قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ چوتھے دور کی پارلیمنٹ کی مفید عمر کا ایک سال اور پورا ہوگیا اور ہمیں ایک بار پھر یہ توفیق حاصل ہوئی کہ کچھ دیر مجلس شورائے اسلامی کے رکن برادران و خواہران کی خدمت میں رہیں۔ چوتھی پارلیمنٹ کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ الحمد للہ اس تاریخ تک چوتھی پارلیمنٹ نے بہت زیادہ کوشش کی ہے کہ خود کو اس عزیز، بڑی اور عظیم الشان قوم کی نمائندگی کے اعلی اہداف اور مجلس شورائے اسلامی کی حقیقی حیثیت سے، جس کی تشریح آئین میں کی گئی ہے اور جو اس کا لازمہ ہے، نزدیک تر کرے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ توفیق بھی حاصل کی ہے۔ ہمارے نظام میں پارلیمنٹ واقعی بہت ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اسلامی ماحول میں، نظام کی عام راہ وروش اور جہت کے تعین کے لئے عوام کی رائے اور مطالبات میں بنیادی اور فیصلہ کن تاثیر رکھتی ہے اور رکھنا چاہئے۔ بنابریں یہ بہت اعلی حیثیت ہے۔ یعنی درحقیقت یہ ایک عظیم ترین، اہم ترین اور حساس ترین راستہ ہے جو اسلامی نظام اپنے اہداف کی طرف جانے کے لئے طے کرتا ہے۔ مجلس شورائے اسلامی ایسی حیثیت اور مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔
میں نے اس پارلیمنٹ میں کچھ خصوصیات دیکھی ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض خصوصیات گذشتہ پارلیمنٹ میں بھی تھیں (خداوند عالم گذشتہ ادوار کی پارلیمنٹ کے اراکین کو بھی اجر عطا فرمائے اور ان کی زحمتوں اور کوششوں کو اپنے فضل سے قبول فرمائے۔) اور بعض اس پارلیمنٹ سے مخصوص ہیں۔ ان کو عرض کروں گا تاکہ عوام بھی خوش ہوجائیں اور محسوس کریں کہ الحمد للہ ان کے نمائندوں نے کس طرح عمل کیا ہے اور اسی کے ساتھ یہ ایک مثال بھی رہے کہ مجلس شورائے اسلامی میں ممتاز امور کیسے انجام دیئے جانے چاہیے۔
چند نکات ہیں جن پر میں اپنے نفس اور ذہن میں بہت زیادہ بھروسہ کرتا ہوں، ان پر خوش ہوں اور فخر کرتا ہوں۔ایک یہ ہے کہ چوتھی پارلیمنٹ نے سیاست کو اخلاق سے ملادیا ہے اور الحمد للہ سیاست کو اخلاق مخالف سمت میں نہیں لے گئی ہے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں درس اخلاق ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اختیار کئے جانے والے تمام مواقف میں چاہے وہ سیاسی ہوں، یا مختلف فکری جماعتوں سے متعلق ہوں، (پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے) بلوں کے تعلق سےہوں، پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے منصوبوں اور بحثوں کے بارے میں ہوں یا حکام کے مقابلے میں ہوں، اراکین پارلیمنٹ کی زبان پر غلط، بری اور گناہ کی بات نہیں آتی۔
الحمد للہ آپ نے کریڈٹ کے مسئلے کو جو اہم مسائل میں سے تھا، بہت اچھی طرح حل کیا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ بنابریں موجودہ پارلیمنٹ عوام کے درمیان عوام کے درمیان کسی بھی طرح کی کشیدگی وجود میں نہیں لاتی ہے بلکہ خاموشی اور سکون کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ یہ بڑا افتخار ہے جو آپ کو حاصل ہے۔
