قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

برادران و خواہران عزیز! خوش آمدید؛ اپنے اسلامی معاشرے کے ثقافتی امور کے ذمہ داروں کے درمیان خود کو پاکے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ الحمد للہ یہاں فضلاء، فکری شخصیات، تعلیم و تربیت کے ماہرین اور ثقافتی مسائل سے باخبر ہستیاں موجود ہیں۔ جب کسی معاشرے کی اہم ہستیاں اور صاحبان فکر معاشرے کی ترقی و پیشرفت پر متقفق ہوں تو یہ بات امید بخش اور باعث سعادت ہوتی ہے۔
عمومی ثقافت پر کنٹرول ایک نیا اور اہم مسئلہ ہے اور شاید اس سے پہلے صاحبان نظر اور اہل فکر و نظرحضرات نیز ثقافتی امور کے ماہرین نے اس بات پر بہت کم غور کیا ہے اور زیادہ توجہ نہیں دی ہے کہ معاشرے میں عام کلچر اور ثقافت سے متعلق امور میں رہنمائی ایک مخصوص ضروری کام ہے۔
اس سے پہلے ہمارے معاشرے کی عام ثقافت آزاد اور اس بات پر منحصر تھی کہ کون سا مضبوط ہاتھ، کون سی بااثر آواز، کون سا ذوق توانا اور کون سی مہارت عوام کی زندگی پر اثر انداز ہو اور انہیں اس کی طرف یا اس ثقافتی کیفیت اور رنگ کی طرف لے جائے۔ یہ بات کہ آج کچھ لوگ بیٹھ کے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ معاشرے کے عام کلچر کو کس طرح کے رخ پر ڈالا جائے، اس کی رہنمائی کی جائے اور اس کو آلودگیوں سے پاک کیا جائے، نیا مسئلہ ہے جو حالیہ چند برسوں سے رائج ہے۔ شروع میں یہ مسئلہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں پیش کیا گیا اور الحمد للہ کچھ لوگ اکٹھا ہوکے اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔
نئے امور اور نئے موضوعات، پہلے سے طے شدہ پالیسی اور روایتی شکل و صورت نہیں رکھتے، اس لیے ان حضرات کو جن کے ذمے یہ امور ہیں، دونکات کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے؛ ایک یہ کہ ان پر وقت لگائیں اور دوسرے یہ کہ اس سلسلے میں ذوق، جدت عمل، توانائی اور مہارت سے کام لیں۔
بنابریں آپ بہنوں اور بھائیوں سے میری پہلی گزارش یہ ہے کہ اب جبکہ ان امور کی ذمہ داری آپ پر ہے، تو میری درخواست یہ ہے کہ عام کلچر اور ثقافت کے امور میں حتی الامکان، ذہن، فکر، وقت اور جان لگا کے کام کریں۔ جب یہ ہوجائے تو پھر ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کون سے دیگر افراد اور ادارے، معاشرے کی عام ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں؛ جیسے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا ادارہ، اخبارات و جرائد اور وہ ادبی و فکری ہستیاں کہ بعض اوقات جن کی ایک بات معاشر ے میں ایک تحریک کو جنم دیتی ہے۔ آپ کے ساتھ ان کے تعاون کی نوعیت، بعد کا مسئلہ ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ بنابریں پہلے خود آپ منظم ہوں، جب یہ بنیادی کام ہوجائے تو پھر اس کی اساس پر بہت سے کام ہوں گے۔
