان سکتا ہے کہ ان جرائد کو فنڈ کہاں سے ملتا ہے۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم بھی بے خبر نہیں ہیں۔ میں بھی بے خبر نہیں ہوں۔ نظام بھی بے خبر نہیں ہے۔ یہ جرائد نکل رہے ہیں اور ہم انہیں روک بھی نہیں رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے کہ یہ جرائد ہمارے خلاف لکھتے ہیں۔ ہم بھی لکھتے ہیں۔
اخبارات کی آزادی جتنی ایران میں ہے، کہیں نہیں ہے۔ ایران میں حکومت اخبارات کی آزادی کے شعبے میں مظلوم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جناب اخبارات کو آزادی دی گئی اور پھر جریدے اور اخبار کو حکومت پر تنقید سے بھر دیا۔ مسلسل ایک ہی بات کی تکرار کی جاتی ہے کہ ہمیں آزادی نہیں دیتے۔ ہمیں آزادی نہیں دیتے اگر آزادی نہیں ہے تو تم نے یہ سب کیسے لکھ دیا؟ آج اس ملک میں کس کو اس بات پر سزا دی گئی ہے کہ تم نے فلاں بات کیوں لکھی؟ یا یہ جریدہ کیوں نکالا؟ البتہ اگر کوئی قانون کا مجرم ہو تو پھر وہ کوئی بھی ہو۔ مجرم مجرم ہے۔ کوئی بھی اگر ایسا کام کرے جس کو قانون نے جرم قرار دیا ہے تو اس کو سزا دی جائے گی۔ ایک سزا جو قانون میں مد نظر رکھی گئی ہے، یہ ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا اخبار بند کر دیا جائے۔ یہ دوسری بحث ہے لیکن اظہار کی آزادی ہے۔ مشینری آزادی کے سلسلے میں حساس ہے، تو اس کو یہ کہہ کے دبانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آزادی نہیں ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ سامراج سے وابستہ قلمکار جو چاہیں لکھیں اور اسلامی نظام کے طرفدار قلمکار اس کا جواب نہ دیں۔ ان کی مرضی یہ ہے۔ اگر جواب دے دیا جائے تو کہتے ہیں آزادی نہیں ہے، آپ نے ہمیں مرعوب کیا ہے یہ وہ فضا ہےجو دشمن وجود میں لایا ہے۔ کچھ سادہ لوح دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بہت سے ہیں جو یہ سمجھے بغیر کہ کیا کہہ ر ہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ بلاوجہ دشمن کی تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ان تمام باتوں سے میں ایک نتیجہ نکالنا چاہتا ہوں۔ آج جب میں تقریر کے لئے آ رہا تھا تو خیال آیا کہ اگر آپ بہنوں اور بھائیوں سے ایک بات عرض کر سکا تو گویا اپنی بات کہنے میں میں کامیاب رہا۔ وہ بات یہ ہے کہ ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ہمارے اپنے مومن افراد پائیداری سے ڈٹ سکتے ہیں۔ اپنے مومن افراد کی جہاں بھی ہیں قدر کریں۔ میری بات یہ ہے کہ میں ملک کے ثقافتی شعبے کے ذمہ دار عہدیداروں سے، وزارت تعلیم و تربیت، وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی، ادارہ تبلیغات اسلامی اور تمام ثقافتی مراکز اور اداروں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے لوگوں پر بھروسہ کریں۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی نوجوان انقلابی نہیں ہے تو اس کا ہاتھ پکڑ کے باہر نکال دیں۔ نہیں یہ کون کہتا ہے؟ اسلام کی منطق یہ نہیں ہے۔ انقلاب کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ سب کو موقع دیں۔ جو بھی قوم کے لئے کام کرنا چاہے اس کو کام کرنے دیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے لوگوں کو الگ تھلگ نہ ہونے دیں۔