دوسرا نکتہ جو اس پارلیمنٹ کے کام میں نظر آتا ہے، یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی کہ پارلیمنٹ عوام کی خدمتگزار حکومت، بالخصوص حکومت کے سربراہ کے ساتھ ان اہم کاموں میں جو حکومت انجام دیتی ہے، تعاون کرتی ہے، اپنا نگرانی کا کردار بھی ادا کررہی ہے جس کا ایک مصداق ادارۂ احتساب کا موضوع ہے۔ میں نے ہمیشہ، اس زمانے میں بھی جب صدر جمہوریہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کررہا تھا اور اس وقت بھی جب صدر نہیں تھا، احتساب کے ادارے پر بہت زیادہ تاکید کی ہے اور اس کو اہمیت دی ہے۔ الحمد للہ کہ احتساب کا ادارہ اب فعال ہوگیا ہے اور بجٹ کے حساب کتاب، ملک کے بجٹ، اخراجات اور بچت وغیرہ سے متعلق کاموں کی نگرانی جیسے امور انجام دے رہا ہے۔ یہ کام واقعی بہت اہم اور قابل قدر ہیں۔ بیشک، ہماری پاک، اچھی اور عوام کی خدمتگزار حکومت، پارلیمنٹ کے کردار سے خوش ہے۔ اس لئے کہ پارلیمنٹ امور مملکت کی اصلاح اور مالی امور میں نظم و ضبط میں کہ ابھی بہت زیادہ نظم و ضبط کی گنجائش ہے، حکومت کی مدد کررہی ہے۔
ایک اور بات جس کی وجہ سے میں نے اپنے دل میں پارلمینٹ کی تعریف کی ہے، اہم اندرونی اور بیرونی مسائل پر اس کا بروقت ردعمل ہے۔ پارلیمنٹ گوناگوں مسائل میں، جیسے سیٹلائٹ کے ثقافتی مسئلے کی جانب سے غافل نہیں ہے۔ البتہ سیٹلائٹ کا مسئلہ ملک کے بنیادی مسائل میں نہیں ہے بلکہ ایک عارضی مسئلہ ہے لیکن حساس اور موثر ہے۔ بعض مسائل بہت زیادہ بنیادی حیثیت کے ہوتے ہیں اگرچہ لوگوں کی زندگی میں ان کے اثرات فورا ظاہر نہیں ہوتے۔ بعض مسائل زیادہ بنیادی نہیں ہوتے، بلکہ سطحی ہوتے ہیں۔ سیٹلائٹ کا مسئلہ سطحی ہے لیکن اس کے اثرات بہت زیادہ مخرب ہیں۔ آپ نے اس مسئلے پر فورا توجہ دی اور میں پارلیمنٹ کے باہر سے دیکھ رہا تھا۔ میں پارلیمنٹ میں ہونے والی بحثوں کو سن رہا تھا اور ان کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ پارلیمنٹ نے ضمیر کی بیداری اور صحیح ادراک کے ساتھ سیٹلائٹ کے مسئلے کا سامنا کیا۔ عالمی سامراج کی جارحانہ پالیسیوں اور مستکبر امریکی حکومت سے جو اس قوم کے تمام درد و رنج کا سبب ہے، مقابلے میں پارلیمنٹ کا کردار بہت اہم ہے۔ جن چیزوں کا قوم اہتمام کرتی ہے، وہ اس قوم کے لئے بہت اہم ہیں۔ یہ بھی وہ اہم باب ہے جس کی ایک دو مثالیں یہ تھیں۔ البتہ مثالیں بہت زیادہ ہیں جنہیں میں اس وقت بیان نہیں کرنا چاہتا۔
ایک اور بات جو واقعی قابل تعریف ہے، یہی دوسرا منصوبہ ہے جو حکومت نے قابل تعریف زحمتوں کے ساتھ تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اور پارلیمنٹ نے واقعی اس منصوبے کے تعلق سے سنجیدگی اور فعالیت سے کام لیا ہے۔ منصوبہ یعنی ملک کی پیشرفت کا قالب۔ منصوبہ کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ یہ سالانہ بجٹ نہیں ہے۔ منصوبہ تمام مسائل میں جہت کا تعین اور ضروری اہتمام ہے۔ پارلیمنٹ نے بھی اس پر کافی توجہ دی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پارلیمنٹ جب دیکھتی ہے کہ کوئی کام وقت پر نہیں کرسکتی تو اس کو مؤخر کرتی اور پھر جائزہ لیتی ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ امور کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ عوام کو اگر معلوم ہو کہ پارلیمنٹ میں ان کے نمائندے اس طرح عمل کرتے ہیں تو خوش ہوں گے۔ یہ ہماری پارلیمنٹ ہے۔اب آپ اس بیدار ضمیر، اچھی سعی و کوشش، بروقت اقدام، معنوی مسائل پر توجہ رکھنے والی اس پارلیمنٹ کا اس ملک کی ماضی کی، طاغوتی دور کی نمائشی پارلمانوں سے جنہیں واقعی پارلیمنٹ نہیں کہا جاسکتا، موازنہ کریں۔ واقعی ظلم ہوگا کہ انسان انہیں پارلیمنٹ کہہ کے پارلیمنٹ کے نام کو بھی خراب کرے؛ سوائے ابتدائی ادوار کے۔ ورنہ پہلوی حکومت کے دور میں، چوتھی مجلس شورائے ملی (چوتھی قومی اسمبلی) کے بعدجو کچھ ہوا اس کو پارلیمنٹ کہنا بہت نامناسب ہے۔
