آپ نے قیام حسینی کے محرکات اور اہداف کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں وہ انحراف بھی آیا اور وہ مناسب موقع بھی فراہم ہوا۔ اس لیے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا۔ کیونکہ انحراف آ گیا تھا۔ اس لیے کہ معاویہ کے بعد ایسا فرد حکومت میں آ گیا ہے کہ جو حتی اسلام کے ظاہری احکام پر بھی عمل نہیں کرتا ہے، شراب پیتا ہے، حرام کام کرتا ہے، جنسی برائیوں اور زیادتیوں کا کھلے عام ارتکاب کرتا ہے۔ قرآن کے خلاف بولتا ہے۔ کھلے عام قرآن کے خلاف اور دین کی رد میں شعر کہتا ہے اور کھلے عام اسلام کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن چونکہ اس کا نام، مسلمانوں کا حاکم ہے، اس لیے اسلام کے نام کو نہیں ہٹانا چاہتا۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا اور اسلام کا ہمدرد نہیں ہے بلکہ اپنے عمل سے اس چمشے کی طرح، جس سے مسلسل گندا پانی بہتا ہے اور باہر نکلتا ہے اور ہر جگہ گندگی پھیلاتا ہے، اس کے وجود سے گندگی باہر نکلتی ہے اور پورے اسلامی معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ فاسد حاکم ایسا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حاکم اونچی چوٹی پر ہے اور اس سے نکلنے والی گندگی ہر جگہ پھیل جاتی ہے، عام لوگوں کے برخلاف، اس کی گندگی میں پوری چوٹی غرق ہوجاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب اللعالمین نحمدہ و نستعینہ ونؤمن ونتوکل علیہ و نستغفرہ و نصلی و نسلم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ، حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ، بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ، سیدنا و نبینا، ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین المعصومین المطھرین الہداۃ المہدین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و صل علی ائمۃ و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین عن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ قال حسین منی وانا من حسین علیہ و علی آلہ السلام انہ قال ان الحسین مصباح الھدی و سفینۃ النجاۃ

میں نماز پڑھنے والے تمام بھائیوں اور بہنوں اور خود اپنے آپ کو خوف خدا، پرہیز گاری، گناہوں سے اجتناب، اور خالق کائنات (جلت عظمتہ) کی خوشنودی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ یہ اس دن کے لیے جب لاینفع مال و لابنون روح و ہدف زندگی ہے اور اسی طرح دنیوی زندگی میں بھی سعادت و خوش نصیبی کا باعث ہے۔
آج عاشورا کی مناسبت سے میں انقلاب امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ہماری پوری زندگی یاد امام حسین علیہ السلام سے سرشار ہے۔ خدا کا شکر ہے۔ آپ کے انقلاب کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس بارے میں انسان جتنا سوچتا ہے، فکر، بحث، تحقیق اور مطالعے کا میدان اتنا ہی وسیع نظر آتا ہے۔ اب بھی اس عظیم، بے نظیر اور حیرت انگیز واقعے کے بارے میں بہت کچھ باقی ہے جس کے بارے میں ہمیں غور کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے۔
اگر غور سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید کہا جاسکتا ہے کہ ان چند مہینوں میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے، جب آپ مدینے سے نکلے، مکے آئے، کربلا پہنچے اور جام شہادت نوش فرمایا، سو سے زائد اہم درس گنوائے جاسکتے ہیں۔ میں نے ہزاروں درس نہیں کہنا چاہا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہزاروں درس ہیں۔ آپ کا ہر اشارہ ایک درس ہوسکتا ہے لیکن یہ جو میں کہتا ہوں کہ سو سے زائد درس، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان کاموں پرغور کریں تو سو عناوین اور سو ابواب تک رسائی ہوسکتی ہے جن میں سے ہر ایک، ایک پوری قوم، ایک تاریخ اور ایک ملک کے لیے اپنی تربیت، معاشرے کے امور چلانے اور تقرب خدا کے حصول کے لیے، ایک درس ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام، ہماری جانیں، آپ پر، آپ کے نام پر اور آپ کے ذکر پر فدا ہوجائیں، مقدسین عالم کے درمیان خورشید کی طرح تابناک ہیں۔ انبیاء، اولیاء، ائمہ، شہداء اور صالحین پر نظر ڈالیں، اگر وہ چاند اور ستاروں کی طرح ہیں تو امام حسین خورشید کی طرح درخشاں ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے جن سو سے زائد دروس کی جانب میں نے اشارہ کیا وہ تو اپنی جگہ ہیں ہی ان کے قیام اور انقلاب میں ایک بنیادی اور اہم درس ہے جسے میں آج آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ وہ سب حاشیے ہیں، یہ متن ہے۔ آپ نے کیوں قیام فرمایا؟ یہ درس ہے۔
امام حسین علیہ السلام سے لوگ کہتے تھے کہ آپ مدینے اور مکے میں محترم ہیں، یمن میں اتنے شیعہ ہیں، ايک گوشے میں چلے جائیے، یزید سے کوئی مطلب نہ رکھیے۔ یزید کو بھی آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ آپ کے اتنے مرید، اتنے شیعہ، ہیں (ان کے درمیان) رہیے، عبادت کیجیے اور تبلیغ کیجیے۔ امام حسین نے قیام کیوں کیا؟ معاملہ کیا ہے؟
یہ بنیادی سوال ہے اور یہی اصل درس ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بات کسی نے نہیں کہی ہے۔ کیوں نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس میدان میں کافی کام ہوا ہے، بہت کاوشیں انجام پائی ہیں اور بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اس وقت جو بات میں یہاں عرض کرنے جا رہا ہوں، خود میری نظر میں، ایک نیا نقطۂ نگاہ اور نتیجہ ہے۔
لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام، یزید کی فاسد و فاسق حکومت کو ختم کرکے خو ایک حکومت تشکیل دینا چاہتے تھے۔ یہ حضرت سید الشہدا کے قیام کا مقصد تھا۔ یہ آدھا سچ ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ غلط ہے۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے حکومت قائم کرنے کے لیے قیام فرمایا، اس طرح کہ اگر انسان نے دیکھا کہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا تو کہے کہ نہیں ہو پایا، واپس ہوجائیں، تو یہ غلط ہے۔
جی ہاں! جو حکومت قائم کرنے کے لیے اٹھتا ہے، وہ وہاں تک آگے بڑھتا ہے کہ دیکھے کہ یہ کام ممکن ہے یا نہیں۔ جیسے ہی وہ دیکھے کہ اس کام کے ہونے کا امکان، اور عقلی احتمال نہیں پایا جاتا، تو اس کا فریضہ ہے کہ واپس ہوجائے۔ اگر ہدف حکومت کی تشکیل ہے، تو وہاں تک انسان کے لیے آگے بڑھنا جائز ہے، جہاں تک جایا جاسکتا ہے۔ جہاں آگے بڑھنا ممکن نہ ہو، وہاں سے واپسی ضروری ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ حضرت کے اٹھنے کا ہدف برحق علوی حکومت کا قیام تھا، اگر اس کی مراد یہ ہے تو، یہ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ امام حسین علیہ السلام کی مجموعی تحریک اس کی نشاندہی نہیں کرتی۔
اس کے مقابلے میں کہا جاتا ہے، نہیں جناب حکومت کیا ہے؛ حضرت کو معلوم تھا کہ حکومت تشکیل نہیں دے سکتے، بلکہ آپ بنیادی طور اس لیے آئے تھے کہ قتل کردیئے جائیں اور شہید ہوجائیں۔ یہ بات بھی ایک عرصے تک بہت زیادہ زبانوں پر رہی۔ بعض حضرات بہت ہی خوبصورت شاعرانہ انداز میں بھی اس کو بیان کرتے تھے۔ حتی میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے بعض بزرگ علماء نے بھی یہ فرمایا ہے۔ یہ بات کہ حضرت نے شہید ہونے کے لیے قیام فرمایا تھا، نئی نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ چونکہ زندہ رہ کے کچھ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے چلیں شہید ہوکے کچھ کرجائیں۔
