بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام، اسلام اور اس قوم کی محنت اور سخت کوشی سے خدمت کرنے والے عزیز بھائیو' خوش آمدید۔
آپ کا یہ اجتماع اور انتخابات (1) سے متعلق مسائل اور دیگر اہم امور میں بحث اہم اور بامعنی ہے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ اس مسئلے کو جو درحقیقت نظام کے امور میں بنیادی کردار رکھتا ہے، کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ ایام بھی اہم ہیں۔ ان ایام کی یادیں اور ان ایام میں رونما ہونے والے واقعات ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنے کام میں مخلص اور فولادی عزم و ارادے کے ساتھ مصروف رہیں۔
ان ایام میں ہماری قوم نے ایک وعدہ الہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آیات ان تنصراللہ ینصرکم (2) اور ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لایحتسب ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (3) کے مصادیق انہیں ایام میں آشکار ہوئے کہ جن میں( بین الاقوامی ) سرکاری تنظیموں نے اس مظلوم اور بہادر قوم کی حقانیت کو تسلیم کیا۔ یہ کام جو ایسی کامیابی لایا کس نے کیا؟ یہ نصرت خدا تھی جو عوام کے ذریعے دین خدا کی نصرت کا نتیجہ ہے۔ یہ وعدہ الہی ہے جو سچا ہے۔
ممکن ہے کہ اپنے محدود ذہن میں وعدہ الہی کے پورے ہونے کے لئے جو وقت فرض کریں اس وقت یہ کام نہ ہو لیکن سرانجام ہوگا۔ کون سوچتا تھا کہ اس دنیا میں جو سپر طاقتوں کی سیاست کے مہلک زہر سے آلودہ ہے، یہ اقوام متحدہ جو گیارہ سال پہلے آشکارا ترین حقائق کو چھپاتی تھی، جبکہ پہلے دن سےہی معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے اور کیا ہورہا ہے، ان حالات میں، سپر طاقتوں کی مرضی کے خلاف ان لوگوں کی ناراضگی کے باوجود جو اب بھی اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران سے خوفزدہ ہیں، ہمارے دشمنوں کی مذمت کرنے والا ایسا اعتراف (4) صادر ہوگا؟ یہ خدا کا کام ہے۔ یہ وہی نصرت غیبی ہے۔ ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ نصرت غیبی ہمیشہ ایک ہی شکل میں ظاہر ہوگی۔ یہ بھی نصرت غیبی الہی کی ایک شکل ہے۔ یہ نصرت اس نصرت کا نتیجہ ہے جو آپ نے دین خدا کی کی ہے۔ ان تنصراللہ ینصرکم(5) امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی کمی بہت محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ وہ حکیم عظیم اپنی اس بینش سے جس کو حکمت نے بینائی عطا کی تھی، بہت سی چیزوں کو دیکھتے تھے، جنہیں ہم جیسے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ بیشک آج کے دن کو بھی اپنے روشن اور حکیمانہ آئینۂ دل میں دیکھ رہے تھے۔ بہت سی چیزیں ہیں کہ جنہیں آج ہم نہیں دیکھ سکتے، شاید ان کا اندازہ بھی ہمیں نہ ہو لیکن ہیں اور ظاہر ہوں گی۔
جب تک ہم ثابت قدم رہیں گے، راستے پر رہیں گے، جدوجہد کریں گے، ہمارے اندر اخلاص اور ہمدردی ہوگی، اصل یہی ہے، بیشک چشمہ رحمت الہی ہماری طرف جاری رہے گا، دشمن چاہیں یا نہ چاہیں، امریکا کو اچھا لگے یہ برا لگے۔
آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی حالت کیا ہے۔ سلطنتیں کس طرح ٹوٹ رہی ہیں۔ اقوام کس طرح اٹھ رہی ہیں۔ اسلام کس طرح دلوں پر اپنی حکومت کو ظاہر کررہا ہے۔ ہمیں درس لینا چاہئے۔