ہماری پارلیمنٹ کا دنیا کی پارلمانوں سے موازنہ کریں۔ انصاف یہ ہے کہ (جہاں تک ہم جانتے ہیں اب اگر دنیا کے گوشہ و کنار میں کوئی ایسی پارلیمنٹ ہے کہ جس کی ہمیں خبر نہیں ہے تو بات اور ہے۔) توجہ، دقت نظر، اہتمام، ضمیر کی بیداری، بروقت کوشش اور معنوی مسائل پر توجہ کے لحاظ سے ایسی پارلیمنٹ مجھے نظر نہ آئی۔ الحمد للہ ان خصوصیات کے ساتھ ہماری پارلیمنٹ دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے۔ اس صورتحال میں پریزائیڈنگ کمیٹی اور محترم اسپیکر کا کردار واقعی بہت نمایاں ہے۔ میں دل سے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور ان کے لئے، مستقل طور پر اسی توجہ کی وجہ سے اور اس لئے کہ دیکھتا ہوں کہ الحمدللہ اس کے فضل سے یہ زحمتیں اور کوششیں نتیجہ بخش ثابت ہوئیں جو ملک کے لئے مفید ہے، دعا کرتا ہوں۔
کوئی یہ نہ سوچے کہ ہم پارلیمنٹ میں اس امر کا جائزہ لیں یا نہ لیں ملک پر اس کا کیا اثر پڑنے والا ہے؟ نہیں جناب! یہی طرز عمل ہے جو پارلیمنٹ کی مجموعی روش کا باعث ہوتا ہے اور اعلی اہداف کی سمت میں ملک کی رفتار کو منظم کرتا ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں کہ جن پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔آپ عزیزوں، اور ذمہ دارعہدیداروں کو بھی ان خصوصیات کی قدردانی اور ان پر شکر ادا کرنا چاہئے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مجلس شورائے اسلامی اور اراکین پارلیمنٹ میں فرق ہے۔ یعنی اگر ہم مجلس شورائے اسلامی کی تعریف کرتے ہیں، جو تعریف کی مستحق ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تعریف تمام اراکین کی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کے لئے کچھ باتیں لازمی اور کچھ ممنوع ہیں۔ بعض اراکین ان باتوں کی بہت زیادہ پابندی کرتے ہیں اور بعض متوسط طور پر ان کے پابند ہیں۔ شاید بعض خدا نخواستہ کم پابند ہوں ۔پارلیمنٹ کی رکنیت کے تعلق سے ان لازمی اور ممنوعہ باتوں کو نظر میں رکھنا چاہئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ چونکہ اس عزیز قوم کا نمائندہ ہے، اس لیے اس کو اس قوم کی عزت کا تحفظ کرنا چاہئے۔ بہرحال کسی بڑی اور اعلی جگہ سے منسوب ہونے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کوئی نوجوان ہے جو کوچہ و بازار میں ہے، اس کا طرز عمل اور ہوگا لیکن یہی نوجوان اگر کسی محترم ہستی کا بیٹا ہے تو مجبور ہے کہ دوسری طرح عمل کرے۔ وہ کچھ باتوں کی رعایت کرنے اور کچھ پابندیوں کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔ اگر آپ کسی مشہور شخصیت کے بیٹے کی کوئی حرکت دیکھتے ہیں تو اس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن وہی کام کوچہ و بازار میں کوئی معمولی نوجوان کرتا ہے تو اس کو دیکھ کے آپ کہتے ہیں کہنوجوان ہے، اس نے یہ کام کردیا۔
ہم اس قوم کے نمائندے ہیں کہ جو، انصاف سے کہا جائے تو، اس آیہ شریفہ کی مصداق ہے کہ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس اگر دنیا کی مظلوم اقوام کسی قوم کے کارنامے پر ایک نظر ڈالنا اور اس سے تقویت حاصل کرنا، درس لینا اور عزت و شرف کا احساس کرنا چاہیں تو اس قوم کو دیکھیں۔ یہ وہ قوم ہے کہ جس میں چارشہیدوں کی ماں افتخار کرتی ہے کہ اس نے راہ خدا میں چار شیہد دیئے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے کہ اس کا معذور جانباز سپاہی اور سابق جنگی قیدی جو دس بارہ سال دشمن کی قید میں رہا ہے، اس بات پر کہ اس نے اسلام اور قرآن کے لئے مجاہدت کی ہے، فخر کرتا ہے۔ یہ وہ اعلی درجات ہیں کہ اگر واقعی ہماری زندگی میں رونما نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یہ حق تھا کہ یقین نہ کریں کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ صدر اسلام کی بہت سی اعلی ظرفی، مجاہدت اور فداکاری کی باتیں، جب ماضی میں تقاریر میں یا خصوصی گفتگو میں نقل کرتے تھے، تو بعض افراد، حتی خود ان باتوں کو نقل کرنے والے بعض لوگ بھی دل کے اندر یقین نہیں کرتے تھے کہ یہ تمام باتیں اسی شکل میں ہوئی ہوں گی کیونکہ یہ بہت بڑی اور عظیم باتیں ہیں۔ آج جو ہم دیکھتے ہیں، واقعی میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ صدر اسلام میں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس کے نمونے بہت کم ملتے ہیں اور بعض تو ایسے ہیں جن کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔
یہ قوم ایسی قوم ہے۔ ہم اگر رکن پارلیمنٹ بنے ہیں تو اس قوم کے نمائندے ہیں۔یہ قوم اتنی عظمت، جلالت اور قدر و منزلت کے ساتھ، جب سے خدا کی بندگی میں آئی ہے، غیر خدا کے سامنے اس نے سرنہیں جھکایا ہے۔ سولہ سال تک یہ قوم خدا کے عبد صالح کے پیچھے چلی اور اس نے بندگئ پروردگار کے لئے، دنیوی طاقتوں، شخصیات اور ہستیوں کی بندگی کی تمام زنجیریں توڑ دی ہیں۔ سب سے وابستگی منقطع کرکے اپنے خدا کی پناہ میں گئي ہے۔ ایسی قوم صاحب عزت ہے۔ عز جارک پالنے والے جو تیری پناہ میں آجاتا ہے وہ صاحب عزت ہوجاتا ہے۔ خدا اپنی پناہ میں آنے والے کو اس کی حالت پر نہیں چھوڑتا ہے۔ یہ لئیموں کا طریقہ ہے کہ جو لوگ ان کی پناہ میں جاتے ہیں، ان سے دوستی کا رشتہ جوڑتے ہیں، وہ مشکلات میں انہیں چھوڑدیتے ہیں۔اکرم الاکرمین اس کو عزت عطا کرتا ہے جو اس کی پناہ میں آجاتا ہے، جس طرح کہ وہ خود صاحب عزت ہے۔ عز جارک وجل ثنائک جس طرح کہ ہم کہتے ہیں کہ جل ثناء اللہ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ عز جاراللہ اس عزت کی حفاظت ہونی چاہئے۔ رکن پارلیمنٹ کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ کبھی خدا نخواستہ، ان لوگوں کے سامنے جن کے دل اس نظام کے ساتھ نہیں ہیں، یا کسی طاغوتی کے سامنے، جس کی جیب میں تھوڑے سے پیسے ہیں اور فرض کریں اس نے انتخابات میں میں یونہی خرچ کیا ہے، اس کے سامنے سرجھکائے۔ یا اپنے انتخابی حلقے یا کسی اور علاقے کے دورے میں (ممکنہ طور پر عرض کرتا ہوں، یہ مسائل ممکن ہے کہ کبھی پیش آئیں) آپ کو حزب اللہ کے حسینیے اور کسی شہید کے گھر کے بجائے، یہ اطلاع ملے کہ کسی ایسے شخص کے گھر گئے ہیں جس کا انقلاب، اسلامی نظام اور اسلام سے ہی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ اسلام کی عزت کا تحفظ نہیں ہے۔
یہ ضروریات ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ یا فرض کیجیے پارلیمنٹ کے تعلق سے لازمی اور ممنوع باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ وقت ضائع نہیں ہونا چاہئے کہ مثلا معینہ وقت میں جو کام ہونا ہے اس میں موجود نہ ہوں، یا بحثوں میں شریک نہ ہوں۔ فرض کیجیے کہ کوئی شخص کسی مسئلے کا دفاع کر رہا ہے اور دوسرا اس کو مسترد کررہا ہے اور ہم مطالعے یا مذاکرے میں مشغول ہوں۔ یا جو وقت ہمیں ان امور پر صرف کرنا چاہئے جو بحیثیت رکن پارلیمنٹ ہماری ذمہ داری ہے، دوسرے امور پر صرف کریں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کا کام دوسرے کاموں سے افضل اور پارلیمنٹ کا وقت حتی حصول علم سے بھی بالاتر ہے چہ جائيکہ حصول مال اور مستقبل کا اہتمام۔ پارلیمنٹ کے اندر ساری توجہ ان امور پر ہونی چاہئے جو ہاؤس کے اندر یا کمیشنوں میں انجام پاتے ہیں۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے۔ حاضری یقینی ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ میں حاضر ضرور رہیں سوائے یہ کہ کوئی اضطراری بات ہو۔ خداوند عالم نے نماز اور روزے میں بھی اضطراری حالت کو قبول کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے۔ اضطراری مواقع کو چھوڑ کے، تمام اراکین پارلیمنٹ کو حاضر رہنا چاہئے اور وہ امور انجام دینا چاہیے جو ان کے ذمہ ہیں۔آرام کرنے کے بعد اور جس بل پر بحث ہونی ہے اس کے مطالعے اور پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے حکومت کے مجوزہ بل یا منصوبے کے تعلق سے ضروری تیاری کے بعد پارلیمنٹ میں آئیں اور پوری دقت، بصیرت اور مہارت کے ساتھ اپنا نظریہ بیان کریں اور فیصلہ کریں۔
ایسا ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر پارلیمنٹ کی رکنیت کی حیثیت اور پارلیمنٹ کی عزت و عظمت اور حکمت کا انحصار ہے اور اگر ان کی رعایت نہ کی جائے تو پارلیمنٹ اپنی حیثیت سے گر جائے گی۔
الحمدللہ اب پارلیمنٹ میں بیکار کی بحثیں نہیں ہوتیں۔ آج الحمد للہ پارلیمنٹ کی توجہ ان مسائل پر ہے۔ پارلیمنٹ کا وقت پوری طرح اس کے امور پر صرف ہونا چاہئے کیونکہ رکن پارلیمنٹ، اسی لئے رکن ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ رکنیت کے آخری دن تک آپ رکن ہیں۔ رکنیت کا پہلا سال ہو یا آخری، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب ہم آخری سال میں داخل ہورہے ہیں۔ آخری سال کے اجلاس اور نشستیں بھی پہلے سال کی طرح ہوں۔ خدا سے مدد طلب کرنی چاہئے اور خدا جو مصلحت ہو اس کو پورا کرتا ہے۔ اب اگر ہمارا دل بہت چاہتا ہے کہ رکن پارلیمنٹ ہوجائیں تو بھی ہمارا سروکار خدا سے ہی ہے اور وہ بھی یہ کام دوسروں سے بہتر کرسکتا ہے۔
لازمی اور ممنوع باتوں کا ذکر تھا جن میں سے دو تین کا میں ذکر کیا۔ خود آپ حضرات بھی الحمد للہ، واقف ہیں اور مجھے عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ الحمد للہ ملک کے حالات پیشرفت کے راستے پر ہیں۔ یہ سب کے لئے بہت خوشی کی بات ہے۔ ہم جمود یا پسماندگی کا شکار نہیں ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ البتہ جمود اور رک جانے کامطلب بھی پسماندگی ہے۔ ملک الحمد للہ تعمیر کے مرحلے میں ہے۔ ملک میں ہر جگہ تعمیری علامتیں نمایاں ہیں۔ ملک کے فعال حضرات بالخصوص عوام کی خدمت گزار حکومت کے اراکین سبھی سعی و کوشش اور کاموں کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ پارلیمنٹ بھی اپنی جگہ، اپنے محاذ پر، اس تعمیر، تعمیر نو، پیشرفت، اقتصادی رشد و ترقی کے منصوبے تیار کررہی ہے، ان امور کو آگے بڑھارہی ہے اور قانون بنارہی ہے۔ الحمد للہ سبھی مشغول ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ہماری حالت اچھی ہو رہی اور بدل رہی ہے۔ ترقی اور پیشرفت ہو رہی ہے۔ ثقافتی اور اخلاقی لحاظ سے ملک میں ہر طرف بیداری ہے۔ تمام شعبوں سے زیادہ اہم اور نازک ثقافتی اور اخلاقی شعبہ ہے۔ دشمن کی توجہ اس شعبے پر ہے۔ ہم اپنے محاذ پر بیدار ہیں۔ خود یہ بات بہت اچھی ہے کہ قوم بیدار ہے۔ اس حالت میں دشمن اس ملک، اس انقلاب اور اس قوم کے خلاف کوئی مؤثر کام نہیں کرپائے گا۔ دھمکیاں دیتا ہے، آنکھیں دکھاتاہے، بعض اوقات، فرض کریں، نمائشی کاموں کے ذریعے، جیسے کہیں فوجیں اتار کے، اور بحری بیڑہ لاکے، یہ نمائش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سپر طاقت ہے اور یہ باتیں ماضی سے مختلف نہیں ہیں۔ یہ زور زبردستی کے ذریعے، غاصبانہ طور پر موجود تھے، اب وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مخالفین کے خلاف، ( ان کی مراد اسلام، اسلامی بیداری، اسلامی تحریک، اس تحریک کی پیشرفت، یعنی اسلامی جمہوری نظام اور ایران کی قوم اور حکومت ہے) سنجیدہ ہیں۔
یہ کام کرتے ہیں لیکن اس کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے۔ جو قوم اپنے آپ پر بھروسہ کرتی ہے اور خدا پر ایمان رکھتی ہے، اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ کوئی ایسا کام ہے جو ان سولہ برسوں کے دوران امریکا، ایرانی قوم کے خلاف کرسکتا تھا اور اس نےنہ کیا ہو؟ کیا ان کے اختیار میں ہے کہ جب بھی جو فیصلہ بھی چاہیں کرلیں؟ بہرحال دنیا میں کچھ ضرورتیں ہوتی ہیں۔ دنیا میں کچھ مشکلات ہوتی ہیں۔ خدا کے فضل سے زمینی حقائق دشمن کو کچھ باتوں پر مجبور کرتے ہیں۔ جہاں تک ان سے ہوسکا، انہوں نے دباؤ ڈالا لیکن کامیاب نہیں ہوئے اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ یہ قوم بیدار ہے۔ یہ قوم اپنے ایمان کی پابند ہے۔ الحمد للہ اس قوم کی روش، پیشرفت اور اس کی رفتار دشمنوں کےتجزیے سے بالاتر ہے۔ ہم ان کے تجزیوں اور بیانات میں دیکھتے ہیں کہ اس ملک کے حقائق کو سمجھنے میں وہ کتنی غلطی اور خطا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہی غلط فیصلے اور تجزیے انہیں ڈکٹیٹ کئے جاتے ہیں اور پھر غلط فیصلوں کے نتیجے میں انہیں لامحالہ شکست کا سامنا ہوتا ہے۔ لہذا مسلسل ناکام ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے ملک، انقلاب اور ہماری قوم کو نہیں پہچانتے۔ خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ اس کا پرچم سربلند رہے اور اس کے دین کو عزت حاصل ہو۔ کیوں؟ اس لئے کہ مومنین دین پر کمر بستہ ہیں۔
یہ سنت خدا ہے۔ ہمارے زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔ جس زمانے میں مومنین میں سے کچھ لوگ دین قائم کرنے پر کمر بستہ ہوں گے، خدا انہیں توفیق عطا کرے گا۔ یہ قرآن و سنت کا وہ وعدہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں آسکتی۔ آج کچھ لوگ دین کو قائم کرنے، پرچم دین کو سربلند کرنے اور دین کے احکام و قوانین کے استحکام کے لئے کمر بستہ ہیں، خدا کا ارادہ بھی یہ ہے کہ وہ ان کی خواہش کی تکمیل کرے اور دشمن کو ناکام بنادے اور ناکام بنائے گا۔ اس میں کوئی تشویش کی بات نہیں ہے کہ گوشہ و کنار میں کسی کو ان مسائل پر تشویش ہو۔ الحمد للہ ملک پوری عزت کے ساتھ اور عزت و عظمت میں اضافے نیز اہداف الہی کی سمت میں بڑھ رہا ہے۔ ہرایک اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ اس مجموعے میں کوشش مقدس اور مجاہدت آمیز ہے۔ پارلیمنٹ بھی الحمد للہ (اپنے کام میں) مشغول ہے۔
خداوند عالم آپ برادران و خواہران کو توفیق عطا کرے، آپ کی زحمات کو قبول کرے، آپ کی کوششوں کو وافر اجر و ثواب کا مستوجب قرار دے، آپ کے درمیان جو خالص نیتیں پائی جاتی ہیں ان میں برکت پیدا کرے، بے انتہا نتائج کا منبع قرار دے، اور ہم سب کو توفیق عطا کرے کہ ان کاموں سے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو اپنے آپ سے راضی کریں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