ایک داخلی و ایرانی اور دوسرا عالمی، بین الاقوامی، اسلامی اور انسانی۔ اس انقلاب کے دونوں پہلو اہم ہیں۔ دونوں پہلو‎ؤں سے، ہم نے (اس انقلاب کی) اپنی ذاتی استعداد، امام عظیم کی قیادت، اور ایرانی قوم کی پامردی کے نتیجے میں کافی پیشرفت کی ہے۔ آج میں دور حاضر کے اس بے نظیر قائد کے مزار پر، ان کی برسی کی مناسبت سے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں پہلو‎‎‎‎‎‎ؤں میں، انقلاب کی پیشرفت جاری رہے گی اور انقلاب کی جہت، دونوں پہلوؤں میں اپنی جگہ پر باقی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا و حبیب قلوبنا وشفیع ذنوبنا، البشیر النذیر، والسراج المنیر، سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین، الھداۃ المھدیین المعصومین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے انتقال کی برسی کی مناسبت سے عظیم اسلامی امت، باشرف ایرانی قوم اور دنیا کے تمام حریت پسندوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اس سال اس عظیم عاشورائی سانحے کی برسی عاشورائے حسینی کے ایام میں پڑی ہے اور اس لحاظ سے ان ایام کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ فرزند و جگر گوشۂ امام، الحاج سید احمد خمینی مرحوم کا پیکر مطہر بھی حضرت امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کے مرقد مطہر کے جوار میں موجود ہے، ہماری قوم زیادہ سوگوار ہے۔ امام کی یاد بھی ہے، امام کے فرزند دلبند کا سوگ بھی ہے اور عاشورائے حسینی کے ایام بھی ہیں۔
اس مناسبت سے آپ حاضرین محترم کی خدمت میں تعزیت پیش کرنے کے بعد اس موقع سے انقلاب اور اس کے پیغام کے تعلق سے کچھ اہم باتیں عرض کرنا چاہتاہوں۔ عظیم اسلامی انقلاب، جس کی امام عظیم نے ہدایت کی، اس کو ثمر بخش بنایا اور اس کا اہم ترین نتیجہ اسلامی جمہوریہ کی شکل میں سامنے آیا، دو پہلو رکھتا ہے۔
ایک داخلی و ایرانی اور دوسرا عالمی، بین الاقوامی، اسلامی اور انسانی۔ اس انقلاب کے دونوں پہلو اہم ہیں۔ دونوں پہلو‎ؤں سے، ہم نے (اس انقلاب کی) اپنی ذاتی استعداد، امام عظیم کی قیادت، اور ایرانی قوم کی پامردی کے نتیجے میں کافی پیشرفت کی ہے۔ آج میں دور حاضر کے اس بے نظیر قائد کے مزار پر، ان کی برسی کی مناسبت سے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں پہلو‎‎‎‎‎‎ؤں میں، انقلاب کی پیشرفت جاری رہے گی اور انقلاب کی جہت، دونوں پہلوؤں میں اپنی جگہ پر باقی ہے۔
پہلا پہلو، ایرانی قوم اور ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے درجےمیں انقلاب کا ہدف یہ تھا کہ ملک کے اندر ایسا نظام قائم ہو جو کسی سے وابستہ نہ ہو بلکہ خود مختار ہو۔ ہر ملک اور قوم کے لیے دوسروں سے وابستگی بہت بڑی آفت ہے جو دیگر تمام مصیبتیں لاتی ہے۔ جو قوم کسی بھی بیرونی طاقت سے وابستہ ہو، اس کی اچھائی، اس کی استعداد، عظیم افرادی قوت اور مادی ذخائر سے اس قوم کے لیے نہیں بلکہ اس بیرونی طاقت کے لیے استفادہ ہوتا ہے۔ اس قوم کی اہم شخصیات، ہمدردی اور مخلص افراد اور قوم سے محبت کرنے والے، یا تو کنارے لگادیئے جاتے ہیں یا پھر ختم کردیئے جاتے ہیں۔ اس قوم کے تیل، گیس اور زیر زمین معدنی ذخائر اگر نکالے جاتے ہیں تو ان سے اس طاقت کے حق میں کام لیا جاتا ہے جس سے قوم وابستہ ہوتی ہے۔ اس قوم کا مذہب، اخلاق، تہذیب، آداب و رسوم اس طرح ہوتے ہیں جس طرح وہ بیرونی طاقت چاہتی ہے۔ اس قوم کی خواہش، ارادے اور عوام کی رائے کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ بنابریں ایک وابستہ نظام میں عوام اور دانشور مفکر بیکار ہوجاتے ہیں۔ وابستہ ملک کی حقیقی باگ ڈور اس کی اپنی حکومت کے اختیار میں نہیں بلکہ اس حکومت کے اختیار میں ہوتی ہے جس سے یہ حکومت وابستہ ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے اس سے بڑی بدقسمتی نہیں ہوسکتی۔ تمام قومی مصیبتوں کی جڑ دوسروں سے وابستگی ہے۔
برادران اور خواہران عزیز! ملک ایران، اسلامی انقلاب سے قبل دوسروں سے وابستہ ملک تھا۔ یہ وابستگی خاص طور پر ان پچاس برسوں میں جب اس ملک پر منحوس اور فاسد پہلوی خاندان کی حکومت تھی، اپنے اوج پر پہنچ گئی تھی۔