ہم جہاں بھی ہوں، جو کام بھی کریں، سب سے پہلے ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ رضائے الہی حاصل کریں۔ قضیے کا بنیادی ترین حصہ یہی ہے۔ اپنے عمل صالح سے خدا کی خوشنودی حاصل کریں۔ عمل اور بھلائی ایک ساتھ ہیں۔ بھلائی بغیر عمل کے نہیں ہوتی۔ قرآن میں ایمان کے بعد عمل صالح ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مطابق ایمان بھی عمل ہے۔ الایمان ہوالعمل (6) یہ قلبی عمل ہے، ارادہ ہے جو انسان اپنے قلب و روح پرحکمفرما کرتا ہے۔ ارادہ کرنا بعض اوقات اور شاید ہمیشہ، جسم اور اعضاء کے ذریعے عمل کرنے سے زیادہ مشکل اور سخت تر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہمارے لئے مشکل قضیہ یہی چیز ہوتی ہے۔ عمل ہونا چاہئے اور بھلائی کے ساتھ ہونا چاہئے۔
بھلائی اور برائی کا معیار اور فرق یہ ہے کہ کام رضائے خدا کے لئے انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم کام رضائے خدا کے لئے انجام دینا چاہیں گے، جب ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ اچھی طرح جائزہ لے لیں، عمل کے اچھے اور پسندیدہ ہونے کو سمجھ لیں اور اس کے بعد اس کو رضائے خدا کے لئے انجام دیں تو اس رضائے خدا کے حصول میں، مومن کی آگاہی، ہوشیاری، ہمہ گیر توجہ اور تدبیر الہی شامل ہوتی ہے۔
مناسب ہے کہ یہاں اپنے عزیز شہداء کی جدائی کے طویل اور گہرے غم کی طرف بھی اشارہ کردیں کہ جن کی مجاہدت اور سعی و کوشش صبر اور مخلصانہ کام کا اعلا مظہر تھی۔ آج خداوند عالم نے ہمارے عزیز شہید، شہید تندگویان ( 7) کے پیکر مطہر کی آمد سے ایرانی قوم کے ذہن میں شہیدوں کی یاد کو تازہ کردیا ہے۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے اور جس طرح انہوں نے غریب الوطنی میں مجاہدت کی اور راہ خدا میں شہیدہوئے، خدا انہیں راہ خدا کے غریب الوطن شہداء کا ثواب عطا کرے۔
انتخابات کے بارے میں، جو آپ کا موجودہ مسئلہ ہے، بہت سے مسائل ہیں۔ ضروری ہے کہ یہاں اس کے بعض پہلووں کا ذکر کیا جائے۔ ان میں سے بعض مناسب موقع پر اور ضرورت کے وقت ان شاء اللہ عزیز ایرانی قوم کے سامنے بیان کئے جائیں گے۔ جو چیز آج درپیش ہے اور ضروری ہے کہ وزارت داخلہ کے عہدیداروں، گورنروں کمشنروں اور ان کے سیاسی معاونین اور وزارت داخلہ کے کارکنوں سے عرض کروں، یہ ہے کہ انتخابات پر اسلامی جمہوری نظام میں اسی بنیادی حیثیت سے ہمیشہ توجہ دی جائے۔ الیکشن، مجریہ کے پیکرسے عوام کی آراء و افکار کے اتصال کا بنیادی نقطہ ہے۔ اگر انتخابات جیسا کہ الحمد للہ، ماضی میں ہوتا رہا ہے، عوام کی بھرپور شرکت، ان کے ارادے کے مطابق اور مکل طور پر آزادانہ ہوئے، اور خاص طور پر انشاء اللہ ان انتخابات میں عوام نے زیادہ سے زیادہ آگاہی سے کام لیا تاکہ صالح، لائق اور اس عظیم قوم کی نمائندگی کے شایان شان افراد پارلیمنٹ میں آئیں تو اسلامی نظام کو یہ اطمینان حاصل ہوسکتا ہے کہ اپنے اہداف اور آرزوؤں کی سمت میں جارہا ہے۔ یہ انتخابات کی اعلا شان اور کردار ہے۔
پارلیمنٹ بہت ہی اعلا حیثیت رکھتی ہے۔ ملک کے قوانین اور مجریہ کے اصول و ضوابط میں قوم کے نظریات و آراء کی شمولیت کا مظہر ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ الحمد للہ کہ اسلامی جمہوری نظام میں، پارلیمنٹ نے کسی حد تک اپنی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ پارلیمنٹ ان افراد کا مرکز ہے جو عوام کے درمیان سے آئے ہیں۔ ایسے لوگوں کا مرکز ہے جو مخلص ہیں اور عوام کے ہمدرد ہیں۔ اکثر افراد چاہتے ہیں کہ قوم کے لئے کچھ کیا جائے۔ کوشش کرتے ہیں کہ قوم کے لئے انجام پانے والے کاموں میں شریک ہوں۔
الحمد للہ کہ اب تک پارلیمنٹ کے جو ادوار گزرے ہیں ان میں ہم نے یہی دیکھا ہے۔ آزادی کے ساتھ اپنی بات کہیں اور اس راستے پر چلیں جسے صحیح سمجھیں۔ یہ پارلیمنٹ کی خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت کا بڑا حصہ موجود رہا ہے۔ البتہ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ استثنا نہیں ہے۔ کیوں نہیں، ہر جگہ کچھ استثنا ہوتے ہیں۔ لیکن حکم اکثریت اور معمول کی روش پر ہوتاہے۔