یہ بات بھی اسلامی اسناد و مآخذ میں نہیں ہے کہ جاکے خود کو ہلاکت میں ڈال دو۔ ہمارے یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ شرع مقدس اور روایات وآیات قرآنی میں جس شہادت کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اس مقدس ہدف کو، جو واجب اور اولی ہے، حاصل کرنے کی کوشش کرے اور حتی اس راہ میں قتل بھی ہوجائے، یہ صحیح اسلامی شہادت ہے لیکن یہ کہ انسان اس لیے اٹھے کہ میں جاکے قتل ہوجاؤں یا شاعرانہ الفاظ میں میرا خون ظالم کے پیروں پر لرزہ طاری کردے اور اس کو گرادے یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جو اس عظیم واقعے سے تعلق رکھتی ہوں۔ اس میں بھی حقیقت کا ایک حصہ ہے، لیکن حضرت کا ہدف یہ نہیں ہے۔
بنابریں مختصر یہ کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام حسین نے تشکیل حکومت کے لیے قیام فرمایا تھا اور آپ کا ہدف قیام حکومت تھا، اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت نے شہید ہونے کے لیے قیام فرمایا تھا بلکہ (بات) کچھ اور ہے، جس کو میں پہلے خطبے میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا کہ آج میری گفتگو کا بڑا حصہ اسی موضوع پر مشتمل ہوگا، ان شاء اللہ
مجھے ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہدف حکومت کی تشکیل تھا یا ہدف شہادت تھا انہوں نے ہدف اور نتیجے کو خلط ملط کردیا ہے۔ جی نہیں، ہدف یہ نہیں تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا ہدف کچھ اور تھا۔ اس ہدف کا لازمہ وہ اقدام تھا جس کا دو میں سے ایک نتیجہ ہو سکتا تھا۔ حکومت یا شہادت اور حضرت دونوں کے لیے تیار تھے۔ آپ حکومت کی تشکیل کے لیے بھی تیار تھے اور اس کے لیے ضروری تمہیدیں بھی کر رہے تھے اور شہادت کے لیے بھی تیار تھے اور اس کے بھی ضروری اقدامات کررہے تھے۔ اس کے لیے بھی تیار تھے اور اس کے لیے بھی تیار تھے۔ جو بھی ہوتا، صحیح ہوتا۔ دونوں میں سے کسی میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ہدف نہیں تھا بلکہ دونوں نتیجے تھے۔ ہدف کچھ اور تھا۔
ہدف کیا تھا؟ پہلے مختصر الفاظ میں، ایک جملے میں ہدف کو بیان کروں گا اس کے بعد اس کی وضاحت کروں گا۔
اگر امام حسین علیہ السلام کا ہدف بیان کرنا ہے تو یہ کہنا چاہیے کہ آپ کا ہدف واجبات دین میں سے ایک عظیم واجب کو انجام دینا تھا جس کو امام حسین سے پہلے کسی نے بھی حتی خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انجام نہیں دیا تھا۔ نہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس واجب کو انجام دیا تھا، نہ امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے انجام دیا تھا اور نہ ہی امام حسن علیہ السلام نے اس واجب کو انجام دیا تھا۔
یہ وہ واجب تھا کہ جس کی جگہ اسلام کے فکری، اصولی اور عملی نظام کی بنیاد میں بہت اہم ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ واجب بہت اہم اور بنیادی ہے، امام حسین (علیہ السلام) کے زمانے تک اس واجب پر عمل نہیں ہوا تھا۔ کیوں عمل نہیں ہوا تھا؟ یہ میں عرض کروں گا۔ امام حسین (علیہ السلام) کو اس واجب پر عمل کرنا تھا تاکہ پوری تاریخ کے لیے یہ درس باقی رہے۔ جس طرح کہ پیغمبر نے حکومت تشکیل دی، اور یہ تشکیل حکومت، تاریخ اسلام میں سب کے لیے ایک درس بن گئي۔ یا پیغمبر نے جہاد فی سبیل اللہ کیا اور یہ تاریخ مسلمین اور تاریخ انسانیت میں سب کے لیے ہمیشہ باقی رہنے والا ایک درس بن گیا۔ اس واجب پر بھی امام حسین( علیہ السلام) کے ذریعے عمل ہونا تھا تاکہ مسلمانوں کے لیے اور پوری تاریخ کے لیے درس بن جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کو یہ کام کیوں کرنا تھا؟ اس لیے کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں اس کی انجام دہی کے لیے حالات سازگار ہوئے تھے۔ اگر یہ حالات امام حسین ( علیہ السلام) کے زمانے میں فراہم نہ ہوتے اور مثال کے طور پر امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں فراہم ہوتے تو یہ کام امام علی نقی علیہ السلام کرتے اور تاریخ اسلام کا یہ عظیم واقعہ اور ذبح عظیم امام علی نقی علیہ الصلاۃ والسلام پیش کرتے۔ اگر امام حسن مجتبی (علیہ السلام) یا امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے زمانے میں حالات فراہم ہوتے تو یہ ہستیاں یہ کام انجام دیتیں۔ یہ حالات امام حسین (علیہ السلام) سے پہلے کے زمانے میں فراہم نہیں ہوئے اور آپ کے بعد دور غیبت شروع ہونے تک ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں فراہم نہیں ہوئے۔
بنابریں، ہدف اس واجب کو انجام دینا تھا جس کی میں وضاحت کروں گا کہ یہ واجب کیا ہے؟ فطری طور پر اس واجب کی انجام دہی کو دو میں سے ایک بات پر منتج ہونا تھا۔ ایک یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں اقتدار اور حکومت میں پہنچ جاتے؛ تو بہت اچھا تھا، امام حسین (علیہ السلام) اس کے لیے تیار تھے۔ اگر حضرت اقتدار میں پہنچ جاتے تو بہت استحکام کے ساتھ حکومت کرتے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امیر المومنین (علیہ السلام) کے زمانے کی طرح معاشرے کے امور کو چلاتے۔ دوسرا امکان یہ تھا کہ اس واجب کی انجام دہی، حکومت میں پہنچنے پر منتج نہ ہو بلکہ اس کا نتیجہ شہادت ہو۔ امام حسین (علیہ السلام) اس کے لیے بھی تیار تھے۔
خداوند عالم نے امام حسین (علیہ السلام) اور دیگر ائمہ کو اس طرح خلق فرمایا ہے کہ یہ ہستیاں اس شہادت کا بار سنگین بھی، جو اس امر کے لیے پیش آ سکتی تھی، تحمل کرنے پر قادر تھیں اور انہوں نے تحمل کیا۔ البتہ داستان مصائب کربلا، دوسری عظیم داستان ہے۔ اب اس معاملے کی تھوڑی سی وضاحت پیش کرتا ہوں۔
بہنو اور بھائیو! ہر پیغمبر جب آتا ہے تو کچھ احکام لاتا ہے۔ یہ احکام جو پیغمبر لائے، ان میں سے بعض انفرادی اور اس لیے ہیں کہ انسان اپنی اصلاح کرے اور بعض اجتماعی اور اس لیے ہیں کہ انسان دنیا کو ترقی دے، دنیا کو چلائے اور انسانوں کی جماعتیں تشکیل دے۔ احکام کا ایک مجموعہ وہ ہے جس کو اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔
خیر، اسلام پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مقدس پر نازل ہوا۔ آپ نماز لائے، روزہ لائے، زکات لائے، انفاق کے احکام لائے، حج لائے، خاندان کے احکام لائے، انفرادی رابطوں کے احکام لائے، جہاد فی سبیل اللہ لائے، تشکیل حکومت کے احکام لائے، اسلامی اقتصاد لائے، حاکم اور عوام کے روابط اور حکومت کے تئیں عوام کے فرائض لائے۔ اسلام نے بشریت کو یہ تمام احکام دیئے۔ سب کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا۔
ما من شئی یقربکم من الجنۃ ویباعکم من النار الا وقد نھیتکم عنہ و امرتکم بہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تمام چیزوں کو جو انسان کو انسانی معاشرے کو سعادت تک پہنچا سکتی ہیں، بیان فرمایا۔ نہ صرف بیان فرمایا بلکہ ان پر عمل کیا اور ان کا نفاذ بھی کیا۔ پیغمبر کے زمانے میں اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ تشکیل پایا، اسلام کا اقتصادی نظام نافذ ہوا، جہاد اسلامی پر عمل ہوا اور زکات اسلامی لی گئی، ملک اور نظام اسلامی قائم ہوگیا۔ اس نظام کو چلانے والے اور اس راستے پر اس گاڑی کو چلانے والے، نبی اکرم اور وہ ہستیاں ہیں جو آپ کی جانشین ہیں۔
