قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہفتۂ حکومت ان شاء اللہ آپ کو اور ایرانی قوم کو مبارک ہو۔ ہفتۂ حکومت کی آمد، ہمیشہ ہمارے عوام کے لیے امید بخش اور اچھی خبریں لائی ہے۔ خدمتگزار حکومتی عہدیداروں کے لیے، اس ہفتے کے ایام ماضی، اپنے امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) اور آپ کے مقدس اعلی اسلامی اہداف سے تجدید عہد کے ایام ہیں۔ ان دو‏ عزیز شہیدوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، جو حقیقی مومن، مجاہد فی سبیل اللہ اور اس آیۂ شریفہ کے حقیقی مصداق تھے کہ من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ۔ وہ صداقت کے ساتھ ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے میدان میں آئے، عمل کیا اور توفیقات الہی ان کے شامل حال ہوئیں۔ اگرچہ ان کی خدمت کی مدت مختصر تھی اور اگرچہ ان کا دور، اسلامی جمہوریہ کے قیام کا ابتدائی زمانہ تھا جو انقلابی اقدار اور جوش و جذبے سے سرشار تھا، لیکن اگر توفیق الہی نہ ہوتی تو وہ بھی اس طرح عمل نہیں کرسکتے تھے اور شہادت کے عظیم درجے پر فائز نہیں ہوسکتے تھے۔ خداوند ان شاء اللہ ان کے درجات بلند تر کرے اور ان کی یاد کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ باقی رکھے۔
اس سال خوش قسمتی سے ہفتۂ حکومت ہمارے ملک کی عام فضا کے لحاظ سے بہت اچھے حالات میں شروع ہوا ہے۔ عوام اسلامی جمہوری نظام اور حکومت کریمہ کی اچھی کامیابیوں کے شاہد ہیں۔ سیاسی لحاظ سے بھی ہفتۂ حکومت کے قریب بڑی طاقتیں اور خاص طور پر امریکا تین معاملات میں ہمارے انقلاب، قوم اور ملک سے ٹکرایا اور سیاسی لحاظ سے تینوں معاملات میں اس کو شکست ہوئی۔ پہلا معاملہ روس کے ساتھ ایران کا ایٹمی معاہدہ ہے۔ اس کے بعد ملک کی اقتصادی ناکہ بندی کی کی کوشش تھی اور تیسرا معاملہ، جنوبی افریقا سے ہمارا معاہدہ ہے کہ جس کو روکنے کے لیے امریکا نے پوری قوت لگا دی لیکن سرانجام اس کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ تینوں مواقع اللہ تعالی نے فراہم کئے اور امریکا نے اپنے سپر پاور ہونے کے دعوے کے ساتھ تمام سیاسی اور تشہیراتی وسائل سے کام لے کر دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہنگامہ کھڑا کیا اور اسلامی جمہوری نظام سے ٹکرایا لیکن تینوں میں مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے میں اس کو ناکامی ہوئی۔ ان تینوں معاملات میں عملی طور پرواضح ہوگیا کہ جب نظام حقیقی معنوں میں مقتدر اور مستحکم ہو، دوسروں پر انحصار نہ کرتا ہو اور اس کا وجود، اس کی قانونی حیثیت اور توانائی باہر سے وابستہ نہ ہو، تو اس کو کامیابی ملتی ہے۔ عالمی معاملات میں جب کوئی ملک ناحق کسی ملک سے متصادم ہو تو اسی کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ آج اسلامی جمہوری حکومت الحمدللہ پوری قوت کے ساتھ اپنا کام کررہی ہے اور اپنے راستے پر گامزن ہے اور سامراج کی سازشوں سے نہیں گھبراتی۔ ان کامیابیوں کو عوام دیکھ رہے ہیں اور دنیا میں ہمارے دوست بھی ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بنابریں حوصلوں کی تقویت کے لحاظ سے یہ کامیابی سب کے لیے، ایک برکت اور فضل وکرم الہی کی نشانی ہے۔