میں دو تین واضح اور سامنے کے نمونے بیان کروں گا تاکہ معلوم ہوجائے کہ انقلاب کے اندرونی اور ایرانی پہلو نے اس قوم کو کیا عظمت عطا کی ہےاور اس کے لیے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ ایران میں رضا خان کو انگریز بر سراقتدار لا‏ئے اور اس کو حکومت تک پہنچایا، یہ وہ بات نہیں ہے کہ جس کو رضا خان کے مخالفین ہی کہتے ہوں بلکہ خود اس حکومت سے وابستہ افراد اور تمام غیر جانبدار مؤرخین نے بھی یہی کہا ہے اور انگریزوں نے ہی اس کو ہٹایا اور یہاں سے لے گئے کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ پہلوی حکومت جرمنی کی طرف جس نے اس زمانے میں، دوسری عالمی جنگ میں کچھ پیشرفت کی تھی، جھک رہی ہے۔ اس کے علاوہ رضا خان کا کردار بھی ہٹلر کے کردار جیسا تھا، یہی وجہ تھی کہ رضا خان، ہٹلر کو پسند کرتاتھا اور اس کا شیدائی تھا۔ انگریزوں نے یہ بات محسوس کی تھی۔ وہ یہ برداشت نہ کرسکے اور رضا خان کو ہٹادیا۔ اس کے بعد انگریز محمد رضا کو اقتدار میں لائے۔ یہ وہ بات ہے جو مسلمہ اور بالکل واضح ہے اور اس کا خود انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔
میں محمد رضا کی حکومت سے وابستہ ایک فرد کی نقل کردہ ایک بات عرض کرتا ہوں، آپ دیکھئے کہ یہ وابستگی کتنی ذلت آمیز تھی۔ رضاخان کے جانے کے بعد ابتدائی دنوں میں ابھی سلطنت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، تہران میں برطانیہ کے سفیر نے کسی سے، جس نے یہ معلوم کرنے کے لیے محمد رضا کی طرف سے اس سے ملاقات کی تھی کہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے، کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق محمد رضا ریڈیو برلن سنتا ہے اور نقشے پر یہ دیکھتا ہے کہ جرمنی کہاں تک بڑھا ہے، اس لیے وہ ہمارے لیے قابل اعتماد نہیں ہے۔ اس شخص نے یہ بات جاکے محمد رضا کو بتائی۔ وہ ریڈیو برلن سننا بند کردیتا ہے۔ اس کے بعد برطانیہ کا سفیر کہتا ہے کہ اب کوئی حرج نہیں ہے، اس کو سلطنت کے لیے منتخب کیا جاسکتا ہے۔ وہ حکومت جس میں برسراقتدار شخص وہ ہو جو اس حد تک بیرونی سفارت خانے سے وابستہ ہو کہ وہ اس کی سلطنت کے لیے اس طرح کی ذلت آمیز شرطیں معین کرے اور وہ بھی ان کو قبول کرے اور ان پر عمل کرے تاکہ بادشاہت مل جائے، ظاہر ہے کہ سرحدوں سے باہر اور بیرونی طاقتوں سے اس کی کتنی وابستہ ہوگی۔
منحوس پہلوی حکومت کی زندگی کے آخری ایام میں، ان لوگوں کی تحریریں اور باتیں بھی جو ان کے دوستوں میں سے تھے، یہی ثابت کرتی ہیں۔ سن ستاون (انیس سو اٹہتر) میں، جب برطانوی حکومت عالمی طاقت شمار نہیں ہوتی تھی، برطانیہ کی حکومت اور سفارتخانہ محمد رضا کی حیثیت کے تعین، اس کے انجام اور اس کے فیصلوں پر اس حد تک مؤثر تھا۔ وہ لوگ اس سے ملاقات کرکے کہتے تھے کہ تمہیں یہ کام کرنا چاہیے اور یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو اپنے نظریے سے مطلع کرتے تھے اور وہ اس کو قبول کرتا تھا۔ ان پچاس برسوں کے دوران ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ انہوں نے رضاخان کے ساتھ تیل کے معاہدے میں ساٹھ سال کی توسیع کی۔ حکومتوں کا تعین کیا کہ فلاں شخص وزیر اعظم بنے۔ آپ دیکھیں کہ ان پچاس برسوں کے دوران اس عظیم قوم کی کتنی بے عزتی اور توہین کی گئی ہے۔
اس حد تک وابستہ حکومت کو اسلامی انقلاب نے جڑ سے اکھاڑ کے پھینک دیا اور ختم کردیا۔ پہلی چیز جو انقلاب کے لیے اہمیت رکھتی ہے، یہ ہے کہ ملک میں ایسے نظام اور حکام کی حکمرانی ہو جن کی نگاہیں اس ملک سے باہر کی طاقتوں پر نہ ہوں۔ یہ انقلاب کا ایک پہلو ہے۔ جو نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہو، وابستہ نہ ہو اور دوسری طاقتوں کی پرواہ نہ کرتا ہو، اس کے لیے قومی مفاد اور مصلحتیں اہم ہوتی ہیں۔ جب ایسا نظام اقتدار میں ہو اور ملک کے حکام اور فرمانروا ایسے افراد ہوں تو ظاہر ہے کہ فیصلے کرنے، اقدامات اور موقف اختیار کرنے میں، جو چیز مد نظر ہوگی وہ قوم کی بھلائی، قوم کی مصلحت اور اس کی خواہش ہے۔ اس ملک اور قوم کے لیے جو چیز ضروری ہے، اس سے آج انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے دشمن اور مخالفین برہم اور تشویش میں مبتلا ہیں۔