راستہ واضح اور معین ہے۔ اسلامی معاشرے اور اسلامی معاشرے کے افراد کو اس راستے پر اس سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ اگر یہ کام انجام پایا تو انسان کمال تک پہنچے گا۔ انسان، صالح اور فرشتوں جیسے ہو جائیں گے۔ لوگوں کے درمیان سے ظلم ختم ہوجائے گا۔ برائی، بدعنوانی، اختلاف، غربت، اور جہالت ختم ہو جا‏ئے گی۔ انسان مکمل خوش بختی حاصل کرے گا اور خدا کا بندۂ کامل ہوجائے گا۔
اسلام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے یہ نظام لایا اور اس زمانے کے معاشرے میں اس کو نا‌فذ کیا۔ کہاں؟ اس سرزمین میں جس کا نام مدینہ تھا اور اس کے بعد مکے اور کچھ دیگر شہروں میں اس کو توسیع دی گئ۔
وہ سوال جو باقی رہتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ گاڑی جس کو پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس راستے پر چلایا، اگر کوئی ہاتھ یا حادثہ اس کو اس راستے سے ہٹا دے تو فریضہ کیا ہے؟ اگر اسلامی معاشرہ منحرف ہوجائے، اگر یہ انحراف اس حد تک بڑھ جائے کہ پورے اسلام اور اسلامی تعلیمات میں انحراف کا خوف ہو تو فریضہ کیا ہے؟
انحراف کی دو قسمیں ہیں۔ کبھی لوگ برے ہوجاتے ہیں، بہت بار ایسا ہوا ہے، تاہم اسلامی احکام ختم نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ برے ہوتے ہیں اور حکومتیں بھی بری ہوجاتی ہیں۔ علماء اور خطبائے دین بھی برے ہوجاتے ہیں، برے لوگ صحیح دین بیان نہیں کرسکتے۔ قرآن اور حقائق میں تحریف کی جاتی ہے۔ اچھے کو برا اور برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو راستہ، اسلام نے بتایا ہے، اس کو ایک سو اسی ڈگری بدل دیتے ہیں۔ اگر اسلامی نظام اور معاشرہ ایسی صورتحال سے دوچار ہو تو فریضہ کیا ہے؟
البتہ پیغمبر اسلام نے بتا دیا تھا کہ فریضہ کیا ہے۔ قرآن نے بھی فرمایا ہے۔من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ ... اس بارے میں آیات اور روایات بہت ہیں۔ ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو میں اس وقت امام حسین (علیہ السلام) کے حوالے سے یہاں آپ کے سامنے نقل کرتا ہوں۔
امام حسین علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ روایت لوگوں کو سنائی ہے۔ پیغمبر نے فرمایا تھا؛ لیکن کیا پیغمبر اس حکم الہی پر عمل کرسکتے تھے؟ نہیں، کیونکہ یہ حکم الہی اسی وقت قابل عمل ہے جب معاشرہ منحرف ہوچکا ہو۔ اگر معاشرہ منحرف ہوگیا تو وہ کام کرنا چاہیے جس کا حکم خدا نے یہاں دیا ہے۔ جن معاشروں میں انحراف اس حد تک آجائے کہ خود اسلام میں انحراف کا خطرہ پیدا ہوجائے تو خدا نے فریضہ معین فرمایا ہے۔ خدا انسان کو کسی بھی معاملے میں بغیر فریضے کے نہیں چھوڑتا۔
پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فریضہ بیان فرمایا ہے۔ قرآن اور حدیث نے کہا ہے لیکن پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تواس فریضے پر عمل نہیں کرسکتے تھے۔ کیوں عمل نہیں کرسکتے تھے؟ کیونکہ اس فریضے پر اس وقت عمل کیا جاسکتا ہے جب معاشرہ منحرف ہوچکا ہو۔ معاشرہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امیر المومنین (علیہ السلام) کے زمانے میں اس شکل میں منحرف نہیں ہوا تھا۔ امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے میں، معاویہ برسر حکومت تھا، اگرچہ اس انحراف کی بہت سی علامتیں ظاہر ہوگئی تھیں، لیکن ابھی اس حد کو نہیں پہنچا تھا کہ اسلام کے پوری طرح بدل جانے کا خوف ہوتا۔
شاید کہا جاسکتا ہے کہ ایک وقت ایسی صورتحال بھی پیش آئی، لیکن اس وقت اس کام کو انجام دینے کا موقع نہیں تھا۔ حالات مناسب نہیں تھے۔ یہ حکم جو اسلامی احکام کے مجموعے کا حصہ ہے، اس کی اہمیت، خود حکومت سے کم نہیں ہے کیونکہ حکومت یعنی معاشرے کو چلانا۔ اگر معاشرہ تدریجی طور پر راستے سے ہٹ جائے، خراب ہوجائے، برا ہوجائے اور حکم خدا تبدیل ہوجائے؛ اگر ہم حالت بدلنے اور تجدید حیات کے اس حکم یا آج کے الفاظ میں انقلاب کے حکم پر عمل کرنے پر قادر نہ ہوں تو یہ حکومت کس کام کی ہوگی؟
لہذا منحرف معاشرے کو اس کے اصلی راستے پر واپس لانے کے حکم کی اہمیت، خود حکومت کے حکم سے کم نہیں ہے۔ شاید کہا جا سکتا ہے کہ اس کی اہمیت کفار کے ساتھ جہاد سے بھی زیادہ ہے۔ شاید کہا جا سکتا ہے کہ اس کی اہمیت، اسلامی معاشرے میں معمولی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بھی زیادہ ہے۔ حتی شاید کہا جاسکتا ہے کہ اس حکم کی اہمیت عظیم عبادات الہی اور حج سے بھی زیادہ ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس حکم کی حقیقت اسلام کے مردہ ہونے کے قریب ہوجانے یا مردہ ہوجانے اور ختم ہوجانے کے بعد، اس کے زندہ ہونے کی ضامن ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس حکم کو کون انجام دے؟ کس کو یہ فریضہ بجا لانا ہے؟
(جواب ہے) پیغمبر کے جانشینوں میں سے کسی ایک کو، جس کے زمانے میں یہ انحراف وجود میں آئے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ موقع مناسب ہو کیونکہ خداوند عالم اس چیز کو واجب نہیں کرتا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اگر موقع مناسب نہ ہو تو جو کام بھی کریں اس کا کوئی فائدہ اور نتیجہ نہیں ہوتا۔ موقع مناسب ہونا چاہیے۔
البتہ موقع کے مناسب ہونے کے معنی بھی کچھ اور ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم کہیں کہ چونکہ خطرہ ہے، لہذا موقع مناسب نہیں ہے۔ مراد یہ نہیں ہے۔ موقع مناسب ہو یعنی انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے یہ کام کیا تو اس کا نتیجہ نکلے گا۔ یعنی لوگوں تک پیغام پہنچے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ وہ غلطی میں نہیں رہیں گے۔ یہ وہ فریضہ ہے کہ جو ایک فرد کو انجام دینا تھا۔
امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں وہ انحراف بھی آیا اور وہ مناسب موقع بھی فراہم ہوا۔ اس لیے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا۔ کیونکہ انحراف آ گیا تھا۔ اس لیے کہ معاویہ کے بعد ایسا فرد حکومت میں آ گیا ہے کہ جو حتی اسلام کے ظاہری احکام پر بھی عمل نہیں کرتا ہے، شراب پیتا ہے، حرام کام کرتا ہے، جنسی برائیوں اور زیادتیوں کا کھلے عام ارتکاب کرتا ہے۔ قرآن کے خلاف بولتا ہے۔ کھلے عام قرآن کے خلاف اور دین کی رد میں شعر کہتا ہے اور کھلے عام اسلام کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن چونکہ اس کا نام، مسلمانوں کا حاکم ہے، اس لیے اسلام کے نام کو نہیں ہٹانا چاہتا۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا اور اسلام کا ہمدرد نہیں ہے بلکہ اپنے عمل سے اس چمشے کی طرح، جس سے مسلسل گندا پانی بہتا ہے اور باہر نکلتا ہے اور ہر جگہ گندگی پھیلاتا ہے، اس کے وجود سے گندگی باہر نکلتی ہے اور پورے اسلامی معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ فاسد حاکم ایسا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حاکم اونچی چوٹی پر ہے اور اس سے نکلنے والی گندگی ہر جگہ پھیل جاتی ہے، عام لوگوں کے برخلاف، اس کی گندگی میں پوری چوٹی غرق ہوجاتی ہے۔