اگر کبھی دشمن کسی ملک پر حملہ کر دے تو اس کے مقابلے پر کون کھڑا ہوگا؟ وہ جو اپنی سرزمین سے، دوسروں سے زیادہ محبت کرتا ہوگا۔ اپنی قوم سے محبت کرتا ہوگا۔ جس کو دنیاوی حسن اور زر سے کوئی لگاؤ نہ ہوگا۔ جو زیادہ ذمہ داری کا احساس کرتا ہوگا اور زیادہ ذمہ دار ہوگا۔ وہ اپنے ملک کا دفاع کرے گا۔ آپ نے دیکھا کہ جنگ کے دوران اپنے ملک کے دفاع کے لئے کون لوگ گئے۔ میدان جنگ کے بڑے حصے میں عوامی رضاکار فورس بسیج کے سپاہی تھے۔ بسیج یعنی یہ۔ یعنی وہ مومن اور انقلابی لوگ جنہیں اپنے ملک کی فکر ہے۔ جو اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ بسیجی یعنی فداکار، یہ میدان جنگ میں گئے، فداکاری کی اور دشمن کو شکست دی۔
ثقافتی میدان میں بھی ایسا ہی ہے۔ جو عناصر شاہی نظام سے وابستہ رہے ہیں اور جن کے دلوں میں انہیں دنوں کی یادیں ہیں، وہ اسلامی نظام اور اسلامی ثقافت کا دفاع نہیں کریں گے۔ ہم غافل کیوں رہیں۔ اسلامی ثقافت اور اس قوم کے وجود اور وقار کا دفاع وہ کرے گا اور دشمن کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں وہ مزاحمت کرے گا جس کا دل اسلام کی محبت میں دھڑکتا ہے اور وہ اسلام اور ایران سے محبت کرتا ہے۔ جو لوگ بے دین ہیں، وطن سے محبت نہیں کرتے، وہ ایران کو بھی قبول نہیں کرتے۔ جو ایران پر امریکا کا تسلط چاہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے وہ وطن پرست نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں نے امریکیوں کی مداخلت کی خاطر، اس خاتون کے لئے تالیاں بجائیں جو امریکیوں کے انتخاب سے نیکارا گوا میں برسراقتدار آئی ہیں، ( 6) ان کے اس کام کا مطلب کیا ہے؟ نیکارا گوا میں جو لوگ امریکی تسلط کے سامنے جھک گئے، ان کو انہوں نے یہاں سے واہ واہ اور مرحبا کہا، انہوں نے امریکا کو دل نہیں دے رکھا ہے؟ دشمن کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں یہ اپنے زہریلے قلم سے قومی، ایرانی اور اسلامی ثقافت کا دفاع کریں گے؟ ظاہر ہے کہ نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ دشمن کے کارندے ہیں۔ یہ دشمن کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ خدا سے چاہتے ہیں کہ امریکا واپس آ جائے۔ یہ خدا سے چاہتے ہیں کہ دوبارہ ، امریکا، سامراج اور لٹیروں سے وابستہ نظام آ جائے۔ یہ اسلامی نظام کے لئے کیا کریں گے؟ اسلامی نظام کے لئے کوشش کریں گے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہ روشن حقیقت ہے۔ آپ جو ریڈیو اور ٹیلیویژن میں مختلف امور کے ذمہ دار ہیں، اس بات کا خیال رکھیں۔ آپ جو اخبارات میں ذمہ دار ہیں، اس بات کا خیال رکھیں۔ آپ جو ادارہ تبلیغات اسلامی، وزارت ارشاد اسلامی، وزارت تعلیم و تربیت یا اعلا تعلیم کی وزارت میں یا دیگر ثقافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ہیں، اس بات کا خیال رکھیں۔ البتہ سبھی ذمہ دار ہیں۔ ذمہ دار سے میری مراد سربراہ نہیں ہے۔ کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ( 7) سبھی ذمہ دار ہیں۔ سبھی اس بات کا خیال رکھیں۔