اقتصادی لحاظ سے بھی ہم کامیاب رہے ہیں۔ بعض اہم اقتصادی گراف اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہيں کہ الحمدللہ، اسلامی جمہوری حکومت اقتصادی میدان میں بھی کامیاب رہی ہے۔اس کی رپورٹوں سے حضرات واقف ہیں۔ اہم گراف جیسے برآمدات و درآمدات کے بیلنس شیٹ کے مثبت ہونے، یا زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے یا درآمدات میں کمی کے سلسلے میں میری سفارش یہ ہے کہ برادران کوشش کریں کہ درآمدات میں کمی سے بعض شعبوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اس کے نتائج اچھے برآمد ہوں۔ برادران یہ نکات، عوام کے لیے سادہ زبان میں بیان کریں۔ البتہ بعض گول میز کانفرنسیں ہوتی ہیں اوریہ بہت اچھی بات ہے، لیکن کوشش کریں کہ عوام کے سامنے جو بات پیش کریں وہ لازمی طور پر علمی اور تکنیکی قالب میں نہ ہو بلکہ اس طرح بیان کی جائے کہ تمام لوگ اس کو سمجھ سکیں اور جان لیں کہ کیا ہوا ہے۔ اس سے عوام خوش ہوں گے اور ان کے اندر امید پیدا ہوگی۔ حقیقی ترقیات سے عوام کوخوش کرنا اور انہیں اس بات سے آگاہ کرنا کہ کیا ہو رہا ہے، بہت اچھی بات اور عوام کا حق ہے، جو پورا ہونا چاہیے۔
گذشتہ سال اور اس سال کے اوائل میں، اقتصادی شعبے میں پورے ملک میں بہت سے پروجیکٹ مکمل ہوئے اور اس ہفتے ذرائع ابلاغ نے جو رپورٹ دی ہے اور عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور مشاہدہ کیا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ان تمام پروجیکٹوں پر عمل درآمد، ملک کی ترقی و پیداوار میں اضافے اور زندگی کے اخراجات میں کمی کا باعث ہوگا، جو لوگ بے روزگار تھے انہیں روزگار ملے گا اورلوگوں کو باعزت زندگی میسر ہوگی۔ زرمبادلہ کی قدر کے ایک ہونے، اسمگلنگ کی روک تھام اور اسمگلروں کے خلاف مہم کا بھی، چاہے، وہ زر مبادلہ کی اسمگلنگ کرتے ہوں یا چیزوں کی، عوام کی زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔یہ مثبت کامیابیاں عوام کو بتانی چاہیے اور مختلف شعبوں میں جو گوناگوں کام ہو رہے ہیں ان سے انہیں آگاہ کرنا چاہیے۔ الحمد للہ اب تک جتنا عوام کو بتایا گیا ہے، اس سے ان کے اذہان روشن ہوئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کی حکومت، دو عوامل، خدا سے حقیقی رابطے اور عوام پر توجہ کے ساتھ حقیقی طاقت و توانائی کی مالک ہے۔ حکومت کی طاقت و توانائی درحقیقت قومی طاقت و توانائی ہے۔ کسی ملک میں قومی اقتدار کے عنوان سے جو چیز پیش کی جاتی ہے وہ یہی ہے کہ ایک طاقتور، مخلص اور عوام کا خیال رکھنے والی حکومت برسر اقتدار ہو جو عوام کی مصلحتوں کو پہچانے، پوری قوت اور طاقت کے ساتھ راستے طے کرے اور بیرونی دھمکیوں، مختلف بیرونی طاقتوں کی دشمنی اور بعض اندرونی مشکلات سے نہ گھبرائے۔ الحمد للہ ہمارے ملک میں یہ صورتحال ہے۔
قومی اقتدار کے، جو درحقیقت حکومت کی طاقت و توانائی ہے، دو ستون ہیں؛ ایک خدا سے رابطہ، یعنی یہ کہ کام خدا کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی بھی ذاتی مسائل کو مد نظر رکھ کے اور مادی پہلوؤں سے کام نہ کرے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں سے مراد یہ ہے کہ حکومتی کارکنوں کی سطح پر کوئی بھی اس طرح نہ ہو۔ فطری طور پر یہ ایک بعید آرزو ہے؛ لیکن میری مراد یہ ہے کہ حکام اور وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں زمام امور ہے، وہ خدا سے اپنے تعلق کو اچھا بنائیں۔ اگر ہم نے دیکھا کہ قومی اقتدار ہے اور حکومت طاقتور اور توانا ہے توجان لینا چاہیے کہ یہ بات پائی جاتی ہے۔