عام لوگوں میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ ہے۔ جوبالاتر ہے، معاشرے میں جس کی پوزیشن زیادہ ہے، اس کی برائی کا نقصان بھی زیادہ ہے۔ ممکن ہے کہ عام لوگوں کی برائی خود ان کے لیے، اور ان کے اطراف کے لوگوں کے لیے ہو لیکن جو سب سے اوپر ہے وہ اگر فاسد ہوجائے تو اس کی برائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح اگر وہ صالح ہو تو اس کی اچھائی بھی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔ ایسا شخص اپنی اتنی برائیوں کے ساتھ معاویہ کے بعد خلیفۃ المسلمین بن گیا ہے۔ خلیفہ پیغمبر، اس سے بڑا انحراف کیا ہوسکتا ہے؟ حالات بھی فراہم ہیں۔ حالات فراہم ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی خطرہ نہیں ہے؟ کیوں نہیں، خطرہ ہے۔ کیا ممکن ہے کہ جو برسراقتدار ہو وہ ان لوگوں کے لیے جو اس کے مقابلے پر آئیں، خطرہ نہ پیدا کرے؟ اب جنگ ہوگی۔آپ چاہتے ہیں کہ اس کو تخت حکومت سے ہٹا دیں اور وہ بیٹھا دیکھتا رہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی آپ پر وار کرے گا۔ لہذا خطرہ ہے۔
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ موقع مناسب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی فضا ایسی ہے کہ اس زمانے کے اور بعد میں آنے والے، تاریخ کے ہر دور کے لوگوں تک امام حسین علیہ السلام کے پیغام کے پہنچنے کا امکان ہے۔ اگر معاویہ کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام قیام کرنا چاہتے تو آپ کا پیغام دفن ہوجاتا۔ یہ معاویہ کے زمانے میں حکومت کی حالت کی وجہ سے ہے۔ سیاست ایسی تھی کہ لوگ حق بات کی حقانیت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ لہذا آپ معاویہ کے زمانے میں دس سال تک امام تھے، لیکن کچھ نہیں کہا، کوئی کام، کوئی اقدام اور قیام نہ کیا۔ اس لیے کہ اس وقت موقع مناسب نہیں تھا۔
آپ سے پہلے امام حسن علیہ السلام تھے۔ انہوں نے بھی قیام نہ کیا کیونکہ موقع مناسب نہیں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ (اس وقت) امام حسین اور امام حسن اس کام کی توانائی نہیں رکھتے تھے۔ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امام حسین اور امام سجاد علیہما السلام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امام حسین، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ جب آپ نے یہ مجاہدت کی تو آپ کا مرتبہ ان سے بالاتر ہوگیا جنہوں نے یہ مجاہدت نہیں کی ہے لیکن مقام امامت کے لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان میں سے جس کے سامنے بھی یہ حالات ہوتے، وہ یہ کام کرتا اور اسی مرتبے پر پہنچتا۔
اب امام حسین علیہ السلام کے سامنے یہ انحراف ہے۔ اب آپ کو فریضہ انجام دینا ہے۔ موقع بھی مناسب ہے۔ کوئی عذر نہیں ہے۔ لہذا عبداللہ بن جعفر، محمد بن حنفیہ، اور عبداللہ بن عباس، یہ عام لوگ نہیں تھے، یہ سب دین شناس تھے، عالم، عارف اور سمجھدار لوگ تھے۔ جب یہ لوگ حضرت سے کہہ رہے تھے کہ مولا خطرہ ہے، نہ جایئے۔ تویہ کہنا چاہتے تھے کہ جب فریضے کے راستے میں خطرہ ہو تو فریضہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ فریضہ ایسا نہیں ہے کہ خطرے کی وجہ سے ختم ہوجائے۔
اس فریضے میں ہمیشہ خطرہ ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی بظاہر اتنی طاقتور حکومت کے مقابلے میں قیام کرے اور اس کو خطرہ درپش نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے؟ اس فریضے میں ہمیشہ خطرہ ہے۔ یہ وہی فریضہ ہے جسے امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) نے انجام دیا۔ امام خمینی سے بھی کہا جاتا تھا کہ جناب آپ شاہ کے مقابلے پر آئے ہیں، خطرہ ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ خطرہ ہے؟ امام خمینی نہیں جانتے تھے کہ پہلوی حکومت کے خفیہ ادارے کے اہلکار، لوگوں کو پکڑ کے لے جاتے ہیں، ماردیتے ہیں اور ایذائيں دیتے ہیں؟ ان کے دوستوں کو قتل کردیتے ہیں اور جلاوطن کردیتے ہیں؟ کیا امام خمینی یہ سب نہیں جانتے تھے؟
جو کام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں انجام پایا، اس کا چھوٹا نمونہ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے زمانے انجام پایا، بس وہاں یہ کام شہادت پر منتج ہوا اور یہاں حکومت پر۔ یہ بھی وہی کام ہے، اس میں فرق نہیں ہے۔ امام حسین (علیہ السلام) کا ہدف اور امام خمینی(رضوان اللہ علیہ) کا ہدف ایک تھا۔ یہ بات امام حسین (علیہ السلام) کی تعلیمات کی بنیاد ہے۔ حسینی تعلیمات، شیعہ تعلیمات کا بڑا حصہ ہیں۔ یہ اہم بنیاد ہے جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ہے۔
بنابریں ہدف اسلامی معاشرے کو اس کے صحیح راستے پر واپس لانا ہے۔ کس زمانے میں؟ اس زمانے میں جب راستہ بدل جائے اور کچھ لوگوں کی خیانت، استبداد، ظلم اور جہالت مسلمانوں کو منحرف کردے اور حالات اور موقع فراہم ہو۔
البتہ تاریخ کے دوران اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی حالات سازگار ہوتے ہیں اور کبھی سازگار نہیں ہوتے۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں حالات سازگار تھے۔ ہمارے زمانے میں بھی حالات فراہم تھے۔ امام خمینی نے وہی کام کیا۔ ہدف ایک تھا لیکن جب انسان اس ہدف کے لیے آگے بڑھتا ہے اوراسلام، اسلامی نظام اور معاشرے کو صحیح مرکز کی طرف واپس لانے کے لیے باطل حکومت اور مرکز کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے توحکومت تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایک صورت ہے۔ ہمارے زمانے میں الحمد للہ ایسا ہی ہوا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قیام، حکومت پر نہیں بلکہ شہادت پر منتج ہوتا ہے۔
تو کیا اس صورت میں واجب نہیں ہے؟ کیوں نہیں؟ شہادت پر منتج ہو تب بھی واجب ہے۔ کیا اس صورت میں کہ قیام شہادت پر منتج ہو تو قیام کا کوئی فائدہ نہیں ہے؟ کیوں نہیں؟ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ قیام اور تحریک دونوں صورتوں میں مفید ہے، چاہے شہادت پر متنج ہو یا حکومت پر۔ البتہ دونوں میں سے ہر ایک کے فائدے کی نوعیت الگ ہے لیکن اسے انجام دینا چاہیے اور قیام کرنا چاہیے۔
یہ وہ کام تھا جو امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا۔ امام حسین وہ ہستی ہیں جنہوں نے پہلی بار اس قیام کا فریضہ انجام دیا۔ آپ سے پہلے یہ فریضہ انجام نہیں پایا تھا کیونکہ آپ سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں ایسا انحراف اور ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے اور اگر بعض انحرافات تھے بھی تو حالات مناسب اور سازگار نہیں تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں دونوں چیزیں موجود تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے تعلق سے یہ اصلی مسئلہ ہے۔
بنابریں اس طرح نتیجہ نکال سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا تا کہ اس عظیم اور اہم واجب کو انجام دیں جو اسلامی معاشرے اور نظام کی بنیاد کی تجدید یا اسلامی معاشرے میں بڑے انحرافات کے مقابلے میں قیام سے عبارت ہے۔ یہ کام قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے انجام پایا بلکہ یہ کام خود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا مصداق ہے۔ البتہ یہ کام کبھی حکومت پر منتج ہوتا ہے، امام حسین اس کے لیے بھی تیار تھے، اور کبھی شہادت پر منتج ہوتا ہے، امام حسین علیہ السلام اس کے لیے بھی تیار تھے۔
ہم کس دلیل سے یہ بات کہہ رہے ہیں؟ یہ نتیجہ ہم نے خود امام حسین علیہ السلام کے ارشادات سے اخذ کیا ہے۔ میں نے حضرت ابا عبداللہ علیہ السلام کے ارشادات سے چند عبارتوں کا انتخاب کیا ہے، البتہ آپ کے وہ ارشادات جو اس بات کو بیان کرتے ہیں اس سے زیادہ ہیں (جو میں نے منتخب کئے ہیں)۔