میری نظر میں عام کلچر اور ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل پر مشتمل ہے جونمایاں، ظاہر اور آنکھوں کے سامنے ہیں اور درحقیقت قوم کے مستقبل میں دخیل ہیں لیکن ان کا اثر دیر میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی یہ امور اور مسائل قوم کے مستقبل کی راہ و روش میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور لباس کا انداز، کیا پہنا جائے، کیسے پہنا جائے، لباس کے کس ماڈل کو اپنایا جائے، یہ سب معاشرے کے عام کلچر اور ثقافت کے ظاہری حصے اور مصداق ہیں۔اسی طرح معاشرے میں معماری کی شکل و صورت اور مکانوں کی نوعیت بھی معاشرے کی ثقافت کا حصہ ہے کیونکہ ہمارے پرانے زمانے کے مکانات میں (جن میں ایک بڑا صحن، صحن کے بیچ میں ایک حوض اور چاروں طرف کمرے ہوتے ہیں، اس کمرے سے دادا جان باہر آتے ہیں، اس سے ماموں، اس سے چچا، خاندان کے تمام افراد، ایک جگہ، ایک دسترخوان پر بیٹھتے ہیں، درحقیقت یہ گھر ہے جو کنبے والوں کو ایک جگہ پر جمع کرتا ہے) رہنے والے گھرانے اور ان کے آداب اور ہوتے ہیں اور اپارٹمنٹ یا فلیٹ دوسری طرح کے گھرانے پیش کرتا ہے۔ حتی دروازوں اور کھڑکیوں کی شکل اور کمروں کا ایک دوسرے سے رابطہ بھی بہرصورت، لوگوں کی فکر، آداب اور افراد کی تربیت پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس لحاظ سے، ہم دیکھتے ہیں کہ خوش قسمتی سے ٹیلی ویژن کے پروگراموں اور گول میز کانفرنسوں وغیرہ میں قدیم ایرانی معماری پر زور دیا جارہا ہے۔ کرداروں میں پتہ نہیں کیا ہے، لیکن بہرحال جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم اور تاریخی قوم، اس سے پہلے کہ یورپی طرز معماری سے متاثر ہو، خود ایک خاص طرز معماری کی مالک ہے۔
یہ عام کلچر اور ثقافت کے مصادیق ہیں جو بہت ہیں اور اس قوم پر ان کے اثرات طویل المیعاد ہیں۔ اس لیے کہ ہر قسم کے لباس، ہر قسم کی راہ و روش، دسترخوان پر بیٹھنے کا ہر انداز، ایک دوسرے سے ملنے پر دو افراد کے درمیان گفتگو کا انداز، اور اس قسم کے دیگر امور افراد معاشرہ کی شخصیت کی تعمیر میں ناقابل انکار اثرات مرتب کرتے ہیں البتہ کوتاہ مدت میں نہیں بلکہ طویل مدت میں۔
عام کلچر کا دوسرا حصہ بھی پہلے حصے کی طرح قوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فوری اور بہت واضح ہوتے ہیں۔ یعنی عام کلچر کے اس حصے سے مربوط امور زیادہ نمایاں نہیں ہوتے لیکن معاشرے میں اس کے مستقبل اور راہ و روش کے تعین میں ان کے اثرات بہت واضح ہوتے ہیں۔انہیں امور میں بلکہ ان کا بڑا حصہ عادات واطوار سے متعلق ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی معاشرے کے افراد، وقت کو اہمیت نہ دیتے ہوں، جب آپ اس معاشرے میں پہنچیں گے تو وقت کو اہمیت نہ دینے کی افراد معاشرہ کی اس عادت کے منفی اثرات آپ اپنے اوپر بھی اور دیگر لوگوں پر بھی دیکھ لیں گے جبکہ خود یہ چیز یعنی وقت کو اہمیت نہ دینا، زیادہ واضح نہیں ہوتی۔
معاشرے میں وقت شناشی اور کام کے تئیں ایمانداری، بہت اہم ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی کو آٹھ بجے کا وقت دیں، تو کیا آٹھ بج کر دس منٹ پر، ساڑھے آٹھ بجے یا دوپہر سے پہلے جانا اور ٹھیک آٹھ بجے پہنچنا، ایک ہے اور ان کا اثر برابر ہے؟ کام کے تئیں ایمانداری بھی عام کلچر کا حصہ ہے اور بہت اچھی چیز ہے۔ کام کے تئیں ایمانداری یعنی افراد معاشرہ اس کام کے تعلق سے جس کو انہوں نے قبول کیا ہے، خود کو جوابدہ سمجھیں، اس کی نسبت ذمہ داری کا احساس کریں، کسی طرح کام نمٹا کے اس سے اپنی جان چھڑانے کی فکر میں نہ رہیں بلکہ ایمانداری سے اس کام کو پورا کریں۔ یہ قوم کی وہ عادات ہیں جن کے اس کی زندگی اور مستقبل میں بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عام ثقافت کے جملہ مصادیق میں سے ایک یہ ہے کہ افراد معاشرہ آرام طلب اور اپنے ذاتی مفادات کی فکر میں زیادہ نہ ہوں بلکہ اپنی قوم اور ملک کے لیے میدان میں آنے اور خطرات مول لینے کے لیے تیار ہوں۔ یعنی ذاتی مفاد کی فکر سے زیادہ قوم کے اجتماعی مفاد کی فکر میں رہیں۔
اجتماعی اور انفرادی عادات سے متعلق عام ثقافت کے دوسرے مصادیق میں یہ ہے کہ افراد معاشرہ صابر ہوں، مہمان نواز ہوں، بڑوں اور ماں باپ کا احترام ان کی عادت میں شامل ہو۔ اس قسم کے مسائل بہت اہم ہیں جو قوم کا مستقبل بدل سکتے ہیں۔
میں جب اسلامی تعلیمات پر غور کرتا ہوں تو مجھ پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ عام باتیں جن کے ذریعے یورپی اقوام اپنی مادی زندگی میں ترقی کرسکی ہیں، یہی اسلامی تعلیمات ہیں کیونکہ جو قوم ماضی میں، جہالت کی تاریکی، پسماندگی اور خرافات میں غرق رہی ہو، جس کے پاس کتاب اور کتب خانے نہ رہے ہوں، جو علم اور معرفت کی ابتدائی باتوں سے بھی واقف نہ رہی ہو، وہ اچانک نصف صدی یا ایک صدی میں، پسماندگی کی دلدل سے باہر آجائے، یہ بات اتفاقی نہیں ہوسکتی لیکن افسوس کہ یورپ کی اس تحریک میں، وہ تحریک شامل ہوگئی جس کا نام انہوں نے غلط طور پر روشن خیالی یا روشنفکری رکھا ہے؛ اس تحریک کا پیغام ان کے افکار، فلسفے اور راہ و روش میں انسان کو بنیاد قراردینا تھا۔ ان کے کام میں عیب یہ تھا۔ ورنہ اگر وہ معنویت اور دینداری کو نہ چھوڑتے تو یقینا آج ان کی زندگی بہت بہتر اور وہاں سے پھوٹنے والی علم کی روشنی سیکڑوں اور ہزاروں گنا زیادہ ہوتی۔
بہرحال انہوں نے یہ حرکت کی اور اس غلطی کے مرتکب ہوئے البتہ اس کے کچھ عوامل بھی تھے۔ بہرکیف، ان کی زندگی میں جو مثبت نکات تھے اور جنہوں نے انہیں پسماندگی اور جہالت کی دلدل سے باہر نکالا، اگر غورکریں، تو ان کی ماضی کی زندگی اور تاریخ میں نمایاں ہیں لیکن افسوس کہ معنویت اور دینداری کو چھوڑنے کے نتیجے میں یہ مثبت نکات آہستہ آہستہ ختم اور مکمل طور پر مٹ گئے۔
وہ مثبت عادات و اطوار، جو کسی قوم کو بے روزگاری، غربت، ذلت اور پسماندگی کی پستیوں سے باہر نکال کے مادی ترقی و پیشرفت کے اوج تک پہنچاتے ہیں، اسلام میں ان پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور جو بھی اسلامی تعلیمات سے رجوع کرے وہ اس کی تصدیق کرے گا۔ درحقیقت، یہی مثبت خصوصیات اور عادات و اطوار جن کی کمی آج ہم خود اپنی قوم میں محسوس کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات پر توجہ نہ دینے کا نتیجہ ہے کیونکہ جب ہمارے ملک میں روشن خیالی کی تحریک شروع ہوئی اور کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ مغرب والوں کو دیکھنا اور ان سے سیکھنا چاہیے، افسوس کہ اسلامی تعلیمات کے تئیں بے توجہی کے باعث، یہ مثبت باتیں نہیں سیکھی گئيں۔ اس بناء پر میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ ایران میں روشن خیالی شروع سے ہی بیمار پیدا ہوئی اور آج بھی روشن خیال حضرات اسی بیماری میں گرفتار ہیں اور اس کے اثرات و نتائج باقی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، انہوں نے اچھی عادات سیکھنے اور ان کی ترویج کے بجائے، ظاہری، کم اہمیت یا مضر باتیں سیکھیں اور ان کی ترویج کی، منجملہ، جنسی آزادی، عورتوں اور مردوں کا آزادی سے ملنا، معنویت کے تئیں بے توجہی، دین کو(زندگی سے) حذف کرنا، علماء کو برا بھلا کہنا، یا لباس کی نوعیت اور شکل، میز کرسی وغیرہ، مجموعی طور پر یہ امور یا بہت کم اہمیت کے تھے، یا بے اہمیت تھے یا حتی مضر تھے۔
البتہ میں نے یہ بات بھی بارہا عرض کی ہے کہ ثقافتوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جب میں ثقافتی یلغار کی بات کرتا ہوں اور اس پر زور دیتا ہوں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی ثقافت کو، باہر سے کسی چیز کو نہیں اپنانا چاہیے۔ افسوس کہ قاجاری دور کے اواخر میں مغربی تمدن پر جو توجہ دی گئی اور منحوس پہلوی دور میں اس توجہ میں شدت آئی، جو چیز واقعی ثقافتی تبادلے اور تکامل کی مصداق تھی، وہ مغرب سے رابطے میں انجام نہیں پائی بلکہ ایک طرح کا ثقافتی تسلط انجام پایا۔
صاحب عقل و ہوش، بعض اوقات کچھ چیزوں کا اپنے اختیار سے انتخاب کرتا ہے اور انہیں قبول کرتا ہے اور کبھی اس کے برعکس، ایک غافل، خواب مستی کے شکار بے ہوش انسان پر زبردستی کوئی چیز مسلط کرتے ہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ یہ دونوں باتیں یکساں اور برابر نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں ثقافتی تسلط انجام دیا گیا یعنی آئے اور صحیح انتخاب کے بغیر عوام کی سوچ اور ثقافت میں کچھ چیزوں کو زبردستی شامل کردیا۔
بنابریں نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ اسلام میں معنویات کی اتنی بنیادیں موجود ہیں لیکن افسوس کہ ان پر توجہ نہیں دی گئی۔ کیونکہ ایک عرصے تک استبدادی حکومتوں اور سلاطین نے اور ان کی پیروی میں، درباری ملاؤں، دین کے ٹھیکے داروں اور(درباروں سے) وابستہ مولویوں نے جوانہیں کے نظریئے کے مطابق بولتے تھے یا انہیں کی طرح عمل کرتے تھے، ہمارے عوام میں اچھے عادات و اطوار کی بنیادوں کو کمزور کیا۔ اگرچہ یہ باقی رہ گئی مقدار بھی (یعنی یہ انقلاب، یہ مسلط کردہ جنگ، مغرب کی دھمکیوں کے مقابلے میں یہ استقامت، دنیوی طاقتوں کے مقابلے میں یہ خودمختاری اور عزت کا احساس بہت اہم ہے) اسی بچی ہوئی اسلامی ثقافت کی برکت ہے جو اس قوم میں باقی رہ گئي۔ خدا کا شکر کہ دشمنان دین کو اتنا موقع نہ ملا کہ وہ اس کو محو، کمزور، نابود اور ختم کردیتے۔ یہی بچی ہوئی مقدار ہے جس نے اتنی عزت، ترقی، عام پیشرفت، میدانوں میں عوام کی موجودگی اور مستبد طاقتوں کے مقابلے میں خودمختاری عطا کی ہے اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی اس کے مزید ثمرات سامنے آئیں گے۔