کوشش کریں کہ چوتھی پارلیمنٹ کے انتخابات، پہلے کے ادوار سے بھی بہتر ہوں۔ اس توقع پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے دنوں کو یکساں نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں روز بروز بہتر ہونا چاہئے۔ ہماری حکومتوں کو بھی روز بروز بہتر ہونا چاہئے۔ ہمارے حکام اور کارکنوں کو بھی روز بروز بہتر ہونا چاہئے۔ ہم میں ہر فرد کو ہم جو کام بھی کررہے ہوں، خود اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی بہتر کی توقع رکھنی چاہئے۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔ پیشرفت کا مطلب ظاہری اور مادی پیشرفت تو نہیں ہے۔ بلکہ اہداف کی پیشرفت ہے۔ یعنی یہ ایک معنوی امر ہے جو ہمارے بہتر ہونے سے ممکن ہے۔ ہمارے بد تر ہونے سے ہم روز بروز ہدف سے دورتر ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے لئے بھی یہی اصول ہے۔ انتخابات کے لئے بھی یہی اصول ہے۔
انتخابات میں آپ عزیز اور زحمت کش بھائیوں کی نظر میں جو چیز اہم ہے، وہ پہلے درجے میں انتخابات کا شفاف اور صحیح ہونا ہے۔ انتخابات کو حقیقی معنوں میں عوام کی رائے کا مظہر ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صرف یہ کریں کہ اگر کوئی دھاندلی کرنا چاہے تو اس کو روکیں، یہ تو اپنی جگہ پر ہے ہی، یہ تو ہونا ہی چاہئے اور اسلامی جمہوریہ کے کارکنوں کی شان ان باتوں سے بالاتر ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر انتخابات کی فضا ہے۔ انتخابات کی فضا کو سالم ہونا چاہئے۔ انتخابی تشہیرات کی فضا کو دنیا کے پروپیگنڈوں کی فضا سے مختلف ہونا چاہئے۔
آج دنیا میں ڈیموکریسی، حقیقی دیموکریسی نہیں ہے۔ کیونکہ زرق و برق لیکن کھوکھلے پروپیگنڈوں کے دباؤ اور پر فریب تقاریر سے اس طرح عوام کے اذہان پر یلغار ہوتی ہے کہ ان کے لئے صحیح کے انتخاب کا امکان نہیں رہنے دیا جاتا۔ لوگوں کو سوچنے کا موقع نہیں دیتے۔ جس نے بھی نام نہاد ڈیموکریٹک ملکوں کے انتخابی عمل کا تھوڑا بہت مشاہدہ کیا ہو، یہ بات اس کے لئے بالکل واضح ہے۔ جو باتیں کرتے ہیں، جو وعدے کرتے ہیں، جس طرح چولا بدلتےہیں، بعض طبقات اور گروہوں کی جس طرح خوشامد کرتے ہیں، خاص دھڑوں سے جو رابطے برقرار کرتے ہیں تاکہ ان کی حمایت حاصل کریں، یہ سب صحیح کام نہیں ہیں؛ ایسے کام ہیں کہ جو عوام مجموعے میں دیئےجاتے ہیں تو فضا کو مسموم کردیتے ہیں اور عوام سے سوچنے اور فکر کرنے کی صلاحیت سلب کرلیتےہیں۔
تشہیر صحیح اور حق ہےلیکن حقیقی معنوں میں تشہیر ہی ہونی چاہئے۔ شرعی حدود کے تحفظ کے ساتھ ہو، اس میں فریب نہ ہو، جھوٹے اور دکھاوے کےکاموں سے دور اوراس پر اور اس پر تہمت لگانے سے پاک ہو۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انتخابات کرانے والے ذمہ دار افراد کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ انتخابات کے صحیح و سالم ہونے کی شرط ہے۔
بعد کا نکتہ ان اداروں کے تعاون سے تعلق رکھتا ہے جن کے کندھوں پر مشترکہ طور پر یہ ذمہ داری ہے چاہے وزارت داخلہ ہو یا نگہبان کونسل ہو یا انتظامی فورس ہو۔ جو لوگ اس مقدس امر کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں، انہیں باہم ہم آہنگ رہنا چاہئے۔ باہم تعاون کریں۔ اپنے درمیان افہام و تفہیم پیدا کریں۔ مجھے امید ہے کہ انتخابات کے اس دور میں انشاء اللہ یہ افہام و تفہم اعلی درجے پر ہوگی۔ مجھے یہی توقع ہے۔