پہلے مدینہ میں، اس رات جب حاکم مدینہ ولید نے حضرت کو طلب کیا اور کہا کہ معاویہ اس دنیا سے چلا گیا اور آپ کے لیے حکم ہے کہ یزید کی بیعت کریں۔ تو حضرت نے اس کو جواب دیاکہ صبح تک ننظر و تنظرون اینا احق بالبیعۃ والخلافۃ سوچوں گا اور غور کروں گا اور دیکھوں گا کہ مجھے خلیفہ ہونا چاہیے یا یزید کو۔ مروان نے دوسرے دن حضرت کو مدینے کی گلیوں میں دیکھا اور کہا یا ابا عبداللہ، آپ خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ خلیفہ کی بیعت کیوں نہیں کرلیتے؟ آیئے بیعت کیجیے، خود کو ہلاکت میں نہ ڈالیے۔ خود کو مشکل میں نہ ڈالیے۔
حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا انا للہ وانا الیہ راجعون وعلی الاسلام، اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید جب یزید جیسا حاکم برسراقتدار آجائے اور اسلام یزید جیسے حاکم کی مصیبت میں گرفتار ہوجا‏ئے تو اسلام کو خدا حافظ۔ مسئلہ صرف یزید کا نہیں ہے۔ جو بھی یزید جیسا ہو۔ حضرت فرمانا چاہتے ہیں کہ اب تک جو بھی تھا قابل برداشت تھا لیکن اب خود دین اور اسلامی نظام کا مسئلہ ہے جو یزید جیسے فرد کی حکومت سے ختم ہوجائے گا۔ آپ بتانا چاہتے ہیں کہ انحراف کا خطرہ بہت بڑا ہے۔ خطرہ خود اسلام کے لیے ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے مدینے سے نکلتے وقت بھی اور مکے سے نکلتے وقت بھی محمد بن حنفیہ سے کچھ باتیں کی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وصیت اس وقت سے تعلق رکھتی ہے جب آپ مکے سے نکلنا چاہتے تھے۔ ذی الحجہ کے مہینے میں محمد بن حنفیہ مکہ آئے اور حضرت سے گفتگو کی۔ حضرت نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کے عنوان سے کچھ لکھ کے دیا۔ اس میں شہادت، وحدانیت خدا اور دیگر چیزوں کے ذکر کے بعد یہاں تک پہنچتے ہیں کہ وانی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما یعنی کوئی غلطی نہ کرے اور پروپیگنڈا کرنے والے یہ پروپیگنڈا نہ کریں کہ امام حسین علیہ السلام بھی ان لوگوں کی طرح ہیں جو اس گوشے اور اس گوشے میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے خروج کرتے ہیں، خودنمائی، عیش و عشرت، ظلم اور برائیوں کے لیے جنگ اور مجاہدت کے میدان میں آئے ہیں۔ ہمارا کام اس طرح کا نہیں ہے۔وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی اس کام کا عنوان یہی اصلاح ہے۔ میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وہی واجب ہے جس پر امام حسین علیہ السلام سے پہلے عمل نہیں ہواہے۔ یہ اصلاح خروج کے ذریعے ہے۔ خروج یعنی قیام۔ حضرت نے اس وصیت میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ ہم قیام کرنا چاہتے ہیں اور ہمارا یہ قیام اصلاح کے لیے ہے۔ اس لیے نہیں ہے کہ لازمی طور پر حکومت تک پہنچ جاؤں، اور نہ ہی اس لیے ہے کہ لازمی طور پر جا کے شہید ہوجاؤں۔ نہیں، بلکہ ہم اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ اصلاح معمولی کام نہیں ہے۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان حکومت تک پہنچ جاتا ہے اور خود زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کبھی یہ کام نہیں کر پاتا اور شہید ہوجاتا ہے لیکن دونوں قیام اصلاح کے لیے ہے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ارید ان آمر بالمعروف وانھی عن المنکر و اسیر بسیرۃ جدی یہ اصلاح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مصداق ہے۔ یہ ایک دوسرا بیان ہے۔
حضرت نے مکہ میں دو خط لکھے ہیں۔ ایک بصرے کے سرداروں کے لیے اور دوسرا کوفے کے سرداروں کے لیے۔ بصرے کے سرداروں کے نام خط میں حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ وقد بعث رسولی الیکم بھذا الکتاب و انا ادعوکم الی کتاب اللہ و سنۃ قد امیتت و البدعۃ قد احییت فان تسمعوا قولی اھدیکم الی سبیل الرشاد میں بدعت کو ختم کرنا اور سنت کو زندہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ (انہوں نے) سنت کو مار ڈالا ہے اور بدعت کو زندہ کردیا ہے۔ تم ہماری پیروی کرو، سیدھا راستہ ہمارے ساتھ ہے؛ یعنی میں وہی فریضہ انجام دینا چاہتا ہوں کہ جو اسلام، سنت پیغمبر اور اسلامی نظام کو زندہ کرنے سے عبارت ہے۔
اس کے بعد اہل کوفہ کے نام خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ فلعمری ما الامام الا الحاکم بالکتاب و القائم بالقسط الدائن بدین الحق الحابس نفسہ علی ذلک للہ والسلام امام، پیشوا اور اسلامی معاشرے کا سربراہ وہ نہیں ہوسکتا جو فاسق و فاجر ہو خائن ہو مفسد ہو اور خدا سے دور ہو، بلکہ وہ ہو سکتا ہے جو کتاب خدا پر عمل کرتا ہو۔ یعنی معاشرے میں کتاب خدا پر عمل کرے۔ نہ یہ کہ خود صرف ایک گوشے میں نماز پڑھے بلکہ کتاب خدا پر عمل کو زندہ کرے، عدل و انصاف قائم کرے اور حق کو معاشرے کا اصول قرار دے۔
الدائن بدین الحق یعنی حق کو معاشرے کا دستور، قانون اور اصول قراردے اور باطل کو الگ کردے۔ والحابس نفسہ علی ذلک للہ بظاہر اس جملے کے معنی یہ ہیں کہ خود کو ہر حال میں اللہ کے سیدھے راستے پر باقی رکھے اور شیطانی اور مادی کششوں کا اسیر نہ ہو، و السلام۔ بنابریں آپ ہدف کا تعین کردیتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام مکے سے نکلے ہیں اور راستے میں ہر منزل پر مختلف انداز خطبہ ارشاد فرماتے ہیں۔ بیضہ نام کی ایک منزل میں، ایسی حالت میں کہ حر بن یزید ریاحی بھی حضرت کے ساتھ ہیں، آپ چلتے ہیں، وہ بھی حضرت کے ساتھ چلتے ہیں، اس منزل پر پہنچتے ہیں اور قافلہ روکتے ہیں۔ شاید آرام کرنے سے پہلے یا آرام کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد، حضرت کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن کے لشکر کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں۔
یا ایہاالناس، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قال؛ من راٴ سلطانا جائرا مستحلا لحرام اللہ، ناکثا لعھد اللہ، مخالفا لسنۃ رسول اللہ یعمل فی عباد اللہ بالاثم و العدوان ثم لم یغیر بقول ولا فعل کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ یعنی اگر کوئی دیکھے کہ معاشرے پر ایسا حاکم بر سرحکومت ہے جو ظلم کرتا ہے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام قرار دیتا ہے، حکم الہی کو کنارے لگاتا ہے، اس پر عمل نہیں کرتا ہے اور دوسروں کو عمل کے لیے نہیں کہتا یعنی لوگوں کے درمیان گناہ، دشمنی اور ظلم کے ساتھ عمل کرتا ہے، حاکم ظالم اور جائر کا مصداق کامل یزید تھا، ولم یغیر بقول و لابفعل اور یہ سب دیکھنے والا شخص اپنے عمل اور زبان سے اس کے خلاف اقدام نہ کرے، تو کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ خداوند اس خاموش اور لاتعلق رہنے والے نیز عمل نہ کرنے والے کو بھی اسی انجام سے دوچار کرے گا کہ جس سے اس ظالم کو دوچار کرے گا؛ یعنی وہ اسی کے ساتھ ایک ہی صف میں اور ایک ہی گروہ میں قرار پائے گا۔ یہ پیغمبر نے فرمایا ہے۔ یہ جو ہم نے عرض کیا کہ پیغمبر نے اس کا حکم دیا ہے، یہ اس کا ایک نمونہ ہے۔ بنابریں پیغمبر نے معین فرمادیا تھا کہ اگر اسلامی نظام منحرف ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ امام (علیہ السلام) بھی پیغمبر کے اسی ارشاد کا حوالہ دیتے ہیں۔