عزیز ایرانی عوام! ملکوں کو خود سے وابستہ کرنے کی بڑی طاقتوں کی خواہش کا مسئلہ تاریخ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آج کا اور اس دور کا مسئلہ ہے۔ اس وقت بھی عالمی طاقتوں کی ساری کوششیں اپنا تسلط بڑھانے اور ملکوں کو خود سے وابستہ کرنے کے لیے ہیں۔ آج بڑی طاقتوں کے لیے دوستی اور دشمنی کا معیار یہ ہے۔ آج امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنے تسلط میں لینا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے ابھی چند دنوں قبل ایک تقریر کے دوران، کچھ امریکیوں کے جواب میں جن کا کہنا یہ تھا کہ امریکا دوسرے ملکوں کے امور میں زیادہ مداخلت کررہا ہے، صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ہم امریکی مفادات کے لیے دوسرے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کرتے ہیں۔
ان کے لیے جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ان کے اپنے ملک کا مفاد ہے اور وہ اپنے ملک کے مفاد کے لیے دوسرے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کرتے ہیں اور خود کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ ایران اسلامی جیسا ملک اور اسلامی جمہوری نظام ان کے اس غیر قانونی مطالبے کی مخالفت کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں مزاحمت کرتا ہے، اس لیے وہ ان کی نگاہ میں دشمن ہے۔ ان کا استدلال بھی یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کے مخالف ہیں۔ وہ اپنے عالمی بیانات میں مسلسل یہ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت امریکی مفادات کی مخالف ہے۔ تم اگر اپنے مفادات امریکا کی حدود میں محصور رکھو تو ہمیں تم سے کیا لینا دینا ہے؟ اگر تم ایران اور دوسرے ملکوں میں مداخلت نہ کرو تو ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ تم تسلط پسند ہو، تم وہی کام کر رہے ہو جو یورپی حکومتوں نے انیسویں صدی میں دنیا میں کیا ہے، یعنی استعمار اور سامراج۔ انیسویں صدی میں یورپی حکومتوں نے پوری دنیا میں استعمار کی بساط پھیلائی۔ جہاں ان کے بس میں ہوا، قبضہ کیا اور اس جگہ کو اپنی نوآبادی بنا لیا۔ چھوٹے ملکوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بعض ممالک پر خود ان کی حکومتوں نے براہ راست اپنا تسلط اور استعمار قائم کیا جیسے ہندوستان (کو برطانوی حکومت نے براہ راست اپنی نوآبادی بنالیا) اور بعض ملکوں میں غیر قانونی مداخلت کی اور بظاہر مقامی اور قومی لیکن درحقیقت حکومت برطانیہ سے وابستہ حکومتیں قائم کیں۔
جب بیسویں صدی کے اواسط میں دو عالمی جنگوں کی وجہ سے، جو یورپ میں لڑی گئيں، یورپی حکومتیں کمزور ہوگئیں تو اقوام بیدار ہوئیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ استعمار کے تسلط میں جکڑی ہوئی اقوام یکے بعد دیگرے استعمار کے چنگل سے باہر آگئیں۔ مغرب کے روشنفکروں نے استعمار کی مذمت میں بولنا اور لکھنا شروع کیا۔ جن جگہوں پر استعمار کی سخت ترین مذمت ہوتی تھی ان میں سے ایک ریاستہائے متحدہ امریکا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت تک اس کو استعمار کا موقع نہیں ملا تھا۔ یورپی حکومتیں استعمار کے مسئلے میں امریکا پر سبقت لے گئی تھیں۔ امریکی استعمار کی برائی کرتے تھے۔ تدریجی طور پر اقوام نے آزادی حاصل کی اور خود مختار حکومتیں وجود میں آئیں۔ آج امریکی حکومت جو کررہی ہے وہ، در اصل وہی چیز ہے، جو انیسویں صدی کے اوائل میں سامراجی ممالک کررہے تھے۔اس دور میں یورپی حکومتیں کہتی تھیں کہ ہمیں ان ملکوں کے حیاتی اہمیت کے ذخائر کی ضرورت ہے، اس لیے ہم ان ملکوں میں آتے ہیں اور ان پر قبضہ کرتے ہیں۔ وہ چھوٹے اور کمزور ملکوں کی بے عزتی کرتے تھے۔ آج امریکا اپنے مفادات کے لیے، یہی کام کررہا ہے۔ جو مفاد کسی دوسری قوم کی مصلحت اور مفاد کے خلاف ہو، وہ غیر قانونی اور ناحق ہے۔