دوسرا رکن؛ عوام پر توجہ ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ اور من اصلح ما بینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس اگر انسان نے خدا سے اپنے رابطے کو ٹھیک کر لیا تو خداوند عالم عوام سے اس کے رابطے کو اچھا بنا دے گا۔ یہ تمام روابط، سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے علمی میکینزم پر استوار ہیں جنہیں میں اس وقت بیان نہیں کرنا چاہتا۔ شرع کا بیان ان مسائل کا علمی بیان نہیں ہے، بلکہ شرع جو بیان کرتی ہے وہ حکمت ہے۔ حکمت یعنی حقائق کا بیان۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ خود کو خدا سے متصل کرلیں تو ان لوگوں سے آپ کا رابطہ، جو خدا کے معتقد ہیں اور اس کے بندے ہیں، اچھا ہوجائے گا۔
جناب آقائے ہاشمی نے جو نکتہ بیان کیا وہ بہت اچھا نکتہ ہے۔ یعنی اس دن سے جب انقلاب کے ان دو مددگاروں کی شہادت ہوئی، اب تک ملک میں کافی پیشرفت اور ترقی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس حالت سے ہمارے موجودہ پوزیشن میں پہنچنے کے اسباب کیا ہیں؟ ہمارے پاس اس زمانے میں وسائل، پیسے اور بینک کے ذخائر نہيں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس دور میں ملک کے ذخائر اور پیٹرول کی فروخت کی حالت کیا تھی۔ خود جناب آقائے ہاشمی کو یاد ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں کس قسم کے افکار لاحق تھے۔ ملک کی آمدنی تقریبا صفر تھی۔ مشکلات بہت زیادہ تھیں، حکومت اور عوام کے کندھوں پر بہت زیادہ خرچ والی کمرشکن جنگ کا بوجھ تھا۔ کس عامل، طاقت اور دست توانا نے اس ملک کو یہاں تک پہنچایا؟ یہ وہی فضل الہی، پروردگار کی توجہ اور اس کا ارادہ تھا۔ اس نے ارادوں کو محکم، ہاتھوں کو کارآمد اور دلوں کو نزدیک کیا اور عداوتوں اور تقرقہ انگیزیوں کو ناکام بنایا۔ اگر ان میں سے کوئی تفرقہ انگیز سازش کامیاب ہوجاتی تو ہمارے ملک کی حالت ان ملکوں جیسی ہوجاتی جن میں آپ دیکھتے ہیں کہ دو گروہ ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں اور اس درمیان وہ مملکت کو بھول جاتے ہیں۔ اگر اتحاد قائم ہوا اور امور میں پیشرفت ہوئی، توفیقات الہی ہمارے شامل حال ہوئی اور دشمنوں کی سازش ناکام ہوئی تو یہ سب خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔ البتہ اس کا وسیلہ عوام کی جانب سے حکام، انقلاب اور خدمتگزاروں کی حمایت تھی جس کا آج ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ وسیلہ محفوظ رہے۔
الحمدللہ آپ جو ملک کے پہلے درجے کے حکام ہیں، آپ کی سرشت اور خصلت عوامی ہے، آپ خود بھی عوام کے متوسط طبقات سے ہیں اور آپ کے اندر اشرافی خو اور عوام سے دور رہنے کی خصلت نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے جس کی حفاظت ہونی چاہیے اور یہ بات تمام دیگر حکام میں بھی منتقل ہونی چاہیے۔ اگر آپ کے درمیان، گوشہ و کنار میں، آپ کو کہیں کوئی ایسا نظر آتا ہے، جس کی راہ و روش دوسری نظر آئے تو اس کو روکیں۔ میں یہاں اس سلسلے میں ایک اہم سفارش کی یاد دہانی کروں گا۔ آپ حضرات کا ایک اہم فریضہ، بدعنوانیوں کے خلاف مہم ہے۔ اس لیے کہ ملک اب اس مرحلے میں پہنچا ہے کہ نتائج سامنے آئیں گے اور (جو محنت کی گئی ہے اس کا) پھل ملے گا۔ آپ کی ماضی کی زحمات تدریجی طور پر ثمر بخش ہورہی ہیں اور ملک میں آسائش اور سہولیات بڑھ رہی ہیں۔ یہ مرحلہ ہمیشہ اور ہرتاریخ میں خطرناک رہا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس میں موقع پرست، غلط فائدہ اٹھانے والے، ہاتھ کی صفائی دکھانے والے، برے اور غلط افراد داخل ہوتے ہیں اور اگر ان کا بس چلتا ہے تو غفلتوں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس پہلو کا بہت خیال رکھیں۔ شاید دس سال پہلے ہمیں اتنی پاسداری کی ضرورت نہیں تھی، اگرچہ حفاظت و پاسداری ہمیشہ ضروری ہوتی ہے، اس لیے اس وقت چوری اور غارتگری کے لیے کچھ زیادہ نہیں تھا لیکن آج چوری اور غارتگری کے لیے بہت کچھ ہے۔ میں ان دنوں چلنے والے، ہنگامہ خیز مقدمات کو نظام کے افتخارات میں شمار کرتا ہوں۔ بدعنوانی کا وجود حیرت انگیز نہیں ہے بلکہ بدعنوانی سے نہ نمٹنا تعجب خیز ہے۔ ان مقدمات کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کسی کے لیے بھی رو رعایت کا قائل نہیں ہے، کسی کو چھوٹ نہیں دیتا اور جہاں بھی اس کو بدعنوانی کا محرک نظر آتا ہے، اس کو کچلنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتا، خاص طور پر بدعنوانی کی ان اقسام کے سلسلے میں جو گھن کی طرح اور درخت کے اندر موجود کیڑے کی طرح، اسے اندر سے کھوکھلا کرکے ختم کردیتی ہیں۔ آپ کے اپنے مرکز میں جہاں بھی یہ مسئلہ نظر آئے تو پوری قوت سے، کسی پس و پیش کے بغیر، قانونی طریقے اور روشوں سے اس سے نمٹیں، الحمد للہ ہمارے پاس ہر کام کے لیے ایک قانون ہے۔
بنابریں ان دو نکات، عوام کا ساتھ دینے اور خدا کی مرضی و ارادے کے مطابق عمل کرنے کو کبھی بھی فراموش نہ کریں۔ خدا کی مرضی بھی کوئی مبہم اور ناقابل فہم چیز نہیں ہے۔ ہر کام میں جس کو فریضۂ الہی سمجھیں اس پر عمل کریں۔ اگر فریضۂ الہی ذاتی خواہشات سے متصادم ہو تو ذاتی خواہش کو نظرانداز کریں۔ یہ وہی حقیقی تقوا اور کام ہے کہ جو حکام کے لیے ضروری ہے۔ عہدے اور مقام و مرتبے وغیرہ کواہمیت نہ دیں۔ الحمد للہ آپ اس فکرمیں نہیں ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کے اعلی حکام کے دامن واقعی ان قسم کی چیزوں سے پاک ہیں۔ اگر کچھ لوگ اس قسم کے ہوں تو انہیں اپنے دائرے سے خارج کردیں۔
دوسرا نکتہ جو میں عرض کرناچاہتا ہوں، یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے، ملک کے اندر موجود افرادی قوت پر انحصار کریں۔ البتہ میں جانتا ہوں کی اس سفارش پر آپ کی توجہ ہے، کیونکہ بہت حدتک اس پر عمل ہوا ہے؛ لیکن میں اس پر زیادہ تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک کے اندر، استعداد، معمولی اور متوسط حد سے زیادہ اور نمایاں ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ایران کے اندر متوسط استعداد، پوری دنیا کی متوسط استعداد سے بالاتر ہے۔ ریاضی، فزکس اور کیمسٹری وغیرہ کے عالمی مقابلوں میں ہمیں جو کامیابیاں ملی ہیں، ان سے ثابت ہوگيا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں استعداد بہت ہے۔ جن لوگوں نے ان مقابلوں میں اعلی درجات حاصل کئے ہیں، وہ استثنائی نہیں تھے بلکہ اسی مملکت کے فرزند ہیں۔ یقینا اس مملکت میں ان کے جیسے ہزاروں اور لاکھوں موجود ہیں۔ ان کو تعلیم دیں، ان کی تربیت کریں، ان کو اپنا علم بڑھانے اور تحقیق کی ٹریننگ دیں۔ ثقافتی امور کو زیادہ اہمیت دیں۔ ان کی صلاحیتوں میں فروغ آجائے تو وہ مملکت ہی نہیں بلکہ دنیا کو چلاسکتے ہیں۔ ملک کی اندرونی استعداد پرانحصار کا مطلب یہی ہے۔ جہاں تک ہوسکے، تیل پر انحصار ختم کریں۔ البتہ اس میدان میں بھی آپ کے کام نمایاں ہیں اور محسوس کئے جارہے ہیں۔ میں نے اعداد و شمار میں جو دیکھا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انیس سو چورانوے پچانوے میں نان پٹرولیم مصنوعات کی برآمدات میں بیس فیصد فروغ آیا ہے جو بہت اچھا فروغ ہے۔ اسی سمت میں آگے بڑھیں اور ایسا کام کریں کہ ہماری اقتصادی پیداواروں اور برآمدات میں تنوع آئے، ملک کی اندرونی قوت سے کام لیا جائے اور ان شاء اللہ ملک کی پوری گنجائش سے استفادہ کیا جائے۔