اگر ہم عادات و اطوار کو اسلامی بناسکے، ثقافت کو اسلامی بناسکے، عوام میں اسلامی عادات و اطوار کو رائج کرسکے اور اپنی قوم میں ان صفات کو زندہ کرسکے، جنہوں نے صدر اسلام میں ایک چھوٹی سی جماعت کو ایک عظیم اور مقتدر ملت میں تبدیل کردیا تھا، تو یہ ہماری عظیم ترین کامیابیاں ہوں گی۔ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ شروع میں انسانوں کے لیے جو ترقی و پیشرفت آئی وہ اسی اسلامی ثقافت کا نتیجہ تھی؛ کہ انہوں نے علم و عمل کا رخ کیا، سعی و کوشش کی، ایجادات کیں، فطرت، انسان، تاریخ اور زندگی کی راہوں کی معرفت حاصل کی اور اچھے اور برادارانہ تعاون کو اپنایا۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ کوئی بھی نظام چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، عوام کی ثقافت اور ان کے طرز فکر کی اصلاح کے بغیر معاشرے میں وجود میں نہیں لاسکتا۔ مثال کے طور پر کمیونسٹوں نے جو سماجی انصاف، عوام کی ثقافت کی اصلاح اور اس کے بغیر کہ وہ اپنے اختیارسے اس کو قبول کرتے، عوام پر مسلط کیا، وہ وہی ناقص، غلط اور معیوب چیز بن گیا جو ان کی تاریخ میں ثبت ہے۔ یعنی انہوں نے سماجی انصاف کے نام پر سب کچھ الٹ پلٹ کے رکھ دیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
اس لحاظ سے کمیونسٹ ممالک بڑے تجربے کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر ان کے بڑے اور آسودہ طبقات جو اپنے خیال خام کے تحت، حکومتی اور سرکاری کمیونزم وجود میں لاکے سماجی انصاف قائم کرنا چاہتے تھے لیکن سماجی انصاف کے بجائے، ایک نئی سلطنت، اور بدکار، فاسد، ظالم اور شقی القلب اسٹیلن پیدا کیا۔ جو سماجی انصاف صحیح ثقافت اور اخلاق سے عاری ہو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔
سماجی انصاف جو ایک خالص سماجی امر، اور حکومت، سیاست اور معاشرے میں طرز حکومت سے مربوط ہے، معاشرے کے ایک ایک فرد کے ذہن میں صحیح ثقافت کے بغیر قابل حصول نہیں ہے۔ اصولی طور پر تمام میدانوں میں تمام کامیابیاں ایسی ہی ہیں۔ اب یہ آپ ہیں اور ایرانی معاشرہ ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی ثقافت اور وہ چیز جو اس اسلامی معاشرے کے پیکر سے الگ کردی گئی ہے، اس کو واپس دلائیں؛ واستصلح بقدرتک ما فسد منی یہ (جملہ) جو دعائے مکارم الاخلاق میں آیا ہے، اس کا مصداق یہی ہے۔ آپ ہماری زندگی کے ان حصوں کی جو مظالم، استبداد، انحرافات، کج روی، کج فہمی اور بیرونی مداخلتوں وغیرہ کے نتیجے میں تباہ اور خراب ہوگئے ہیں، اصلاح کرنا چاہتے ہیں، یہ بہت بڑا اور عظیم کام ہے۔ یہ اتنا عظیم کام ہے کہ اگر وزارت ارشاد (اسلامی ثقافت و تعلیمات کی وزارت) عام ثقافت کی اصلاح کے علاوہ اور کوئی کام نہ کرے تو بھی میری نظر میں کافی ہے اور یہ معمولی کام نہیں ہے۔ الحمد للہ آپ حضرات کی ہمت بلند ہے، آپ یہ کام کریں گے اور اسی کے ساتھ سیکڑوں دوسرے کام بھی آپ کے سامنے ہیں، ان شاء اللہ ان سب کو انجام دیں گے۔