امریکی صدر اسی تقریر میں کہتا ہے کہ امریکی قوم کو ایک جدوجہد کرنے والی قوم ہونا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ جدوجہد جس کے راستے پر وہ بقول خود امریکی قوم کو ڈالنا چاہتا ہے، عدل و انصاف، امن، اچھائی اور نیکی راہ میں جدوجہد نہیں ہے بلکہ یہ ملکوں پر ظلم و زیادتی کی جدوجہد ہے۔
یقینا امریکی قوم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس قسم کی سیاست سے متنفر ہیں۔ اسی بناء پر ایرانی قوم اپنے دل میں امریکا کی تسلط پسند اور سامراجی طاقت کے ساتھ آشتی کا احساس نہیں کرتی بلکہ محسوس کرتی ہے کہ وہ ظلم و جارحیت کر رہے ہیں اور حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کو زبان پر بھی جاری کرتے ہیں۔ انقلاب میں اس ملک میں جو طویل برسوں تک وابستہ رہا ہے، پہلا کام یہ کیا کہ وابستگی کی زنجیریں کاٹ کے ایرانی قوم کو خود مختاری دی۔
آج ایرانی قوم اپنے کسی بھی داخلی، بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور تشہیراتی میدان اور موقف میں بڑی طاقتوں بالخصوص امریکا کی خواہش کو کوئی اہمیت نہیں دیتی اور اس کی مداخلت اسے منظور نہیں ہے۔
اسلامی جمہوری نظام نے جو یہ شہرت حاصل کرلی ہے کہ وہ بڑی طاقتوں بالخصوص امریکا کے مطالبے اور خواہش کی کوئی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس کے مقابلے میں ڈٹ جاتاہے، یہ ہمارے عظیم انقلاب کی اسی خاصیت کی وجہ سے ہے جو دوسروں سے وابستگی کی مخالفت اور اس قوم کی خود مختاری پر استوار ہے۔ اسلامی جمہوری نظام اس بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور خدا کے فضل سے آج اس طرح ہے۔ یہ انقلاب کا داخلی پہلو ہے لیکن ہمارے عظیم انقلاب کے اثرات کا دائرہ صرف انقلاب کے اندر تک محدود نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کا ایک وسیع تر دائرہ ہے اور وہ بشریت بالخصوص امت اسلامیہ اور مسلم اقوام کا حلقہ ہے۔ اس عظیم حلقے میں سامراجی پروپیگنڈوں کے برخلاف جو سب کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایران، ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کرتا ہے، ہم ہرگز ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو خودمختار اور ترقی کے راستے پر رکھنے اور ایک مضبوط، شجاع اور پیشرفتہ قوم کی حیثیت سے باقی رہنے کے لیے، دیگر اقوام کے امور میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری قوم بھی مجاہد ہے لیکن ہماری قوم کی یہ مجاہدت، ظلم، تسلط اور امتیاز کے خلاف ہے۔ یہ مجاہدت دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت کے لیے ہرگز نہیں ہے۔ بنابریں یہ جو ہم کہتے ہیں کہ انقلاب عالمی اور بین الاقوامی پہلو رکھتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انقلاب دوسرے ملکوں اور اقوام کے امور میں مداخلت کرتا ہے۔ انقلاب کاایک پیغام، منطقی بات اور روشن راستہ ہے۔ یہ راہ روشن اقوام کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اقوام اس کو دیکھتی ہیں۔اگر پسند کریں تو قبول کریں گی اور اس پر چلیں گی۔ ہم دیگر اقوام پر اس کو مسلط نہیں کرتے لیکن جو حقیقت رونما ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اقوام نے اس راہ روشن کو دیکھا اور پہچانا ہے۔ ان اقوام کی تعداد جنہوں نے چلنے کے لیے اس کا انتخاب کیا ہے، کم نہیں ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جس کو میں دوسرے حصے میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ انقلاب کا عالمی اور بین الاقوامی پہلو، عالمی سطح پر اس کا معنوی پیغام ہے۔ دنیا مادیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آج دنیا، اس جہت اور راستے میں جو بڑی حکومتیں اور طاقتیں اس کے لیے تجویز کرتی ہیں، نہ صرف یہ کہ کوئی معنوی اور روحانی پہلو نہیں رکھتی بلکہ مادیت کی طرف جارہی ہے اور انسانوں سے روحانیت و معنویت سلب کی جارہی ہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے ملکوں میں نوجوان، مایوس ہورہے ہیں، خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے، خاندانوں کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور نوجوان آوارگی میں مبتلا ہورہے ہیں، اس کی وجہ یہی روحانیت اور معنویت کی کمی ہے۔انسان کے لیے معنویت و دینداری روح کی غذا ہے۔ کیا دینداری و معنویت کے بغیر انسان طویل عرصے تک سکون سے رہ سکتا ہے؟ جہاں علم اور مادیت زیادہ ہے وہاں انسانیت کی پریشانی بھی زیادہ ہے۔ یہ دنیا کے عوام کی زندگی سے، دینداری و معنویت حذف کرنے کے عالمی طاقتوں کے اقدام کا نتیجہ ہے۔ اسلامی انقلاب کا پیغام، معنویت، دینداری پر توجہ، انسان کی زندگی میں معنویت پیدا کرنے، اخلاقیات کی رعایت اور خدا پر توجہ کا پیغام ہے۔ جہاں بھی امام خمینی کا نام اور پیغام پہنچا ہے، وہاں وہ اپنے ساتھ معنویت و دینداری لے گیا۔ حتی اگر عیسائی اور غیر مسلم معاشروں نے بھی اسلامی انقلاب کے تعلق سے خوشروئی کا مظاہرہ کیا، اس سے درس حاصل کیا اور فائدہ اٹھایا تو وہاں بھی آپ معنویت اور دینداری کا مشاہدہ کریں گے۔ ہمارے اسلامی انقلاب کی نشانی معنویت و دینداری ہے اور یہ معنویت و دینداری اس معنوی و دینی انقلاب اور امام کا پہلا پیغام ہے۔ امام خمینی خود ایک اعلی معنوی و دینی ہستی، عارف، فقیہ، دین شناس، عابد اور راتیں عبادت میں گزارنے والے تھے۔ امام وہ تھے کہ آدھی رات کو اپنے خدا سے دعا و مناجات کرتے تھے۔
اسلامی انقلاب کا ایک اور پیغام عدل و انصاف ہے۔ دنیا میں جہاں بھی عدل و انصاف کے لیے آواز بلند کی گئی، اسلامی انقلاب نے اس جگہ کو اپنی جگہ اور اپنے آپ سے متعلق سمجھا ہے،خود سے ہماہنگ پایا ہے اور دنیا کے حق پرستوں اور انصاف پسندوں کا ساتھ دیا ہے۔ مشرق و مغرب اور پانچوں براعظموں کے بہت سے عدل و انصاف اورآزادی کے طلبگار اور ظلم نیز امتیازی سلوک کے خلاف مجاہدت کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے انقلاب سے یہ درس حاصل کیا ہے اور سچ کہتے ہیں۔ یہ بھی انقلاب کا ایک پیغام ہے؛ انصاف پسندی کا پیغام۔ امت اسلامیہ، مسلم معاشروں اور مسلمان اقوام کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم اور اہم پیغام اسلامی تشخص کا احیاء، اسلام کی جانب واپسی، اسلامی بیداری اور اسلامی تحریک سے دوبارہ متمسک ہونا ہے۔ یہ مسلم اقوام کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم پیغام ہے اور اس مکتب کے عظیم معلم اور اس راہ کے رہبر عظیم الشان ہمارے امام تھے۔
مسلمانوں کو خود سے بیگانہ کردیا گيا تھا۔ دنیا کے گوشہ و کنار میں مسلمان خود کو مسلمان کہنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ غیر اسلامی اور اسلام مخالف حکومتوں نے اپنے ملکوں میں ایسی حالت پیدا کر دی تھی کہ کوئی بھی نوجوان اسلام کی بو بھی محسوس نہ کرسکے اور اسلام کی کوئی اچھائی اس کو نظر نہ آئے۔ اسلام کو ماضی کی نسل سے متعلق بتایا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اسلام مرچکا ہے، جاچکا ہے اور ختم ہوچکا ہے۔ ماڈرن، ترقی یافتہ اور (نام نہاد) متمدن دنیا میں ایسا کام کررکھا تھا کہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے اظہار کی جرائت نہیں کرتے تھے۔ اسلام پر عمل بالکل ترک کردیتے تھے یا اگر عمل کرتے تھے تو چھپ کر، ڈر اور خوف کے ساتھ۔
اسلامی ملکوں کی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ ایک اسلامی ملک کا صدر دنیا کے سربراہوں کے اجلاس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم سے تقریر شروع کرنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ اس کو عیب اور رجعت پرستی کہتے تھے۔ اسلام اور اسلام کی علامتوں سے شرم محسوس کرتے تھے اور سامراجی عوامل جنہیں سامراجی اور استعماری دور کے اوائل اور اواسط میں اسلام سے ضرب لگی تھی اور وہ اسلام سے خوفزدہ تھے، لوگوں میں اسلام کو الگ تھلگ کرنے کے خیال کی تقویت کرتے تھے۔ ہمارے اپنے ملک ایران میں بھی یہی صورتحال تھی۔