تو فریضہ کیا ہے؟ فریضہ یغیر بقول وفعل ہوا۔ اگر انسان ایسے حالات سے دوچار ہو، البتہ ایسے زمانے میں کہ موقع مناسب ہو، توواجب ہے کہ اس عمل کے مقابلے میں قیام اور اقدام کرے۔ نتیجہ جو بھی ہو۔ قتل ہوجائے یا زندہ رہے۔ ظاہری طور پر کامیاب ہو یا نہ ہو۔ اس صورتحال کے مقابلے میں ہر مسلمان کو قیام اور اقدام کرنا چاہیے۔ یہ وہ فریضہ ہے جو پیغمبر نے معین کیا ہے۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا وانی احق بہذا میں تمام مسلمانوں سے زیادہ مستحق ہوں کہ یہ قیام اور اقدام کروں؛ کیونکہ میں فرزند رسول ہوں۔ اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اقدام ہر مسلمان پر واجب کیا ہے، تو ظاہر ہے کہ فرزند رسول اور وارث علم و حکمت پیغمبر، حسین بن علی علیہ السلام کے لیے دوسروں سے زیادہ مناسب اور واجب ہے کہ اقدام کرے اور میں نے اس لیے اقدام کیا ہے۔ اس طرح امام علیہ السلام اپنے قیام کی وجہ بیان فرماتے ہیں۔
منزل ازید میں جہاں چار افراد حضرت سے ملحق ہوتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کا ایک اور ارشاد ہے۔ حضرت نے یہاں فرمایا کہ اما واللہ لارجو ان یکون خیرا ما اراد اللہ بنا؛ قتلنا او ظفرنا یہ اس کا ثبوت ہے جو میں نے کہا کہ کوئی فر‍ق نہیں پڑتا، کامیابی حاصل ہو یا قتل کردیئے جائيں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فریضہ، فریضہ ہے، انجام پانا چاہیے۔ فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ خداوند عالم نے میرے لیے جو مد نظر رکھا ہے، وہ میرے لیے خیر ہے؛ چاہے قتل کردیا جاؤں یا فتح مل جائے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم اپنا فریضہ ادا کررہے ہیں۔
سرزمین کربلا پر پہنچنے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں فرمایا کہ قد نزل من الامر ما قد ترون ... اس کے بعد فرمایا الا ترون الحق لایعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء ربہ حقا اس خطبے کے آخر تک کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے ایک واجب کے لیے قیام فرمایا۔ تاریخ میں اس واجب کا تعلق ہر مسلمان سے ہے۔ یہ واجب یہ ہے کہ جب بھی یہ دیکھیں کہ اسلامی معاشرے کا نظام بنیادی انحراف سے دوچار ہوگیا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں اسلامی احکام نہ تبدیل ہوجائیں، تو ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہیے۔ البتہ مناسب حالات میں، جب وہ جانتا ہو کہ اس قیام کا اثر ہوگا۔ زندہ رہنا، قتل نہ ہونا، یا تکالیف اور ایذاؤں کا سامنا نہ ہونا، شرائط میں شامل نہیں ہے۔ بنابریں امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور عملا اس واجب کو انجام دیا تاکہ دوسروں کے لیے درس رہے۔
ممکن ہے کہ تاریخ میں مناسب حالات میں کوئی بھی یہ کام کرے۔ البتہ امام حسین علیہ السلام کے بعد دیگر ائمہ میں سے کسی کے بھی زمانے میں ایسے حالات پیش نہیں آئے۔ خود یہ بات بھی تجزیئے کے قابل ہے کہ کیوں پیش نہیں آئے۔ اس لیے کہ دوسرے اہم کام تھے جن کو انجام دینا ضروری تھا اور ایسے حالات اسلامی معاشرے میں حضرت امام زمانہ کے ظاہر رہنے کے آخری زمانے اور غیبت کے آغاز تک پیش نہیں آئے۔ البتہ تاریخ میں، اس قسم کے حالات، اسلامی ملکوں میں زیادہ پیش آتے ہیں۔ آج بھی شاید اسلامی دنیا میں ایسی جگہیں ہوں کہ جہاں یہ حالات ہیں اور وہاں مسلمانوں کو یہ واجب انجام دینا چاہیے۔ اگر انجام دیں تو اپنا فریضہ انجام دیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے اور اس کی بقا کو یقینی بنائیں گے،زیادہ سے ‌زیادہ یہی ہوگا کہ ایک دو لوگوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔
جب اس تبدیلی، اس قیام اور اصلاح کی اس تحریک کا اعادہ ہوگا تو یقینا برائی اور انحراف جڑ سے ختم ہوجائے گا۔ کوئی بھی اس راہ اور اس کام سے واقف نہیں تھا۔ اس لیے کہ زمانۂ پیغمبر میں یہ کام نہیں ہوا تھا۔ شروع کے خلفاء کے زمانے میں بھی یہ کام انجام نہ پایا۔ امیر المومنین علیہ السلام معصوم تھے، آپ نے بھی اس کو انجام نہ دیا۔ لہذا امام حسین علیہ السلام نے عملی طور پر پوری تاریخ اسلام کے لیے ایک عظیم درس پیش کیا اور درحقیقت اسلام کی بقا کو اپنے زمانے میں بھی اور دوسرے ہر زمانے کے لیے بھی یقینی بنا دیا۔
جہاں بھی اس طرح کی برائی اور انحراف ہو، امام حسین علیہ السلام وہاں زندہ ہیں اور اپنے طریقے اور عمل سے فرماتے ہیں کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔فریضہ یہ ہے۔ لہذا امام حسین علیہ السلام اور کربلا کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہیے کیونکہ یاد کربلا یہ عملی درس ہماری آنکھوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔
افسوس کہ دیگر اسلامی ملکوں میں درس عاشورا کو اس طرح نہیں پہچانا جاتا جس طرح پہچاننا چاہیے۔ ہمارے ملک میں پہچان لیا گیا تھا۔ ہمارے ملک کے عوام امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قیام سے واقف تھے۔ ان کے اندر حسینی جذبہ موجود تھا۔ لہذا جب امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ محرم وہ مہینہ ہے کہ جس میں شمشیر پر خون کی فتح ہوتی ہے، تو ہمارے عوام کو تعجب نہ ہوا۔ حقیقت میں یہی ہوا۔ تلوار پر خون کی فتح ہوئی۔
میں نے پہلے کبھی، ایک جلسے میں اجتماع کے سامنے یہی بات بیان کی، البتہ انقلاب سے پہلے، ایک مثال میرے ذہن میں آئی، اسے میں نے اس جلسے میں بیان کیا۔ وہ مثال اس طوطے کی ہے جس کا ذکر مولوی نے مثنوی میں کیا ہے۔
ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا۔ البتہ یہ صرف ایک مثال ہے۔مثالیں حقائق کو سمجھنے کے لیے ہوتی ہیں، اس شخص نے ہندوستان کے سفر کا ارادہ کیا۔ اپنے اہل و عیال سے رخصت ہونے کے بعد اس طوطے کو بھی الوداع کہا۔ اس نے کہا میں ہندوستان جارہا ہوں اور ہندوستان تمہارا ملک ہے۔ طوطے نے کہا ہندوستان میں اس جگہ جانا، جہاں میری قوم اور قبیلے والے اور دوست احباب رہتے ہیں۔ ان سے کہنا کہ تم میں سے ایک میرے گھر میں ہے۔ ان سے میرا حال کہنا اور بتانا کہ وہ میرے گھر میں پنجرے میں ہے۔ میں تم سے کچھ اور نہیں چاہتا۔
وہ سفر پر گیا۔ اس جگہ بھی پہنچا جہاں طوطے نے کہا تھا۔ دیکھا کہ درختوں پر بہت سارے طوطے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں آواز دی اور کہا بہت، اچھے، پیارے اور بولنے والے طوطو! میں تمہارے لیے ایک پیغام لایا ہوں۔ تمھارے قبیلے کا ایک فرد میرے گھر میں ہے۔اس کی حالت بہت اچھی ہے۔ پنجرے میں رہتا ہے لیکن اس کی زندگی بہت اچھی اور کھانا مناسب ہے۔ اس نے تمہیں سلام کہا ہے۔
تاجر نے جیسے ہی یہ کہا اس نے اچانک دیکھا کہ وہ طوطے جو درخت پر بیٹھے ہوئے تھے، سب پر لرزہ طاری ہوا اور پھر وہ زمین پر گرگئے۔ تاجر آگے بڑھا، دیکھا کہ مرگئے ہیں۔ اس کو بہت افسوس ہوا اور اپنے دل میں کہا کہ میں نے یہ بات کیوں بتائی کہ اتنے طوطے، مثلا، پانچ دس، اس بات کو سنتے ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اب تو ہوچکا تھا اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
تاجر واپس آیا گھر پہنچا تو طوطے کے پنجرے کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے تیرا پیغام پہنچایا۔ اس نے پوچھا جواب کیا لائے؟ اس نے کہا تمہارا پیغام سنتے ہی سارے طوطے درخت سے زمین پر گرگئے اور مرگئے۔