الحمد للہ وزیر داخلہ ( 8) عالم دین، فاضل، عاقل اور پسندیدہ صفات سے متصف ہیں۔ نگہبان کونسل کے اراکین بھی مجتہد، عادل اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے منصوب کردہ ہیں، وہ بھی ایسے ہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو ہوگا انشاء اللہ اچھا ہوگا اور ان کے درمیان مخلصانہ تعاون ہوگا۔ لیکن اس کے لئے کوشش کریں۔
جو چیز اہم ہے یہ ہے کہ ہم اپنے ماتحت کارکنوں پر نظر رکھیں۔ آپ جو انتظامات کریں گے، میں قضیے کے تمام پہلووں کو عرض کروں گا، اس میں ان لوگوں کے کاموں کو دقت سے دیکھیں جو آپ کے ماتحت ہیں اور آپ کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ یہ کام کے صحیح ہونے کی بنیاد ہے۔ آپ اچھے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے، آپ کےکارکنوں میں بھی آپ کی اچھائیاں ہونی چاہئیں۔ ان میں بھی آپ کا خلوص اور آپ کی پاکیزگی ہونی چاہئے۔ دقت سے کام لیں اور درحقیقت اس کام میں جو عوام سے متعلق ہے، کسی بھی طرح کی چشم پوشی نہ کریں اور کسی بھی خلاف ورزی سے درگزر نہ کریں۔
البتہ ممکن ہے کہ انتخابات کے امیدوار مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہوں یا ہوں گے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ممکن ہے کہ ان میں خود نمائی بھی ہو لیکن کسی بھی ذمہ دار کو کسی بھی حالت میں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کی اپنی پالیسیاں، ان کے اپنے افکار، گروہی اور جماعتی رجحانات، ذرا سا بھی موثر ہوں۔ یہ کام انشاء اللہ صحیح وسالم، خالص، اور معمولی سے بھی نقص کے بغیر انجام پائے۔ یہ بات عوام کا حوصلہ بڑھائے گی۔
البتہ ہمارے عوام کو بھی یاد رکھنا چاہئے اور یقینا انہیں یاد ہے کہ ہمارے ‏عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پہلے الیکشن سے لیکر ان کی رحلت تک جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان سب میں عوام کی شرکت پر تاکید فرمائی ہے۔ واقعی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس گروہ کا امیدوار سامنے آئے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بالفرض کس جماعت کو کس جماعت پر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس سے کوئی فر‍ق نہیں پڑتا کہ اس شہر یا انتخابی حلقے میں کس امیدوار کی فعالیت زیادہ ہے اور ممکن ہے کہ عوام کی شرکت سے اس کے ووٹ بڑھ جائیں۔ وہ کون ہے اور میں کون ہوں، یہ بات یہاں سامنے نہیں ہونی چاہئے۔ افراد کی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عوام کی شرکت مجلس شورائے اسلامی کی بنیاد ہے اور مجلس شورائے اسلامی نظام کی اساس اور بنیاد ہے۔ اس نقطۂ نگاہ کے ساتھ انتخابات کو دیکھنا چاہئے۔
امید ہے کہ خداوند عالم ان شاء اللہ ان معنوی اور گہری نصرتوں کو، حساب کتاب کی حیثیت سے بھی اور بغیر حساب بھی، ان انتخابات کے کام میں بھی ایرانی قوم کو، آپ سب کو عطاکرےگا۔ انشاء اللہ وہ دن بھی ہم دیکھیں کہ ہماری پارلیمنٹ اور عوامی ادارے، اپنی مخلصانہ اور بھر پور فعالیت سے دنیا کے عوام کے سامنے ایسے خلوص کی نمائش کریں کہ خود یہ کام انسانوں اور اقوام کے اسلامی تحریک اور اسلامی نظام کی طرف رجحان کا باعث ہو۔
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ اپنی مدد، نصرت اور تائید آپ برادران عزیز کو عطا کرے اور انشاء اللہ حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ) کی توجہات کو آپ کے شامل حال کرے اور ہم سب اس راستے پر چل سکیں جو آپ کی رضا کا باعث ہو۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- چوتھے دور کے پارلیمانی انتخابات۔
2- محمد 7
3- طلاق 2و3
4- اقوام متحدہ کی جانب سے عراق کے جارح ہونے کا اعلان۔
5- محمد 7
6- الالفین ؛ ص 320
7- 1329-1370 ( 1950-1991 )
8- حجت الاسلام عبداللہ نوری۔