بھائیو اور بہنو! آپ میں سے کون ہے جس نے وہ دور دیکھا ہو اور اس کو یاد ہو کہ کوئی مسلمان مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ پر کچھ لوگوں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی جرائت کرتا ہو؟ اگر کوئی ہوائی اڈے پر، چوراہے پر یا شہر کے بیچ میں نماز پڑھتا تھا یا اذان دیتا تھا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اسلام کو تدریجی طور پر غیر قانونی بنا دیا گیا تھا۔ فوجیوں کی بیرکوں میں اسلام کو غیر قانونی بنا دیا گیا تھا۔ یونیورسٹیوں میں جب تک مجاہد مسلمانوں کی ایک جماعت وجود میں نہ آگئي، نماز پڑھنا اور اسلام (پر عمل کرنا) غیر قانونی تھا۔ دنیا میں ہرجگہ ایسا ہی تھا۔ بعض جگہوں پر تو حالت ایران سے بد تر تھی۔ ہمارے انقلاب کا سب سے بڑا پیغام مسلم اقوام میں اسلامی تشخص کا احیاء تھا۔ آج تمام مسلم اقوام، دنیا میں ہرجگہ یورپ میں، امریکا میں اور ایشیا میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتی ہیں۔ آج یورپ کے مرکز میں ایک باپردہ مسلم طالبہ فخر کے ساتھ کہتی ہے کہ میں مسلان ہوں اور حجاب میں کالج جانا چاہتی ہوں۔ آج قلب یورپ میں بوسنیا ہرزے گووینا کی قوم تمام دشمنیوں اور دباؤ کے باوجود جس کا اس کو سامنا ہے، مزاحمت کررہی اور کہتی ہے ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے کا اس کو جو نقصان پہنچایا جارہا ہے اس کو بھی برداشت کررہی ہے۔ مسلمان ہونے کا تاوان ادار کررہی ہے لیکن ڈٹی ہوئی ہے۔ اسلامی ملکوں کے سربراہان، اپنی اقوام کے اسلامی رجحان کے سبب، مسلمان ہونے کا اظہار کرنے اور مسلمان ہونے کا دم بھرنے پر مجبور ہیں۔ آج سامراجی ملکوں کے سربراہان بھی مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے موافق اور طرفدار ہیں۔ البتہ جھوٹ بولتے ہیں۔ صرف زبان سے کہتے ہیں لیکن دکھانے کے لیے ہی صحیح، یہ بات کہتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ آج اسلام زندہ ہے اور اسلامی تشخص کو اہمیت اور عظمت مل چکی ہے۔ اس لیے کہ آج اسلام کو عزت مل چکی ہے۔ اس لیے کہ آج اسلامی تحریکیں فروغ پارہی ہیں اور خدا کے فضل سے اس دن تک کہ جب لیظھرہ علی الدین کلہ ملکوں میں یہ اسلامی تحریک آزادی اور اسلامی افکار کی پیشرفت جاری رہے گی اور روز بروز قوی تر ہوگی، جب تمام مسلم اقوام میں مسلمان ہونے کا احساس اور اسلامی تشخص زندہ ہوجائے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ وہ سب لوگ اور وہ تمام گروہ، جنہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں، الگ تھلگ اور گوشہ نشین ہونے اور وحشت کا احساس کریں گے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ ابھی چند روز قبل صیہونی حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ ہم عرب فوجوں اور لشکروں سے نہیں ڈرتے بلکہ اسلامی بنیاد پرستی سے ڈرتے ہیں۔جی ہاں! اگرچہ ہم تمام مسائل میں صیہونی دشمن کے مخالف ہیں، اس ایک بات میں اس سے متفق ہیں۔ صیہونیوں کا علاج صرف یہی اسلامی بیداری ہے۔ جو چیز سرزمین فلسطین کو آزاد کراسکتی ہے، وہ مسلم اقوام کی اسلامی بیداری ہے۔
بھائیو اور بہنو! دشمن جو کہتا ہے کہ انقلابی، انقلاب کو برآمد کررہے ہیں وہ غلط کہ رہا ہے بلکہ دوہری غلطی کررہا ہے۔ اس کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کچھ بھی برآمد کرنے کی فکر میں نہیں ہے۔ اسلامی جمہوری نظام ایک حقیقت کا مالک ہے کہ جو انقلاب ہے۔ یہ قوم انقلاب لائی اور اسلامی جمہوری نظام، انقلاب کی تجلی ہے۔ اس کی دوسری غلطی یہ ہے کہ تفکر انقلاب اور پیغام انقلاب، جو پیغام آزادی و بیداری ہے، برآمد کئے جانے کا محتاج نہیں ہے۔ کیا ضروری ہے کہ کوئی ان مفاہیم کو برآمد کرے؟ ایک ایسی بات اور حقیقت جس سے اقوام بے خبر تھیں، اور جب اسلامی جمہوریہ کا کامیاب تجربہ ان کے سامنے آیا تو بہرحال اس سے درس حاصل کریں گی۔ ضروری نہیں ہے کہ اقوام سے کہا جائے کہ آپ بھی اس طرح عمل کیجئے۔ اقوام اسلامی جمہوری نظام، انقلاب، اس قوم کی کامیابیوں، ایران اور اسلام کی عزت کو دیکھتی ہیں اور درس لیتی ہیں۔ آج مختلف ملکوں میں اسلامی بیداری اور پوری دنیا میں معنویت و دینداری کے جذبے کی بیداری، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی مرہون منت ہے۔