جیسے ہی تاجر کی زبان پر یہ بات آئی، اس نے دیکھا کہ پنجرے کے اندر اس کا طوطا بھی پر پھڑپھڑا کے مرگیا۔ اس کو بہت افسوس ہوا۔ پنجرے کا دروازہ کھولا۔ طوطا مرچکا تھا۔اب اس کو رکھا نہیں جاسکتا تھا۔اس نے طوطے کے پیروں کو پکڑا اور اسے چھت پر پھینک دیا۔ تاجر نے جیسے ہی طوطے کو پھینکا، وہ بیچ میں ہی اڑنے لگا اور جا کے دیوار پر بیٹھ گیا۔ اس نے کہا۔ میرے دوست تاجر میں تیرا بہت شکر گزار ہوں۔ تو نے خود ہی میری آزادی کے اسباب فراہم کئے۔ میں مرا نہیں تھا بلکہ مرا ہوا بن گیا تھا۔ یہ وہ پیغام تھا جو ان طوطوں نے میرے لیے بھیجا تھا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں۔ کس زبان سے مجھ سے کہتے کہ میں کیا کروں کہ رہائی پاجاؤں؟ انہوں نے اپنے عمل سے مجھے پیغام دیا کہ مجھے رہائی پانے کے لیے یہ کام کرنا چاہیے اور تونے ان کا پیغام مجھ تک پہنچایا۔ یہ عملی پیغام تھا جو دور سے انہوں نے تیرے ذریعے مجھ تک پہنچایا اور میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
میں نے اس دن، بیس سال سے زائد عرصہ پہلے، ان بھائیوں اور بہنوں سے جو میری بات سن رہے تھے، کہا کہ میرے عزیزو! امام حسین علیہ السلام کس زبان سے کہیں کہ تمہارا فریضہ کیا ہے؟ حالات وہی ہیں، زندگی اسی طرح کی ہے، اور اسلام بھی وہی اسلام ہے۔ امام حسین علیہ السلامنے اپنے عمل سے دکھایا ہے۔ اگر امام علیہ السلام کے ارشادات کا ایک جملہ بھی نقل نہ کیا جاتا تب بھی ہم سمجھ جاتے کہ ہمارا فریضہ کیا ہے۔
وہ قوم جو اسیر ہے، قید ہے، حکام کی برائیوں اور بدعنوانیوں سے دوچار ہے،جس پر دین کے دشمن حکومت کر رہے ہیں اور اس کی زندگی اور قسمت کے مالک بن بیٹھے ہیں، اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا فریضہ کیا ہے۔کیونکہ فرزند رسول، امام معصوم نے دکھا دیا ہے کہ ان حالات مین کیا کرنا چاہیے۔
زبان سے یہ پیغام نہیں پہنچایا جاسکتا تھا۔ اگر آپ خود نہ جاتے اور سیکڑوں زبانیں کہتیں تب بھی ممکن نہیں تھا کہ یہ پیغام تاریخ سے عبور کرکے پہنچ جاتا۔ ممکن نہیں تھا۔ صرف نصیحت کرنے اور زبان سے کہنے سے تاریخ کو عبور نہیں کرسکتا تھا۔ ہزاروں تاویلیں اور بہانے پیش کرتے ہیں۔ عمل ہونا چاہیے اور وہ بھی اتنا عظیم عمل، اتنا سخت عمل، اتنی عظیم اورجاں گداز فداکاری جیسی امام حسین علیہ السلام نے پیش کی۔
درحقیقت عاشورا کا جو منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے،اس کے لیے مناسب ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ واقعہ اب تک کے تمام انسانی حوادث اور المیوں میں منفرد، بے نظیر اور بے مثال ہے۔ جیسا کہ روایات کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے، امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے اور امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہے لا یوم کیومک یا ابا عبداللہ اے حسین آپ کے دن جیسا کوئی دن نہیں ہے، کوئی دن آپ کے عاشورا جیسا نہیں ہے۔ نہ کربلا کی کوئی مثال ہے اور نہ ہی آپ کے واقعے کی کوئی نظیر ہے۔
آج عاشور کا دن ہے اور میں مصائب کے چند جملے پڑھنا چاہتا ہوں۔ کربلا کا ہر واقعہ ذکر مصیبت ہے۔ عاشورا کا ہر واقعہ ایسا ہے کہ سنتے ہی گریہ طاری ہوجاتا ہے۔ ہر واقعہ المناک ہے۔ جو حصہ بھی آپ دیکھیں، جس وقت سے آپ کربلا پہنچے، امام حسین علیہ السلام کی باتیں، آپ کی گفتگو، آپ کے خطبات، جو اشعار آپ نے پڑھے، موت کی جو خبر آپ نے دی، بہن سے آپ کی گفتگو، بھائیوں سے اور عزیزوں سے آپ کی گفتگو یہ سب مصائب ہیں، شب عاشورا، یوم عاشورا، ظہر عاشورا اور عصر عاشورا یہ سب مصائب ہیں۔ میں ان مصائب کا ایک گوشہ پیش کروں گا۔
یہ مصائب اور گریہ کے دن ہیں۔ آپ ہر جگہ مصائب سنتے ہیں۔ میں بھی اس عظیم حسینی تبرک سے مستفید ہونے کے لیے، چند جملے عرض کروں گا اور چونکہ ہماری اس قوم نے راہ خدا میں بہت زیادہ نوجوانوں کی قربانی دی ہے اور شاید اس مجمع میں ہزاروں ایسے افراد ہوں جنہوں نے اپنے جوان (راہ خدا میں) قربان کئے ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ امام حسین علیہ السلام کے جوانوں کا ذکر کروں۔ میں سب سے کہتاہوں کہ متن سے مصائب پڑھیں۔ اس وقت میں ابن طاؤس (علیہ الرحمہ) کی کتاب لہوف سے آپ کے سامنے مصائب پڑھوں گا تاکہ دیکھوں کے متن سے پڑھا جانے والا مصائب کیسا ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ جو کتاب میں لکھا ہے وہی پڑھا جائے بلکہ اس کو سنوارنے اور بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔بعض اوقات اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن میں اس وقت کتاب سے چند جملے پڑھوں گا۔
علی ابن طاؤس چھٹی صدی ہجری کے بڑے شیعہ علماء میں سے ہیں۔ ان کا پورا خاندان اہل علم اور اہل دین ہے۔ یہ سب کے سب یا ان میں سے بہت سے لوگ، اچھے ہیں۔ بالخصوص یہ دو بھائی، علی بن موسی بن جعفر بن طاؤس اور احمد بن موسی بن جعفر بن طاؤس۔ یہ دونوں بھائی بڑے علماء، بڑے مولفین اور بڑے معتمدین میں سے ہیں۔ مشہور کتاب لہوف سید علی بن موسی بن جعفر بن طاؤس نے تالیف کی ہے۔ ہمار خطیبوں کے الفاظ میں یہ کتاب اتنی معتبر، قابل یقین اور اہم ہے کہ اس کی عبارت روایت کی طرح پڑھی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں فلما لم یبق معہ سوی اھل بیتہ یعنی جب امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب شہید ہو چکے اور خاندان والوں کے بجزکوئی نہ بچا تو خرج علی بن الحسین علیہ السلام علی اکبر خیمے سے باہر آئے۔ وکان من اصبح الناس خلقا علی اکبر خوبصورت ترین نوجوان تھے۔ فاستاذن اباہ فی القتال بابا کے پاس آئے اور کہا بابا اب مجھے اجازت دیجئے کہ جا کے جنگ کروں اور آپ پر اپنی جان قربان کروں۔ فاذن لہ تو آپ نے نہیں روکا اور ان کو اجازت دیدی۔
یہ صحابی، بھتیجا اور بھانجا نہیں ہے کہ امام اس سے کہیں کہ نہ جاؤ، رکو، یہ خود آپ کا پارۂ تن اور جگر گوشہ ہے۔ اب جب وہ جانے کی اجازت مانگ رہا ہے تو امام حسین علیہ السلام کو اسے اجازت دینی ہے۔ یہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی ہے۔ یہ حسین کا اسماعیل ہے جو میدان میں جارہا ہے۔ فاذن لہ تو آپ نے انہیں جانے کی اجازت دے دی لیکن جیسے ہی علی اکبر میدان کی طرف روانہ ہوئے، ثم نظر الیہ نظر یائس منہ تو امام حسین علیہ السلام نے حسرت بھری نگاہ علی اکبر پر ڈالی۔ و ارخی علیہ السلام عینہ و بکی، آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور آپ نے گریہ فرمایا ثم قال اللھم اشہد اور کہا خدایا تو گواہ رہنا فقد برز الیہم غلام اشبہ الناس خلقا وخلقا ومنطقا برسولک اب میں نے اُس جوان کو جنگ میں اور مرنے کے لیے بھیجا ہے جو تمام لوگوں میں رسول سے سب سے زیادہ مشابہ تھا؛ صورت میں، سیرت میں، بولنے میں اور ہر لحاظ سے۔
سبحان اللہ، کیسا جوان ہے، جس کی سیرت بھی پیغمبر سے سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جس کا انداز گفتگو بھی پیغمبر سے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ آپ سوچیں کہ امام حسین علیہ السلام اُس نوجوان سے کتنی محبت کرتے ہوں گے۔ اس جوان سے آپ کو عشق ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ آپ کا بیٹا ہے بلکہ اس شباہت کی وجہ سے اور وہ بھی پیغمبر سے ایسی شباہت اور پھر اس حسین کے لیے جو پیغمبر کی آغوش میں پلے ہیں۔ امام اس بیٹے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اس بیٹے کا میدان جنگ میں جانا آپ کے لیے بہت سخت ہے۔سرانجام وہ بیٹا گیا۔