اس قوم کو اپنے وقار اور اپنے حقیقی انسانی، انقلابی مرکز اور ملی ثقافت کے تحفظ کے لئے، دشمن کی یلغار کے مقابلے میں مجاہدت، مزاحمت، پائیداری اور دشمن کے کمزور ن‍قاط پر حملہ کرنا چاہئے۔ یہ کام اپنے لوگ کر سکتے ہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے ہنر او فن کو فروغ حاصل ہو، پیشرفت ملے، تو مومن نوجوان فنکاروں پر بھروسہ کریں۔ وہ اسلام ، انقلاب اور اس ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ ورنہ وہ ہدایتکار، یہ پروڈیوسر، جو جب بھی کوئی فلم بناتا ہے تو پہلے سے ہی یہ سوچے رہتا ہے کہ اس فلم میں یہ نکتہ شامل کروں گا تاکہ اس نظام کی کسی اعتقادی بنیاد کو ہدف بناؤں اسلام اور انقلاب کا دفاع تو نہیں کرے گا۔ وہ فلم کی خاص زبان میں اس شکل میں جو فلم میں ممکن ہے، اپنا کام کر رہا ہے۔ یعنی اسی پر اکتفا نہیں کرتا کہ انقلاب کی مدد نہ کرے۔ اس لئے فلم بناتا ہے کہ انقلاب پر حملہ کر سکے۔ شروع سے ہی جب وہ فلم بناتا ہے یا کہانی لکھتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگائے اور کہے کہ یہ اسلامی نظام کارآمد نہیں ہے شروع سے ہی، جب وہ مقالہ لکھتا ہے یا کوئی فنی تخلیق کرتا ہے تو اس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ یہ ظاہر کرے کہ حکومت ناکارہ ہے۔ امور چلانے پر قادر نہیں ہے یہ ملک کی خدمت کر رہا ہے یا اس سے خیانت کر رہا ہے؟ کیا اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ میں نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ جو لوگ ہمارے خیال میں خدمت نہیں کر رہے ہیں یا خیانت کر رہے ہیں انہیں ایک ایک کرکے قانون کے حوالے کر دیں۔ نہیں۔ ابھی اس ملک کے ثقافتی میدان میں بہت سے کام ہونے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ثقافتی میدان میں مومن افراد پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہ دشمن کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں محکم رکاوٹ ہیں۔
دعا ہے کہ خدا وندعالم آپ کو، ہمارے اچھے، مومن، صالح اور پاک نوجوانوں کو توفیق عنایت کرے۔ ہمارے یہ نوجوان بعض میدانوں کے ہموار نہ ہونے سے مایوس نہ ہوں۔ صحیح راستے، انقلاب کے راستے اور خدمت انجام دینے کے راستے پر بتوفیق الہی گامزن رہیں اور اس ملک کی ثقافت، ہنر اور ادبیات کو زیادہ سے زیادہ ثمر بخش بنائيں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- پرنس ملکم خان ناظم الدولہ، ارمنی (1326ہ ق --- 1249 ہ ق)
2- سید حسن تقی زادہ
3- میرزا فتح علی آخوند زادہ ( 1295ہ ق 1226)

4- ایران کے صوبہ کردستان کا ایک شہر جہاں انقلاب مخالف عناصر سے ایک مدت تک لڑائی ہوئی۔
5- دو جولائی انیس سو اٹھاسی کو خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے کے ذریعے ایران کے مسافر بردار طیارے کو مارگرائے جانے کی طرف اشارہ ہے۔
6- قائد انقلاب اسلامی کی مراد مسز ویولٹا چامورو ہیں جو ڈینیل اوٹیگا کے بعد جو سینڈینسٹ محاذ آزادی سے اقتدار تک پہنچے تھے، انیس سو نوے میں امریکی الیکشن میں اقتدار تک پہنچی تھیں اور انیس سو ستانوے تک نیکاراگوا کی صدر رہیں۔
7- بحار الانوار ج 75ص 38