ایک نکتہ، جس پر میں چاہتا ہوں کہ تمام بھائی بہن توجہ دیں، یہ ہے کہ میرے عزیزو! آج عالمی سامراج، جس میں سر فہرست، ریاستہائے متحدہ امریکا اور اس کی پیروی میں دنیا کے تمام برے افراد، انواع و اقسام کے امتیازی سلوک کے حامی، ظالم، ستمگر، جابر اور حق و انصاف کے مخالف تمام لوگ ایک نتیجے پر پہنچے ہیں جس پر آپ کو توجہ دینی چاہیے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کے زندہ اور باقی رہنے سے اسلامی انقلاب کی تبلیغ ہوتی ہے۔ جب تک یہ نظام قائم ہے، جب تک اسلامی جمہوریہ استحکام اور استواری کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے اور جب تک اسلامی جمہوری ملک، ایران، رووز بروز ترقی کرتا رہے گا، وہ خطر ے کا احساس کریں گے۔ وہ جو چاہتے ہیں، یہ ہے کہ اگر ہوسکے تو اسلامی جہموری نظام کو کمزور اور ختم کردیں۔ البتہ وہ اس سے مایوس ہیں اور جانتے ہیں کہ اب یہ کام ممکن نہیں ہے لیکن دوسرے درجے میں ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام اور وہ ایران، جو اس نظام کے ذریعے چلایا جارہا ہے، دنیا میں ایک خودمختار ملک اور نظام کے عنوان سے متعارف نہ کرایا جاسکے۔ وہ ایران کی خودمختاری میں خلل ڈالنا اور مختلف طریقے سے اس میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ غلط اور جھوٹ بات ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم نہ ہوں تو تم کچھ نہیں کرسکتے۔ تاکہ شاید اس طریقے سے اس قوم کی ناوابستگی اور خودمختاری کو مخدوش کرسکیں اور اگر یہ کام نہ کرسکے تو کوشش کریں کہ اس قوم کو اپنی تعمیر نہ کرنے دیں اور اس کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ ایران کو ترقی دے کے دیگر اقوام کے لیے قابل رشک بنائے، اس لیے آپ بیدار رہیں۔
ایرانی قوم جان لے کہ آج خداوند عالم کی نگاہ میں اسلام اور پیغام اسلام کے استحکام کے لیے عالمی سطح پر سب سے بڑی کوشش اور مجاہدت یہ ہے کہ اسلامی ایران ترقی کرے اور اس کی برکتیں آشکارا ہوں۔ اس ملک میں زندگی دیگر اقوام کے لیے باعث رشک ہو تاکہ اس سے درس حاصل کریں۔ یہ وہ بات ہے جو دشمن کو ذلیل کرے گی۔ دشمن یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اگر کوئی ملک اور قوم اسلام کی پناہ میں گیا تو اس کو غربت میں زندگی گزارنی ہے، سائنسی ترقی سے محروم اور اپنے امور چلانے سے عاجز رہنا ہے۔ ایرانی قوم نے ان سولہ برسوں کے دوران، اسلامی انقلاب کے آغاز سے آج تک دشمن کی اس خواہش کے خلاف جنگ اور مجاہدت کی ہے۔ اس عظیم، صاحب عزت، بیدار اور توانا قوم نے وہ کام کیا کہ اس کا ملک، جو پرچم اسلام کے زیر سایہ زندگی گزار رہا ہے، دیگر ملکوں کے لیے مثالی اور نمونۂ عمل بن گیا۔ آپ، ایرانی عوام نے اس ملک کی تعمیر نو کے لیے بہت محنت کی ہے۔ آٹھ سال جنگ کا دور گزارا ہے، دشمن کی مداخلت کے خلاف مجاہدت کی ہے، سرحدوں کی حفاظت کی ہے، خود مختاری کویقینی بنایا ہے اورآج تک اس ملک کی تعمیر کی کوشش کی ہے۔ آج کے بعد بھی اس قوم کا عام فریضہ یہ ہے کہ اس ملک کو زیادہ سے زیادہ ترقی اور پررونق بنایا جائے۔
ملک کی تعمیر میں سب شریک ہوں۔ قوم اپنی وحدت و یکجہتی کو محفوظ رکھے تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے اس روشنفکر قوم کے اذہان و افکار پر معمولی سا بھی اثر مرتب نہ کرسکیں۔ چنانچہ آج تک ایسا ہی ہوا ہے۔ خداوند عالم کے فضل سے، آئندہ چند برسوں میں اسلام کے سائے میں ایران کو ایسا بنادیں کہ دنیا میں کہیں سے بھی جو بھی اس ملک کو دیکھے، تو ملک اور قوم کی تعمیر میں اسلام کا معجزہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو۔ اگر خدا نخواستہ مسلط کردہ جنگ میں آپ کو شکست ہوگئی ہوتی یا اپنے ملک کی سرزمین آپ کے ہاتھ سے نکل گئی ہوتی تو اسلامی بیداری کی یہ لہر رک جاتی۔ اقوام آپ کے وجود میں انقلاب اور اسلامی انقلاب کا مشاہدہ کرتی ہیں۔ اگر آپ اس طرح اپنے ملک کی ترقی اور اپنی عزت کے تحفظ میں کامیاب نہ ہوتے تو، اسلامی بیداری کی لہر رک گئی ہوتی۔ اگر آپ اپنے قومی اتحاد کے تحفظ میں کامیاب نہ ہوتے تو، نعوذ باللہ ایران داخلی اختلافات اور خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ آج دشمن یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ یہ کام ہوجائے۔