مرحوم ابن طاؤس نقل کرتے ہیں کہ یہ جوان میدان جنگ میں گیا اور بہادری کے ساتھ جنگ کی۔ پھر اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا بابا جان! پیاس مارے ڈالتی ہے۔ اگر پانی ہو تو مجھے دیجیے۔ حضرت نے انہیں وہ جواب دیا۔ واپس میدان میں گئے۔ حضرت نے ان سے جواب میں فرمایا؛ جاؤ جنگ کرو زیادہ دیرنہیں ہوگی کہ تمہارے دادا تمہیں سیراب کریں گے۔ فرجع الی موقف نضال علی اکبر میدان جنگ کی طرف واپس گئے۔
اس کتاب کے مولف ابن طاؤس ہیں۔ معتبر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ رلانے کے لیے اور مجلس کو گرم کرنے کے لیے کچھ کہیں۔ نہیں ان کی تحریر معتبر اور قابل یقین ہے۔ کہتے ہیں وقاتل اعظم القتال علی اکبر نے بڑی عظیم جنگ کی۔ پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ لڑے۔ تھوڑی دیر جنگ کرنے کے بعد فرماہ منقذ بن مرۃ العبدی لعنۃ اللہ دشمن کے ایک فوجی نے حضرت کو تیر مارا فصرعہ اور انہیں گھوڑے سے زمین پر گرا دیا۔
فنادا یا ابتاہ علیک السلام جوان کی آواز آئی، بابا خدا حافظ ھذا جدی یقرئک السلام یہ ہمارے جد پیغمبر ہیں آپ کو سلام کہتے ہیں۔ ویقول عجل القدوم علینا اور کہتے ہیں میرے بیٹے حسین! جلدی میرے پاس آؤ۔ علی اکبر نے یہی ایک جملہ زبان پر جاری کیا۔ ثم شہق شہقۃ فمات اس کے بعد ایک آہ بھری، ایک فریاد بلند کی اور روح نے جسم کو چھوڑ دیا۔
فجاء الحسین علیہ السلام امام حسین علیہ السلام بیٹے کی آواز سنتے ہی میدان میں آئے، جہاں آپ کا جوان زمین پر پڑا تھا۔ حتی وقف علیہ اپنے جوان کے سرہانے پہنچے۔ و وضع خدہ علی خدہ اپنا رخسار علی اکبر کے رخسار پر رکھ دیا۔و قال قتل اللہ قوما قتلوک ما اجراھم علی اللہ حضرت نے اپنا رخسار رخسار علی اکبر پر رکھا اور یہ کلمات کہے، خدا اس قوم کو ہلاک کرے جس نے تمہیں قتل کیا۔
قال الراوی؛ و خرجت زینب بنت علی علیہما السلام راوی کہتا ہے کہ ناگہاں دیکھا کہ زینب خیموں سے باہر آئيں، فنادا یا حبیباہ یابن اخاہ آپ کی آواز بلند ہوئی اے میرے پیارے بھتیجے۔ و جائت فاکبت علیہ آئیں اور خود کو جنازہ علی اکبر پر گرا دیا۔فجاء الحسین علیہ السلام، فاخذھا وردھا الی النساء امام حسین علیہ السلام آئے، بہن کے بازو کو پکڑا، انہیں علی اکبر کے جنازے سے الگ کیا اور مستورات میں لے گئے۔
ثم جعل اھل بیتہ صلوات اللہ وسلامہ علیھم یخرج رجل منھم بعد الرجل اس واقعے کے بعد کے حالات لکھتے ہیں کہ اگر ان عبارتوں کو پڑھیں تو واقعی انسان کا دل پھٹ جاتا ہے۔
ابن طاؤس کی اس عبارت سے میرے ذہن میں ایک بات آئی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ فاکبت علیہ ابن طاؤس کے اس جملے میں جو کچھ ہے یقینا انہوں نے صحیح روایات اور احادیث سے نقل کیا ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ امام حسین علیہ السلام نے خود کو علی اکبر کے جنازے پر گرا دیا۔ امام حسین صرف اپنا رخسار علی اکبر کے رخسار پر رکھتے ہیں لیکن حضرت زینب نےخود کو جنازۂ علی اکبر پر گرا دیا۔
میں نے کسی بھی کتاب اور کسی بھی مقتل میں نہیں دیکھا ہے کہ زینب کبری نے، ثانی زہرا نے اور عقیلۂ بنی ہاشم نے، اپنے دونوں بیٹوں کی شہادت پر، جب آپ کے اپنے دو علی اکبر کربلا میں شہید ہوئے، ایک عون اور دوسرے محمد، جب دونوں بیٹے شہید ہوئے تو آپ کا کوئی ردعمل سامنے آیا ہو۔مثلا چیخ ماری ہو، یا بلند آواز سے گریہ کیا ہو، یا خود کو ان کے جنازوں پر گرا دیا ہو۔ مجھے خیال آیا کہ ہمارے زمانے کے شہیدوں کی مائیں واقعی حضرت زینب کی پیروی اور تا‎سی کرتی ہیں۔ میں نے نہیں دیکھا یا بہت کم ماؤں کو دیکھا ہے، ایک شہید، دو شہید اور تین شہیدوں کی ماں، جب انسان انہیں دیکھتا ہے تو ان کے اندر کمزوری یا عاجزی نظر نہیں آتی۔
یہ مائیں واقعی شیر دل خواتین ہیں۔ ہمارے شہیدوں کی مائیں واقعی حضرت زینب کبری کی پیرو ہیں۔ آپ کے دو نوجوان بیٹے عون اور محمد شہید ہوگئے، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا مگر دو ديگر مقامات پر؛ اپنے بیٹوں کی شہادت پر نہیں؛ خود کو شہید کے جنازے پر گرا دیتی ہیں۔ ایک موقع یہی ہے جب علی اکبر کے سرہانے پہنچتی ہیں تو بے اختیار خود کو جنازۂ علی اکبر پر گرا دیتی ہیں اور دوسری بار عصر عاشورا، خود کو بھائی کے جنازے پر گرادیتی ہیں اور فریاد بلند کرتی ہیں یا رسول اللہ ھذا حسینک مرمل بدماء یا رسول اللہ یہ آپ کا حسین ہے یہ آپ کا پیارا ہے، یہ آپ کا پارۂ تن ہے۔ کیا مصائب برداشت کئے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
دوسرے خطبے سے پہلے دعا کریں، ان اشکبار آنکھوں کے ساتھ اپنے خدا کو پکاریں، ظہر جمعہ ہے، ان شاء اللہ خداوند عالم ہم پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے۔
پالنے والے! تجھے حسین اور زینب علیہما السلام کی قسم دیتے ہیں، ہمیں آپ کے چاہنےوالوں، دوستوں اور آپ کی پیروی کرنے والوں میں قرار دے۔
پالنے والے! ہمیں حسین جیسی زندگی اور حسین جیسی موت عطا کر۔
پالنے والے! امام خمینی کو جنہوں نے ہمیں اس راہ کی ہدایت کی، شہدائے کربلا کے ساتھ اور ہمارے شہداء کوبھی شہدائے کربلا کے ساتھ محشور فرما۔
پالنے والے! جن لوگوں نے راہ خدا میں، راہ انقلاب میں اور راہ اسلام میں، اپنی جان اور زندگی کی قربانی دی، اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے ہمارے جانباز معذور سپاہیوں، فداکاروں، دشمن کی جنگی قید سے آزاد ہو کے آنے والوں اور ان لوگوں پر جو ابھی دشمن کی قید میں ہیں، جتنے بھی ہیں، اپنے خزانۂ غیب سے اپنا فضل و رحمت نازل فرما۔
پالنے والے! اس قوم اور ملت پر اپنی رحمت نازل فرما۔ اس قوم کی تمام پریشانیاں اور مشکلات، اپنے فضل اور حکمت و تدبیر سے دور کردے۔
پالنے والے! اس حسینی اور عاشورا کی شیدائی قوم کو تمام چھوٹے بڑے دشمنوں پر فتح و کامیابی عطا فرما اور اس کے دشمنوں کو ناکام اور مایوس کردے۔
پالنے والے! ہمارے درمیان اسلام کو روز بروز زیادہ مستحکم اور شاداب فرما۔
پالنے والے! جو لوگ اس قوم اور اس ملک کے لیے زحمت اٹھارہے ہیں، ہر لحاظ سے خدمت کررہے ہیں، بالخصوص ملک کے حکام جو خلوص کےساتھ خدمت کررہے ہیں، انہیں بہترین اور وافر اجر عطا فرما۔
پالنے والے! ہمارے مرحومین کی مغرفت فرما، ہماے بیماروں کو شفا عطا فرما، ہمارے والدین، ذوی الحقوق اور ہمارے اساتذہ پر اپنا فضل اور رحمت نازل فرما۔
پالنے والے! جن لوگوں کی کچھ حاجتیں ہیں اور انہوں نے ہم سے دعا کی فرمائش کی ہے اور کہا ہے کہ ہم ان کے لیے خدا سے دعا کریں، ہم تجھ سے عاجزی کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ ان کا حاجتوں کو پورا کر۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، مسلمانوں کو چاہے وہ دنیا میں جہاں بھی ہیں، سربلند کر، انہیں حسینی فریضے کی تعلیم اور اس فریضے کی انجام دہی کی توفیق عنایت فرما۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے امام زمانہ، ہمارے ولی عصر، ارواحنا فداہ، کے قلب مقدس کو ہم سے خوشنود اور راضی فرما، ہمیں آپ کے چاہنے والوں اور انصار میں قرار دے اور ہمیں آپ کی زیارت کی توفیق اور سعادت عنایت فرما۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہے، وہ تمام نیکیاں جو ہم نے تجھ سے طلب کیں اور وہ جو طلب نہیں کیں، وہ سب ہمیں عنایت فرما اور ان تمام برائیوں سے جن سے ہم نے تجھ سے امان مانگی اور ان سب سے بھی جن سے ہم نے تجھ سے امان نہیں مانگی، ہمیں محفوظ رکھ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ ولم یکن لہ کفوا احد۔