عام ثقافت کی اصلاح، تمام دیگر کاموں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ کام دیگر کاموں کا محور ہے۔ عام ثقافت کی اصلاح کے لیے کتاب شائع ہونی چاہیے۔ عام ثقافت کی اصلاح کے لیے فلم بنانی چاہیے۔ عام ثقافت کی اصلاح کے لیے ہنر اور فن سے کام لینا چاہیے۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن اپنے تمام پروگراموں میں چاہے وہ فن و ہنر سے متعلق ہوں، خبریں ہوں یا رپورٹیں ہوں، سب میں مستقل طور پر عام ثقافت کی اصلاح کے لیے کام کرے۔ علمائے کرام، خطیبان جمعہ، مبلغین اور علماء کی برادری کے اراکین بھی، وہ چاہے جہاں بھی ہوں، صحیح اسلامی ثقافت کی ترویج کی کوشش کریں۔ کچھ لوگ تجزیہ کریں، کچھ لوگ قرآنی آیات پڑھیں اور کچھ لوگ معصومین (علیہم السلام) کے ارشادات بیان کریں۔ اخبارات و جرائد کی بنیادی پالیسی بھی، عام ثقافت کی اصلاح ہونی چاہیے۔ وہ ادارے بھی جو تبلیغات کے لیے مخصوص ہیں (جیسے ادارہ تبلیغات اسلامی، اس کے ذیلی ادارے اور اس کے ساتھ مل کےکام کرنے والے تمام ادارے) بھی اسی جہت میں کام کریں۔ ان شاء اللہ اگر ایک صحیح، ہم آہنگ اور منظم مہم چلائی جائے تو قوم بھی اس کے لیے تیار ہے اور ان بنیادی سیاسی امور کی خاصیت یہ ہے کہ انسان کی ذاتی فطرت میں شامل ہوجاتے ہیں اور نتیجے میں بعد کی نسلوں میں بھی منتقل ہوتے ہیں اور درحقیقت افراد معاشرہ کے فطری اور ذاتی امور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر کسی زمانے میں عوام کسی وجہ سے ان سے الگ ہو جائیں تو بھی فورا ہی ان کی طرف پلٹ آتے ہیں۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ محترم اجتماع جس میں الحمدللہ لائق، صاحب الرائے، باخبر، دانشمند اور مہارت رکھنے والے حضرات زیادہ ہیں، اس میدان میں کام کرنا چاہے گا تو اس کو ضرور کامیابی ملے گی۔ پہلے ترجیحات کا تعین اور ان دونوں قسم کی عام ثقافتوں بالخصوص دوسری قسم پر توجہ ضروری ہے۔ (البتہ پہلی قسم بھی اہم ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس پر بالکل توجہ نہ دی جائے۔) اس کے بعد یہ معلوم کیا جائے کہ اخلاقی امور میں، جن کا زیادہ حصہ دوسری قسم میں ہے، کیا زیادہ اہم اور بنیاد نیز جڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے بہت سی شاخیں نکلتی ہیں۔ ان کا اور ایسی ہی دیگر باتوں کا تعین کیا جائے، ان پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس میدان میں کام کیا جائے۔ اہل فکر، قلمکار، شاعر اور فنکار حضرات علمائے کرام اور سرکاری ادارے ان کی ترویج کریں۔ پھر ان شاء اللہ اصلاح ہوگی۔
میں ایسی عظیم اقدار اور خصوصیات کی مالک (دوسری) قوم سے بہت کم واقف ہوں۔ یہ تمام انقلابات، تحریکیں اور نیشنلزم جنہوں نے اقوام اور ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ان کی اندر بہت زیادہ تغیرات لائے، یہ سب اسلامی نظام سے کمتر ہیں کیونکہ اسلامی نظام کے تحت جو اقدار مجتمع ہیں، وہ بہت اعلا اور عظیم ہیں اور تمام انفرادی اور اجتماعی مسائل پر محیط ہیں۔ اگر ان شاء اللہ یہ تحریک انجام پاجائے تو یہ قوم اپنے اہداف تک پہنچ جائے گی۔
امید ہے کہ خداوند اس کام کی انجام دہی میں آپ کی مدد کرے گا۔ ان شاء اللہ ملک کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار بھی بجٹ، وسائل اور ضروری سہولیات فراہم کرکے مدد کریں گے تاکہ یہ کام بطریق احسن انجام پاسکے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