خدا جانتا ہے کہ یہ اتحاد جو ایرانی قوم میں پایا جاتا ہے، دشمن کی آنکھوں میں کیسے کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ ایرانی قوم، انقلاب کے بعد، جنگ کے بعد یا امام خمینی کے انتقال کے بعد، اختلاف و تفرقے میں پڑجائے، خانہ جنگی شروع ہوجائے اور افراد قوم ایک دوسرے کو مارنے اور قتل کرنے میں مصروف ہوجائیں۔ بعد میں سامراج دوسرے مسلمانوں سے کہتا کہ دیکھو یہ ہے ایرانی قوم اور یہ ہے اسلامی انقلاب۔
ایرانی قوم نے اپنے اتحاد اور عزت کو محفوظ رکھا، ملک کی تعمیر اور ترقی جاری رکھی، اپنی پیشرفت ثابت کی۔اپنی ثقافت کو آگے بڑھایا، اپنی یونیورسٹیوں کو روز بروز ترقی دی اور ان میں طلباء کی تعداد بڑھائی، ملک میں علم و معرفت کو روز بروز وسیع سے وسیع تر کیااور ملک کی پیشرفت میں روز بروز اضافہ ہوا۔ اقوام اندھی نہیں ہیں، دیکھ رہی ہیں؛ وہ اس حالت کو دیکھ رہی ہیں لہذا اسلام کا رخ کررہی ہیں۔ اسلامی بیداری اور اسلام کی طرف واپسی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کو مزید فروغ حاصل ہو اور اسلامی بیداری پوری اسلامی دنیا میں پھیل جائے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ غیر مسلم اقوام بھی معنویت اور دینداری کا رخ کریں اور زندگی کا صحیح راستہ پا لیں تو آپ، ملت ایران کے لیے ضروری ہے کہ جن اصولوں پر آج تک چلے ہیں ان پر آگے بھی چلتے رہیں، اپنے اتحاد اور اخوت کو محفوظ رکھیں اور ملک کے تعمیر میں اپنے مخلص حکام کے ساتھ تعاون کو جاری رکھیں۔
الحمد للہ ملک کے حکام (خدمت اور کام میں) مصروف ہیں۔ آج امور کی باگ ڈور اچھے لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ امور مملکت کو اچھی طرح چلارہے ہیں۔ دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں غلط اور زہر آلود باتیں بہت کرتا ہے۔ دشمن سے دشمنی کے علاوہ اور کوئی توقع نہیں ہوسکتی۔ دشمن یا اقتصادی ناکہ بندی کرے گا،یا جھوٹے پروپیگنڈے کرے گا یا پھر سازش کرے گا اور ملک کی سلامتی پر حملہ کرے گا۔ دشمن، دشمن ہے لیکن ایرانی قوم اپنے خدا پر عقیدہ رکھتی اور اس پر توکل کرتی ہے۔ اپنے عظیم خدا سے اس کا رابطہ برقرار ہے۔ پرودگار عالم کی طاقت و توانائی اس کے ساتھ ہے جس نے اسلام اور مسلمین کی برکت سے ایک قوم کو یہ طاقت و توانائی عطا کی ہے۔
آج تک آپ نے صحیح راستہ طے کیا۔ ہمارے عظیم امام اگر ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ان کی زندہ اور بیدار روح حاضر و ناظر ہے اور جو کچھ ہم مومنین اور خدا کے برگزیدہ بندوں کی ارواح کے بارے میں جانتے ہیں، اس کے مطابق، ہماری قوم کی حالت کو دیکھ رہی ہے اور اس سے آگاہ ہے۔ خدا کے فضل سے امام خمینی کی روح مطہراس عظیم قوم سے راضی ہے۔ ان شاء اللہ ہر روز پہلے سے زیادہ راضی ہوگی۔ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کا قلب مقدس آپ سب سے خوشنود ہو۔
اے پروردگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، اس قوم کی دنیا و آخرت کو سنوار دے۔
پالنے والے! اس قوم کے دشمنوں کو ذلیل اور اس قوم کو تمام میدانوں میں کامیاب فرما۔
پالنے والے! دنیا کے ملکوں اور اقوام میں، ایران کی عزت میں روز بروز اضافہ فرما، اس کی ترقی، پیشرفت اور خودمختاری میں روز بروز اضافہ فرما۔
پالنے والے! امت اسلامیہ کی سربلندی اور عزت میں روز بروز اضافہ فرما اور اسلامی ملکوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک کردے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