غیر معمولی عالمی حالات ہمارے سامنے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سپر طاقتوں، صیہونیوں اور تخریب پسند عناصر کے پروپیگنڈوں کے برخلاف آج ہمارا ملک دنیا میں نمونۂ عمل ہے۔ صرف عوام اور اقوام کے لیے ہی نہیں بلکہ بعض بڑی طاقتوں کے لیے بھی آج ایران نمونۂ عمل ہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بعض ممالک امریکا کی تسلط پسندی کے مقابلے میں مزاحمت کی جرات کر رہے ہیں، یہ انہوں نے ایران سے سیکھا ہے۔ ماضی میں یہ ہمت اور شجاعت نہیں تھی۔ حتی اس زمانے میں جب دنیا میں طاقت کے دو بلاک تھے اور دونوں میں دشمنی تھی، جو ممالک مشرقی بلاک سے وابستہ تھے، اگرچہ وہ خود مختار ہونے کا دعوا کرتے تھے، امریکا کے مقابلے پر آنے کی جرات نہیں کرتے تھے جبکہ اس زمانے میں دنیا میں امریکا کا ایک رقیب تھا لیکن آج دنیا میں اس کا کوئی رقیب نہیں ہے تاہم اس کے باوجود ایشیا اور افریقا کے ممالک امریکا کے مطالبات کو پوری پوری قوت اور شجاعت کے ساتھ مسترد ک ررہے ہیں اور اس کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں۔ ہمارے مخالفین اور دشمن اس کو اسلامی جمہوریہ اور حکومت ایران کے گناہوں میں شمار کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنے خیال میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے گناہ اور جرائم شمار کرتے ہیں، ایک چیز جس کا نام لیتے ہیں، یہ ہے کہ ایران دیگر ملکوں کے لیے نمونہ بن گيا ہے۔ وہ صحیح کہتے ہیں۔ آج دنیا میں ایران اسلامی کی یہی پوزیشن ہے۔ بین الاقوامی ساسیت کے لحاظ سے الحمدللہ اس کا عالمی وقار و اقتدار ہے اور بہت سے علاقوں میں اس کا اثر و نفوذ ہے۔ ملک کے اندر بھی اس کے پاس وسائل اور مثالی عوام ہیں اور اس کا مستقبل بہت اچھا ہے۔
آپ الحمد للہ خدمت کر رہے ہیں۔ اس خدمت کو پوری توانائی کے ساتھ جاری رکھیں۔ یہ دائمی سلسلہ ہے۔ دنیا میں اتنے تغیرات آئے لیکن اسلامی جمہوریہ میں انقلاب کے بعد سے ثبات و استحکام پایا جاتا ہے۔ اس نے ایک طے شدہ مستقل پالیسی اختیار کی ہے اور کسی تذبذب کے بغیر آج تک مستقل اسی پر گامزن ہے۔ سیاست میں ایسی استقامت اور استمرار بہت کم ملکوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ خدائی نعمتیں ہیں۔ان نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے۔ ہم بھی دعا کریں گے کہ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو توفیق عنایت فرمائے، ہمارے عوام کو کامیابی عطا کرے، الحمد للہ حکومت اور عوام کے درمیان محبت اور اعتماد کا یہ رشتہ، جو برقرار ہے، اور یہ ملک کے حکام بالخصوص ہمارے محترم اور ہردلعزیز صدر مملکت سے عوام کو جو محبت ہے، اسے روز بروز زیادہ کرے، دلوں میں امید کی گرمی بڑھائے اور (محبت کے) رشتوں کو محکم کرے تاکہ ان شاء اللہ آپ اس انقلاب کی آرزوئیں پوری کرسکیں اور تمام مسلم اقوام کے لیے نمونۂ کامل بن سکیں۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